74) حرام اور مشتبہ سے اپنے آپ کو بچائیں


حرام اور مشتبہ سے اپنے آپ کو بچائیں

‘‘حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا:’’ وَأَہْوَی النُّعْمَانُ بِإِصْبَعَیْہِ إِلٰی أُذُنَیْہِ ‘‘۔۔۔ ’’حضرت نعمان رضی اللہ عنہ نے اپنے سننے کو یقینی طور پر بیان کرنے کے لیے اپنی انگلیوں سے اپنے کانوں کی طرف اشارہ کیا کہ میرے ان کانوں نے خود سنا۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’إِنَّ الْحَلاَلَ بَیِّنٌ وَإِنَّ الْحَرَامَ بَیِّنٌ ‘ حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے

   حلال پر قناعت کرنا

حلال پر قناعت کرنے اور حلال کو اختیار کرنے سے اللہ تعالیٰ برکت بھی دیتے ہیں اور نیک اعمال کی توفیق بھی عطا فرماتے ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر حلال کو اختیار کرنے کا حکم دیا ہے،کھانے پینے سے متعلق بھی انبیاء کو اور ان کے ذریعہ ان کی اُمتوں کو یہ حکم دیا گیا کہ حلال اور پاکیزہ چیزوں کو کھاؤ،اور نیک اعمال کرو،سورۂ مومنون میں ارشاد ہے

’’یٰٓاَیُّہَا الرُّسُلُ کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا إِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ‘‘ (المومنون:۵۱)

’’اے پیغمبرو! تم (اور تمہاری اُمتیں) نفیس، پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور نیک اعمال کرو (اور) میں تم سب کے کیے ہوئے کو خوب جانتا ہوں۔

مفسرین نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں حلال روزی کے ساتھ عمل صالح کا ذکر فرمایا ہے، جس سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ ان دونوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور یہ ایک دوسرے کے معاون ہیں۔ حلال غذا کا عمل صالح میں بڑا دخل ہے۔ جب انسان کی غذا حلال ہوتی ہے تو نیک اعمال کی توفیق اسے خود بخود ہونے لگتی ہے اور جب غذا ہی حرام ہو تو نیک کام کا ارادہ کرنے کے باوجود بھی اس راہ میں مشکلات حائل ہو جاتی ہیں اور آدمی نیکی سے محروم ہو جاتا ہے۔ 

حرام کی نحوست

اسی طرح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص کا کھانا پینا حرام ہو، اسے دعاؤں کی قبولیت کی بھی آس نہیں لگانی چاہیے، اسے دعاؤں کی قبولیت کی بھی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ سننِ ترمذی میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کا ذکر کیا:’’ یُطِیْلُ السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ یَمُدُّ یَدَہٗ إِلَی السَّمَائِ‘‘۔۔۔ ’’جو طویل لمبا سفر کرتا ہے، پریشان حال ہے، اور اس کے بال خاک آلود ہو رہے ہیں وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف پھیلا کر کہتا ہے‘‘:’’ یَا رَبِّ ! یَا رَبِّ!‘‘ ۔۔۔ ’’اے میرے رب ... اے میرے پروردگار‘‘ یعنی دعا کے لیے ہاتھ اُٹھا کر پکار رہا ہوتا ہے، اس کی ظاہری حالت سے مسکنت عیاں ہے، قابلِ رحم شخص لگتا ہے، ایسی حالت میں اس کی دعا قبول ہونی چاہیے،قبولیت کے ظاہری اسباب بھی موجود ہیں،اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مسافر کی دعا رد بھی نہیں ہوتی، اس سب کچھ کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ : ’’وَمَطْعَمُہٗ حَرَامٌ وَمَشْرَبُہٗ حَرَامٌ وَمَلْبَسُہٗ حَرَامٌ وَغُذِيَ بِالْحَرَامِ‘‘ ۔۔۔ ’’اس کا حال یہ ہوتاہے کہ روٹی اس کی حرام، کپڑے اس کے حرام، اور جسم اس کا حرام کی روٹیوں سے پلا ہوا‘‘۔۔۔ ’’فَأَنّٰی یُسْتَجَابُ لِذٰلِکَ‘‘ ۔۔۔ ’’اب کس طرح ایسے شخص کی دعا قبول ہو ؟ (ترمذی)آج کل بہت سی دعائیں کی جاتی ہیں، مگر لوگوں کا شکوہ یہ ہوتا ہے کہ دعائیں قبول نہیں ہوتیں، اس لیے ہر شخص کو اپنے حال پر غور کرنا چاہیے، اور اپنی زندگی کا جائزہ لینا چاہیے، میں کتنا حلال کماتا ہوں، اور کس قدر اپنے آپ کو حرام سے بچاتا ہوں؟

