صحابیت ایک وہبی مرتبہ ہے ، کوئی کسبی شئے نہیں ہے،حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ اگر امام ابوحنیفہؓ سے علم میں آگے نکل گئے تو اس کی وجہ اس کے سوا کیا ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں حضور اکرم ﷺ کی پہلی زندگی میں پیدا کیا،یہ ان کی اپنی کسبی شئے نہیں تھی اور پھر یہ فیصلہ اللہ رب العزت کا اپنا تھا کہ حضور ﷺ خاتم النّبیین ہیں ، آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی پیدا نہ ہوگا ، جب یہ ایک قطعی بات ٹھہری تو یہ بات بھی اپنی جگہ قطعی ہے کہ اب آئندہ کوئی شخص صحابی نہ ہو سکے گا۔اس سے یہ عقیدہ بھی ایک قطعی صورت اختیار کرتا ہے کہ صحابیت ایک وہبی چیز ہے،کوئی کسبی شئے نہیں ہے،اس دعویٰ پر کئی دلیلیں پیش کی جا سکتی ہیں ، مثلاً ساری انسانیت رضائے الٰہی کی جستجو میں ہے اور یہی عام ہدایت بھی ہے لیکن صحابہ کی ایسی مقدس جماعت ہے کہ اس کی رضا خود اللہ پاک چاہتے ہیں؛ بلکہ ان کی اتباع کرنے والوں کو بھی اس مرتبہ کا حقدار بتایا گیا ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے
وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِینَ اتَّبَعُوہُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمْ وَرَضُوا عَنْہُ
اور جو لوگ دین میں سب سے پہلے ہجرت کرنے والے اور (ان کی) مدد کرنے والے ہوئے اور جو ان کے پیرو ہوئے نیکی کے ساتھ،اللہ پاک راضی ہوا ان سے اور وہ راضی ہوئے اللہ پاک سے
اس سے واضح ہوتا ہے کہ انسانی تاریخ میں ایک ایسا طبقہ بھی ہوا ہے جس کی رضا خود پروردگار عالم کو مطلوب ہے،ظاہر ہے کہ یہ چیز کسب سے حاصل نہیں ہو سکتی۔
ایک اور آیت کریمہ پر غور کریں
وَأَلْزَمَہُمْ کَلِمَةَ التَّقْوَی وَکَانُوا أَحَقَّ بِہَا وَأَہْلَہَا وَکَانَ اللَّہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمًا
اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے صفت تقویٰ لازم کردی اور وہ واقعی اس کے حقدار اور اہل تھے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کا انھیں چن لینا اور یہ کہنا کہ وہ پہلے سے اس کے حقدار اور اہل تھے،یہ شرف صحابیت کے وہبی مرتبہ ہونے کی روشن دلیل ہے۔
یہ بات مولانا ابوالکلام آزادؒ نے سورہٴ توبہ (آیت۲۴)کی تفسیر کے تحت ان الفاظ میں کہی ہے
بلا شائبہ و مبالغہ کہا جا سکتا ہے کہ دنیا میں انسانوں کے کسی گروہ نے کسی انسان کے ساتھ اپنے سارے دل اور اپنی ساری روح سے ایسا عشق نہیں کیا ہوگا،جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ سے راہ حق میں کیا،انھوں نے اس محبت کی راہ میں وہ سب کچھ قربان کر دیا جو انسان کر سکتا ہے اور پھر اس کی راہ سے سب کچھ پایا جو انسان کی کوئی جماعت پا سکتی تھی
اسی کے ساتھ خود صحابی رسول ﷺ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا اظہار حقیقت بھی ملاحظہ فرمائیں
