ہیپناٹزم ، اور ٹیلی پیتھی یہ دونوں علوم جائز اور ناجائز دونوں مقاصد کے لیے استعمال ہوتے ہیں ، اور ان سے علاج معالجہ بھی کیا جاتا ہے، اگر کوئی شخص ان کو صرف جائز علاج معالجہ کی غرض سے سیکھتا ہے، اور اس کے سیکھنے میں کوئی شرکیہ کلمات کہنے نہ پڑھتے ہو ، اور نہ ہی شیطان اور غیر اللہ سے مدد حاصل کی جاتی ہو اور نہ ہی کسی اور غیر شرعی امر کا ارتکاب کیا جاتا ہو، بلکہ صرف جائز طریقوں سے مشقوں وغیرہ کے ذریعے سے یہ سیکھ کر مخلوق کا علاج کیا جائے ، اور اس میں جو الفاظ کہے جائیں ان کا معنی و مفہوم بھی معلوم ہو تو اس کی گنجائش ہے۔ اگر اسے کسی ناجائز مقصد کے لیے سیکھا جائے ، یا اس کے سیکھنے میں شرکیہ کلمات کہنے پڑھتے ہو ، یا غیر اللہ سے مدد حاصل کی جاتی ہو ، یا کوئی اور خلافِ شرع بات پائی جاتی ہو یا ان کے کلمات کے معنی و مفہوم معلوم نہ ہو تو اس کا سیکھنا نا جائز اور حرام ہوگا۔
مسمریزم میں بہت سے مفاسد پائے جاتے ہیں ، اس میں اگر کلماتِ کفریہ یا شرکیہ کہے جاتے ہو تب اس کے حرام ہونے میں شبہ نہیں ، بلکہ بعض صورتوں میں موجبِ کفر بھی ہوگا ، اور اگر اس میں کوئی مانعِ شرعی نہ ہو پھر بھی اُس کے سیکھنے کی اِجازت شرعاً نہیں ہے . اس لیے کہ یہ فن عموماً شر و فساد کا ذریعہ بنتا ہے، اور اسی کے لیے استعمال ہوتا ہے، اور بہت سے مفاسدِ پائے جاتے ہیں ۔ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب نے "امداد الفتاوی" میں مسمریزم پر مفصل بحث کی ہے اور اس کے سیکھنے کو ناجائز لکھا ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے امداد الفتاوی 4/73، ط: مکتبہ دارالعلوم کراچی)۔
جنات کی تسخیر ... اگر کسی کے لیے بغیر قصد و عمل کے محض منجانب اللہ ہو جائے جیسا کہ سلیمان علیہ السلام اور بعض صحابہ کرام کے متعلق ثابت ہے تو وہ معجزہ یا کرامت میں داخل ہے اور جو تسخیر عملیات کے ذریعہ کی جاتی ہے اس میں اگر کلمات کفریہ یا اعمال کفریہ ہو تو کفر، اور صرف معصیت پر مشتمل ہو تو گناہِ کبیرہ ہے، اور جن عملیات میں ایسے الفاظ استعمال کیے جائیں جن کے معنی معلوم نہیں ان کو بھی فقہاء نے اس بنا پر ناجائز کہا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ان کلمات میں کفر و شرک یا معصیت پر مشتمل کلمات ہو قاضی بدرالدین نے ”آکام المرجان“ میں ایسے نامعلوم المعنی کلمات کے استعمال کو بھی ناجائز لکھا ہے، اور اگر یہ عمل تسخیر اسماء الہٰیہ یا آیاتِ قرآنیہ کے ذریعہ ہو اور اس میں نجاست وغیرہ کے استعمال جیسی کوئی معصیت بھی نہ ہو تو وہ اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ مقصود اس سے جنات کی ایذاء سے خود بچنا یا دوسرے مسلمانوں کو بچانا ہو یعنی دفعِ مضرت مقصود ہو، جلب منفعت مقصود نہ ہو کیونکہ اگر اس کو کسبِ مال کا پیشہ بنایا گیا تو اس لیے جائز نہیں کہ اس میں آزاد کو اپنا غلام بنانا اور بلا حقِ شرعی اس سے بیگار لینا ہے جو حرام ہے واللہ اعلم (معارف القرآن: ۷/ ۲۶۶)
واضح رہے کہ تسخیر کا عمل دشوار رہتا ہے اور بسا اوقات اس میں جان کا بھی خطرہ رہتا ہے اس لیے اس سے احتراز کرنے میں ہی بھلائی ہے
جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کراچی
Comments
Post a Comment