توبہ کے آنسو
عارف بالله حضرت مولانا حکیم اختر صاحب دامت برکاتہم
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
۔1؎ اِنَّ اللہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیۡنَ وَ یُحِبُّ الۡمُتَطَہِّرِیۡنَ
۔2؎ وَقَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: اَلتَّائِبُ حَبِیْبُ اللہِ
۔3؎ وَقَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:اِبْکُوْا فَاِنْ لَّمْ تَبْکُوْا فَتَبَاکَوْا
وَقَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ
۔4؎ لَاَنِیْنُ الْمُذْنِبِیْنَ اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ زَجَلِ الْمُسَبِّحِیْنَ
اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنے کا طریقہ 🌸
معافی مانگ کر اللہ کا پیارا بننے کا طریقہ 🌸
آخرت میں اپنی مغفرت حاصل کرنے کا طریقہ 🌸
اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو اپنا محبوب بنا لیتا ہے، ان سے محبت کرتا ہے اور محبت کرتا رہے گا جب تک وہ توبہ کرتے رہیں گے۔ اور توبہ کے قبول ہونے کی چار شرطیں ہیں
توبہ قبول ہونے کی پہلی شرط
۔۱) گناہ سے الگ ہو جائے۔ گناہ کرتے ہوئے کہنا کہ توبہ توبہ توبہ توبہ، تو ایسی توبہ قبول نہیں، کیوں کہ حالتِ گناہ میں نزولِ غضب ہو رہا ہے اور توبہ نزولِ رحمت کا ذریعہ ہے اور غضب کے ساتھ رحمت جمع نہیں ہو سکتی،کیوں کہ رحمت اور غضب میں تضاد ہے اور اجتماعِ ضدین محال ہے۔ بعض لوگ بڑے بڑے وظیفے پڑھتے ہیں لیکن گناہ نہیں چھوڑتے۔ میرے مرشد شاہ ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم فرماتے ہیں کہ وظیفوں سے رحمت کا ٹرک آگیا اور گناہوں سے غضب کا ٹرک آگیا، اب دونوں ایک دوسرے کو سائیڈ نہیں دیتے، لہٰذا سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی چھوڑ دو۔ حالتِ نافرمانی میں زیادہ دیر تک رہنا اچھا نہیں ہے۔ اللہ کے غضب میں رہنا اچھا نہیں ہے اور عقل کے خلاف بھی ہے، جس سے آدمی کوئی چیز لینا چاہتا ہے پہلے اس کو خوش کرتا ہے،پھر خوش کرکے اس کی عطا و مہربانی و بخشش لیتا ہے۔ پہلے اپنی بخشش مانگ لی، مغفرت مانگ لی، خطاؤں کی معافی مانگ لی۔ جس مالک سے سب اُمیدیں لگائے بیٹھے ہیں اس کو ناراض کرنا کہاں کی عقل مندی ہے،جبکہ
مرکے اسی کے پاس جانا ہے
اور یہ خبر نہیں کہ کب جانا ہے
نہ جانے بلا لے پیا کس گھڑی
تو رہ جائے تکتی کھڑی کی کھڑی
اگر اچانک موت آگئی تو کس حالت میں جاؤ گے؟
اور اگر موت نہ بھی آئے تو خود یہی کیا کم موت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور مولیٰ کی ناراضگی میں جی رہے ہو۔ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی میں جینا کوئی جینا ہے
یہ زندگی نہیں ہے شرمندگی ہے
زندگی تو نام ہے بندگی کا
زندگی پُر بہار ہوتی ہے
جب خدا پر نثار ہوتی ہے
اب سوال یہ ہے کہ گناہ سے تو کسی کو مفر نہیں ہے،کیوں کہ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ تم سب کے سب خطاکار ہو
کُلُّ بَنِیْ اٰدَمَ خَطَّاءٌ
ہر انسان خطا کار ہے، سوائے انبیاء علیہم السلام کے کہ وہ مستثنیٰ ہیں
لیکن خَیْرُ الْخَطَّائِیْنَ التَّوَّابُوْنَ5؎ بہترین خطا کار وہ ہیں جو معافی مانگ لیتے ہیں،توبہ کرلیتے ہیں۔اور اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:اِنَّ اللہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیۡنَ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے اور محبت کرتا رہے گا جب تک کہ وہ توبہ کرتے رہیں گے۔
۔1؎ البقرۃ:222
۔2؎ المغنی عن حمل الاسفار:983/2، کتاب التوبۃ،مکتبۃ طبریۃ، ریاض
۔3؎ سنن ابن ماجۃ: 446، باب الحزن والبکاء، المکتبۃ الرحمانیۃ
۔4؎ کشف الخفاء ومزیل الالباس:298 (805)،فی باب حرف الھمزۃ مع النون / روح المعانی:196/30،القدر(4)، دار احیاء التراث، بیروت
قبولِ توبہ کی دوسری شرط
۔۲) اور توبہ کے قبول ہونے کی دوسری شرط یہ ہے کہ دل میں ندامت بھی ہو یَنْدَمُ عَلَیْھَا گناہ پر ندامت کا ہونا علامتِ قبول ہے۔ ابلیس کو آج تک ندامت نہیں ہے۔ ملّا علی قاری فرماتے ہیں کہ ایک صاحبِ کشف بزرگ نے کہا کہ ابلیس نے جو کہا تھا اَنْظِرْنِیْ کہ مجھے مہلت دیجیے قیامت تک اپنے بندوں کو گمراہ کرنے کے لیے،لیکن اگر یہ ظالم اَنْظِرْنِیْ کے بجائے اُنْظُرْ اِلَیَّ کہہ دیتا کہ ایک نظرِ رحمت مجھ پر ڈال دیجیے تو یہ بخش دیا جاتا۔ تو ندامت علامتِ قبول ہے۔ توبہ کی دوسری شرط ہے کہ نادم ہوجاؤ، شرمندہ ہوجاؤ کہ ہم نے اچھا کام نہیں کیا۔
قبولِ توبہ کی تیسری شرط
۔۳) تیسری شرط ہے
اَنْ یَّعْزِمَ عَزْمًا جَازِمًا اَنْ لَّا یَعُوْدَ اِلَیْھَااَبَدًا7؎
پکا ارادہ کرو کہ اب کبھی اللہ کو ناراض نہیں کرنا ہے اور گناہ نہ کرنے کا عزمِ مصمّم یعنی پکا ارادہ کرو لیکن شکستِ توبہ کا وسوسہ آئے تو وسوسہ مانعِ قبول نہیں بلکہ تکمیلِ قبول کا ذریعہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے کہ میرا بندہ اپنے دست و بازو پر بھروسہ نہیں کر رہا ہے اور کہہ رہا ہے
یہ بازو مرے آزمائے ہوئے ہیں
میرے یہ بازو بارہا خود میرے آزمائے ہوئے ہیں، اپنی آنکھوں سے بارہا میں نے اپنے ارادوں کی شکست کو دیکھا ہے، اصغر گونڈوی رحمۃ اللہ علیہ جگر کے استاذ نے کیا خوب کہا ہے
تیری ہزار برتری تیری ہزار رفعتیں
