61🌻) سود انسانوں کو ہلاک کرنے والا گناہ


مال اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت ہے، جس کے ذریعہ انسان اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنی دنیاوی ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن شریعتِ اسلامیہ نے ہر شخص کو مکلف بنایا ہے کہ وہ صرف جائز و حلال طریقہ سے ہی مال کمائے، کیونکہ قیامت کے دن ہر شخص کو مال کے متعلق اللہ تعالیٰ کو جواب دینا ہوگا کہ کہاں سے کمایا یعنی وسائل کیا تھے؟

 اور کہاں خرچ کیا؟ 

یعنی مال سے متعلق حقوق العباد یا حقوق اللہ میں کوئی کوتاہی تو نہیں کی؟ 

مال کے نعمت اور ضرورت ہونے کے باوجود خالقِ کائنات اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مال کو متعدد مرتبہ فتنہ، دھوکے کا سامان اور محض دنیاوی زینت کی چیز قرار دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم مال و دولت کے حصول کے لیے کوئی کوشش ہی نہ کریں، کیونکہ طلبِ حلال رزق اور بچوں کی حلال رزق سے تربیت کرنا خود دین ہے، بلکہ مقصد یہ ہے کہ اللہ پاک کے خوف کے ساتھ دنیاوی فانی زندگی گزاریں اور اُخروی زندگی کی کامیابی کو ہر حال میں ترجیح دیں۔ کہیں کوئی معاملہ درپیش ہو تو اُخروی زندگی کو داؤ پر لگانے کے بجائے فانی دنیاوی زندگی کے عارضی مقاصد کو نظر انداز کردیں، نیز شک و شبہ والے اُمور سے بچیں۔ 

اِن دنوں حصولِ مال کے لیے ایسی دوڑ شروع ہوگئی ہے کہ اکثر لوگ اس کا بھی اہتمام نہیں کرتے کہ مال حلال وسائل سے آرہا ہے یا حرام وسائل سے، بلکہ کچھ لوگوں نے تو اَب حرام وسائل کو مختلف نام دے کر اپنے لیے جائز سمجھنا شروع کر دیا ہے، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو مشتبہ چیزوں سے بھی بچنے کا حکم دیا ہے، اس لیے ہر مسلمان کو چاہیے کہ صرف حلال وسائل پر ہی اکتفاء کرے، جیسا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حرام مال سے جسم کی بڑھوتری نہ کرو، کیونکہ اس سے بہتر آگ ہے۔ (ترمذی) نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے کہ حرام کھانے، پینے اور حرام پہننے والوں کی دعائیں کہاں سے قبول ہوں؟۔ (مسلم) 

ہمارے معاشرہ میں جو بڑے بڑے گناہ عام ہوتے جارہے ہیں، ان میں سے ایک بڑا خطرناک اور انسان کو ہلاک کرنے والا گناہ سود ہے۔

وزن کی جانے والی یا کسی پیمانے سے ناپے جانے والی ایک جنس کی چیزیں اور روپے وغیرہ میں دو آدمیوں کا اس طرح معاملہ کرنا کہ ایک کو عوض کچھ زائد دینا پڑتا ہو‘ ربا اور سود کہلاتا ہے، جس کو انگریزی میں انٹرسٹ کہتے ہیں۔ جس وقت قرآن کریم نے سود کو حرام قرار دیا، اس وقت عربوں میں سود کا لین دین متعارف تھا، اور اُس وقت سود اُسے کہا جاتا تھا کہ کسی شخص کو زیادہ رقم کے مطالبہ کے ساتھ قرض دیا جائے، خواہ لینے والا اپنے ذاتی اخراجات کے لیے قرض لے رہا ہو یا پھر تجارت کی غرض سے، نیز وہ سمپل انٹرسٹ ہو یا کمپاونڈ انٹرسٹ، یعنی صرف ایک مرتبہ کا سود ہو یا سود پر سود، مثلاً زید نے بکر کو ایک ماہ کے لیے ۱۰۰ روپے بطور قرض اس شرط پر دیئے کہ وہ ۱۱۰ روپے واپس کرے تو یہ سود ہے۔ البتہ قرض لینے والا اپنی خوشی سے قرض کی واپسی کے وقت اصل رقم سے کچھ زائد رقم دینا چاہے تو یہ صرف جائز ہی نہیں، بلکہ ایسا کرنا نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے عمل سے ثابت ہے، لیکن پہلے سے زائد رقم کی واپسی کا کوئی معاملہ طے نہ ہوا ہو۔ بینک میں جمع شدہ رقم پر پہلے سے متعین شرح پر بینک جو اضافی رقم دیتا ہے

