08) اسلامی واقعات اور معلومات




اسلامی واقعات و معلومات
 

امام احمد بن حنبل رحمۃ اللّٰه علیہ کا قبر مبارک کسی وجہ سے 230 سال بعد کھل گئ کفن اور جسم مبارک سالم تھے(بکھرے موتی جلد چہارم)

زبیدا حاتون کو مرنے کے بعد کسی نے خواب میں دیکھا اور کہا اللّٰه پاک نے اپ کے ساتھ کیا معاملہ کیا اس نے کہا اللّٰه پاک نے مجھے معاف کر دیا تو میں نے کہا اس وجہ سے کہ اپ نے نہر زبیدا بنوایا تھا ۔ اس نے کہا نہیں ... اللّٰه پاک نے فرمایا نہر تو اپ نے خزانے کے پیسوں سے بنوایا اپ نے میرے لیے کیا عمل کیا ۔ میں گھبرا گئی . تو اللّٰه پاک نے فرمایا اپ کا ایک عمل پسند اگیا ۔ ازان کے احترام میں اپ نے کھانا چھوڑ دیا اس وجہ سے اپ کو معاف کر دیتا ہوں(نماز کے اسرار رموز)

امام اعظم رحمۃ اللّٰه علیہ کپڑے کا بڑے تاجر تھے ان کے پاس سارے غریبوں کی لسٹ ہوتی تھی اور ان کے گھروں کو ہر عید پر نئے کپڑے بھیج دیتے تھے ۔ ان کے پاس 30 سال تک 50 جید علماء تھے جو مسائل کو حل کرتے تھے اور امام صاحب ان کو لکھ لیتے تھےعلماء کی تنخواں امام صاحب دیتے تھے۔

امام اعظم رحمۃ اللّٰه علیہ جب مدینہ مبارک میں ہوتے تو احترام کی وجہ سے ایک دن یا تین دن تک کھانا پینا اور پیشاب نہیں کرتے اور فرماتے اتنی میری طاقت ہے۔

أمام اعظم  رحمۃ اللّٰه علیہ کے حزانے میں وراثت کے وقت 56  کروڑ  مالیت کی رقم پڑی تھی۔

سلیمان علیہ اسلام کا تحت لکڑی کا بنا ہوا تھا جس پر چھ لاکھ کرسیاں رکھی ہوی تھی ۔ اگے کرسیوں پر متقی انسان اور پیچھے کرسیوں پر جنات بیٹھتے تھےصبح سے ظہر تک ایک مہینے کی مسافت اور ظہر سے شام تک ایک مہینے کی مسافت طے کرتی ۔اوپر پرندے اپنا سایہ بنا کر اڑتی ۔

                      نبی ﷺ  میں چار ہزار مردوں کے برابر طاقت تھی ۔

       ہر انسان کے پاس بیس فرشتوں کی ڈیوٹی ہوتی ہیں دس دن کو دس رات کو ۔

       یاجوج ماجوج کی تعداد دنیا کے انسانوں سے دس گنا زیادہ ہوگی ۔

۔پاجاما، شلوار، پینٹ   ٹحنوں سے اوپر رکھنے پر پچاس سے زیادہ احادیث شریف کا زکر ہیں

    ادم عَلَیہِ السَّلام  کو پہلا حکم یہ ملا کہ جنت میں جا کے فرشتوں کے جماعت کو سلام کرو 

ادم عَلَیہِ السَّلام  نے سو حج پیدل کیے تھے  

داود علیہ سلام  نےاپنے گھر کے دروازے بند کیے تھے . اس نے اچانک اپنے گھر میں ایک شخص دیکھا تو اس کو فرمایا اپ میرے گھر میں بغیر اجازت کیوں داخل ہوے ۔ تو اس شخص نے کہا میں ہر گھر میں بغیر اجازت جاتا ہوں . داود علیہ سلام سمجھ گئے یہ عزرائیل علیہ اسلام ہے . فرمایا مرحبا مرحبا عزرائیل علیہ سلام نے اسی وقت ان کا روح مبارک قبض کرلیا