میری ہر اک شکست میں میرے ہر اک قصور میں
۔5؎ جامع الترمذی :76/2،باب الاستغفار والتوبۃ، ایج ایم سعید
۔6؎ مرقاۃ المفاتیح : 278/8 (4560)، کتاب الطب والرقی، دارالکتب العلمیۃ، بیروت
۔7؎ شرح صحیح مسلم للنووی:25/17،باب التوبۃ قولہ صلی اللہ علیہ وسلم:یایھاالناس توبوا الی اللہ،المطبعۃ المصریۃ بالازھر
قبولِ توبہ کی چوتھی شرط
۔۴) چوتھی شرط یہ ہے کہ کسی کا حق مارا ہو تو اس کا حق ادا کرو، کسی کا مال لیا ہو تو مال واپس کر دو۔ مال واپس کرکے کہو کہ ہم نے جو مال لیا جس سے آپ کو غم پہنچا اور اتنے دن تک ہم نے مال واپس نہیں کیا تو آپ ہم کو معاف کر دیجیے اور اللہ تعالیٰ سے بھی معافی مانگ لو کہ اتنے روز تک آپ کے بندے کی امانت ہم نے رکھی ہوئی تھی اور واپس کرنے میں سستی کاہلی کی اور آپ کے بندے کو تشویش میں رکھا اس لیے آپ سے معافی چاہتے ہیں۔ یہاں بندے کا بھی حق ہے مولیٰ کا بھی حق ہے، اس لیے بندے سے بھی معافی مانگو اور پھر مولیٰ سے بھی معافی مانگو کہ میں نے آپ کے بندوں کو کیوں ستایا؟
جیسے اگر کسی کے بیٹے کو ستایا ہے تو بیٹے ہی سے معافی مانگنا کافی نہیں،ابّا سے بھی معافی مانگو،کیوں کہ بیٹے کو ستانے سے باپ کو جو غم پہنچا ہے تو باپ سے بھی معافی مانگنا ضروری ہے۔ ایسے ہی بندوں کو ستانے والوں کو چاہیے کہ خالی بندوں سے معافی مت مانگو، بندوں کے ربّا سے بھی معافی مانگو۔ ہمارے بزرگوں نے فرمایا کہ بعض بندے اللہ تعالیٰ کے ایسے پیارے ہوتے ہیں کہ وہ معاف بھی کر دیں،لیکن اللہ معاف نہیں کرتا اور انتقام لیتا ہے۔ دیکھ لو حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے اپنے ابا جان حضرت یعقوب علیہ السلام سے کہا کہ ہم کو آپ اللہ تعالیٰ سے معافی دلادیجیے،ہم کو شک ہے کہ قیامت کے دن کہیں ہماری پکڑ نہ ہوجائے، لہٰذا حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کو جنہوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو کنویں میں ڈالا تھا وحیٔ الٰہی سے معافی دلوا دی۔ جبرئیل علیہ السلام نے آکر کہا کہ اے یعقوب(علیہ السلام)! آپ کی فریاد اللہ نے سن لی اور آپ کے ان بیٹوں کو جنہوں نے بھائی یوسف کو کنویں میں ڈالا تھا آج اللہ نے ان کو معاف کر دیا مگر یہ دُعا پڑھیے۔ پہلے جبرئیل علیہ السلام آگے کھڑے ہوئے، ان کے پیچھے یعقوب علیہ السلام،ان کے پیچھے یوسف علیہ السلام، ان کے پیچھے سب بھائی۔ یہ ترتیب تھی۔پھر یہ دُعا پڑھی
یَا رَجَاءَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَاتَقْطَعْ رَجَائَنَا، یَاغِیَاثَ الْمُسْتَغِیْثِیْنَ
یَامُعِیْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِنَّا، یَا مُحِبَّ التَّوَّابِیْنَ تُبْ عَلَیْنَا
اے ایمان والوں کی اُمید ... ہماری اُمید کو منقطع نہ کیجیے،اے فریاد خواہوں کے فریاد رس ... ہماری فریاد سن لے،اے ایمان والوں کی مدد کرنے والے ہماری مدد فرما،اے توبہ کرنے والوں سے محبت کرنے والے ہماری توبہ کو قبول فرما۔
تفسیر روح المعانی میں یہ مضمون موجود ہے۔ دلیل پیش کر دیتا ہوں تاکہ کسی کو شبہ نہ ہو کہ پتا نہیں کہاں سے پیش کر رہے ہیں؟
تو یہ چار شرطیں ہیں۔ ان چار شرطوں کے بعد توبہ قبول ہے اور
اِنَّ اللہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیۡنَ
کی محبوبیت کا نزول ہے یعنی بندہ جب یہ چاروں شرطیں پوری کرے گا اسی وقت محبوب ہو جائے گا
وسوسۂ شکستِ توبہ قبولِ توبہ میں مانع نہیں
یاد رکھو کہ ان شرائط کے بعد وسوسۂ شکستِ توبہ مانع قبولِ توبہ نہیں ہے، ذریعۂ قبولِ توبہ ہے کہ میرا بندہ توبہ تو کر رہا ہے، مگر اپنے اوپر بھروسہ نہیں کر رہا ہے، شکستِ توبہ کا اندیشہ کر رہا ہے، مجھ سے اِیَّاکَ نَعۡبُدُ کا وعدہ تو کر رہا ہے، لیکن وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ بھی لگائے ہوئے ہے کہ میری عبادت آپ کی استعانت کی محتاج ہے اور توبہ بھی عبادت ہے، تو میری توبہ بھی آپ کی استعانت کی محتاج ہے۔ آپ ہی نے سورۂ فاتحہ میں سکھایا اِیَّاکَ نَعۡبُدُ ہم تو آپ ہی کی غلامی کرتے ہیں۔
توبہ کی سلطنت اور نفس و شیطان کی اپوزیشن
مگر ہم شیطان و نفس کے گھیراؤ میں بھی ہیں، ہماری اپوزیشن بھی بہت ہے، اس لیے ہماری توبہ کی سلطنت آپ ہی کے کرم سے قائم رہے گی، ورنہ ڈر ہے کہ اپوزیشن کہیں قبضہ نہ کرلے، جیسے یہاں بھی جو دنیوی سلطنت پا جاتے ہیں وہ کسی بڑی سلطنت سے رابطہ رکھتے ہیں کہ کوئی مصیبت آئے تو مائی باپ بچانا۔ ایسے ہی بندہ جو اللہ والا ہے وہ توبہ تو کرتا ہے
مگر شکستِ توبہ سے بھی ڈرتا ہے اور اللہ کی استعانت کا سہارا لیتا ہے اور کہتا ہے کہ اے اللہ اگرچہ میری سلطنت کی اپوزیشن بڑی ہے،مگر آپ سے بڑھ کر کون بڑا ہو سکتا ہے، لہٰذا میں توبہ کرکے تختِ تقویٰ پر تو بیٹھ گیا اور مجھے شانِ محبوبیت کی سلطنت مل گئی کہ میں آپ کا پیارا بن گیا مگر آپ کا پیار قائم و دائم رہے،اس کے لیے آپ سے فریاد کرتا ہوں کہ وَاِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ
میری اپوزیشن یعنی نفس و شیطان کے مقابلے میں میرا خیال رکھنا، میری مدد کرنا