  مستجاب الدعوات بننے کا عمل

معلوم ہوا کہ دعاؤں اور عبادات کی قبولیت کے لیے بھی حلال کھانا شرط ہے، اسی لیے ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے گزارش کی کہ یا رسول اللہ! ’’ اُدْعُ اللّٰہَ أَنْ یَّجْعَلَنِيْ مُسْتَجَابَ الدَّعْوَۃِ‘‘۔۔۔ ’’آپ میرے حق میں دعا کیجیے کہ اللہ تعالیٰ میری دعاؤں کو قبول فرمایا کرے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ یَا سَعْدُ! طَیِّبْ مَطْعَمَکَ، تَکُنْ مُسْتَجَابَ الدَّعْوَۃِ‘‘ ۔۔۔’’سعد !پاکیزہ چیزیں کھاؤ،حلال لقمہ کھایا کرو،اللہ تعالیٰ تمہاری دعائیں قبول فرماتا رہے گا

 حرام کی آمیزش سے بھی بچنے کا حکم

ہمارا دین اور ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حرام کی ذرہ برابر آمیزش سے بھی بچنے کا حکم دیا ہے،حرام مال اگرچہ قلیل کیوں نہ ہو اس کو بھی اپنے حلال مال میں خلط ملط نہ کریں، حرام کو حلال میں شامل نہ کریں،اگرچہ زیاہ مال حلال ہو اور اس میں کسی قدر حرام شامل ہوجائے یہ بھی انسان کے لیے عبادات اور دعاؤں کی قبولیت کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ مشکوٰۃ شریف میں سیدنا حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ایک روایت منقول ہے، وہ ارشاد فرماتے ہیں کہ

’’مَنِ اشْتَرٰی ثَوْبًا بِعَشَرَۃِ دَرَاہِمَ ، وَفِیْہِ دِرْہَمٌ حَرَامٌ‘‘ ۔۔۔ ’’ اگر کوئی شخص ایک کپڑا دس درہم میں خریدے اور ان دس دراہم میں سے ایک درہم بھی حرام مال کا ہو‘‘ تو ’’لَمْ یَقْبَلِ اللّٰہُ لَہٗ صَلاَۃً مَادَامَ عَلَیْہِ‘‘ ۔۔۔ ’’اللہ تعالیٰ اس وقت تک اس شخص کی نماز نہیں قبول کرے گا جب تک کہ آدمی کے جسم پر وہ کپڑا ہوگا۔‘‘ اس حدیث کے بیان کرنے کے بعد حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی شہادت کی دونوں انگلیاں اپنے کانوں میں ڈالیں اور کہا کہ:’’صُمَّتَا إِنْ لَمْ یَکُنِ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَمِعْتُہٗ یَقُولُہٗ‘‘ ۔۔۔’’یہ دونوں کان بہرے ہو جائیں اگر میں نے یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے نہ سنا ہو۔ 

 مشتبہات سے بچنا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ

’’وَبَیْنَہُمَا مُشْتَبِہَاتٌ لاَ یَعْلَمُہُنَّ کَثِیْرٌ مِنَ النَّاسِ ، فَمَنِ اتَّقٰی الشُّبُہَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِیْنِہٖ وَعِرْضِہٖ وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُہَاتِ وَقَعَ فِي الْحَرَامِ۔‘‘

’’حلال وحرام کے درمیان کچھ مشتبہات ہیں جنہیں اکثر لوگ نہیں جانتے ،پس جو شخص شبہ میں ڈالنے والی چیز سے بچا،اپنے آپ کو محفوظ رکھا، اس نے اپنے دین اور عزت کو محفوظ کرلیا اور جو شبہ ڈالنے والی چیزوں میں پڑ گیا تو وہ حرام میں پڑ گیا ۔