‘ وہ بھی سود ہے۔

سود کی حرمت قرآن و حدیث سے واضح طور پر ثابت ہے، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا

’’اللہ تعالیٰ نے خرید و فروخت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔‘‘  (البقرۃ: ۲۷۵) 

اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے

’’اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔‘‘  (البقرۃ: ۲۷۶) 

جب سود کی حرمت کاحکم نازل ہوا تو لوگوں کا دوسروں پر جو کچھ بھی سود کا بقایا تھا، اس کو بھی لینے سے منع فرما دیا گیا

’’ سود کا بقایا بھی چھوڑ دو، اگر تم ایمان والے ہو۔‘‘  (سورۃ البقرۃ: ۲۷۸) 

سود لینے اور دینے والوں کے لیے

 اللہ اور اس کے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا اعلانِ جنگ

سود کو قرآن کریم میں اتنا بڑا گناہ قرار دیا ہے کہ شراب نوشی، خنزیر کھانے اور زنا کاری کے لیے قرآن کریم میں وہ لفظ استعمال نہیں کیے گئے جو سود کے لیے اللہ تعالیٰ نے استعمال کیے ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے

 ’’اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے‘ وہ چھوڑ دو، اگر تم سچ مچ ایمان والے ہو۔ اور اگر ایسا نہیں کرتے تو تم اللہ اور اس کے رسول ( ﷺ) سے لڑنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔‘‘  (البقرۃ: ۲۷۸- ۲۷۹) 

سود کھانے والوں کے لیے اللہ پاک اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم  کی طرف سے اعلانِ جنگ ہے اور یہ ایسی سخت وعید ہے جو کسی اور بڑے گناہ، مثلاً زنا کرنے، شراب پینے کے ارتکاب پر نہیں دی گئی۔ حضرت عبد اللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  نے فرمایا کہ 

’’جو شخص سود چھوڑنے پر تیار نہ ہو تو خلیفۂ وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سے توبہ کرائے اور باز نہ آنے کی صورت میں اس کی گردن اُڑادے۔‘‘  (تفسیر ابن کثیر) 

اللہ تعالیٰ نے سود کھانے والوں کے لیے کل قیامت کے دن جو رسوائی و ذلت رکھی ہے، اس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں کچھ اس طرح فرمایا

’’جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (قیامت میں) اُٹھیں گے تو اس شخص کی طرح اُٹھیں گے جسے شیطان نے چھو کر پاگل بنا دیا ہو۔‘‘   (البقرۃ: ۲۷۵) 

سود کی بعض شکلوں کو جائز قرار دینے والوں کے لیے فرمانِ الٰہی ہے

 ’’یہ ذلت آمیز عذاب اس لیے ہوگا کہ انہوں نے کہا تھا کہ بیع بھی تو سود کی طرح ہوتی ہے، حالانکہ اللہ نے بیع یعنی خرید و فروخت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔‘‘ (البقرۃ: ۲۷۵) 

سود کھانے سے توبہ نہ کرنے والے لوگ جہنم میں جائیں گے

’’لہٰذا جس شخص کے پاس اس کے پروردگار کی طرف سے نصیحت آگئی اور وہ (سودی معاملات سے) باز آگیا تو ماضی میں جو کچھ ہوا، وہ اسی کا ہے اور اس کی (باطنی کیفیت) کا معاملہ اللہ پاک کے حوالہ ہے۔ اور جس شخص نے لوٹ کر پھر وہی کام کیا تو ایسے لوگ دوزخی ہیں، وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔‘‘   (البقرۃ: ۲۷۵) 

غرض یہ کہ سورۃ البقرۃ کی ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو ہلاک کرنے والے گناہ سے سخت الفاظ کے ساتھ بچنے کی تعلیم دی ہے اور فرمایا کہ سود لینے اور دینے والے اگر توبہ نہیں کرتے ہیں تو وہ اللہ پاک اور اس کے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے لڑنے کے لیے تیار ہوجائیں، نیز فرمایا کہ سود لینے اور دینے والوں کو کل قیامت کے دن ذلیل و رسوا کیا جائے گا اور وہ جہنم میں ڈالے جائیں گے۔ 