دیکھو میں آج خاص اصطلاحات استعمال کر رہا ہوں کہ ہر چھوٹی سلطنت بڑی سلطنت سے مدد مانگتی ہے کہ اگر کوئی بُرا وقت آئے اور ہماری اپوزیشن بہت زیادہ سر اُٹھائے تو ہمارا خیال رکھنا۔ اسی طرح بندہ بھی اپنی محبوبیت کی سلطنت، توبہ کی سلطنت، تقویٰ کی سلطنت کی حفاظت کے لیے اللہ تعالیٰ سے فریاد کرتا ہے کہ میرے خلاف دو دو اپوزیشن لگے ہیں یعنی نفس اور شیطان، لہٰذا آپ بُرے وقت میں میرا خیال رکھنا، کیوں کہ آپ کی طاقت بہت بڑی طاقت ہے حتیٰ کہ میری اپوزیشن کے کان یعنی نفس و شیطان کے کان آپ کے ہاتھ میں ہیں۔
تو آیت اِنَّ اللہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیۡنَ کی تفسیر قبولِ توبہ کے متعلق حدیثِ پاک کی تشریح سے ہوئی کہ توبہ چار شرطوں کے ساتھ قبول ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے جب تک تفسیر نہ ہو تو آیت سمجھ میں کیسے آئے گی؟ اگر آپ کی حدیثِ پاک سے تفسیر نہ ہوتی تو توبہ کا سب یہ مطلب سمجھتے کہ توبہ توبہ کرلو اور سب کا مال کھینچ لو، لیکن حدیثِ پاک کی شرح سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والے کو اپنا پیار دیتا ہے لیکن چار شرطوں کے ساتھ
۔8؎ روح المعانی : 56/13، یوسف (98)، دار احیاء التراث، بیروت
توبہ کی تین قسمیں
توبہ کی تین قسمیں ہیں۔ جس درجہ کی توبہ ہوگی اسی درجہ کی محبوبیت عطا ہوگی۔ بتائیے آپ فرسٹ ڈویژن میں پاس ہونا چاہتے ہیں یا سیکنڈ ڈویژن میں یا تھرڈ ڈویژن میں؟ تین ڈویژن ہوتے ہیں،آج تینوں ڈویژن پیش کررہا ہوں۔
عوام کی توبہ
پہلے تیسرا ڈویژن پیش کرتا ہوں کہ سب سے معمولی درجہ یعنی پاسنگ نمبر کی توبہ یہ ہے کہ معصیت چھوڑ دو اور فرماں برداری کا راستہ اختیار کرلو،جس کا نام
اَلرُّجُوْعُ مِنَ الْمَعْصِیَۃِ اِلَی الطَّاعَۃِ
ہے اور اُردو میں گناہ گار زندگی چھوڑ کر فرماں برداری کی زندگی اختیار کرنا ہے۔
خواص کی توبہ
اور سیکنڈ ڈویژن کی توبہ ہے
اَلرُّجُوْعُ مِنَ الْغَفْلَۃِ اِلَی الذِّکْرِ
غفلت کی زندگی چھوڑ کر اللہ کو یاد کرو، معمولات پورے کرو، خالی فرض واجب ادا کرکے اللہ تعالیٰ سے ضابطے کا معاملہ نہ کرو، اللہ سے رابطے کا معاملہ کرو۔ ضابطہ والوں کو ضابطہ ملتا ہے، رابطہ والوں کو رابطہ ملتا ہے۔ اللہ کو یاد کرو، اوّابین بھی پڑھو، کچھ نفلیں بھی پڑھو، کم سے کم شیخ کا جو بتایا ہوا ذِکر ہے اس کو کرو۔ اس کا نام سیکنڈ ڈویژن کی توبہ ہے اور عربی میں اس کا نام توبۃ الخواص ہے اور جس کی تشریح ملّا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے
اَلرُّجُوْعُ مِنَ الْغَفْلَۃِ اِلَی الذِّکْرِ
کے عنوان سے فرمائی کہ غفلت کی زندگی چھوڑ کر ذِکر والی زندگی شروع کر دی
مدت کے بعد پھر تری یادوں کا سلسلہ
اِک جسم ناتواں کو توانائی دے گیا
اگر کچھ دن اللہ کو یاد نہیں کیا تو اب یہ شعر پڑھ کے اللہ کا نام لینا شروع کردو۔ ذِکر کی قضا نہیں ہے، ذِکر کی قضا یہی ہے کہ ذِکر شروع کر دو، یادِ الٰہی میں لگ جاؤ۔
اعلیٰ درجہ یعنی اَخَصُّ الْخَوَاصْ کی توبہ
اب فرسٹ ڈویژن یعنی اعلیٰ درجے کی توبہ کیا ہے، جس سے اعلیٰ درجے کی محبوبیت ملے
اَلرُّجُوْعُ مِنَ الْغَیْبَۃِ اِلَی الْحُضُوْرِ۔9
کہ اپنے دل کو ہر وقت نگرانی میں رکھو، اپنے قلب کی نگرانی کیجیے جس کو انگریزی میں انسپکشن کہتے ہیں۔ آپ اپنے قلب کے انسپکٹر بن جائیے اور ہر وقت قلب کا انسپکشن کیجیے اور انسپکشن کیسے کریں گے؟
بس یہ دیکھیں گے کہ دل میں کہیں غیر اللہ کا انفیکشن تو نہیں ہو رہا ہے؟
ہمارے قلب میں کوئی نمک حرام تو نہیں آ رہا ہے؟
کہیں بد نظری تو نہیں ہو رہی ہے؟
کہیں غیر اللہ کی یاد تو دل میں نہیں آ رہی ہے؟
کسی گناہ کا مراقبہ تو دل میں نہیں ہو رہا ہے، فرسٹ ایئر کے کسی گناہ کا مراقبہ ففتھ ایئرمیں تو نہیں کر رہے ہو کہ پچاس سال کے ہوگئے اور بچپن کا مزاج نہ گیا
ترا بچپن یہ پچپن میں مجھے حیرت ہے اے ناداں
بڑھاپے میں بھی تیری خوئے طفلانی نہیں جاتی
بس آپ انسپکشن کیجیے کہ کہیں دل میں غیر اللہ کا انفیکشن تو نہیں آرہا ہے؟
آج آپ سب لوگوں کو میں نے انسپکٹر بنا دیا۔ آپ کہیں گے کہ انسپکٹر کی تو بہت اچھی تنخواہ ہوتی ہے، ہم لوگوں کی کیا تنخواہ ہوگی؟
تو اللہ تعالیٰ کی محبوبیت معمولی تنخواہ ہے؟
توبہ کا فرسٹ ڈویژن یہی انسپکشن ہے کہ دل کی نگرانی کرو کہ ہمارا دل کہیں غیر اللہ کی یادوں سے سابقہ حرام لذت کی لید دوبارہ سونگھنے کی پلید خاصیت میں تو مبتلا نہیں ہے
بعض لوگوں کو اپنے پرانے گناہوں کی لید سونگھنے کی ایسی عادت ہے کہ وہ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ اس پلید حالت میں کوئی پلید کیسے بایزید ہوسکتا ہے۔ بعض ظالموں کو یہ پتا ہی نہیں چلتا کہ میرے دل میں کیا ہورہا ہے؟
وہ اپنے قلب سے اتنے بے خبر ہیں کہ ان کے قلب میں عہدِ ماضی کی فلم چل رہی ہے اور ان کو پتا ہی نہیں کہ ہم کیا کررہے ہیں؟
یہ نفس کے پیچھے آنکھیں بند کرکے چلے جارہے ہیں۔ یہ کیا جانور کی سی زندگی ہے . کہیں اہل اللہ کی زندگی ایسی ہوتی ہے ... جب دل میں غیراللہ آئے فوراً کھٹک جاؤ
نہ کوئی راہ پا جائے نہ کوئی غیر آجائے
حریمِ دل کا احمد اپنے ہر دم پاسباں رہنا
توبہ کی یہ تین قسمیں ہوگئیں۔ اب آپ کو اختیار ہے کہ آپ عوام کے زمرے میں رہنا چاہتے ہیں یا خواص میں یا اخص الخواص میں،فرسٹ ڈویژن آنا چاہتے ہیں۔
توبہ کے آنسوؤں کی اقسام
۔۱) مصنوعی گریہ