  امام احمد بن حنبل رحمۃ اللّٰه علیہ کے مکان کے سامنے لوہار رہتا تھا جب وہ ازان کی اواز سن لیتا تو وہ کام کے لیے اٹھا ہوا ہتھوڑا نیچے رکھ لیتا اور کہتا میرے پروردگار سے بلاوا اگیا ہے ۔ میں پہلے نماز پڑھو گا پھر کام ۔ وفات کے بعد کسی نے خواب میں اس سے حال کا پوچھا تو کہا مھجے ادب اذان کی وجہ سے امام احمد بن حنبل رحمۃ اللّٰه علیہ کے نیچے والا درجہ عطا کیا                               

 شاہ اسماعیل شھید رحمۃ اللّٰه علیہ عصر سے مغرب تک پورے قران پاک کی تلاوت فرماتے تھے    

ایک عالم فرماتے ہے کتاب المبین میں تیس کروڑ الواح مخفوظ ہیں ۔ ہر لوح مخفوظ پر اسی ہزار حزیرے ہیں ۔ ہر حزیرے میں ایک کھرب اباد نظام اور بارہ کھرب غیر اباد نظام موجود ہیں ۔ ایک نظام کسی ایک سورج کا دائرہ وسعت ہے۔

امام احمدبن حنبل رحمۃ اللّٰه علیہ نہر پر وضو فرما رہے تھے کہ ان کا شاگرد بھی وضو کرنے پہنچا لیکن فوراً ہی اٹھ کھڑا ہوا ۔ پوچھنے پر کہا کہ دل میں خیال ایا کہ میری طرف سے پانی بہہ کر آپ کی طرف آ رہا ہے ۔ مجھے شرم آئی کہ استاد میرے مستعمل پانی سے وضو کرے ۔

صحابی رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ سے رسول اللّٰه ﷺ نے پوچھا کہ آپ بڑے ہیں یا میں صحابی رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ نے کہا یا رسول اللّٰه ﷺ بڑے تو آپ ہی ہیں البتہ عمر میری زیادہ ہے۔

مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰه علیہ رات کو سوتے ہوئے یہ احتیاط بھی کرتے کہ پاؤں استاد کے گھر کی طرف نہ ہو اور بیت الخلا جاتے ہوئے یہ احتیاط کرتے کہ جس قلم سے لکھ رہا ہوں اس کی کوئی سیاہی ہاتھ پر لگی نہ رہ جائے ۔

ایک دوست کہتے ہیں کہ میں نے بڑی مشقت سے پیسہ اکٹھا کر کے پلاٹ لیا تو والد صاحب نے کہا کہ بیٹا تمہارا فلاں بھائی کمزور ہے یہ پلاٹ اگر تم اسے دے دو تو میں تمہیں دعائیں دوں گا حالانکہ وہ بھائی والدین کا نافرمان تھا . وہ پلاٹ بھائی کو دے دیا کہتے ہیں کہ والد صاحب بہت خوش ہوئے اور انہی کی دعا کا صدقہ ہے کہ آج میرے کئی مکانات اور پلازے ہیں جب کہ بھائی کا بس اسی پلاٹ پر ایک مکان ہے۔ 

حضور ﷺ کے چچا کے بیٹے ابن عباس رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ  کسی صحابی رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ سے کوئی حدیث حاصل کرنے جاتے تو جا کر اس کے گھر کے نزدیک بیٹھ جاتے ۔ اس کا دروازہ کھٹکھٹانا بھی ادب کے خلاف سمجھتے اور جب وہ صحابی رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ خود ہی کسی کام سے باہر نکلتے تو ان سے حدیث پوچتھے ۔ وہ صحابی رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ کہتے کہ آپ تو رسول اللّٰه ﷺ کے چچا کے بیٹے ہیں اپ نے مجھے بلا لیا ہوتا تو یہ کہتے کہ میں شاگرد بن کے آیا ہوں اپ کا یہ حق تھا کہ میں آپ کا ادب کروں ۔

ابن عمر رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ جار ہے تھے کہ ایک بدو کو دیکھا ۔ سواری سے اترے بڑے ادب سے پیش ائے اور اس کو بہت سا ہدیہ دیا ۔ کسی نے کہا کہ یہ بدو ہے تھوڑے پہ بھی راضی ہو جاتا اپ نے اسے اتنا عطا کر دیا ۔ فرمایا کہ یہ میرے والد صاحب کے پاس ایا کرتا تھا تو مجھے شرم ائی کہ میں اس کا احترام نہ کروں۔

