(قرآن و حدیث کی نظر میں)
حضرت آدم علیہ الصلاۃ والسلام اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ نبی تھے۔(صحیح ابن حبان)
جب اللہ تعالیٰ نے انہیں پیدا کرنا چاہا تو فرشتوں اور ابلیس سے کہا
میں کھنکھناتے ہوئے سیاہ اور سڑے ہوئے گارے سے ایک انسان بنانے والا ہوں۔ جب میں اسے ٹھیک طرح سے بنا کر مناسب شکل دے دوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدے میں گر پڑنا۔ (الحجر: ۲۹۔۲۸۔و اعراف: ۱۲۔۱۱)
الغرض اللہ نے پوری زمین سے ایک مٹھی مٹی لی یہی وجہ ہے کہ آدم علیہ السلام کی اولاد میں کوئی گورا ہے، کوئی کالا ہے، کوئی سانوالا ہے، کوئی نرم ہے ، کوئی سخت ہے،، کوئی ناپاک ہے اور کوئی پاک ہے۔ (ترمذی، ابو داؤد)
پھر اللہ تعالیٰ نے اس مٹی کے خلاصے سے گارا تیار کیا۔ (مؤمنون:۱۲)
جب گارا سیاہ اور بدبودار ہوگیا اور اس سے کھن کھن کی آواز آنے لگی تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے آدم علیہ السلام کا پتلا بنا۔ (ص:۷۵۔حجر: ۲۸)
پھر اللہ نے پتلے کو کچھ عرصہ کے لئے ویسے ہی چھوڑ دیا جب ابلیس نے اسے دیکھا تو اس کے گرد چکر لگانے لگا اور اس کو بغور دیکھتا رہا۔ اس نے دیکھا کہ پتلا اندر سے خالی ہے تو وہ سمجھ گیا کہ آدم اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکیں گے۔ (صحیح مسلم)
پھر اللہ تعالیٰ نے جمعہ کے دن عصر کے بعد اس پتلے کو زندہ انسان بن جانے کا حکم دیا۔ حکم سنتے ہی وہ پتلا زندہ انسان بن گیا۔ (آل عمران: ۵۹۔ اور صحیح مسلم)
جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور ان کے جسم میں روح پھونکی تو انہیں چھینک آئی انہوں نے اللہ کے حکم سے الحمدللہ کہا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یرحمک اللہ ... اللہ تم پر رحم کرے۔ (ابن حبان)
پھر اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا جاؤ ان فرشتوں کو سلام کرو اور سنو وہ کیا کہتے ہیں جو کچھ وہ کہیں وہی تمہارا اور تمہاری ذریت کا سلام ہوگا۔ آدم علیہ السلام ان کے پاس گئے اور ان سے کہا: "السلام علیکم "فرشتوں نے جواب دیا "وعلیک السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ" (بخاری)
جب اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا تو تمام فرشتے اللہ کے حکم کے مطابق آدم کے سامنے سجدہ میں گر پڑے لیکن ابلیس نے تکبر کیا اور سجدہ کرنے سے صاف انکار کر دیا اور کہنے لگا میں اس سے بہتر ہوں مجھے تو نے آگ سے پیدا کیا اور آدم کو مٹی سے پیدا کیا۔ (اعراف:۱۱۔۱۲)
ابلیس کی حقیقت
ابلیس جنات میں سے ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے(الا ابلیس کان من الجن)مگر ابلیس جنات میں سے تھا۔ ( کھف: ۵۰)
دوسری بات یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ابلیس آگ سے پیدا ہوا اور فرشتے نور سے پیدا ہوئے۔ (مسلم)
تیسری بات یہ ہے کہ ابلیس کی اولاد ہے(افتتخذونہ وذریتہ اولیاء من دونی) (کھف: ۵۰)
جبکہ فرشتوں میں تناسل کا سلسلہ نہیں ہے۔
اسی طرح ابلیس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی۔ تکبر کیا، جب کہ ملائکہ اللہ تعالیٰ کا ایسا مخلوق ہیں کہ اللہ کے احکام کی نافرمانی نہیں کرتے ۔ شیطان جب فرشتوں میں نہیں تو اسے سجدہ کرنے کا حکم کیوں دیا گیا ؟