توبہ کے لیے سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حکم دیا ہے جو اختیاری مضمون نہیں ہے،کمپلسری یعنی لازمی کردیا کہ اِبْکُوْا روؤ، تاکہ تم نے جو حرام مزہ گناہوں سے اُڑایا ہے،آنکھوں کے آنسوؤں کے ذریعے تمہاری حرام لذتوں کا مال دوبارہ اللہ کی سرکار میں جمع ہو جائے۔جس طرح چور چوری کا مال تھانہ میں جمع کر دے اور وعدہ کرے کہ آیندہ چوری نہیں کروں گا تو سرکار اس کو معاف کر دیتی ہے۔ اِبْکُوْا امر ہے۔حضور ﷺ فرماتے ہیں
اِبْکُوْا فَاِنْ لَّمْ تَبْکُوْا فَتَبَاکَوْا10؎
روؤ، لیکن اگر رونا نہ آئے،کبھی دل میں گناہوں کی وجہ سے سختی آجاتی ہے، یہ گناہ ہمارے دل کی تراوٹ کو چوس لیتے ہیں، دل بے کیف ہو جاتا ہے تو اس وقت مایوس ہو جاؤ گے؟
کیا تم ارحم الراحمین کے بندے نہیں ہو؟
کیا رحمۃ للعالمین کے اُمتی نہیں ہو؟
ہم ایسے خشک دل والوں کو بھی جن کے آنسو نہ نکل سکیں محروم نہیں ہونے دیں گے۔ میں رحمۃ للعالمین ہوں، سید الانبیاء ہوں، پیغمبر ہوں، حق تعالیٰ کا ترجمان ہوں، سفیر ہوں ارحم الراحمین کا، ہر پیغمبر اللہ تعالیٰ کا سفیر ہوتا ہے،اور سفیر کی زبان اپنے ملک کے سلطان کی ترجمان ہوتی ہے، لہٰذا میرے الفاظ کو، میرے ارشاد کو، میری زبان کو ترجمان سمجھو ارحم الراحمین کی۔ میں رحمۃ للعالمین ہونے کی حیثیت سے ارحم الراحمین کی سفارت کا حق ادا کر رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نہیں چاہتے کہ میرا کوئی بندہ محروم ہو، جس کے آنسو نہیں نکل رہے ہیں وہ بھی کیوں محروم ہو؟
لہٰذا گھبراؤ مت، میں رحمۃ للعالمین ہوں اور ارحم الراحمین کی ترجمانی کر رہا ہوں کہفَاِنْ لَّمْ تَبْکُوْا فَتَبَاکَوْا اگر تمہارے آنسو نہیں نکلتے تو تم رونے والوں کی شکل بنالو، شکل بنانا تو تمہارے اختیار میں ہے، میں تمہارا شمار رونے والوں میں کردوں گا۔ اور مصنوعی گریہ کا حکم دے کر اس کو قبول کرنا یہ کمالِ رحمتِ حق ہے اور یہ رونے کی پہلی قسم ہے جو اکثر بیان کرتا ہوں
۔۲ موسلادھار ابر کے مانند رونے والی آنکھیں
حضرت عبداللہ ابنِ عمر رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بارگاہِ حق تعالیٰ شانہٗ میں عرض کرتے ہیں
اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنِیْ عَیْنَیْنِ ھَطَّالَتَیْنِ تَسْقِیَانِ الْقَلْبَ بِذُرُوْفِ الدُّمُوْعِ مِنْ خَشْیَتِکَ قَبْلَ اَنْ تَکُوْنَ الدُّمُوْعُ دَمًا وَّ الْاَضْرَاسُ جَمْرًا11؎
وَفِیْ رِوَایَۃٍ تَشْفِیَانِ الْقَلْبَ بِذُرُوْفِ الدُّمُوْعِ12؎
اے اللہ! مجھے ایسی آنکھیں عطا فرما جو موسلادھار ابر کے مانند برسنے والی ہوں
تَسْقِیَانِ الْقَلْبَ بِذُرُوْفِ الدُّمُوْعِ
جو خشیت کے آنسوؤں سے دل کو سیراب کر دیں یا
تَشْفِیَانِ الْقَلْبَ بِذُرُوْفِ الدُّمُوْعِ
جو آنسوؤں سے دل کو شفا دینے والی ہوں قبل اس کے کہ (عذابِ دوزخ سے) آنسو خون ہو جائیں اور داڑھیں انگارے بن جائیں۔ معلوم ہوا کہ ہر آنسو دل کو سیراب نہیں کرتا، صرف وہی آنسو دل کو سیراب کرتے ہیں، دل کی شفا کا ذریعہ ہوتے ہیں جو اللہ کی خشیت یا محبت سے نکلتے ہیں۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
ورنماند آب آبم دہ زعین
ہمچو عینین نبی ھطأ لتین
اگر ہمارے آنسو خشک ہو گئے تو آنکھوں کو رونے کے لیے آنسو عطا فرمائیے،کیوں کہ آپ کے خوف و خشیت سے رونے والی آنکھیں مرادِ نبوت ہیں، مطلوبِ نبوت ہیں۔ اور یہ آنسو اتنے قیمتی ہیں کہ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بشارت دی ہے کہ یہ قلب کو سیراب کرنے والے ہیں ۔ 10؎ سنن ابن ماجۃ: 446، باب الحزن والبکاء، المکتبۃ الرحمانیۃ
۔۳) مکھی کے سر کے برابر آنسو کی فضیلت
حضور صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں
مَا مِنْ عَبْدٍ مُّؤْمِنٍ یَّخْرُجُ مِنْ عَیْنَیْہِ دُمُوْعٌ وَاِنْ کَانَ مِثْلَ رَأْ سِ الذُّبَابِ مِنْ خَشْیَۃِ اللہِ ثُمَّ یُصِیْبُ شَیْئًا مِّنْ حُرِّ وَجْھِہٖ اِلَّا حَرَّمَہُ اللہُ عَلَی النَّارِ13
یعنی کسی بندۂ مومن کی آنکھوں سے بوجہ خشیتِ الٰہی آنسو نکل آئے، خواہ وہ مکھی کے سر کے برابر ہو اور اس کے چہرے پر تھوڑا سا بھی لگ جائے، تو اللہ تعالیٰ اس کو دوزخ کی آگ پر حرام کر دیتے ہیں۔لہٰذا اگر کبھی مکھی کے سر کے برابر بھی آنسو نکل آئے تو اس کو پورے چہرے پر پھیلالو۔ میں نے بارہا اپنے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا کہ ہمیشہ آنسوؤں کو ہتھیلی سے ملا اور پھر پورے چہرے اور داڑھی پر پھیرلیا، اور فرمایا کہ میں نے اپنے شیخ حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو ہمیشہ ایسے ہی کرتے دیکھا کہ جب اللہ کے خوف سے یا محبت سے آنسو نکلے تو ہتھیلی سے مل کر ان کو پورے چہرے پر پھیلا لیا کیوں کہ روایت میں ہے کہ اللہ کے خوف یا محبت سے نکلے ہوئے آنسو جہاں جہاں لگ جائیں گے دوزخ کی آگ وہاں حرام ہو جائے گی، چاہے وہ آنسو مکھی کے سر کے برابر ہو، تب بھی کام بن جائے گا،مغفرت ہو جائے گی۔ حدیث میں دُمُوْعٌ کا لفظ آیا ہے جو جمع ہے دَمْعٌ کی جس کے معنیٰ آنسو کے ہیں، اور عربی میں جمع تین سے کم کا نہیں ہوتا، اس لیے کم سے کم زندگی میں تین آنسو تو رولو، تاکہ اس حدیث پر عمل ہو جائے۔ ملّا علی قاری فرماتے ہیں جو آنسو نکلیں وہ کم ازکم تین ہوں اگرچہ ان کی مقدار مکھی کے سر کے برابر ہو اور فرماتے ہیں کہ دونوں آنکھوں سے رونا ضروری نہیں ہے، کیوں کہ ہوسکتا ہے کہ کوئی آنکھ پتھر کی بنی ہو،کیوں کہ بعض کی آنکھ ضایع ہو جاتی ہے تو پتھر کی بنوا لیتے ہیں،تو پتھر کی آنکھ سے آنسو کیسے نکلے گا؟
