39) مہدی و عیسٰی (ع) اور دجال کی پہچان



مہدی و عیسٰی علیہم السلام اور دجال کی پہچان  

آپ ﷺ کو خواب میں دجال دکھایا گیا، تو وہ ایک سرخ رنگ کا موٹا شخص تھا، اس کے بال گھنگھریالے تھے، داہنی آنکھ سے کانا تھا، یہاں تک کہ اس حدیث میں آپ ﷺ نے یہ بھی بتایا ہے کہ وہ قبیلہٴ خزاعہ کے ایک آدمی ابن قطن کے مشابہ تھا

(۷۰۱، کتاب ذکر الانبیاء، باب قول اللہ تعالیٰ واذکر فی الکتاب  مریم)

رسول پاک ﷺ کا فرمان ہے کہ حضرت مہدی کا نام محمد اور ان کے والد کا نام عبد اللہ ہوگا، (ابوداود: ۴۲۸۲، کتاب المہدی)

   رسول پاک ﷺ کا فرمان ہے کہ مہدی آپ کی ہی نسل سے ہوں گے اور ان کا سلسلہٴ نسب حضرت فاطمہ تک پہنچے گا

(ابوداود:۴۲۸۴، کتاب المہدی)

حدیث شریف میں ہے کہ حضرت مہدی روشن پیشانی کے ہوں گے یعنی گورے رنگ کے ہوں گے

(ابوداود:۴۲۸۵، کتاب المہدی)

رسول پاک ﷺ کا فرمان ہے حضرت مہدی سے پہلے دنیا بھر میں ظلم و نا انصافی کا راج ہوگا، اور وہ ظلم کا خاتمہ کرکے دنیا میں عدل و انصاف کا بول بالا کر دیں گے

(ابوداود: ۴۲۸۲، کتاب المہدی) 

حدیث شریف میں ہے کہ وہ حکمراں  ہوں گے، (ابوداود: ۴۲۸۵، کتاب المہدی)

احادیث میں ہے محمد بن عبد اللہ مہدی کے منصب پر فائز ہونے کے بعد زیادہ سے زیادہ نو برس رہیں گے (ترمذی: ۲۲۳۲،ابواب الفتن، باب بعد باب ماجاء فی المہدی)، جن میں سے سات برس وہ حکومت فرمائیں گے

(ابوداود: ۴۲۸۵، کتاب المہدی) 

صحیح بخاری و صحیح مسلم کی ایک حدیث میں رسول پاک ﷺ کا ارشاد ہے: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم میں ابن مریم انصاف پسند حکمراں بن کر ضرور نازل ہوں گے، صلیب کو توڑ دیں گے(یعنی آپ کی آمد کے بعد سارے عیسائی مسلمان ہو جائیں گے، اور صلیب کی عبادت ختم ہو جائے گی)، خنزیر (کی نسل) کو قتل کر دیں گے اور مال و دولت کی ایسی فراوانی ہوگی کہ کوئی صدقات قبول کرنے والا نہیں ہوگا

 (بخاری: ۲۲۲۲،کتاب البیوع، باب قتل الخنزیر، مسلم: ۱۵۵/۲۴۷۶، کتاب الایمان، باب نزول عیسی بن مریم

قیامت کے قریب دجال ظاہر ہوگا، اُس کو ہلاک کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ عیسی ابن مریم کو  اسمان سے نازل فرمائیں گے۔ وہ دمشق کے مشرقی سفید مینار پر نازل ہوں گے۔ اُن کے بدن پر دو چادریں ہوں

قرآن مجید نے سورہ نساء کی آیت (۱۵۹) میں فرمایا گیا ہے کہ حضرت عیسی کی وفات سے پہلے تمام اہلِ کتاب (یہودی و عیسائی) مسلمان ہو جائیں گے

وان من اھل الکتاب الا لیومنن بہ قبل موتہ  

ماہنامہ درالعلوم ‏، شمارہ3، جلد:100 ‏

Comments