حضرت عقبہ بن عامر رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ مشہور صحابی ہیں ، کئی احادیث آپ سے منقول ہیں، ترمذی شریف میں آپؓ ﷺ سے ایک حدیث منقول ہے، اس میں حضرت عقبہ بن عامر رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں
(سنن ترمذی ،باب ماجاء فی حفظ اللسان)
میں نے نبی کریم ﷺ سے گزارش کی: اے اللہ کے رسولﷺ ! مجھے بتلایئے کہ دنیا اور آخرت میں نجات کاذریعہ کیا ہے؟
نبی کریم ﷺ نے ان کے سوال کے جواب میں تین چیزوں کی نصیحت فرمائی،تین باتوں کو نجات کا سبب بتلایا
ایک :-اپنی زبان کو قابو میں رکھو
دو :- تمہارا گھر تمہاری کفایت کرے، یعنی اپنے گھر میں رہا کرو
تین :- اپنے گناہوں پر رویا کرو
نبی کریم ﷺ نے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ کے سوال کے جواب میں نجات کا ذریعہ اور سبب جن تین چیزوں کو بتلایا ہے ،ان میں سے ہر ایک سے متعلق کچھ تفصیل درج ذیل ہے
پہلی نصیحت:زبان کو قابو میں رکھنا
نبی کریم نے پہلی چیز جس کو نجات کا سبب بتلایا ہے، ارشاد فرمایا:’’اپنی زبان کو اپنے کنٹرول میں رکھنا۔‘‘یعنی اپنی زبان کو ایسی چیزوں اور ایسی باتوں سے پاک رکھو جن باتوں میں کوئی خیر اور بھلائی نہ ہو،لا یعنی گفتگو سے اپنی زبان کو بند رکھو۔
انسانی اعضاء میں سے زبان بڑی اہمیت رکھتی ہے ،اسے علماء نے دو دھاری تلوار قرار دیا ہے، یہ حق میں بھی چلتی ہے اور باطل میں بھی۔ انسان کی زبان زندوں پر بھی چلتی ہے اور کبھی مُردوں کو بھی نہیں بخشتی ۔ اس لیے انسان جو بول اپنی زبان سے نکالے، سوچ سمجھ کر نکالے، ساتھ ساتھ اپنی گفتگو کے بارے میں یہ سوچ بھی رکھے کہ میرا کہا ہوا سب کچھ لکھا جارہا ہے ،مجھے اپنے ہر بول کا حساب دینا ہوگا،جو کچھ میں کہہ رہا ہوں، کیا میں اس کا حساب دے سکتا ہوں؟
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلاَّ لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ‘‘ کہ انسان کی زبان سے کوئی لفظ ایسا نہیں نکلتا جسے لکھنے کے لیے حاضر باش فرشتہ نگران موجود نہ ہو، یعنی میری اور آپ کی تمام تر گفتگو لکھی جارہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتے اس کے لیے مقرر کر رکھے ہیں، اس لیے ہمیں اپنی گفتگو میں، گپ شپ میں، ہنسی مذاق میں بھی احتیاط سے کام لینا چاہیے، زبان سے غلط بول نکل جائے تو بندہ اللہ پاک کے حضور صدقِ دل سے معافی مانگے اور آئندہ کے لیے اپنی زبان کو فضولیات سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرے۔
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللّٰه علیہ کا عجیب واقعہ
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللّٰه علیہ اپنے وقت کے عظیم محدث اور عالم تھے، ان کی دینِ اسلام پر استقامت بے مثل تھی،وقت کی تمام طاقتیں انہیں ان کے دینی موقف سے پیچھے نہ ہٹا سکیں، ان کا صبر بعد میں آنے والوں کے لیے ایک مثال بنا۔ ان کے بارے میں سورۂ ق کی مذکورہ آیت کے تحت مفسرین نے ایک عجیب واقعہ نقل کیا ہے کہ: امام احمد بن حنبل رحمۃ اللّٰه علیہ اپنی حیاتِ مبارکہ کے آخری ایام میں علیل تھے،بیمار تھے،اور عام طور پر بیماری میں انسان کراہتا ہے، کراہنے کی آواز منہ سے نکلتی ہے، جسے ہم آہ آہ کرنا کہتے ہیں،تو امام احمد بن حنبل رحمۃ اللّٰه علیہ کراہ رہے تھے، حضرت طاووس رحمۃ اللّٰه علیہ بزرگ بھی ہیں اور محدث بھی ہیں، وہ اُن کے قریب تشریف فرما تھے،انہوں نے امام احمد بن حنبل رحمۃ اللّٰه علیہ سے کہا کہ: فرشتے انسان کی زبان سے نکلا ہوا ہر کلام ہر لفظ لکھ لیتے ہیں، محفوظ کر لیتے ہیں، حتیٰ کہ مریض کا کراہنا بھی لکھ لیا جاتا ہے، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللّٰه علیہ نے جب یہ بات سنی تو : امام صاحب نے کراہنا بھی ختم کردیا، یہاں تک کہ دنیا سے تشریف لے گئے۔
اس سے اندازہ لگائیں کہ یہ حضرات اپنی زبان کے معاملے میں کتنی احتیاط کرتے تھے،مباح باتیں بھی بلا ضرورت اپنی زبان سے نہیں نکالتے تھے۔ امام احمد رحمۃ اللّٰه علیہ نے بیماری اور مرض کی وجہ سے کراہنا بھی ختم کردیا کہ کہیں اس پر قیامت میں پوچھ گچھ نہ ہو۔
فسادات کا ایک بڑا سبب
اگر ہم غور کریں تو ہمیں اکثر لڑائی ،جھگڑوں اور فسادات کی بنیاد اور سبب انسانی زبان کی بے احتیاطی اور بے باکی نظر آئے گی۔ہماری زبانیں آج بڑی بے احتیاط ہو چکی ہیں، جو کچھ ہماری زبانوں پر آتا ہے، ہم بولتے چلے جاتے ہیں، سوچتے بھی نہیں کہ ہماری یہ باتیں برائیوں کے پلڑے کو بھاری کرنے کا سبب بن رہی ہیں، ان پر قیامت میں ہماری سخت پکڑ ہو سکتی ہے اور ہماری غیر محتاط باتیں ہمیں دوزخ کی آگ میں دھکیل سکتی ہیں۔
زبان کے بے احتیاطی کا نتیجہ
حضرت معاذ بن جبل رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ مشہور صحابی ہیں، وہ ارشاد فرماتے ہیں: میں نے نبی کریم ﷺ سے سوال کیا کہ: یا رسول اللہ ﷺ! ’’مجھے ایسا عمل بتلا دیجیے جس کی وجہ سے میں جنت میں داخل ہو سکوں اور جہنم سے دور کردیا جاؤں۔‘‘ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’اے معاذ! تم نے بہت بڑی بات پوچھی ہے۔‘‘ پھر نبی کریم ﷺ نے انہیں عبادات بتلائیں کہ نماز کا اہتمام کرنا، زکوۃ ادا کرنا، حج کی استطاعت ہو تو حج کرنا، شرک سے بچنا اور ساتھ ساتھ کچھ نفلی عبادات سے بھی آگاہ فرمایا۔ اس روایت کے آخر میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ اے معاذ! کیا میں تمہیں وہ چیز بھی بتلادوں جس پر گویا ان سب کا دارومدار ہے۔‘‘ یعنی ان عبادات کا مدار اس چیز پر ہے،جس کے بغیر یہ سب چیزیں ہیچ اور بے وزن ہیں، حضرت معاذ رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا کہ: یا رسول اللہ ﷺ! ضرور وہ چیز بھی بتلا دیں، نبی کریم ﷺ نے اپنی زبان مبارک پکڑی اور ارشاد فرمایا:’’اس کو روکو۔‘‘ یعنی زبان کو قابو میں رکھو، یہ چلنے میں بے احتیاط اور بے باک نہ ہو۔ حضرت معاذ رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ ’’ہم جو باتیں کرتے ہیں کیا ان پر بھی ہم سے مواخذہ ہوگا؟‘‘
باز پُرس کی جائے گی؟
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’اے معاذ! تجھے تیری ماں روئے۔‘‘(عربی زبان کے محاورہ میں یہ کلمہ یہاں پیار و محبت کے لیے ہے)‘‘ لوگوں کو دوزخ میں ان کے منہ کے بل زیادہ تر ان کی زبانوں کی بے باکانہ باتیں ہی ڈلوائیں گی،یعنی آدمی جہنم میں اوندھے منہ زیادہ تر زبان کی بے احتیاطیوں کی وجہ سے ہی ڈالے جائیں گے۔