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے منقول ہے آپ نے فرمایا جس کو کسی کی اقتدا ہی کرنا ہو اسے چاہیے کہ وہ ان کی اقتدا کرے جو اس دنیا سے جا چکے ہیں کیونکہ زندہ شخص فتنوں سے مامون نہیں ہے،جو جا چکے وہ حضوراکرم ﷺ کے صحابہ تھے،جواس امت کے افضل ترین لوگ تھے، (کنتم خیر أمة أخرجت للناس) ان کے دل سب سے زیادہ نیکی سے لبریز تھے، ان کا علم بہت گہرا تھا اور ظاہرداری ان میں بہت کم تھی،اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے نبی ﷺ کی صحابیت کے لیے اور اس دین کو قائم کرنے کے لیے چن لیا تھا،ان کا یہ مرتبہ انھیں اللہ تعالیٰ کی عطا تھی (وہبی تھا) سو ان کا حق پہچانو اور ان کے پیچھے چلو وہ بیشک راہ مستقیم پر تھے۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی اس شہادت سے صاف پتہ چلتا ہے کہ صحابیت ایک عطائے خداوندی ہے اور صحابہ کے بارے میں کسی فتنہ کا اندیشہ نہیں ہے؛ اسی لیے خطیب بغدادیؒ اور بے شمار علماء سلف و خلف نے صراحت کی ہے کہ
صحابہ کی عدالت ایک ثابت شدہ اور معلوم حقیقت ہے . اس لیے کہ خود اللہ تعالیٰ نے ان کی تعدیل اور ان کے دلوں کی شانِ طہارت بیان فرمائی اور بتصریح قرآنی شرف صحابیت کے لیے ان کا انتخاب فرمایا۔
جس طرح کعبہ قبلہٴ نماز ہے صحابہ قبلہٴ اقوام ہیں،قرآن کریم کی اس آیت کریمہ کے پہلے مخاطب صحابہ ہی ہیں
وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَکُونُواشُہَدَاءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُونَ الرَّسُولُ عَلَیْکُمْ شَہِیدًا (البقرة:143)
ترجمہ:اوراسی طرح ہم نے تم کو امت وسط بنایا؛تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو جاؤ اور رسول ﷺ تم پر گواہ ہوں۔
اسی لیے حضرت عمرؓ نے صحابہ سے فرمایا،دیکھو غلطیوں سے بچتے رہنا،لوگ تمہاری غلطیوں کو بھی اپنا دین بنالیں گے،آپ نے حضرت طلحہؓ کو حالت احرام میں رنگدار چادر پہننے سے یہی کہہ کر منع فرمایا
آپ حضرات پیشوا ہیں،لوگ آپ کی پیروی کرتے ہیں،اگر کوئی عام آدمی (جواس رنگ سے واقف نہ ہو) اسے دیکھے تو کہے گا کہ طلحہ بن عبیداللہ احرام میں رنگ دار کپڑے پہنتے تھے؛ اس لیے حالت احرام میں رنگین کپڑوں سے اجتناب کریں
تمام صحابہ قابلِ اتباع ہیں
پھر صحابہ میں درجات کے فرق کے باوجود اتباع کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ سابقین اولین ہی میں سے ہوں،بہار نبوت کے جو پھول آخر میں کھلے وہ بھی اسی گلستان نبوت کے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا وعدہٴ جنت سب ہی سے ہے
لَا یَسْتَوِی مِنْکُمْ مَنْ أَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ أُولَئِکَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِنَ الَّذِینَ أَنْفَقُوا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوا وَکُلًّا وَعَدَ اللَّہُ الْحُسْنَی وَاللَّہُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیرٌ
ترجمہ:تم میں برابر نہیں وہ جنھوں نے فتح مکہ سے پہلے خرچ کیا اور جہاد کیا،وہ مرتبہ میں ان سے بڑے ہیں،جنھوں نے فتح مکہ کے بعد خرچ کیا اور جہاد کیا اور اللہ پاک کا وعدہٴ جنت سب کے لیے ہے اور اللہ تعالیٰ تمہارے (گذشتہ آئندہ ) تمام اعمال سے باخبر ہے۔
سابقین اولین اور فتح مکہ کے بعد ایمان لانے والے دونوں شرف صحابیت رکھتے ہیں،جو طبقہ ان کے پیچھے چلا وہ تابعین کہلایا یہ حضرات تابعین اسی لیے بنے کہ صحابہ سب کے سب متبوعین ہیں اور امت کے ذمہ ہے کہ ان کے نقش پا سے زندگی کی راہیں روشن کرے۔
نبوت اور صحابیت کے درمیان صرف دیکھنا شرط ہے،اتباع ضروری نہیں،جس نے ایمان سے آپ کے جمال جہاں آراء کو دیکھا صحابیت پا گیا لیکن اگلوں کے لیے صرف دیکھنا کافی نہیں اتباع بھی لازم ہے
صحابہ کی پہچان عمل سے نہیں رسول اللہ ﷺ کی نسبت سے ہے اس لیے کہ ارشاد نبوی ہے
اللہ تعالیٰ سے ڈرو ، اللہ تعالیٰ سے ڈرو میرے صحابہ کے بارے میں، میرے بعد انھیں کبھی کسی اعتراض کا نشانہ نہ بنانا ، سو جس نے ان سے محبت کی (وہ ان کے اعمال سے نہیں )وہ میری نسبت سے کی (کہ وہ میرے صحابی ہیں )اور جس نے ان سے بغض رکھا دراصل اس نے مجھ سے بغض رکھا ، جس نے میرے صحابہ کو کوئی اذیت دی ، اس نے مجھے اذیت دی اور جس نے مجھے اذیت دی اس نے اللہ تعالیٰ کو اذیت دی اور جس نے اللہ تعالیٰ کو اذیت دی، وہ اس کی گرفت سے کہاں بچ سکے گا
یہ حدیث تواتر طبقات کے ساتھ امت میں چلی آرہی ہے، اسناد کے پہلو سے اس میں غرابت ہو تو اس سے یہ حدیث مجروح نہیں ہوتی،یہ اسی طرح ہے جیسے قرآن کریم تواتر طبقات کے ساتھ منقول ہوتا چلا آرہا ہے اور وہ کہیں تواترِ اسناد کا محتاج نہیں ہے،حضرت امام شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے قرة العینین میں اس اصول کی تصریح کی ہے
اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ صحابہ کے اعمال کو زیر بحث لانا درست نہیں، ان سے موٴمن کی عقیدت و محبت ان کے اعمال اور نیکیوں کی وجہ سے نہیں بلکہ اس رشتہٴ رسالت سے ہے کہ وہ حضور اکرم ﷺ کے صحابی ہیں،تو ظاہر ہے کہ ان کے کسی عمل پر بھی انگلی نہ اٹھائی جائے گی اور نہ ان پر کسی کو تنقید کا حق ہوگا کیونکہ یہ فی الواقع اس رشتہ پرحملہ ہوگا جو صحابہٴ کرامؓ کو بارگاہ رسالت مآب ﷺ سے حاصل ہے
یہ بات یقینی طور پر حق ہے کہ صحابہ میں ایک بھی ایسا نہ تھا،جو غیر ثقہ ہو یا جو دین میں کوئی غلط بات کہے،سرخیل محدثین حضرت علامہ عینیؒ(۷۵۷ھ)لکھتے ہیں
جب کوئی حدیث کسی صحابی سے مروی ہو اور اس کے نام کا پتہ نہ چلے تو وہ راوی کبھی مجہول الحال نہ سمجھا جائے گا،صحابی ہونے کے بعد کسی اور تعارف یا تعدیل کی حاجت نہیں،علامہ ابن عبدالبر مالکیؒ (۴۶۳ھ)لکھتے ہیے