حضرت بشر حافی رحمۃ اللّٰه علیہ جب جوان تھے گناہ کرنے سے پرھیز نہیں کرتے تھے کہی جارہے تھے ایک کاغز دیکھا جس پر اللّٰه پاک کا نام لکھا ہوا تھا اس نے کاغز کو صاف کیا اور بلند جگہ پر رکھا اس ادب کی وجہ سے ولایت کا درجہ مل گیا ۔

صحابہ کرام رضی اللّٰه تعالیٰ عنہم شدید ضرورت کی وجہ سے نبی کریم ﷺ  کے حجرے مبارک کا دروازہ ادب کی وجہ سے اپنے ناخنوں سے کھٹکھٹاتے ۔

حضرت ابو محزورہ رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ کے سامنے سر کے بال اتنے لمبے تھے کہ زمین پر لگتے تھے ان بالوں کو نہیں کٹواتے تھے اور فرماتے تھے نبی پاک ﷺ نے محبت سے میرے بال ایک بار پکڑے تھے ۔

صحابہ کرام رضی اللّٰه تعالیٰ عنہما کھانے کو ہاتھ نہیں لگاتے جب تک نبی کریم ﷺ شروع نہیں فرماتے ۔

امام مالک رحمۃ اللّٰه علیہ احادیث نبوی ﷺ بیان فرما رہے تھے اس دوران اپ کا رنگ زرد ہو رہا تھا مگر اپ نے کچھ نہیں بولا جب اپ بیان کرنے سے فارغ ھوے اور کمر سے کپڑا ہٹایا تو دیکھا بچھوں نے سولہ مرتبہ ڈسا تھا فرمایا میں نے عظمت احادیث نبوی ﷺ کی وجہ سے صبر کیا

ایک نیک بندے کی ماں فوت ہوئ تو اس کو اللّٰه پاک نے الہام کر دیا اب سنھبل کے چل کیونکہ پہلے تمہاری ماں اپ کے لیے دعا کرتی تھی اب وہ نہیں رہی ۔

  حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰه علیہ کے مواعظ میں ہیں کہ چار عین ہیں ۔ عابد ُ عالم ُ عارف ُعاشق ۔ تین بھٹک سکتے ہیں لیکن اللّٰه پاک کا عاشق نہیں بھٹک سکتا ۔ شیطان عالم ُ عابد اور عارف تھا لیکن اللّٰه پاک کا عاشق نہیں تھا اس لیے بھٹک گیا ۔

  ایک مجاہد پر لاتعداد گولیوں کا بوچھاڑ ہوا اس کے کپڑے چھلنی ہو گئے جو سلائ کے قابل نہیں تھے لیکن اللّٰه پاک نے اس کی حفاظت کی ۔

پیٹ میں جب بچہ چار مہینے کا ہو جاتا ہے تو اللّٰه پاک ان میں روح ڈالنے کےلیے فرشتے بھیجتا ہیں اور ان کے بارے میں چار چیزوں کے لکھنے کا حکم دیا جاتا ہے 1) اس کا رزق کتنا ہوگا 2) اس کی زندگی کتنی ہوگی 3) اس کی موت کب اور کہا ہو گی 4) یہ نیک بخت ہوگا یا بد بخت ۔

جب حضرت خواجہ قطب الدین کاکی رحمۃ اللّٰه علیہ کا انتقال ہوا تو جنازے کے وقت ان کی وصیت سامنے آئی ۔ کہ وہ شخص میرا جنازہ پڑھاۓ گا جس میں چار خوبیاں ہوں ایک 1) زندگی میں کبھی تکبیر اولٰی فوت نہ ھوئی ہو 

دو 2) تہجد کی نماز کبھی فوت نہ ہوئی ہو  

تین 3) غیر محرم پر کبھی نظر نہیں ڈالی ہو

چار 4) عصر کی سنتیں کبھی نہیں چھوڑی ہو 

بالآخر لوگوں نے یہ عجب نظارہ دیکھا کہ وقت کے بادشاہ سلطان شمس الدین التمش رحمۃ اللّٰه علیہ جنازہ پڑھانے کے لیے بڑھے۔۔

    سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللّٰه علیہ کا عیسائیوں کے ساتھ جنگ کرنا تھا ۔ عیسائیوں کی تعداد زیادا تھی اور ایک سمندری بیڑا بھی ان کی مدد کے لیے ارہا تھا ۔ سلطان رحمۃ اللّٰه علیہ ساری رات اللّٰه پاک سے رو رو کر مدد کی درخواست کرتا رہا ۔ صبح پتہ چلا کہ بیڑا سمندر میں اللّٰه پاک نے غرق کر دیا ہے ۔