اس لیے فرمایا ... اَوْمِنْ اَحَدِھِمَا14؎ ... دیکھوالمرقاۃ شرح مشکوٰۃ ... یہ عبارت ملّا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ کی ہے، حدیث کی نہیں ہے۔ حدیث میں تو دونوں آنکھوں سے رونا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے ان محدثین کو جنہوں نے مرادِ نبوت کو سمجھا کہ اگر ایک آنکھ سے بھی رو لو تو بھی کام بن جائے گا، کیوں کہ دوسری آنکھ مجبور ہے
ہم بتاتے کسے اپنی مجبوریاں
رہ گئے جانب آسماں دیکھ کر
جب مجبور ہے تو معذور ہے اور جب معذور ہے تو ماجور ہے، یعنی اجر کی مستحق ہے، اس کو دونوں آنکھوں سے رونے کا اجر ملے گا۔ یہ رونے کا تیسرا طریقہ ہوگیا۔
۔11؎ الجامع الصغیر:95/1(1530)،دارالکتب العلمیۃ، بیروت
۔12؎ کنزالعمال:184/2(3661)،فصل فی جوامع الادعیۃ،مؤسسۃ الرسالۃ
۔13؎ سنن ابن ماجۃ:319، باب الحزن والبکاء،المکتبۃ الرحمانیۃ
۔۴) تنہائی میں زمین پر گرنے والے آنسو
چوتھا طریقہ اللہ کی یاد میں رونے کا کیا ہے؟
تمہارے آنسو زمین پر گر پڑیں تاکہ یہ زمین قیامت کے دن تمہارے رونے کی گواہی دے۔ حاکم کی روایت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے
مَنْ ذَکَرَ اللہَ فَفَاضَتْ عَیْنَاہُ مِنْ خَشْیَۃِ اللہِ حَتّٰی
یُصِیْبَ الْاَرْضَ مِنْ دُمُوْعِہٖ لَمْ یُعَذَّبْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ15
یعنی جو اللہ تعالیٰ کو یاد کرے اور اللہ کے خوف سے اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑیں یہاں تک کہ کچھ آنسو زمین پر گر جائیں، تو اللہ پاک قیامت کے دن عذاب نہ دیں گے۔
اب آپ کہیں گے کہ یہاں تو قالین بچھی ہوئی ہے، زمین کہاں ہے، تو سنگ مرمر بھی مٹی کے حکم میں داخل ہے۔ جس چیز سے تیمم ہو سکتا ہے وہ خالقِ ارض کے یہاں مٹی ہی کے زمرے میں ہے، لہٰذا فرش پر چلے جاؤ جہاں قالین نہیں ہے یا ہمارے ساتھ سندھ بلوچ چلو، ہم آپ کو رونے کے لیے زمین ہی زمین دیں گے، مگر یہ نہ سمجھ لینا کہ پلاٹ الاٹ کر دیں گے، صرف زمین دیں گے رونے کے لیے۔ آپ جس کی زمین پر دو رکعت پڑھ کے رولیں مجھے اُمید ہے کہ زمین کا مالک آپ کو کچھ نہیں کہے گا، بلکہ دوڑ کر آئے گا اور دُعا کی درخواست کرے گا کہ ہمیں بھی دُعا میں یاد رکھنا مولوی صاحب! تو رونے کی چار قسمیں ہو گئیں۔
14؎ مرقاۃ المفاتیح: 542/9 (5359)، باب البکاءِ والخوف، دار الکتب العلمیۃ، بیروت
۔۵) گناہ گاروں کی آوازِ گریہ کی محبوبیت
آج ایک نیا علمِ عظیم پیش کرتا ہوں جو گریہ و زاری کی پانچویں قسم ہے۔ توبہ کی تینوں قسموں سے اور رونے کی چار قسموں سے آپ اللہ تعالیٰ کے محبوب ہو جائیں گے، حبیب ہو جائیں گے، مگر آج ایک علمِ عظیم اللہ نے عطا فرمایا جس سے آپ صرف محبوب ہی نہیں احب ہو جائیں گے۔ ایک ہے حبیب اور ایک ہے احب یعنی سب سے زیادہ پیارا، مبالغہ کا صیغہ ہے کہ اللہ کا سب سے زیادہ پیار مل جائے۔
تمام محبوبوں میں، اللہ کے تمام پیاروں میں سب سے بڑا پیارا بننے کا نسخہ آج اختر پیش کرے گا۔ دیکھیے تینوں قسمیں توبہ کی اور چاروں قسمیں رونے کی، یہ سب آپ کو اللہ کے پیار کے قابل بنا دیں گی
اِنَّ اللہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیۡنَ16؎ اور اَلتَّائِبُ حَبِیْبُ اللہِ17
لیکن آج ایک ایسا نسخہ پیش کر رہا ہوں کہ پیاروں میں آپ سب سے بڑے پیارے ہو جائیں۔ جیسے باپ کہتا ہے کہ میرے دس لڑکے ہیں مگر یہ لڑکا مجھے بہت پیارا ہے، سب پیاروں میں یہ پیارا ہے۔ اپنی اپنی قسمت ہے۔ آج میں آپ کو قسمت سازی کا طریقہ بتا رہا ہوں۔ جس کے ہاتھ میں قسمت ہے، جس کے ہاتھ میں قسمت سازی ہے، اسی نے طریقہ بتایا اور اس کا ترجمان بھی رحمۃ للعالمین ہے۔ارحم الراحمین کی شانِ رحمت کو آپ یا تو قرآنِ پاک سے حاصل کر سکتے ہیں یا پھر اللہ تعالیٰ کے رسول، اس عالمِ غیب کے سفیر اور ترجمان، رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثوں میں یہ چیز ملے گی، لہٰذا آج میں سب پیاروں میں پیارا بننے کا نسخہ ترجمان ارحم الراحمین رحمۃ للعالمین سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ نبوت کی حدیثِ مبارک سے بتاتا ہوں کہ آپ سب پیاروں میں سب سے پیارے ہو جائیں گے اور وہ بھی ایک نہیں بلکہ ایک کروڑ پیارے بن سکتے ہیں۔ یہاں سب سے پیارا بننے کا یہ مطلب نہیں کہ سب پیاروں میں پیارا ایک ہی ہوگا۔ نہیں ... وہ عمل جو میں بتارہا ہوں جس نے بھی کرلیا تو سب پیاروں میں پیارا ہو جائے گا اور اس طرح بے شمار پیارے ہو جائیں گے، بلکہ سو فیصد سبھی پیاروں میں پیارے ہو جائیں گے
15؎ کنزالعمال:432/1(1830)، باب فی الذکر وفضیلتہ،مؤسسۃ الرسالۃ
اللہ کے پیاروں میں پیارا بننے کا نسخہ تین طریقے توبہ کے بیان کرتا رہا ہوں
اِنَّ اللہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیۡنَ
کے ذیل میں چار طریقے رونے کے بھی بیان کیے ہیں، لیکن آج اپنی ۷۵ سالہ زندگی میں پہلی دفعہ میں آپ کو توّابین میں محبوبیت کے ساتھ ساتھ ایک نعمت مستزاد اور ایکسٹرا پیش کر رہا ہوں کہ آپ اَحَبُّ الْمَحْبُوْبِیْنَ ہو جائیں، اللہ کے تمام محبوب بندوں میں احب ہو جائیں اور اس میں بھی ایک نہیں بے شمار ہو سکتے ہیں، سب کے سب احب ہو جائیں اتنا آسان نسخہ ہے اور اس کے بھی دو طریقے بتاؤں گا، ایک اختیاری ایک غیر اختیاری۔ وہ کیا ہے؟ حدیثِ قدسی ہے۔ اور حدیثِ قدسی کی کیا تعریف ہے؟
