65🌺) ٹیسٹ ٹیوب بےبی کے ذریعہ حمل


ٹیسٹ ٹیوب بےبی کے ذریعہ حمل 

ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی پیدائش کا یہ غیر فطری طریقہ جس میں مرد کے مادہ منویہ اور اس کے جرثومے حاصل کر کے دوسری اجنبی عورت کے رحم میں غیر فطری طریقہ سے ڈالے جاتے ہیں اور مدتِ حمل پوری ہو جانے کے بعد جب بچہ پیدا ہو جاتا ہے تو مرد اُجرت دے کر بچہ لے لیتا ہے۔اولاد کے خواہشمند میاں بیوی کے جرثومے ناقص یا اولاد پیدا کر نے والے نہ ہو نے کی بنا پر کسی ایسے اجنبی مرد کے جرثومے کو ملا کر بیوی کے رحم میں داخل کر دیں، جس کے جرثومے میں اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت ہو ۔

مذکورہ دو صورتیں از روئے شرع ناجائز اور حرام ہیں، کیونکہ اجنبی مرد نے اجنبی عورت کے رحم میں اپنے مادہ منویہ کو داخل کیا ہے۔

البتہ ان دو صورتوں میں جو اولاد پیدا ہوگی، اُن کا نسب قرآن و حدیث کے لحاظ سے اُس مرد سے ثابت نہ ہوگا جس کا مادہ منویہ اجنبی عورت کے رحم میں ڈالا گیا ہے، کیونکہ شریعت کے اصول میں ثبوتِ نسب کے لیے عورت کا منکوحہ ہونا ضروری ہے اور اجنبی عورت اولاد کے خواہشمند مرد کے لیے منکوحہ نہیں ہے ، بلکہ یہ اجنبی عورت اگر کسی مرد کی منکوحہ ہے تو بچہ کا نسب اس عورت کے شوہر سے ثابت ہوگا ، لیکن اگر اجنبی عورت بے شوہر ہے تو پھر بھی اجنبی مرد جس کے جرثومے سے بچہ پیدا ہوا ہے، اس سے نسب ثابت نہ ہوگا، بلکہ عورت ہی سے بچہ کا نسب ثابت ہوگا ، بچہ کی نسبت عورت کی طرف کی جائے گی ، اس کی قانونی حیثیت ولد الزنا کی ہو گی۔

 ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے ذریعہ اولاد پیدا کرنے کا اور طریقہ یہ ہے کہ جس میں مرد اور عورت دونوں میاں بیوی ہوں، مگر فطری طریقہ سے ہٹ کر غیر فطری طریقہ سے مرد اور عورت دونوں کے جرثومے کو نکال کر خاص ترکیب سے بیوی کے رحم میں داخل کرتے ہیں ۔

اس کا حکم یہ ہے کہ اس میں شوہر کے مادہ منویہ کو اپنی منکوحہ کے رحم میں داخل کیا گیا ہے، جو کہ ناجائز نہیں ہے، اس طرح اس سے اگر حمل ٹھہرا تو بچہ بھی ثابت النسب ہوگا، اس وجہ سے کہ یہ زنا کے حکم میں نہیں ہے اور اس میں گناہ بھی نہیں ہوگا، جبکہ دونوں کے جرثومے کو نکالنے اور داخل کرنے میں کسی اجنبی مرد یا عورت کا عمل دخل نہ ہو، بلکہ سارا کام میاں بیوی خود ہی انجام دیں ۔ لیکن ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے مذکورہ طریقہ کو اگر اجنبی مرد یا اجنبی عورت ڈاکٹر کے ذریعے انجام دیا جاتا ہے تو جائز نہیں ہے، یعنی گناہِ کبیرہ کا ارتکاب ہوگا ، تاہم نسب شوہر سے ثابت ہوگا ، باپ سے وراثت بھی ملی گی

 احسن الفتاویٰ  میں ہے 

’’عورت کی شرمگاہ یا رحم میں کوئی ایسا مرض ہو جو جسمانی تکلیف و اذیت کا باعث ہو تو اس کا علاج طبیبہ سے کروانا جائز ہے، مرد طبیب سے جائز نہیں ،البتہ اگر مرض مہلک یا نا قابلِ برداشت ہو اور طبیبہ میسر نہ ہو تو مرد طبیب سے علاج کروانا جائز ہے۔

ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے طریقہ کار میں کسی ایسے مرض کا علاج نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے کسی جسمانی تکلیف میں ابتلاء ہو، یہ دفعِ مضرتِ بدنیہ نہیں، بلکہ جلبِ منفعت ہے ، اس لیے یہ عمل لیڈی ڈاکٹر سے کروانا انتہائی بے دینی کے علاوہ ایسی بے غیرتی و بے شرمی بھی ہے جس کے تصور سے بھی انسانیت کوسوں دور بھاگتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کو ناراض کر کے جو اولاد حاصل کی گئی، وہ وبال ہی بنے گی

(احسن الفتاویٰ، ج:۸، ص:۲۱۴، کتاب الحظر والاباحۃ، دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم

جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

Comments