اس حدیث کو سامنے رکھ کر ہم اپنے آپ کو دیکھ سکتے ہیں کہ زبان سے سرزد ہونے والے بڑے بڑے گناہ آج ہمارے درمیان وبا کی طرح پھیل چکے ہیں اور ان گناہوں سے بچنے والے لوگ نہایت ہی کم ہیں۔
نبی کریم ﷺ کی عادتِ مبارکہ
نبی کریم سید الانبیاء والمرسلین ﷺ ہیں، قیامت تک کے لیے آخری پیغمبر ہیں، رسول اللہﷺ کو اس دنیا میں سب سے زیادہ بولنے کی حاجت و ضرورت تھی، اس لیے کہ آپ قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں کے لیے مقتدیٰ اور پیشوا تھے، آپ نے ساری انسانیت کو ہر لحاظ سے ہدایات دینی تھیں، اور اس ضرورت کے لیے آپ ﷺ بولنے میں کوئی کمی بھی نہیں فرماتے تھے، آپ نے ضرورت کی ہر چھوٹی بڑی بات بتلائی اور زندگی کے ہر شعبے سے متعلق راہنمائی فراہم کی، اس کے باوجود آپ ﷺ کو دیکھنے والے صحابہ کرام رضی اللّٰه تعالیٰ عنہم ارشاد فرماتے ہیں: ’’نبی کریم ﷺ بہت زیادہ خاموش رہتے تھے اور آپ ﷺ صرف وہی بات فرماتے تھے جس پر ثواب کی امید ہوتی تھی، اس سے زبان کی احتیاط کا اندازہ لگائیں۔
زبان کی آفتیں
زبان کے ذریعہ ہم سے بے شمار گناہ سرزد ہوتے ہیں، ان گناہوں میں غیبت، چغلی، گالم گلوچ، دوسرے مسلمانوں کو ایذاء رسانی شامل ہے، اس لیے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا گیا ہے: اصل حقیقی مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں، یعنی مسلمان کی زبان غیبت، چغلی، بدگوئی اور فحش باتوں سے محفوظ رہے۔ یہاں زبان کو پہلے ذکر فرمایا اور ہاتھ کو بعد میں، علماء لکھتے ہیں: زبان سے سرزد ہونے والی خطائیں جلدی بھی ہوتی ہیں اور اکثر بھی۔ عام طور پر دوسروں کو تکلیف دینے کے لیے انسان زبان کا استعمال زیادہ کرتا ہے اور جو شخص دوسروں کو ہاتھ سے تکلیف نہیں دے سکتا، وہ بھی زبان کے ذریعہ ایذاء پہنچاتا ہے۔
آج ہماری مجلسیں اور بیٹھکیں غیبت سے بھری ہوتی ہیں، ہمیں یہ احساس بھی نہیں ہوتا کہ دوسروں کی غیبت کر کے ہم اپنے اعمال بھی ضائع کر رہے ہیں اور گناہِ کبیرہ کے مرتکب ہو رہے ہیں، یعنی غیبت کے گناہ ہونے کا احساس بھی ہمارے دلوں سے رخصت ہو چکا ہے،اللہ تعالیٰ ہمارے حالات پر رحم فرمائے اور ہمیں سمجھ نصیب فرمائے ۔
حضرت داؤد الطائی رحمۃ اللّٰه علیہ کا غیبت کی وجہ سے بے ہوش ہونا
ایک بزرگ گزرے ہیں جن کانام ابو سلیمان داؤد الطائی رحمۃ اللّٰه علیہ ؒ ہے، یہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللّٰه علیہ کے شاگردوں میں سے ہیں، یہ بڑا عجیب ذوق رکھتے تھے، ساری زندگی انتہائی زہد و استغناء کے ساتھ گزاری، روٹی کو پانی میں بھگو لیتے تھے، جب وہ گھل جاتی تو شربت کی طرح اسے پی لیتے اور فرماتے تھے جتنے وقت میں میں ایک ایک لقمہ توڑ کر کھاؤں گا، اتنے عرصہ میں قرآن کریم کی پچاس آیتیں تلاوت کرسکتا ہوں، لہٰذا روٹی کھانے میں عمر کیوں ضائع کروں ۔
ایک دن ایک شخص ان کے پاس آئے اور نصیحت کرنے کی درخواست کی ، حضرت داؤد طائی رحمۃ اللّٰه علیہ نے فرمایا: ‘‘دیکھو کہ اللہ تمہیں اس جگہ نہ دیکھے جہاں کا اس نے تمہیں منع فرمایا ہے،اور جہاں کا تمہیں حکم دیا ہے، وہاں تمہیں غیر حاضر نہ پائے۔‘‘مختصر الفاظ میں کتنی عمدہ اور گہری بات فرمائی ہے۔