ھُوَ الْکَلَامُ الَّذِیْ یُبَیِّنُہُ النَّبِیُّ بِلَفْظِہٖ وَیُنْسِبُہٗ اِلٰی رَبِّہٖ18
وہ کلامِ نبوت جس کو زبانِ نبوت ادا کرے اور نبی یہ کہہ دے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ایسی حدیثوں کو حدیثِ قدسی کہا جاتا ہے۔ تو حدیثِ قدسی میں ہے
لَاَنِیْنُ الْمُذْنِبِیْنَ اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ زَجَلِ الْمُسَبِّحِیْنَ19
جو گناہ گار اپنی استغفار اور توبہ میں اپنے رونے کی آہ وزاری کی آوازیں شامل کر دیتے ہیں، وہ اس نعمتِ مستزاد کے مستحق ہیں۔ ایک آدمی چپکے چپکے توبہ کر رہا ہے، چپکے چپکے استغفار کر رہا ہے، وہ مستغفر بھی ہے، تائب بھی ہے،مگر اَنِیْنُ الْمُذْنِبِیْنَ کا شرف اسے حاصل نہیں ہے۔ اَنِیْنْ کے معنیٰ آہ وزاری اور نالہ کے ہیں جس میں کچھ آواز بھی ہو، یعنی تھوڑی سے بلند آواز کہ کم سے کم خود سن لے، یہ انین ہے، جس کا نام اُردو میں سسکی ہے۔ جب تک آواز نہ نکلے عربی لغت میں وہ انین نہیں، انین میں ہلکی سی آواز ہونا ضروری ہے، لیکن اتنی زور سے بھی نہ چیخے کہ سارا محلہ گھبرا جائے، اس میں اعتدال رہے۔ تو رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت ترجمان ارحم الراحمین کے فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
لَاَنِیْنُ الْمُذْنِبِیْنَ اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ زَجَلِ الْمُسَبِّحِیْنَ
کہ جو سبحان اللہ سبحان اللہ پڑھ رہے ہیں وہ سب میرے محبوب ہیں، مقبول ہیں، مگر سب میں زیادہ احب وہ ہے جو گناہوں پر ندامت کے ساتھ آہ وزاری کر رہا ہو اور سسکیاں لے رہا ہو اور رونے کی ہلکی آواز بلند ہو رہی ہو۔ اسی مضمون کو ایک اللہ والے شاعر نے یوں پیش کیا ہے
اے جلیل اشک گناہ گار کے اک قطرے کو ہے
فضیلت تری تسبیح کے سو دانوں پر
اللہ سننے والا ہے ... تو گناہ گاروں کا آہ و نالہ اور اللہ سے معافی مانگتے وقت تھوڑی سی آواز نکل جانا، ہلکہ سی آہ نکل جانا یہ اللہ تعالیٰ کو احب ّہے، تو جن کی انین احبّ ہے وہ احبّ نہ ہوں گے؟ گناہوں پر نادم ہو کر آہ کیجیے تو آپ بھی احب ہو جائیں گے۔ اَنِیْنُ الْمُذْنِبِیْنَ سے مذنبین اَحَبُّ الْمَحْبُوْبِیْنَ ہو جائیں گے۔ دو دوست ہیں ایک سبحان اللہ سبحان اللہ پڑھ رہا ہے اور ایک اپنے گناہوں پر ندامت کے ساتھ کچھ آہ و فغاں کر رہا ہے، تو میرا ذوق یہ ہے کہ میں اسی کے پاس بیٹھوں گا جو اس وقت اللہ تعالیٰ کا احب ہے اور اس کے پاس جا کر میں بھی آہ و فغاں کروں گا، توبہ استغفار کروں گا کہ اے اللہ ... اس رونے والے کی برکت سے میری بھی بگڑی بنا دے کہ یہ اس وقت آپ کا احب ہو رہا ہے
18؎ مرقاۃ المفاتیح :230/1،کتاب الایمان،دارالکتب العلمیۃ، بیروت
19؎ کشف الخفاء ومزیل الالباس،:298، رقم(805)، فی باب حرف الھمزۃ مع النون / روح المعانی:196/30، القدر(4)، داراحیاءالتراث، بیروت16؎ البقرۃ:222
17؎ المغنی عن حمل الاسفار:983/2، کتاب التوبۃ،مکتبۃ طبریۃ، ریاض
اَنِیْنْ غیر اختیاری اور اَنِیْنْ اختیاری
اب دو چیزیں ہیں ... ایک اختیاری اور ایک غیر اختیاری۔ اَنِیْنْ یعنی آہ و نالہ تو غیر اختیاری ہے کہ معافی مانگتے مانگتے خود بخود رونا آجاتا ہے اور آہ و نالہ کی آواز پیدا ہو جاتی ہے، جیسے ملتزم پر میں نے دیکھا ہے کہ شاید ہی کوئی معافی مانگنے والا ایسا ہو، جس کی آواز خودبخود نہ نکل جاتی ہو۔ اللہ کی محبت اور اللہ کی رحمت کے سہارے پر حاجی بے اختیار رونے لگتا ہے، خواہ کتنا ہی سنگ دل ہو وہاں آنسو نکل آتے ہیں اور سسکیوں کی کچھ آوازیں بھی آتی ہیں لیکن یہ غیر اختیاری ہے۔ بعض وقت ہوسکتا ہے کہ معافی مانگتے وقت انین نہ نکلے یعنی رونا نہ آئے اور آوازِ گریہ نہ پیدا ہو تو اس وقت کیا کرنا چاہیے؟
تو ج س طرح رونا اختیاری نہیں ہے مگر رونے کی شکل بنانے سے کام چل جائے گا، ایسے ہی انین یعنی رونے کی آواز نکالو، نقل کرو،نقل ہی سے کام بن جائے گا۔ دنیا میں بھی دیکھ لیجیے کہ ایک شخص کا بچہ معافی مانگتے ہوئے آہ و نالے کر رہا ہے اور سسکیاں بھی بھررہا ہے، تو نفسیاتی طورپر باپ بے چین ہو جاتا ہے، جلدی سے اسے گود میں اُٹھا لیتا ہے کہ کہیں سسکیاں بھرتے بھرتے میرے بچے کے سر میں درد نہ ہو جائے، کہیں اس کو ہارٹ اٹیک نہ ہو جائے، وہ اس کی پیٹھ پر تھپکیاں دیتا ہے کہ میرا بچہ جلدی سے رونا بند کر دے۔ اسی طرح جو گناہ گار ندامت سے گریہ وزاری کرے گا تو حق تعالیٰ کی رحمت کی تھپکیاں اس کے دل کو محسوس ہو جائیں گی
اب کہیں پہنچے نہ ان کو تجھ سے غم
اے مرے اشکِ ندامت اب تو تھم
تو انین کی یہ دو قسمیں پیش کر دیں
۔۱) انین غیر اختیاری کہ خود بخود دل پر کیفیت طاری ہوگئی اور اللہ میاں سے معافی مانگتے مانگتے چیخ نکل گئی اور آہ و فغاں کرنے لگا ۔
۔۲) اور انین اختیاری کہ بعض وقت آہ و نالہ کو دل نہیں چاہتا، آہ و نالہ کا اختیار نہیں ہوتا ۔
تو آہ و نالہ کی نقالی تو اختیار میں ہے، آہ و نالہ کی نقل کرو ، ابنِ ماجہ شریف میں رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد منقول ہے
فَاِنْ لَّمْ تَبْکُوْا فَتَبَاکَوْا
اگر رونا تمہارے اختیار میں نہیں ہے تو ایک کام تمہارے اختیار میں ہے ۔ وہ کیا ہے؟