سب صحابہ ثقہ اور امانت دار ہیں،اللہ ان سے راضی ہوا ان میں سے ہر ایک نے جو بات اپنے نبی ﷺ سے نقل کی اور اس کے ساتھ اپنے نبی کے عمل کی شہادت دی (لفظاًہویاعملاً)وہ واجب القبول ہے
ہر وہ قول اور فعل جو ان سے منقول نہیں بدعت ہے،سو یہ حضرات خود بدعت کا موضوع نہیں ہوسکتے ان کے کسی عمل پر بدعت کا حکم نہیں کیا جا سکتا،حافظ ابن کثیرؒ لکھتے ہیے دین کے بارے میں کوئی قول اور کوئی فعل جوصحابہ سے ثابت نہ ہو بدعت ہے۔
صحابی رسول حضرت حذیفہ بن الیمانؓ فرماتے ہیں
دین کا ہر وہ عمل جسے صحابہ نے دین نہیں سمجھا اسے تم بھی دین نہ سمجھنا
بعد کے ادوار میں صحابہ کے درمیان اختلاف و نزاع یہاں تک کہ جنگ و جدل کے جو واقعات پیش آئے ان کی بنا پر کسی بھی صحابی کو تنقید کا نشانہ بنانا قطعی درست نہیں؛اس لیے کہ واقعات و حادثات سے وہ نسبت منقطع نہیں ہوئی جو ان کو سرکار دو عالم ﷺ سے حاصل تھی،وہ نسبت لازوال ہے، امت کو ہدایت یہ دی گئی ہے کہ وہ صرف نسبت پر نگاہ رکھیں،صحابہ کو واقعات کے آئینے میں نہیں بلکہ نسبت نبوی کے آئینے میں دیکھیں، عالم الغیوب رب کائنات کو تو بعد میں پیش آنے والے تمام واقعات کی پہلے سے خبر تھی،اس کے باوجود صحابہ کو پروانہٴ رضوان عطا کرنا اور ان کی تعدیل و تزکیہ بیان کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ صحابہ کے لیے یہ واقعات اصل نہیں ہیں بلکہ نسبت اصل ہے۔ نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے جس طرح اس نسبت کا حصول اختیاری نہیں ہے،اسی طرح اس کا زوال یا انقطاع بھی کسی کے اختیار میں نہیں،زندگی کے درمیانی وقفات میں خواہ کیسے ہی انقلابات پیش آئیں اس بات کی ضمانت ہے کہ خاتمہ بہرحال خیر پر ہوگا۔
باہمی اختلافات و نزاعات کی بنا پر عام مسلمانوں کو یہ حق نہیں پہونچتا کہ وہ کسی صحابی پر انگلی اٹھائے،یا ان کو تنقید کا ہدف بنائے،علامہ خالد محمودؒ نے اس کی ایک بڑی پیاری فقہی مثال دی ہے
فقہ کا ایک مسئلہ ہے کہ امام نماز پڑھائے اور کسی متشابہ پر قرآن پڑھنے میں غلطی کرے،تو اگر کوئی شخص جو جماعت میں شریک نہیں اسے لقمہ دے اور امام اس پر اعتماد کر کے اس کے لقمہ کو قبول کرلے، توسب کی نماز ٹوٹ جائیگی،یہ کیوں ؟
جب کہ وہ لقمہ صحیح تھا یہ صرف اس لیے کہ لقمہ دینے والا نماز کے باہر تھا اور لقمہ لینے والا نماز کے اندر تھا، جو نمازکے اندر ہے وہ اللہ کے حضور حاضر ہے اور جو نماز سے باہر ہے وہ کسی اور کام میں بھی مشغول ہو سکتا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ اس درجے میں نہیں جس میں وہ ہے،جو نماز میں اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہے ۔ سو جس طرح نماز سے باہر والا نماز کے اندر والے کو لقمہ نہیں دے سکتا گو نماز کے اندر والا واقعی غلط پڑھ رہا تھا،اس طرح کوئی عام امتی کسی صحابی پر انگلی نہیں اٹھا سکتا، گو وہ صحابی اپنی کسی بات یا تحریک میں غلطی پر ہو اسلام میں بڑوں کے احترام کے جو آداب سکھائے گئے ہیں ان میں یہ صورت بہت اہم ہے۔