جدید تحقیق سے پتہ چلا ہے جب انسان ہاتھ سے کھانا کھاتا ہے تو اس کی انگلیوں سے پلازما پیدا ہوتا ہے جو چاٹنے سے پیٹ میں چلا جاتا ہے اور ہاضمے کا سبب بنتا ہے ۔

ایک بادشاہ نے اپنے غلاموں سے ایک راز کی بات کہی اور انہیں منع کیا کہ اس بات کو کسی دوسرے پر ظاہر نہ کرنا ۔ ایک سال تک تو خیریت رہی ، پھر ان غلاموں میں سے ایک نے اپنے کسی دوست کے سامنے یہ بھید ظاہر کر دیا اور اسے تاکید کی کہ یہ کسی دوسرے کو نہ بتانا ۔ اس کے دوست نے بھی اسی طرح کسی دوسرے کو یہ بات بتادی ۔ رفتہ رفتہ یہ بات ہر طرف پھیل گئی ، بادشاہ کو جب علم ہوا تو اس نے غضبناک ہو کر حکم دیا کہ ان غلاموں کے سر قلم کر دو ۔ ان میں سے ایک نے امان چاہی اور عرض کیا کہ اے بادشاہ ! اپنے غلاموں کو قتل نہ کرو ، کیونکہ اس خطا کی ابتدا آپ نے ہی کی ہے ۔ آپ نے شروع ہی میں چشمے کا منہ بند کیوں نہ کیا ، جب وہ سیلاب بن گیا تو اس کے آگے بند باندھنے کا کیا فائدہ ۔ آپ جب تک بات منہ سے نہیں نکالتے ، آپ کا اس پر قابو ہے ، جب منہ سے نکال دی ، تو وہ آپ کے اوپر قابو پا لے گی ۔ 

حضرت عمرؓ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں سرور کائنات ﷺ  کے روضہ اقدس کی زیارت کے لئے گئے وہاں روضہ کے سامنے ایک (اعرابی) دیہاتی کھڑا دعا مانگ رہا تھا حضرت عمرؓ اس کے پیچھے خاموش کھڑے ہو گئے وہ اعرابی یہ دعا مانگ رہا تھا (اے میرے رب یہ آپ کے حبیب ﷺ ہیں ، میں آپ کا بندہ (غلام ) ہوں اور شیطان آپ کا دشمن ہے) اے میرے رب اگر آپ میری  مغفرت کر دیں گے تو آپ کےحبیب ﷺ خوش ہو جائیں گے اور آپ کا یہ بندہ کامیاب ہو جائے گا اور آپ کا دشمن غمگین اور ذلیل و خوار ہو جائے گا اور اگر آپ نے میری مغفرت نہ فرمائی تو آپ کے حبیب ﷺ پریشان ہو جائیں گے ، دشمن خوش ہو جائے گا اور یہ بندہ ہلاک ہو جائے گا۔  آپ بہت کرم اور عزت و شرف والے اس بات سے بہت بلند و بالا ہیں کہ آپ اپنے حبیب ﷺ کو پریشان ، اپنے دشمن کو خوش اور اپنے بندے کو ہلاک کریں۔اے میرے اللہ شرفاءِ عرب کا دستور ہے کہ جب ان میں سے کسی سردار کا انتقال ہو جاتا ہے تو اس کی قبر پر اس کے تمام غلاموں کو آزاد کر دیا جاتا ہے اور یہ تو تمام جہانوں کے سردار کی قبر مبارک ہے مجھے ان کی قبر مبارک پر جہنم کی آگ سے آزاد فرما۔حضرت عمرؓ نے بھی اونچی آواز میں کہا اے میرے رب میں بھی یہی دعا مانگتا ہوں جو اس اعرابی نے مانگی ہے اور اتنے روئے کہ داڑھی مبارک آنسوؤں سے تر ہو گئ ۔ 