رونے والوں کی شکل بنالو۔ تم کو بُکائے غیر اختیاری سے ہم بُکائے اختیاری کی طرف راستہ بتا رہے ہیں۔ اسی طرح اگر انین غیر اختیاری تم کو حاصل نہ ہو تو انین اختیاری حاصل کرلو یعنی آہ و نالے کی نقل ہی کرلو، اللہ کو اپنی سسکیاں سنا دو۔ اللہ میاں جانتے ہیں کہ یہ اس کی اصلی سسکی نہیں ہے، یہ جو آہ و فغاں کر رہا ہے اصل نہیں ہے، یہ نقل کر رہا ہے، مگر وہ کریم ایسا پیارا اللہ ہے کہ ہماری نقل کو بھی محرومی سے ہم آہنگ نہیں کرتا اور ہمارے اوپر فضل کر دیتا ہے۔ اسی حدیث سے میں نے قیاس کیا ہے۔ میرا مستنبط اور مستدَل اور مقتبس وہی ابنِ ماجہ شریف کی حدیث ہے کہ اگر کسی کو رونا نہ آئے تو رونے والوں کی شکل بنالے،لہٰذا اَنِیْنُ الْمُذْنِبِیْنَ اگر کسی وقت نصیب نہ ہو تو گناہ گاروں کے آہ ونالے کی نقل کرلو۔ انڈیا میں میں نے دیکھا کہ ایک زمیندار اپنی رعایا کو بہت مارتا تھا۔ اکثر یہ ظالم ہوتے ہیں جب زیادہ زمینداری کا نشہ آجاتا ہے ۔تو وہ مظلوم تھانے گیا اور تھانے دار سے کہا کہ دُہائی سرکار کی فلاں نے ہم کو بہت مارا ہے اب ہم بچ نہیں سکتے، مر جائیں گے۔ تو اس نے جبکہ دُہائی سرکار کی تو اس سے ایک سبق مل گیا کہ کبھی اللہ تعالیٰ سے بھی کہو دُہائی بڑے سرکار کی کہ آپ سے بڑا کوئی سرکار نہیں ہے۔ اور کس پر دُہائی دے رہا ہوں؟
زمینداروں پر نہیں نفس و شیطان پر دے رہا ہوں، دہائی سرکار کی کہ نفس و شیطان نے مجھ کو تباہ و برباد کر دیا
توبہ کی قسمیں اور رونے کی قسمیں بارہا بیان کرچکا ہوں جس سے آپ کو محبوبیت تک پہنچنے کا راستہ بتایا گیا، لیکن آج آپ کو احب کا درجہ فرسٹ ڈویژن اور اونچے مقام پر پہنچنے کا راستہ بتارہا ہوں۔اَنِیْنُ الْمُذْنِبِیْنَ اگر اختیار میں نہیں ہے تو کبھی قیامت کا نقشہ سامنے رکھو، دوزخ کو سامنے رکھو، اللہ کی پکڑ اور سوالات کو سامنے رکھو تو ان شاء اللہ آہ بھی نکل جائے گی۔ اگرچہ انین غیر اختیاری ہے مگر امورِ غیر اختیاریہ کے اسباب اختیار میں ہیں۔ مراقبہ کرو کہ قیامت قائم ہے اور اللہ تعالیٰ سوالات کر رہے ہیں کہ تم نے کیسی کیسی حرکتیں کیں؟
او بے غیرت تجھے شرم وحیا نہیں تھی۔ تو نے اپنے زمان و مکان کو نہیں دیکھا کہ ہم کہاں یہ حرکت کر رہے ہیں اور کس صورت میں ہیں اور کیا حرکت کر رہے ہیں؟
ہم کس جغرافیہ میں ہیں اور تاریخ کیا بنا رہے ہیں؟
تیرا جغرافیہ رشکِ بایزید بسطامی تھا، لیکن اس جغرافیہ میں تو تاریخ کتنی سیاہ اور بھیانک بنا رہا تھا۔ تو دوزخ اور میدانِ محشر کے مراقبہ سے ان شاء اللہ آہ نکل جائے گی۔ ورنہ آہ و فغاں کی نقل کرو، نقل سے بھی کام بن جائے گا۔ دنیاوی معاملے میں بھی دیکھو نقل کام آتی ہے۔ میں نے بڑے بڑے نقالوں کو دیکھا ہے۔ ناظم آباد میں ایک بھیک مانگنے آیا اور جناب ایسا دھاڑیں مار کر رویا کہ سب کو رحم آگیا، اور جب گیا تو سسکیاں مارتا ہوا جیسے رونے کے بعد بچے کافی دیر تک سسکی بھرتے رہتے ہیں، اچانک بریک مارنے پر قادر نہیں ہوتے۔ تو وہ ایسے ہی سسکیاں مارتا ہوا جارہا تھا، مگر مجھے شک ہوگیا کہ یہ مصنوعی سیارہ ہے۔ میں نے ایک آدمی کو جلدی سے لگایا کہ اس کی جاسوسی کرو کہ یہ واقعی رو رہا تھا یا ہم لوگوں کو بے وقوف بنارہا تھا اور فراڈیا نمبر ون تھا۔ تو ایک آدمی لگ گیا، اس کو پتا بھی نہیں چلا کہ میرے پیچھے کوئی ہے اور ایک خالی پلاٹ کی طرف مڑگیا اور خوب زور سے ہنسا۔ اس کو اس پر ہنسی آرہی تھی کہ میں بے وقوف بنانے میں کامیاب ہوگیا،حالاں کہ ایک لمحہ پہلے سسکیاں مار رہا تھا۔ اس واقعے سے معلوم ہوا کہ رونا اور سسکیاں مارنا دونوں اختیار میں ہیں اور ان کی نقل کی جاسکتی ہے۔ دنیا میں نقل بنا کر پیسے اینٹھنا تو جائز نہیں لیکن اللہ تعالیٰ کاکرم ہے کہ اپنے معاملے میں نقلِ بکا اور نقلِ انین یعنی مصنوعی گریہ اور مصنوعی آہ وفغاں کو بھی قبول فرماتے ہیں۔
وعظ کے بعد ایک صاحب نے دُعا کے لیے عرض کیا تو حضرت نے دُعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ اس مریضہ کے کینسر کو اچھا کر دے اور فرمایا کہ ایک بات بتا رہا ہوں جو آپ شاید آج پہلی دفعہ سنیں گے۔ آج کل جدھر دیکھو کینسر کی آوازیں آرہی ہیں کہ فلاں کو کینسر ہوگیا اور کینسر کا مریض آج تک اچھا نہیں ہوا، لاکھوں میں کوئی ایک اچھا ہوا ہو، وہ بھی خطرہ رہتا ہے کہ کسی وقت اس کا دوبارہ حملہ ہو سکتا ہے۔ میرے علم میں ایک واقعہ ہے باقی جتنے کینسر کے مریض تھے میں نے نہیں سنا کہ کوئی بچا ہو۔
کینسر کا سبب
لیکن اس کے اسباب میں سے ڈاکٹر عبدالحی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ کینسر کا مرض انفیکشن سے ہوتا ہے، خون میں تسمم یعنی زہریلا پن پیدا ہو جاتا ہے۔ سڑا ہوا گوشت کھانے سے زہریلا مادّہ خون اور گوشت میں پیدا ہو جاتا ہے۔ تو ڈاکٹر عبدالحی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ جو لوگ غیبت کرتے ہیں وہ مردہ بھائی کا گوشت کھاتے ہیں۔ قرآن شریف میں ہے
اَیُحِبُّ اَحَدُکُمۡ اَنۡ یَّاۡکُلَ لَحۡمَ اَخِیۡہِ مَیۡتًا20؎