یعنی کچھ چیزیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کی حرمت یا حلت یعنی ان کے حلال و حرام ہونے کے بارے میں دلائل مختلف ہوتے ہیں اور دلائل کے تعارض کی وجہ سے کوئی واضح حکم معلوم نہیں ہوتا، بلکہ یہ اشتباہ رہتا ہے کہ آیا یہ چیزیں حرام ہیں یا حلال ہیں۔ اور ایسی کتنی ہی چیزیں ہیں جن کے حلال ہونے کی دلیلیں بھی ہیں اور حرام ہونے کی بھی، تو اس صورت میں کوئی واضح فیصلہ کرنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں ہوتی، تو عام شخص کے بارے میں شریعت کی تعلیم یہی ہے کہ ایسی مشتبہ چیزوں سے انسان اپنے آپ کو بچائے، مشتبہ چیزوں سے بھی احتراز اور اجتناب کرے۔ علماء نے اس کی بہت ساری مثالیں لکھی ہیں، اور یہ اشتباہ معاملات میں زیادہ پیش آسکتا ہے، لہٰذا ایسے معاملہ سے بھی انسان بچے جس میں شبہ پایا جاتا ہو۔اور جو آدمی شبہات سے بچتا ہے وہ حرام سے بھی محفوظ رہے گا اور جو شبہات سے نہیں بچے گا وہ ایک نہ ایک دن حرام میں واقع ہوجائے گا۔ اور جہاں کہیں شبہ پیش آئے وہاں انسان کو مستند علماء سے پوچھ لینا چاہیے کہ آیا یہ معاملہ درست ہے یا نہیں؟ یہ کاروبار کرنا جائز ہے یا نہیں؟ وغیرہ ۔

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کامشتبہ کھجور نہ کھانا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم راستے سے گزر رہے تھے، وہاں آپ نے ایک کھجور کا دانہ پڑا دیکھا، تو ارشاد فرمایا کہ: ’’لَوْلَا أَنِّيْ أَخَافُ أَنْ تَکُوْنَ مِنَ الصَّدَقَۃِ لَأَکَلْتُہَا‘‘ ۔۔۔ ’’اگر مجھے اس کھجور کے بارے میں صدقہ کا خوف نہ ہوتا تو میں اسے کھا لیتا‘‘یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ کے شبہ کی وجہ سے وہ کھجور نہیں کھائی،باوجود یہ کہ آپ کو ضرورت تھی۔ اسی لیے ضرورت کے مواقع پر بھی انسان اپنے آپ کو مشتبہ سے بچالے‘ یہ کمالِ احتیاط ہے۔

 امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا مشتبہ نفع سے بچنا

حدیث میں ارشاد فرمایا گیا کہ: جہاں شبہ آجائے اس سے بھی اپنے آپ کو بچاؤ۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ بہت بڑے فقیہ ،عالم اور بزرگ گزرے ہیں،یہ کپڑے کے بہت بڑے تاجر بھی تھے۔ آپ کے تقویٰ کا یہ عالم تھا کہ مشتبہ چیزوں سے بالکل اجتناب کرتے تھے۔ ان کے بارے میں ایک واقعہ یہ لکھا ہے کہ انہوں نے ایک کپڑا بنوا کر سپلائی کیا، اور کپڑا لاکھوں روپے کا تھا،ایک تاجر کو وہ کپڑا فروخت کرنے کے لیے بھیجا، اس تاجر نے یہ دیکھا کہ فی الحال اس کپڑے کے دام ذرا سستے ہیں اور کچھ مہینوں بعد اس کے دام زیادہ ہوجائیں گے تو کپڑا فروخت کرنے سے روک لیا، تاکہ کچھ عرصے کے بعد زیادہ بیچنے سے زیادہ رقم وصول ہو۔ کچھ ماہ بعد جب لوگوں کی ضرورت بڑھی تو انہوں نے دام بڑھا کر کپڑا فروخت کردیا، اب جب زیادہ رقم لے کر امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے پاس پہنچے اور خوشی سے بتایا کہ اس کے کچھ عرصہ روک دینے اور کچھ قیمت بڑھانے سے زیادہ دام وصول ہوئے ہیں،تو امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے عجیب جواب دیا، فرمایاکہ: معاذ اللہ!اللہ کی پناہ! آپ نے تو لوگوں کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اُٹھایا ہے،یہ کہہ کر خفا ہوگئے،فرمایا کہ: اس مال میں اشتباہ پیدا ہوگیا، لوگوں نے اپنی مجبوری کی وجہ سے زیادہ رقم ادا کی ہے۔ امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ اس نفع پر خفا ہوئے کہ چونکہ اس نفع میں شبہ پیدا ہو گیا ہے، لہٰذا یہ مال میں نہیں لوں گا،یہ میرے کام کا اب نہیں ہے۔ فرمایا: جاؤ! یہ سب غریبوں میں تقسیم کردو،اس لیے کہ جب لوگوں کو ضرورت تھی تو تمہیں اسی وقت یہ چیز مقررہ قیمت پر بیچنی چاہیے تھی۔ اصل رقم اور نفع سارا تقسیم کروا دیا۔ دیکھیے! یہ لوگ کیسے اپنے آپ کو مشتبہات سے بچاتے تھے۔