ان آداب میں سے ایک بڑا ادب یہ ہے کہ کوئی عام امتی کسی صحابی پر تنقید نہ کرے اس کی ہر غلطی کو بھی اس کی اجتہادی بات سمجھے،ہماری عقائد کی جملہ کتابوں میں صحابہ کو ہر تنقید سے بالا رکھا گیا ہے، خواہ یہ حضرات (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم)آپس میں ایک دوسرے کے بارے میں کتنی سخت زبان کیوں نہ اختیار کریں؛لیکن اس کے حوالے سے عام افراد امت کو ان پر زبان دراز کرنے کی اجازت نہیں ملتی
چنانچہ سلف و خلف کا اس پر اتفاق ہے کہ صحابیت کی نسبت ہی عدالت و ثقاہت کے لیے کافی ہے، مزید کسی تحقیق کی ضرورت نہیں اور اعمال و واقعات کی بنا پر کسی صحابی رسول پر تنقید جائز نہیں، صحابہ ہر قسم کے جرح و تنقید سے بالاتر ہیں،ان کے اختلافات خواہ وہ علمی و فکری ہوں یا سیاسی و حربی، سب اجتہاد پر مبنی ہیں،کسی بد نیتی اور فساد پر نہیں اور اجتہاد غلط بھی ہو تو قابل اجر ہے،لائق موٴاخذہ نہیں ہے؛اس لیے صحابہ کے اختلافات کے بارے میں کوئی تاریخی واقعہ سامنے آئے تو اس کی تاویل کی جائے گی اور کوئی محمل حسن متعین کیا جائے گا اور اگر صواب و خطا کچھ سمجھ میں نہ آئے تو بھی توقف اور کف لسان واجب ہے،کسی اظہار رائے یا ذہنی قیاس آرائی کی اجازت نہیں ہے،یہ مقام ہی ایسا ہے کہ زبان کھولنا بھی گناہ ہے۔
علامہ ابن اثیر الجزریؒ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ صحابہ جرح سے بالا کیوں ہیں؟لکھتے ہیں ... صحابہ دوسرے راویوں کے ساتھ ہر بات میں شریک ہیں؛ مگرجرح و تعدیل میں وہ دوسروں کے درجے میں نہیں،یہ سب کے سب عادل ہیں، جرح ان کی طرف راہ نہیں پاتی؛کیونکہ اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول ﷺ نے ان کا تزکیہ کردیا ہے اور ان کی تعدیل کردی ہے اور یہ بات اتنی روشن ہے کہ اس کے دہرانے کی ضرورت نہیں
صحابہ میں جو اختلافات ظاہر ہوئے یا خود عہد نبوت میں بعض خلاف شان چیزیں ان کی طرف سے سامنے آئیں،ان میں بڑی حکمت الٰہی پوشیدہ ہے،عہد نبوی میں بعض صحابہ سے جو خلاف شان اعمال سرزد ہوئے ان کا مقصد دراصل تکمیل شریعت تھا اور عہد نبوی کے بعد جو چیزیں رونما ہوئیں ان میں بھی اجتہاد کی کئی جہتوں کو روشنی میں لانا مطلوب تھا،علاوہ آخری حالات کے اعتبار سے کسی صحابی کا خاتمہ غلط فکر و عمل پر نہیں ہوا؛بلکہ ایسے حالات پیدا ہوئے کہ وہ راہ صواب یا راہ اعتدال پرقائم ہوگئے اور پھر ان کی وفات ہوئی۔
اختلافات کے باوجود صحابہ خیرامت کے مقام پر فائز رہے،قرآن کریم نے باہمی جنگ کو ایمان کے منافی قرارنہیں دیاہے
وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَیْنَہُمَا فَإِنْ بَغَتْ إِحْدَاہُمَا عَلَی الْأُخْرَی فَقَاتِلُوا الَّتِی تَبْغِی حَتَّی تَفِیءَ إِلَی أَمْرِاللَّہِ فَإِنْ فَائَتْ فَأَصْلِحُوا بَیْنَہُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِینَ، إِنَّمَاالْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوابَیْنَ أَخَوَیْکُمْ وَاتَّقُوااللَّہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ
اگر ایمان والوں کی دو جماعتیں باہم لڑپڑیں توان کے درمیان صلح کراؤ،اگر ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والی جماعت کے ساتھ جنگ کرو یہاں تک کہ وہ حکم خداوندی کی طرف واپس لوٹ آئے،اگر واپس آجاتی ہے تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف کا معاملہ کرو اللہ پاک انصاف کرنے والوں کو پسند کرتے ہیں،ایمان والے تو سب آپس میں بھائی بھائی ہیں،پس بھائیوں کے درمیان صلح کا معاملہ کرو اور اللہ سے ڈرو تاکہ تمہارے ساتھ رحم و کرم کا معاملہ کیا جاۓ
علامہ خالد محمود صاحبؒ لکھتے ہیں
صحابہ کے اختلاف کا منشا غلط فہمی تو ہو سکتا ہے؛لیکن بد نیتی نہیں،سوء اعتقاد نہیں،ایمان اپنی بنیادی شان سے ان کے دلوں میں جگہ پا چکا ہے، ان میں خون ریزی تک دیکھو تو بدگمانی کو راہ نہ دو، یہ سب بھائی بھائی ہیں،بدگمانی سے انتہا تک بچو،ان میں سے کسی سے بڑے سے بڑا گناہ دیکھو تو بھی بدگمانی نہ کرو،اس کا ظہور بتقاضائے فسق نہیں ہوا،محض اس حکمت سے وجود میں آیا ہے کہ اس پر شریعت کی ہدایت اترے اور یہ لوگ تکمیل شریعت کے لیے استعمال ہو جائیں،آنحضرت ﷺ کا کسی وقت نماز کی رکعتوں میں بھولنا ازراہ غفلت نہیں تھا،اس حکمت الٰہی کے تحت تھا کہ لوگوں پرسجدہٴ سہو کا مسئلہ کھلے اور شریعت اپنی پوری بہار سے کھلے۔
صحابہ کاباہمی اختلاف اصول کا نہیں فروع کا ہے،حق و باطل کا نہیں وسعت عمل کا ہے، ان میں سے جس کی بات چاہے لے لو؛لیکن دوسرے پر جرح نہ کرو اور نہ اسے باطل پرکھو ان حضرات کے جملہ اعمال و افکار کسی نہ کسی جہت سے حضور ﷺ سے ہی استناد رکھتے ہیں،حافظ ابن تیمیہؒ (۷۲۸ھ) نے ائمہٴ مجتہدین کے مختلف فیہ مسائل کو صحابہ کے اعمال سے مسند بتایا ہے اور صحابہ کے اختلاف کو امت کے لیے وسعت عمل قرار دیا ہے
صحابہ میں جو اختلافات ہوئے وہ رائے اور فہم کے اختلاف سے ہوئے ، بد نیتی کسی کے شامل حال نہ تھی،اگر کسی نے کسی کو خطا پر کہا ہے تو ظنی جہت سے ہے، یقینی طور پر ہم کسی کو خطا پر نہیں کہہ سکتے
یہ جائز نہیں کہ صحابہ کے ان اختلافات میں ہم کسی طرف قطعی خطا کی نسبت کریں، ہر ایک نے جو کچھ کیا اپنے اجتہاد سے کیا،اور سب کی مراد اللہ تعالیٰ کو خوش کرنا تھا اور وہ صحابہ سب کے سب ہمارے پیشوا ہیں،ان کے اختلافات سے زبان کو بند رکھنے میں ہم خدا کی رضا جانتے ہیں “۔
ماہنامہ دارالعلوم دیوبند
Comments
Post a Comment