حجاج بن یوسف جو ظلم و جبر میں ایک مشہور شخص گذرا ہے ، دو باغی نوجوانوں کی گرفتاری کے لئے از حد پریشان تھا ۔ یہ دونوں اس ربعی بن حراش کے بیٹے تھے ، جو اپنی راست گفتاری ( سچ بولنے ) میں مشہور تھے اور اپنے باپ ہی کے مکان میں کسی نامعلوم جگہ روپوش تھے ۔ جب پولیس ارد گرد کے شہروں اور مواضعات میں نوجوانوں کو تلاش نہ کرسکی تو کسی نے حجاج کو مشورہ دیا کہ خود ربعی بن حراش سے کیوں نہ دریافت کر لیا جائے کہ ان کے لڑکے کہاں ہیں ۔ وہ کبھی جھوٹ نہیں بولتے ، اس لئے اپنے لڑکوں کے معاملے میں بھی وہ سچا بیان دیں گے ۔حجاج نے کہا : جاؤ آج خوب آزمانے کا موقع ہے ۔ جب پولیس ربعی بن حراش کے پاس پہنچی اور ان سے ان کے دونوں باغی اولاد کے متعلق سوال کیا کہ وہ دونوں کہاں ہیں ، تو صاف صاف سچ بتا دیا کہ وہ دونوں گھر میں موجود ہیں ۔ پولیس گھر میں داخل ہوئی اور دونوں کو آسانی سے گرفتار کر لیا ۔

جب یہ ماجرا حجاج کے سامنے پیش ہوا اور گرفتار شدہ باغی نوجوان بھی پیش ہوئے تو ربیعی کی صداقت پسندی و راست گفتاری پر حجاج عش عش کرنے لگا اور کہا کہ اس سخت کڑی آزمائش میں بھی ربعی پورے اتر گئے ہیں ، ان کی صداقت و سچائی کی وجہ سے ان کے دونوں بچوں کی جاں بخشی کرتا ہوں اور ربعی کے اس فضل و مقام کا اعتراف کرتا ہوں ، جو ان کی صدق بیانی و راست بازی سے انہیں حاصل ہوا ہے ۔

تاریخ کے سچے واقعات مؤلف : مولانا ارسلان اختر

کہتے ہیں کہ اورنگ زیب عالمگیر رحمہ اللہ تخت شاہی پر بیٹهنے کے بعد بھی نہایت ساده اور محتاط زندگی بسر کی، بادشاہ کے ذاتی باورچی کی بابت ظاہر ہے کہ بہت عزت و شہرت کی چیز سمجهی جاتی تهی اس لئے بڑے بڑے ہنر مند باورچی بیحد شوق اور آرزو سے یہ خدمتِ خاص حاصل کرتے مگر بعد میں حقیقت کهل جاتی کہ نپی تلی کهچڑی یا معمولی روٹی دونوں وقت پکتی اور تمام کی تمام بادشاہ سلامت کے سامنے دستر خوان پر چلی جاتی ہے اور دستر خوان سے صاف برتن واپس آتے۔ 

یعنی باورچی کو اپنا پیٹ بهرنے کے لئے بهی کچھ نہیں ملتا، خشک تنخواہ پر گزارہ کرنا پڑتا اس لئے چند ہی روز میں وه ملازمت ترک کر کے چلے جاتے یا شاہی مطبخ عام میں تبدیلی کرا لیتے، بار بار کے استعفوں سے تنگ بادشاہ نے نئے باورچی سے معاہده کیا کہ کم از کم ایک برس تک ملازمت میں رہنا پڑے گا اور اس عرصہ میں استعفیٰ قبول نہ ہو گا۔ 

ناواقف باورچی نے خوشی سے معاہده کر لیا مگر جلد ہی اس پر بهی حقیقت کهل گئی اور اب باورچی مصیبت میں پڑ گیا، نہ گزر ہوتی نہ استعفیٰ دے سکتا، تنگ آ کر اس نے سوچا کہ بادشاہ کو اس قدر ناراض کرو کہ وه خود ہی نکال دے لہٰذا اس نے کهچڑی میں زیاده نمک ڈال دیا، بادشاہ نے کهچڑی کها لی۔ 

باورچی کی طرف صرف نظر اٹها کر دیکها مگر کہا کچھ نہیں، باورچی نے مایوس ہو کر اگلے دن بالکل نمک نہ ڈالا اور پهیکی کهچڑی پکائی، بادشاہ نے اس دن بهی کچھ نہ کہا۔ تیسرے دن باورچی نے صحیح مقدار نمک کی ڈالی، بادشاہ نے اس باورچی کو نظر اٹها کر دیکها اور نہایت تحمل سے فرمایا میاں! ایک ڈهنگ اختیار کر لو، یا تو برابر کا نمک ہمیشہ یا بالکل پهیکی پکایا کرو، معتدل ذائقہ ہو، بار بار نمک کی مقدار بدلنے کی تکلیف مت اٹهاؤ۔ 