سود کے متعلق نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ارشادات

حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر سود کی حرمت کا اعلان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا

 ’’(آج کے دن) جاہلیت کا سود چھوڑ دیا گیا، اور سب سے پہلا سود جو میں چھوڑتا ہوں، وہ ہمارے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا سود ہے، وہ سب کا سب ختم کر دیا گیا ہے، (چونکہ حضرت عباس  رضی اللہ عنہ  سود کی حرمت سے قبل لوگوں کو سود پر قرض دیا کرتے تھے) اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج کے دن میں اُن کا سود جو دوسرے لوگوں کے ذمہ ہے، وہ ختم کرتا ہوں۔‘‘   (صحیح مسلم ، باب حجۃ النبی ﷺ ) 

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا

 ’’سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچو۔ صحابۂ کرامؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! وہ سات بڑے گناہ کونسے ہیں؟ 

(جو انسانوں کو ہلاک کرنے والے ہیں) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: شرک کرنا، جادو کرنا، کسی شخص کو ناحق قتل کرنا، سود کھانا، یتیم کے مال کو ہڑپنا، (کفار کے ساتھ جنگ کی صورت میں) میدان سے بھاگنا اور پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانا۔‘‘   (بخاری ومسلم) 

حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے سود لینے اور دینے والے، سودی حساب لکھنے والے اور سودی شہادت دینے والے سب پر لعنت فرمائی ہے۔ سود لینے اور دینے والے پر حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی لعنت کے الفاظ حدیث کی ہر مشہور و معروف کتاب میں موجود ہیں۔ (مسلم، ترمذی، ابوداود، نسائی) 

بینک سے قرض بھی عین سود ہے: تمام مکاتبِ فکر کے 99.99% علماء اس بات پر متفق ہیں کہ عصرِ حاضر میں بینک سے قرض لینے کا رائج طریقہ اور جمع شدہ رقم پر انٹرسٹ کی رقم حاصل کرنا یہ سب وہی سود ہے، جس کو قرآن کریم میں سورۃ البقرۃ کی آیات میں منع کیا گیا ہے، جس کے ترک نہ کرنے والوں کے لیے اللہ پاک اور اس کے رسول( ﷺ ) کا اعلانِ جنگ ہے اور توبہ نہ کرنے والوں کے لیے قیامت کے دن رسوائی و ذلت ہے اور جہنم اُن کا ٹھکانا ہے۔ 

عصرِ حاضر کی پوری دنیا کے علماء پر مشتمل اہم تنظیم ’’مجمع الفقہ الإسلامي‘‘ کی اس موضوع پر متعدد میٹنگیں ہوچکی ہیں، مگر ہر میٹنگ میں اس کے حرام ہونے کا ہی فیصلہ ہوا ہے۔ برِصغیر کے جمہور علماء بھی اس کے حرام ہونے پر متفق ہیں۔ فقہ اکیڈمی، نیو دہلی کی متعدد کانفرنسوں میں اس کے حرام ہونے کا ہی فیصلہ ہوا ہے۔ مصری علماء جو عموماً آزاد خیال سمجھے جاتے ہیں، وہ بھی بینک سے موجودہ رائج نظام کے تحت قرض لینے اور جمع شدہ رقم پر انٹریسٹ کی رقم کے عدمِ جواز پر متفق ہیں۔ پوری دنیا میں کسی بھی مکتبِ فکر کے دارالافتاء نے بینک سے قرض لینے کے رائج طریقہ اور جمع شدہ رقم پر انٹرسٹ کی رقم کو ذاتی استعمال میں لینے کے جواز کا فیصلہ نہیں کیا ہے۔

عصرِ حاضر میں ہم کیا کریں؟ 

۔۔۱:- اگر کوئی شخص بینک سے قرض لینے یا جمع شدہ رقم پر سود کے جائز ہونے کو کہے تو پوری دنیا کے 99.99% علماء کے موقف کو سامنے رکھ کر اس سے بچیں۔ 

۔۔۲:- اس بات کو اچھی طرح ذہن میں رکھیں کہ علماء کرام نے قرآن و حدیث کی روشنی میں بینک سے قرض لینے اور بینک میں جمع شدہ رقم پر انٹرسٹ کی رقم کے حرام ہونے کا فیصلہ آپ سے دشمنی نکالنے کے لیے نہیں، بلکہ آپ کے حق میں کیا ہے، کیونکہ قرآن و حدیث میں سود کو بہت بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے۔ شراب نوشی، خنزیر کھانے اور زنا کاری کے لیے قرآن کریم میں وہ لفظ استعمال نہیں کیے گئے جو سود کے لیے اللہ تعالیٰ نے استعمال کیے ہیں۔ 