جواب یہ ہے
کہ اسے اپنے علم، اجتھاد اور عبادت کی وجہ سے آسمان میں ایک بلند مقام حاصل تھا۔
پھر اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی پیٹھ پر مسح کیا مسح کرتے ہی ہر روح جو ان کی اولاد میں قیامت تک پیدا ہونے والی تھی نکل پڑی۔ پھر ان روحوں کو آدم کے سامنے پیش کیا آدم علیہ السلام نے کہا : اے میرے رب! یہ کون لوگ ہیں؟
اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ تمہاری اولاد ہے ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی پشت سے نکلنے والی اولاد سے میدان عرفات میں عہد لیا۔
اللہ تعالیٰ نے جتنی مخلوق پیدا کرنی تھی ان کو آدم کے آگے چیونٹیوں کی طرح پھیلا دیا پھر ان سے بالمشافہ گفتگو فرمائی(الست برکم قالو بلیٰ۔۔۔۔۔) (اعراف: ۱۷۲۔۱۷۳)
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آدم کی پسلی سے ان کی بیوی کو پیدا کیا تاکہ آدم ان سے سکون حاصل کریں۔ (اعراف: ۱۸۹:بخاری)
پھر اللہ نے انہیں جنت میں رہنے کا حکم دیا۔ (اعراف: ۱۹)
آدم جمعہ کے دن جنت میں داخل ہوئے۔ (بخاری)
اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام سے فرمایا تم اپنی بیوی کے ساتھ اس جنت میں رہو اور جہاں سے چاہو خوب کھاؤ پیو لیکن اس درخت کے قریب بھی نہ جانا ورنہ تم نقصان اٹھاؤگے۔ اور یہ ابلیس تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے۔ اس سے ہوشیار رہنا کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ تمہیں جنت سے نکلوا دے۔الغرض یہاں تم بڑے عیش و آرام سے رہو گے۔
(بقرہ: ۳۵۔طہ:۱۷۔۱۸۔۱۹)
آدم علیہ السلام اور ان کی زوجہ جنت میں بڑے آرام سے رہ رہے تھے لیکن ابلیس ان کے پیچھے لگا ہوا تھا اس نے آدم سے کہا اے آدم ! میں تمہیں ایسا درخت نہ بتاؤں کہ جس کو کھا کر تم کو ایسی سلطنت مل جائے جس میں کبھی ضعف نہ آنے پائے۔ (طہ:۱۲۰)
اور ایک دن ان سے کہنے لگا تمہارے رب نے جو تمہیں اس درخت سے منع کیا ہے صرف اس لئے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ اور ہمیشہ زندہ رہو اور پھر قسم کھا کر کہا میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں۔ (اعراف: ۲۰۔۲۱)
الغرض اللہ تعالیٰ نے جو عہد آدم علیہ السلام سے لیا تھا آدم اسے بھول گئے اور ابلیس نے بالآخر ان کو ورغلا ہی دیا۔ (طہ:۱۱۵۔اعراف:۲۲)
آدم علیہ السلام کی زوجہ مطہرۃ سیدہ حواہ نے پہلے درخت سے کھایا اور آدم علیہ السلام کو ترغیب دی۔بالآخر دونوں نے درخت سے کھا لیا۔
اللہ تعالیٰ نے انہیں پکار کر فرمایا کیا میں نے تم دونوں کو اس درخت کے کھانے سے منع نہیں کیا تھا۔ اور میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ شیطان تم دونوں کا کھلا دشمن ہے اس سے ہوشیار رہنا۔ (اعراف: ۲۲)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم یہاں سے اتر کر نیچے چلے جاؤ اب تمہیں کچھ عرصے کے لئے زمین پر رہنا ہے اور وہیں فائدہ اٹھانا ہے۔ (بقرۃ: ۳۶)
پھر اللہ تعالیٰ نے جمعہ ہی کے دن انہیں زمین پر اترنے کا حکم دیا اور اسی دن وہ زمین پر اتار دئے گئے۔
(نسائی، ابو داؤد، ابن حبان)
Comments
Post a Comment