باورچی ہاتھ باندھ کر کهڑا ہو گیا اور کہا جہاں پناہ! میں سات لڑکیوں کا باپ ہوں، شاہی باورچی کہلاتا ہوں لوگوں کو مجھ سے بڑی توقعات ہیں اور میری حالت یہ ہے کہ فاقوں مرتا ہوں، میں نے یہ سمجھ کر ملازمت کی تهی کہ جہاں پناہ کی ذاتی خدمت بجا لا کر کچھ عرصہ میں متمول ہوں گا مگر اب سال بهر تک فاقہ ہی نظر آتا ہے، یہ تصدیق فرما کر خادم کو آزاد فرمایا جائے۔

بادشاہ نے پوچھا آزادی کی خواہش ہے یا روپے کی ضرورت؟ عرض کیا روپے کی زیاده ضرورت ہے، کہا کہ اچها آج آدھ پاؤ کهچڑی زیاده پکا لینا، باورچی کچھ نہ سمجها اور آدھ پاؤ کهچڑی زیاده پکا لی۔

بادشاہ نے اپنا حصہ کهانے کے بعد باقی ماندہ کهچڑی کے سات حصے کئے ایک ایک طشتری میں ایک ایک حصہ ڈال کر خوان میں لگا کر کہا کہ ہمارے سات وزیروں کو ہمارا یہ تحفہ پہنچا دو چونکہ آج تک وزیروں کو ایسا تحفہ نہیں ملا تها، وزیروں کو اس غیر معمولی شاہی التفات کی خبر لگی تو ان کی خوشیوں کی کوئی انتہا نہ رہی۔ 

شاہی باورچی کا اپنے دروازوں پر بڑا استقبال ہوا اور شاہی تحفہ لانے کے صلہ میں ہر وزیر نے باورچی کو ایک ایک لاکھ روپے نقد رقم ادا کی، باورچی یہ سات لاکھ کی رقم اور کافی ساز و سامان کمانے کے بعد بادشاہ کی خدمت میں پیش ہوا، بادشاہ نے پوچها؛ کہو گزارے کی کوئی صورت نکل آئی؟

باورچی نے دست بستہ عرض کی کہ حضور کی توجہ کی بدولت اب عمر بهر کے لئے بےفکری ہو گئی، اب کوئی حاجت باقی نہ رہی، بادشاہ نے کہا آئینده کهچڑی میں نمک صحیح انداز سے ڈالا کرنا۔

(مساوات اسلام سے ایک اقتباس)

حضرت رابعہ بصری رحمۃ اللہ اپنے والدین کی چوتھی بیٹی تھیں، اسی لیے آپ کا نام رابعہ یعنی ”چوتھی“ رکھا گیا۔ وہ ایک انتہائی غریب لیکن معزز گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ 

حضرت رابعہ بصری رحمۃ اللہ کے والدین کی غربت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جس شب حضرت رابعہ بصری رحمۃ اللہ پیدا ہوئیں، آپ کے والدین کے پاس دیا جلانے کے لیے تیل تھا اور نہ آپ کو لپیٹنے کے لیے کوئی کپڑا۔

آپ کی والدہ نے آپ کے والد سے درخواست کی کہ پڑوسیوں سے تھوڑا تیل ہی لے آئیں تاکہ دیا جلایا جا سکے۔ آپ کے والد نے پوری زندگی اپنے خالقِ حقیقی کے علاوہ کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلایا تھا، چنانچہ وہ پڑوسی کے دروازے تک تو گئے لیکن خالی ہاتھ واپس لوٹ آئے۔

رات کو حضرت رابعہ بصری رحمۃ اللہ کے والد کو خواب میں حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے رابعہ کے والد کو بشارت دی کہ:

 " تمہاری نومولود بیٹی خدا کی برگزیدہ بندی بنے گی اور مسلمانوں کو صحیح راہ پر لے کر آئے گی۔ تم امیرِ بصرہ کے پاس جاؤ اور اسے ہمارا پیغام دو کہ تم (امیرِ بصرہ) ہر روز رات کو سو (100) مرتبہ اور جمعرات کو چار سو (400) مرتبہ درود کا نذرانہ بھیجتے ہو، لیکن پچھلی جمعرات کو تم نے درودشریف نہ پڑھا، 