ان کے بارے میں بعض محدثین نے شروحاتِ حدیث میں یہ واقعہ لکھا ہے کہ یہ ایک مرتبہ کسی جگہ سے گزر رہے تھے، یکدم وہاں بے ہوش ہو کر گر پڑے، انہیں اُٹھا کر ان کے گھر لے جایا گیا،جب بے ہوشی سے افاقہ ہوا تو کسی نے کہا کہ اس جگہ آپ پر بے ہوشی کیوں طاری ہوئی اور آپ کیوں گر پڑے تھے
جواب میں انہوں نے کہا ‘‘ جب میں اس جگہ پہنچا تو مجھے یاد آیا کہ اس مقام پر ایک مرتبہ کسی کی غیبت ہوگئی تھی، اور مجھے وہاں پہنچ کر یہ احساس پیدا ہوا کہ کل قیامت کے دن اللہ پاک کے سامنے مجھ سے اس بارے میں مطالبہ ہوا، حساب کتاب کیا گیا، مجھ سے پوچھا گیا تو میں کیا جواب دوں گا؟
اس محاسبہ اور اللہ کے سامنے پیشی کے خوف نے مجھے بے ہوش کردیا۔
ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللّٰه علیہ کا ایک دعوت میں شریک ہونا
حضرت ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللّٰه علیہ بڑے بزرگ گزرے ہیں ، طویل واقعہ ہے کہ انہوں نے شہنشاہیت چھوڑ کر فقیری اختیار کرلی تھی اور اللہ تعالیٰ کے مقرب اور برگزیدہ بندے بن گئے۔ حضرت ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللّٰه علیہ کو ایک دعوت میں بلایا گیا،ضیافت کا اہتمام کیا گیا، آپ وہاں تشریف لے گئے۔ جب وہاں پہنچے اور بیٹھ گئے تو جو لوگ وہاں موجود تھے: انہوں نے کسی کی غیبت شروع کردی، ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللّٰه علیہ نے بڑے احسن انداز میں انہیں سمجھایا، ارشاد فرمایا کہ: دیکھو: ہمارے ہاں پہلے لوگ روٹی کھاتے ہیں، پھر گوشت کھاتے ہیں، یعنی روٹی توڑ کر شوربے میں ڈالی، ثرید بنائی اور پھر بوٹیاں رکھ دیں، تو روٹی کے بعد لوگ گوشت کھا لیتے ہیں اور تم لوگ ایسے ہو کہ: تمہارے یہاں روٹی سے پہلے ہی گوشت خوری شروع ہو گئی، یعنی ابھی کھانا شروع بھی نہیں کیا اور گوشت کھانا شرع کردیا،یعنی تم لوگوں نے دوسروں کی غیبت شروع کردی ،ابراہیم بن ادہم کا اشارہ قرآن کریم کی اس آیت کی طرف تھا کہ
’’ أَیُحِبُّ أَحَدُکُمْ أَنْ یَّأْکُلَ لَحْمَ أَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِہْتُمُوْہُ
’’کیا تم میں سے کوئی پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟
سو اس کو تو تم ناپسند کرتے ہو۔
یعنی غیبت کرنا مردہ بھائی کا گوشت کھانا ہے، لہٰذا جس طرح وہ تمہیں پسند نہیں، اسی طرح غیبت سے بھی اپنے آپ کو دور رکھو۔
نبی کریم ﷺ کی پہلی نصیحت کا حاصل اور خلاصہ یہ ہے کہ زبان اللہ پاک کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے، اس کا بے جا استعمال نہ کیا جائے۔ ہر انسان اپنی زبان کو قابو میں رکھے اور بلا ضرورت، لایعنی کلام، فضول گفتگو ،گپ شپ سے اپنے آپ کو بچائے۔ یہ نجات کے ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہے اور فسادات ، لڑائی اور جھگڑوں سے بچنے کے وسائل میں سے ایک اہم وسیلہ ہے۔
دوسری نصیحت:اپنے گھر میں رہنا
سرکارِ دوعالم ﷺ نے دوسری نصیحت یہ فرمائی کہ :تمہارے گھر میں تمہارے لیے گنجائش ہونی چاہیے، تمہارا گھر تمہاری کفایت کرے، یعنی بری مجلسوں اور برے لوگوں کی صحبت میں بیٹھنے کی بجائے یکسوئی کے ساتھ اپنے گھر میں رہا کرو، اور اپنے گھر میں رہنے کو اپنے لیے غنیمت جانو، اس لیے کہ یکسوئی کے ساتھ گھر میں رہنا، بہت سارے فتنوں، فسادات اور برائیوں سے نجات پانے کا ذریعہ اور سبب ہے۔ جب انسان کا گھر سے باہر کوئی دینی یا دنیاوی کام نہ ہو، کوئی ضرورت اور حاجت نہ ہو تو اب بلا ضرورت گھر سے باہر رہنا، بلا ضرورت گھومتے پھرتے رہنا، یہ شریعت میں پسندیدہ عمل نہیں ہے، البتہ کسی کے جنازے میں شریک ہونا، عیادت کے لیے جانا،دینی محافل مجالس میں شریک ہونا، یہ چیزیں انسان کے لیے مفید اور باعث اجر و ثواب ہیں، مطلقاً بلا کسی ضرورت اور حاجت کے گھومنا پھرنا اس کو اچھا نہیں سمجھا گیا۔