 صحابہ رضی اللہ عنہم  کا طرزِ عمل

اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تو کیا ہی کہنا ان کے بلند رتبے اور ذوق تک کس کی رسائی ہوسکتی ہے . یہ حضرات مباح اور جائز اُمور کو بھی بسا اوقات ترک کر دیتے تھے کہ کہیں ہم ممنوع کی جانب نہ چلے جائیں ۔

حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے بارے میں بخاری شریف میں آتا ہے کہ ان کے ایک غلام نے کھانے کی کوئی چیز ان کی خدمت میں پیش کی، آپ نے اس چیز میں سے کچھ کھا لیا،اس کے بعد غلام نے کہا مجھے یہ چیز اس طرح حاصل ہوئی تھی کہ اسلام کے دور سے پہلے جاہلیت کے دور میں ایک آدمی کو میں نے اپنے آپ کو کاہن ظاہر کرکے کچھ بتلایا تھا غلام نے کہا کہ اس کہانت کے بدلہ میں اس شخص نے مجھے یہ چیز دی تھی جو میں نے آپ کو کھانے کے لیے دی ۔بخاری شریف میں ہے: ’’فَأَدْخَلَ أَبُوْبَکْرٍ یَدَہٗ فَقَائَ کُلَّ شَیْئٍ فِيْ بَطْنِہٖ‘‘۔۔۔ ’’صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو جب یہ معلوم ہوا تو انہوں نے فوراً حلق میں انگلی ڈال کر قے کردی کہ یہ چیزتو مشتبہ ہوگئی ‘‘۔ دیکھیے یہ لاعلمی میں جو کھا لیا یہ حرام نہیں تھا، مگر یہ ان حضرات کا تقویٰ تھا کہ جیسے ہی اشتباہ پیدا ہوگیا تو انہوں نے فوراً اپنے پیٹ سے اس چیز کو نکال دیا۔

اسی طرح حدیث کی کتابوں میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بارے میں حضرت زید بن اسلم رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ایک دن امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے دودھ نوش فرمایا تو انہیں بہت اچھا لگا، جس شخص نے انہیں دودھ پلایا تھا اس سے امیر المؤمنین نے پوچھا کہ یہ دودھ کہاں کا ہے؟ 

اس نے انہیں بتایا کہ ایک پانی پر میں گیا، وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ زکوۃ کے بہت سے اونٹ موجود ہیں اور انہیں پانی پلایا جا رہا ہے، پھر اونٹ والوں نے اونٹوں کا تھوڑا سا دودھ نکالا، اس میں سے تھوڑا سا دودھ میں نے بھی لے کر اپنی مشک میں ڈال لیا، یہ وہی دودھ ہے۔ یہ سنتے ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ اپنے منہ میں ڈالا اور قے کر دی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ عمل کمالِ تقویٰ  کی بنا پر تھا، ورنہ تو جہاں تک مسئلے کی بات ہے، یہ تو اگر مستحقِ زکوۃ‘ مال کا مالک ہو جانے کے بعد اسے کسی غیر مستحقِ زکوۃ کو ہبہ کر دے یا اسے تحفہ کے طور پر دے دے تو اسے استعمال میں لانا اور کھانا جائز ہے۔