لہٰذا اس کے کفارہ کے طور پر چار سو (400) دینار ۔۔۔ بطور کفارہ یہ پیغام پہنچانے والے کو دے دو "۔

حضرت رابعہ بصری رحمۃ اللہ کے والد اٹھے اور امیرِ بصرہ کے پاس پہنچے۔ اس دوران آپ کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو جاری تھے۔ 

جب امیرِ بصرہ کو حضرت رابعہ بصری رحمۃ اللہ کے والد کے ذریعے حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ پیغام ملا تو وہ یہ جان کر انتہائی خوش ہوا

 کہ وہ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظروں میں ہے۔

اس نے شکرانے کے طورپر فوراً ایک ہزار (1000) دینار غرباء میں تقسیم کرائے اور چار سو (400) دینار حضرت رابعہ بصری رحمۃ اللہ کے والد کو ادا کیے اور ان سے درخواست کی کہ جب بھی کسی چیز کی ضرورت ہو بلا جھجھک تشریف لائیں۔

کچھ عرصے بعد حضرت رابعہ بصری رحمۃ اللہ کے والد انتقال کر گئے۔ 

اس اثناء میں بصرہ کو سخت قحط نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

قحط کے دوران آپ (رابعہ بصری) اپنی بہنوں سے بچھڑ گئیں۔ حضرت رابعہ بصری رحمۃ اللہ ایک قافلے میں جا رہی تھیں کہ قافلے کو ڈاکوؤں نے لوٹ لیا اور ڈاکوؤں کے سرغنہ نے حضرت رابعہ بصری رحمۃ اللہ کو اپنی تحویل میں لے لیا اور آپ کو لوٹ کے مال کی طرح بازار میں لونڈی بنا کر بیچ دیا۔

آپ کا آقا آپ سے انتہائی سخت محنت و مشقت کا کام لیتا تھا۔ اس کے باوجود آپ دن بھر کام کرتیں اور رات بھر عبادت کرتی رہتیں اور دن میں بھی زیادہ تر روزے رکھتیں۔ 

اتفاقاً ایک دفعہ حضرت رابعہ بصری رحمۃ اللہ  کا آقا آدھی رات کو جاگ گیا اور کسی کی گریہ و زاری کی آواز سن کر دیکھنے چلا کہ رات کے اس پہر کون اس طرح گریہ و زاری کر رہا ہے

وہ یہ دیکھ کرحیران رہ گیا کہ حضرت رابعہ بصری  اللہ کے حضور سر بسجود ہیں اور نہایت عاجزی کے ساتھ کہہ رہی ہیں

" اے اللہ ! تو میری مجبوریوں سے خوب واقف ہے۔ گھر کا کام کاج مجھے تیری طرف آنے سے روکتا ہے۔ تو مجھے اپنی عبادت کے لیے پکارتا ہے مگر میں جب تک تیری بارگاہ میں حاضر ہوتی ہوں، نمازوں کا وقت گزر جاتا ہے۔ اس لیے میری معذرت قبول فرما لے اور میرے گناہوں کو معاف کر دے۔ 

اپنی کنیز کا یہ کلام اور عبادت کا یہ منظر دیکھ کر حضرت رابعہ بصری رحمۃ اللہ کا مالک خوفِ خدا سے لرز گیا۔ 

اس نے یہ فیصلہ کیا کہ ایسی اللہ والی کنیز سے اپنی خدمت کرانے کی بجائے بہتر یہ ہوگا کہ خود اس کی خدمت کی جائے۔ 

صبح ہوتے ہی وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے فیصلے سے آپ کو آگاہ کیا۔ اس نے کہا کہ آج سے آپ میری طرف سے آزاد ہیں۔ اگر آپ اسی گھر میں قیام کریں تو میری خوش نصیبی ہو گی وگرنہ آپ اپنی مرضی کی مالک ہیں، تاہم اگر آپ یہاں سے کوچ کر جانے کا فیصلہ کرتی ہیں تو میری بس ایک درخواست ہے کہ میری طرف سے کی جانے والی تمام زیادتیوں کو اس ذات کے صدقے معاف کر دیں، جس کی آپ راتوں کو جاگ جاگ کر عبادت کرتی ہیں۔

Comments