قرآنِ پاک کا اعلان ہو رہا ہے کہ کیا تم پسند کرتے ہو کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھاؤ۔ جو موجود نہیں تم اس کی غیبت کر رہے ہو، اسی لیے اس کو مردہ کہا گیا کہ جس طرح مردہ اپنا دفاع نہیں کر سکتا ایسے ہی مجلس میں غیر موجود آدمی بھی اپنا دفاع نہیں کر سکتا۔ اس لیے یہ بھی مثل مردہ کے ہے۔ تو جو غیبت کا مریض ہے گویا اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھا رہا ہے جیسا کہ قرآنِ پاک میں اعلان ہو رہا ہے تو اس مردہ گوشت سے انفیکشن اور تسمم یعنی زہریلا پن خون اور گوشت میں آسکتا ہے جس سے کینسر پیدا ہو سکتا ہے لہٰذا آج سے عہد کرلو کہ کبھی کسی کی غیبت نہیں کریں گے بلکہ شرط لگالو کہ ہماری آپ کی دوستی کی شرط یہ ہے کہ آپ کبھی ہماری مجلس میں اللہ کے بندوں کی بھلائی تو پیش کر سکتے ہیں مگر کسی کی بُرائی نہیں کریں گے۔ اگر آپ کو واقعی درد ہے، آپ بڑے مخلص ہیں تو ایک خط لکھ دیں، جس کی میرے سامنے غیبت کرنا چاہتے ہو اس کو اصلاح کا خط لکھ دو کہ بھائی صاحب ... آپ سے یہ گزارش ہے کہ آپ کے اندر یہ بُرائی ہے اس کو چھوڑ دیں، توبہ کرلیں، یا اور زیادہ محبت کا جوش ہے تو آپ تھوڑی سی تکلیف کرکے ان سے مل لیں اور جاکر ان سے کہہ دیں کہ مجھے یہ اطلاع ملی ہے کہ آپ ایسا کرتے ہیں اگر یہ خبر صحیح ہے تو آپ اس فعلِ بد سے توبہ کرلیں۔ دوسروں سے نقل کرکے چٹخارہ مارنا اور شکارپور کی چٹنی کا لطف لینا یہ کسی شریف آدمی کا کام نہیں ہے۔ ساری دنیا کے ڈاکٹر بھی اس مرض کا سبب غیبت نہیں سمجھ سکتے کیوں کہ وہ صرف جسمانی باتیں سمجھتے ہیں روحانی باتیں کہاں ان کی سمجھ میں آتی ہیں
روحانی بیماریاں ایکسرے میں نہیں آسکتیں
میرے شیخ حضرت ہردوئی دامت برکاتہم کے نائب اور خلیفہ جناب مولانا بشارت علی صاحب ہسپتال گئے۔ ہندو ڈاکٹر نے پوچھا آپ کا کیا نام لکھوں اور آپ کون ہیں تو انہوں نے کہا کہ میرے ایک معالج روحانی پیر و مرشد ہیں میں وہاں ان کے مدرسے میں نوکر ہوں۔ اس نے لکھ دیا،مگر کہا یہ پیر و مرشد کیا ہوتا ہے؟
اور روحانی بیماری کیا ہوتی ہے؟
تو نائب صاحب نے مجھے بتایا کہ میں نے ہندو ڈاکٹر سے کہا کہ روحانی بیماری وہ ہوتی ہے جس کو آپ کا الٹراساؤنڈ اور آپ کا ایکسرے اور آپ کا آلہ اسٹیتھو اسکوپ اور جملہ جتنے سائنسی آلات ہیں اس بیماری کا پتا نہیں لگا سکتے۔ اس نے کہا یہ ہم نہیں مانتے ہمیں کوئی مثال بتاؤ۔ انہوں نے فرمایا تو مثال سُن لو کہ ایک آدمی حسد کے مارے جلا جا رہا ہے۔ اپنے بھائی کی ترقی کو دیکھ کر جل کے خاک ہو رہا ہے، روزانہ خون جل رہا ہے لیکن الٹرا ساؤنڈ لگا کر دیکھ لو جو کہیں حسد مل جائے،ایکسرے کرکے دیکھ لو کہ اس کے دل اور پھیپھڑے میں کہیں حسد ہے؟ ... یہ روحانی ڈاکٹر بتاتے ہیں۔
بے روزگاری کا علاج
ایک صاحب نے پرچہ دیا کہ بے روزگار ہوں، دُعا فرما دیجیے۔ فرمایا کہ جتنے بے روزگار ہیں وہ تقویٰ اختیار کریں کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا اعلان ہے جو متقی ہوگا ہم اس کو ایسی جگہ سے روزی دیں گے کہ اس کا گمان بھی نہیں ہوگا لہٰذا داڑھی رکھو اور ٹخنہ کے اوپر پائجامہ رکھو، پانچوں وقت کی نماز پڑھو اور کسی کو ستایا ہو تو اس سے معافی مانگو، اللہ کا بھی حق ادا کرو بندوں کا بھی حق ادا کرو، متقی بن جاؤ۔ روزی نہ پاؤ تو پھر کہنا
اللہ تعالیٰ کے کلام پر ایمان لاتا ہوں
وَ مَنۡ یَّتَّقِ اللہَ یَجۡعَلۡ لَّہٗ مَخۡرَجًاوَّ یَرۡزُقۡہُ مِنۡ حَیۡثُ لَا یَحۡتَسِبُ21؎
جو تقویٰ سے رہے گا اللہ اس کو مصیبت سے خلاصی دے گا اور ایسی جگہ سے روزی دے گا جہاں سے اس کا گمان بھی نہیں ہوگا۔ اس لیے صوفیوں سے، مولویوں سے اور طالب علموں سے کہتا ہوں کہ روزی کی فکر نہ کرو ،تقویٰ کی فکر کرو کہ تمہارے تقویٰ پر لقوہ نہ گرے ۔یہ فتویٰ سُن لو۔ جو لوگ مقروض ہیں اور دیندار بھی ہیں یَامُغْنِیْ پڑھیں(۱۱۱) دفعہ، لیکن اگر گناہ نہیں چھوٹ رہے ہیں تو بھی یَامُغْنِیْ پڑھو، اللہ کا نام بہت بڑا نام ہے ان شاء اللہ گناہ چھوڑنے کی توفیق بھی ہو جائے گی اور قرض بھی ادا ہوجائے گا غریبی بھی دور ہو جائے گی، لیکن تقویٰ سے جلد کام بن جائے گا تاکہ رحمت کے ٹرک کو سائیڈ مل جائے، گناہ کے غضب کا ٹرک بیچ میں حائل نہ ہو اور دُعا بھی کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو برکت والا رزق عطا فرمائیں
چمن میں ہوں مگر آہ بیابانی نہیں جاتی
نہیں کرتا ہے صدق دل سے توبہ جو گناہوں سے
کسی بھی حال میں اس کی پریشانی نہیں جاتی
مرے دریائے الفت کا عجب ساحل ہے اے اختر ؔ
کہ ساحل پر بھی ان موجوں کی طغیانی نہیں جاتی
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ سارے انسان خطا کار ہیں (سوائے انبیائے کرام کے)، مگر بہترین خطا کار وہ ہے جو توبہ کرلے۔ توبہ کا عمل بندے کو اللہ تعالیٰ کے حضور بدتر سے بہتر بنا کر صاحبِ خطا کو صاحبِ عطا بنا دیتا ہے۔ ندامت کے چند آنسو اتنے قیمتی ہیں کہ گناہوں کے بڑے بڑے پہاڑوں کو اڑا کر رکھ دیتے ہیں۔
شیخ العرب والعجم عارف باللہ مجدد زمانہ حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے وعظ ’’ توبہ کے آنسو‘‘ میں قرآن و حدیث کی رُو سے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنے کا، معافی مانگ کر اللہ تعالیٰ کا پیارا بننے کا اور آخرت میں اپنی مغفرت حاصل کرنے کا طریقہ نہایت دردِ دل اور دل سوزی کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔اس وعظ میں حضرت اقدس نے قبولیت توبہ سے متعلق آنے والے وسوسوں سے نجات حاصل کرنے کے علاوہ دیگر قیمتی ارشادات سے بھی نوازا ہے اور مختلف درجات کے مؤمنین کی اقسامِ توبہ کا بھی نہایت وجد آفریں انداز میں ذکر فرمایا ہے
Comments
Post a Comment