 مشتبہ الفاظ سے اجتناب کا حکم

ایسی باتوں سے اجتناب کریں جن سے اشتباہ پیدا ہوتا ہو، قرآن کریم نے اہلِ ایمان کو مشتبہ الفاظ استعمال کرنے سے منع فرمایا ہے۔ احادیثِ مبارکہ میں بھی اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ اپنے غلام یا باندی کو ’’عبدي‘‘ اور ’’أمتي‘‘نہ کہو، اگرچہ ’’عبدي‘‘ کا ظاہری ترجمہ یہی ہے کہ اے میرے غلام  ... مگر اس لفظ سے یہ اشتباہ ہو سکتا ہے کہ پکارنے والا شاید اپنے آپ کو معبود سمجھ رہا ہو اور کہہ رہا ہو کہ ’’عبدي‘‘ اے میرے بندے! اور ’’أمتي‘‘ اے میری بندی!حالانکہ معبود تو صرف اللہ کی ذات ہے، تو ان الفاظ کے استعمال سے منع فرما دیا، ان کے بجائے فرمایا کہ: یہ کہہ دو: اے جوان ! اسی طرح صحیح مسلم کی ایک روایت میں ارشاد فرمایا کہ:’’ لَا تَقُوْلُوْا لِلْعِنَبِ الْکَرَمَ‘‘ ۔۔۔ ’’انگور کو ’’کرم ‘‘ نہ کہو‘‘ کیونکہ کرم کے معنی فیاضی ، سخاوت اور بخشش کے ہیں ، اور کرم تو مومن آدمی کا دل ہوا کرتا ہے۔ انگور سے چونکہ شراب بنائی جاتی ہے، اس لفظ سے بالواسطہ شراب کی تعریف ہوتی ہے، اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انگور کو کرم کہنے سے بھی منع فرما دیا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جو شخص شبہ میں ڈالنے والی چیز سے بچا، اپنے آپ کو محفوظ رکھا، اس نے اپنے دین اور عزت کو محفوظ کرلیا اور جو شبہ ڈالنے والی چیزوں میں پڑ گیا تو وہ حرام میں پڑ گیا۔ لہٰذا جو شخص مشتبہ چیزوں سے پرہیز کرتا ہے اسے نہ اپنے دین کے معاملہ میں کسی خرابی کا خوف رہے گا اور نہ کوئی اس پر طعن و تشنیع کرے گا۔ پھر رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اور جو شخص مشتبہ چیزوں میں مبتلا ہوا وہ حرام میں مبتلا ہو گیا اور اس کی مثال اس چرواہے کی سی ہے جو ممنوعہ چراگاہ کی مینڈ پر چراتا ہے اور ہر وقت اس کا امکان رہتا ہے کہ اس کے جانور اس ممنوعہ چراگاہ میں گھس کر چرنے لگیں۔

آپ نے مشتبہ چیزوں میں مبتلا ہونے والے کو ممنوعہ چراگاہ کے قریب عام جانور چرانے والے چرواہے کے ساتھ تشبیہ دی ہے کہ جس طرح چرواہے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے جانوروں کو کسی دوسرے شخص کی ممنوعہ چراگاہ سے دور رکھ کر چرائے، تا کہ اس شخص کے جانور اس دوسرے آدمی کی چراگاہ میں نہ گھس جائیں اور اگر چرواہا اپنے جانوروں کو ممنوعہ چراگاہ کی مینڈ پر چرائے گا تو پھر اس بات کا ہر وقت اندیشہ رہے گا کہ اس کے جانور ممنوعہ چراگاہ میں گھس جائیں جس کے نتیجہ میں اسے مجرم قرار دے دیا جائے گا۔ اسی طرح انسان کو چاہیے کہ وہ مشتبہ چیزوں سے دور رہے، تا کہ حرام چیزوں میں مبتلا نہ ہو جائے۔ اور مشتبہ چیزوں سے دور رہنے کا حکم اسی بنا پر ہے، تاکہ آدمی حرام سے بچ پائے، اور شریعت کی اصطلاحات میں اس کو ’’سدِ ذرائع ‘‘سے تعبیر کرتے ہیں۔ امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی ایک مثال حدیث سے بیان فرمائی ہے۔ حدیث پاک میں ہے: ’’مِنَ الْکَبَائِرِ شَتْمُ الرَّجُلِ وَالِدَیْہِ‘‘ اپنے والدین کو گالی دینا کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ ہے۔‘‘ صحابہ رضی اللہ عنہم نے یہ سن کرعرض کیا: یارسول اللہ! کیا کوئی شخص اپنے والدین کو بھی گالی دے سکتا ہے؟