۔۔۳:- جس نبی( ﷺ) کے اُمتی ہونے پر ہم فخر کرتے ہیں، اس نے سود لینے اور دینے والوں پر لعنت فرمائی ہے، نیز شک و شبہ والی چیزوں سے بھی بچنے کی تعلیم دی ہے۔ 

۔۔۴:- بینک سے قرضہ لینے سے بالکل بچیں، دنیاوی ضرورتوں کو بینک سے قرضہ لیے بغیر پورا کریں، کچھ دشواریاں، پریشانیاں آئیں تو اس پر صبر کریں۔ 

۔۔۵:- اگر کوئی شخص ایسے ملک میں ہے جہاں واقعی سود سے بچنے کی کوئی شکل نہیں ہے، تو اپنی وسعت کے مطابق سودی نظام سے بچے، ہمیشہ اس سے چھٹکارہ کی فکر رکھے اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتا رہے۔ 

۔۔۶:- جو حضرات سود کی رقم استعمال کر چکے ہیں، وہ پہلی فرصت میں اللہ تعالیٰ سے توبہ کریں اور آئندہ سود کی رقم کا ایک پیسہ بھی نہ کھانے کا عزمِ مصمم کریں اور سود کی بقیہ رقم کو کسی مستحقِ زکوٰۃ کو بلانیتِ ثواب دے دیں۔

۔۔۷:- اگر کوئی شخص سونے کے پرانے زیورات بیچ کر سونے کے نئے زیورات خریدنا چاہتا ہے، تو اس کو چاہیے کہ دونوں کی الگ الگ قیمت لگوا کر اس پر قبضہ کرے اور قبضہ کرائے، نئے سونے کے بدلے پرانے سونے اور فرق کو دینا جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ بھی سود کی ایک شکل ہے۔

دنیا کی بڑی بڑی اقتصادی شخصیات کے مطابق موجودہ سودی اور بینکنگ کے نظام سے  صرف سرمایہ کاروں کو ہی فائدہ پہنچتا ہے، نیز اس میں بے شمار خرابیاں ہیں۔

بعض مادہ پرست لوگ سود کے جواز کے لیے دلیل دیتے ہیں کہ قرآن کریم میں وارد سود کی حرمت کا تعلق ذاتی ضرورت کے لیے قرض لینے سے ہے، لیکن تجارت کی غرض سے سود پر قرض لیا جا سکتا ہے، اسی طرح بعض مادہ پرست لوگ کہتے ہیں کہ قرآن میں جو سود کی حرمت ہے، اس سے مراد سود پر سود ہے، لیکن  سود قرآن کے اس حکم میں داخل نہیں ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ قرآن میں کسی شرط کو ذکر کیے بغیر سود کی حرمت کا اعلان کیا گیا ہے تو قرآن کے اس عموم کو مختص کرنے کے لیے قرآن و حدیث کی واضح دلیل درکار ہے جو قیامت تک پیش نہیں کی جا سکتی، اسی لیے خیر القرون سے آج تک کسی بھی مشہور مفسر نے سود کی حرمت والی آیت کی تفسیر اس طرح نہیں کی، نیز قرآن میں سود کی حرمت کے اعلان کے وقت ذاتی اور تجارتی دونوں غرض سے سود لیا جاتا تھا، اسی طرح ایک مرتبہ کا سود یا سود پر سود دونوں رائج تھے، ۱۴۰۰ سال سے مفسرین ، محدثین ، علماء کرام نے دلائل کے ساتھ اسی بات کو تحریر فرمایا ہے۔ یہ معاملہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ قرآن کریم میں شراب پینے کی حرمت اس لیے ہے کہ اُس زمانہ میں شراب گندی جگہوں میں بنائی جاتی تھی، آج صفائی ستھرائی کے ساتھ شراب بنائی جاتی ہے، حسین بوتلوں میں اور خوبصورت ہوتلوں میں ملتی ہے، لہٰذا یہ حرام نہیں ہے۔ ایسے دنیا پرست لوگوں کو اللہ تعالیٰ ہدایت عطا فرماۓ

ماہنامہ بینات جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

Comments