قرآن کریم کے کچھ حقوق تو فکری و ایمانی ہیں اور کچھ حقوق عملی ہیں
ایمانی حقوق مختصراً یہ ہیں
اس پر ایمان لانا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے
اس پر یقین رکھنا کہ مکمل طور پر محفوظ ہے
اس کی عظمت دل میں رکھنا
یقین رکھنا کہ یہ حضرت محمد ﷺ پر حضرت جبرائیل ؑکے ذریعہ نازل ہوئی ہے
یہ یقین رکھنا اب انسانیت کے لئے صرف یہی ایک صحیفۂ ہدایت ہے
قرآن کریم کے عملی حقوق
پہلا حق اس کی تعلیم حاصل کرنا، یعنی اس کو عربی میں پڑھنے کی صلاحیت پیدا کرنا۔ یہ پڑھنے کی صلاحیت چاہے صحیفۂ مبارک ہاتھ میں لے کر اور کتاب مقدس کی حروف شناسی کے ساتھ حاصل کی جائے یا زبانی یاد کر لیا جائے۔
دوسرا حق اس کی تلاوت کرنے کا ہے۔ پھر اس تلاوت کی مقدار کم از کم ایک رکوع روزانہ، یا چار رکوع یومیہ یعنی چار یوم میں ایک پارہ یا نصف پارہ یومیہ، یا پورا ایک پارہ یومیہ، یا تین پارے یومیہ، یا ایک منزل روزانہ کی مقدار سے ہو۔ غرض کہ تلاوت ِقرآن کریم کا ایک اہم ترین دوسرا حق ہے۔ یہ بھی عملی حقوق میں سے ہیں۔
تیسرا حق قرآن کریم پر عمل ہے۔ یعنی اس کے وہ امور جن کا ادا کرنا لازم کیا گیا ہے۔ اس کے لئے عملاً ہر وقت تیار رہنا۔ وہ امور چاہے از قبیل عبادت ہوں یا از قبیل اخلاقیات۔ ان تمام امور کو عملا ًزندگی میں جاری کرنا جو امور قرآن کریم میں حرام کر دئے گئے ہیں اُن سے مکمل طور پر اجتناب کرنا۔ پھر اگر کرنے والے امور میں کوتاہی ہو جائے تو فوراً توبہ کرنا اور ان کی قضا کرنا اور جن امور سے بچنے کی ضرورت ہے اُن امور کا ارتکاب ہو جائے تو فوراً توبہ کرنا اور آئندہ بچنے کا اہتمام کرنا، یہ عملی حق ہے اور اس کو عمل بالکتاب کہا جاتا ہے۔
چوتھا حق فہمِ کتاب: یعنی قرآن کریم سمجھنے کی کوشش کرنا۔ اس فہم کتاب میں ایمانیات بھی ہیں۔ عبادات بھی، اخلاقیات بھی ہیں اور امور ما بعد الطبعیات بھی۔ حقائق دقیقہ بھی ہیں اور انبیاء علیہم السلام و اقوامِ ماضیہ کے احوال بھی۔
فہم قرآن کے درجات مختلف افراد و اشخاص کے اعتبار سے مختلف ہونگے۔ کم از کم درجہ فرائض و محرکات کا فہم ہے۔
پانچواں حق تبلیغ قرآن ہے۔ یقینی قرآن کریم کے احکامات و تعلیمات دوسروں تک پہنچانا، دوسروں میں مسلمان بھی ہیں اور دیگر اقوام بھی
اب ہر مسلمان خود غور کرے کہ وہ ان میں سےکتنے حقوق ادا کر رہا ہے
(شیخ الحدیث مفتی نذیر احمد قاسمی دامت برکاتہم)
ماخوذ: روز نامہ کشمیرِ عظمیٰ (اخبار)
Comments
Post a Comment