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگ اپنے ماں باپ کو اگرچہ حقیقت میں خود گالی نہیں دیتے، مگر ان کو گالی دلوانے کا سبب ضرور بنتے ہیں اور وہ اس طرح کہ اگر کوئی شخص کسی کے باپ کو گالی دیتا ہے تو وہ اس کے باپ کو گالی دیتا ہے اور اگر کوئی شخص کسی کی ماں کو گالی دیتا ہے تو وہ اس کی ماں کو گالی دیتا ہے۔ اس حدیث کے ذریعہ معلوم ہوا کہ دوسروں کے والدین کو گالی دینا یہ ذریعہ اور سبب بنتا ہے اپنے والدین کو گالی دلوانے کا، لہٰذا دوسروں کے والدین کو سب و شتم کر دینے سے بھی منع کر دیا، تاکہ یہ ذریعہ اور سبب نہ بنے آدمی کے اپنے والدین کی بے حرمتی کا۔ اس کو سدِ ذریعہ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح حدیث میں شبہات سے بچنے کا حکم دیا،تاکہ حرام میں پڑنے سے آدمی محفوظ ہوجائے۔

اس حدیث مبارکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ: یہ جان لو کہ ہر بادشاہ کا ایک ممنوعہ علاقہ ہوتا ہے،اس کی اپنی حدود ہوتی ہیں،جس میں کسی کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوتی، اور جو داخل ہوجائے وہ مجرم سمجھا جاتا ہے، سزا کا مستحق بنتا ہے، اس کی گرفتاری عمل میں لائی جاتی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا ممنوعہ علاقہ اور حدود حرام چیزیں ہیں کہ جن میں مبتلا ہونا لوگوں کے لیے ممنوع قرار دے دیا گیا ہے، لہٰذا جو کوئی اس ممنوعہ علاقہ میں داخل ہوگا یعنی حرام چیزوں کا ارتکاب کرے گا وہ عذاب کا مستحق قرار دیا جائے گا اور پھر ان حرام چیزوں میں بھی بعض چیزیں تو ایسی ہیں جن کے مرتکب کی بخشش ہی نہیں ہو گی، جیسے: شرک، اور کچھ گناہ اور جرائم ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہیں کہ چاہے ان کے مرتکب کو اللہ تعالیٰ بخشے چاہے نہ بخشے، البتہ سچے دل کے ساتھ توبہ استغفار سے ہر چیز بخشی جائے گی۔ اس لیے ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ ایسی چیزوں کے قریب بھی نہ جائے جن کی وجہ سے حرام کا دروازہ ا س کے لیے کھلتا ہو،یا جن کی وجہ سے وہ حرام میں مبتلا ہونے کا اندیشہ رکھتا ہو۔ علماء لکھتے ہیں کہ جب بندہ اپنی معاشی ،تمدنی اور سماجی زندگی کے تمام گوشوں میں ضرورت پر اکتفاء کر لیتا ہے، یعنی بقدرِ ضرورت ہی کمائی، نفع اور کھانا پینا ہو کہ جس سے اس کا وجود اور اس کی عزت باقی رہے تو ایسا شخص اپنے دین میں ہر خطرہ سے سلامت رہتا ہے اور جب انسان ضرورت کی حد سے گزرنے کی کوشش کرتا ہے تو مکروہات میں داخل ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ حرص و ہوس حدِ مکروہات سے نکال کر محرمات کی مد میں داخل کر دیتی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کا اگلا قدم کفر میں پہنچ جاتا ہے۔ العیاذباللہ

حدیث مبارکہ کے آخر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ: ’’اس بات کو بھی ملحوظ رکھو کہ انسان کے جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے، جب وہ (ایمان اور اعمالِ خیر کی وجہ سے ) درست رہتا ہے تو پورا جسم درست حالت میں رہتا ہے اور جب اس ٹکڑے میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے تو پورا جسم بگڑ جاتا ہے، یاد رکھو! گوشت کا وہ ٹکڑا دل ہے۔‘‘ علماء لکھتے ہیں کہ اس حدیث مبارکہ میں اخیر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دل کا ذکر کیا ہے،اور حدیث کی ابتداء میں حلال و حرام اور مشتبہات کا ذکر ہے۔ اس ترتیب سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ دل کی صفائی اور پاکی کے لیے یہ لازم ہے کہ انسان حلال پر اکتفاء کرنے والا بنے۔ حرام سے بھی اور مشتبہ چیزوں سے بھی اپنے آپ کو دور رکھے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حلال پر قناعت نصیب فرمائے اور حرام اور مشتبہ چیزوں سے ہمیں محفوظ فرمائے۔

  ماہنامہ بینات جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

Comments