حضرت عثمان بن مظعون رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ جلیل القدر صحابی ہیں، یہ اور اُن کے صاحبزادے سائب ان افراد میں شامل ہیں جنہوں نے حبشہ کی جانب ہجرت کی تھی، اور یہ مہاجرین میں سے پہلے صحابیؓ رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ ہیں جنہوں نے مدینہ منورہ میں سن۲ ہجری میں وفات پائی تھی، اور ان کا یہ اعزاز ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کی نعش مبارک کو بوسہ دیا تھا۔ انہوں نے نبی کریم سے چند سوالات کیے، ان سوالات میں سے ایک سوال یہ بھی تھا کہ: اے اللہ کے رسول ﷺ! ’’ہمیں سیر و سیاحت کی اجازت عنایت فرمائیے۔ گھومنے پھرنے کی اجازت عطا فرمائیں۔ نبی کریم ﷻ نے جواب میں ارشاد فرمایا: ’’میری امت کے لیے سیر و سیاحت یہی ہے کہ: اللہ پاک کے راستہ میں جہاد کیا جائے۔
دیکھیے! اس حدیث میں آپ نے بغیر کسی منفعت کے سیر و سیاحت کرنے کی اجازت عنایت نہیں فرمائی، بلکہ اس سے منع فرمایا، کیونکہ زمین پر گھومنا پھرنا اور دور دراز کا سفر اختیار کرنا جہاد فی سبیل اللہ میں مطلوب و محمود ہے۔محض سیر و سیاحت کی خاطر خواہ مخواہ دنیا کے چکر کاٹنا، جیسا کہ بعض لوگ کرتے ہیں، عقلمندی کی بات نہیں ہے اور نہ اس سے کوئی اُخروی منفعت و بھلائی حاصل ہوتی ہے۔ بلا ضرورت گھر سے باہر رہنے اور گھومنے پھرنے سے بہت سارے گناہوں میں مبتلا ہونے کا اندیشہ رہتا ہے، خاص کر فتنے کے زمانے میں گھر میں رہنا انسان کے لیے فتنوں اور پریشانیوں سے بچاؤ کی بہترین تدبیر ہے۔ فضول کی محافل اور مجلسیں لگانا اور ان میں دوسروں کی غیبت اور تبصروں میں مشغول ہونا اپنی زندگی کے قیمتی وقت کو ضائع کرنا ہے۔
دوسری نصیحت میں ہمیں یہی بتایا گیا ہے کہ بری محافل، مجالس اور غلط دوستی ،اور صحبت سے اپنے آپ کو دور رکھیں،باہر گھومنے پھرنے کی بہ نسبت اپنے گھر میں رہنا اسی میں عافیت ہے۔ بعض دوستیاں اور تعلقات انسان کو حق سے دور کردیتے ہیں اور انسان قیامت کے دن ایسے برے لوگوں کی دوستی پر افسوس اور ندامت کرے گا، مگر اس دن کی ندامت انسان کو نجات نہیں دلا سکے گی۔سورۂ فرقان میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے
’’وَیَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَی یَدَیْہِ یَقُوْلُ یَا لَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلاً یَا وَیْلَتٰی لَیْتَنِیْ لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیْلاً۔‘‘ (الفرقان:۲۷،۲۸)
’’اور جس دن کاٹ کاٹ کھائے گا گناہ گار اپنے ہاتھوں کو، کہے گا: اے کاش! میں نے پکڑا ہوتا رسول کے ساتھ راستہ۔ ہائے افسوس! کاش! میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا۔
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ پاک کے نافرمانوں سے دوستی اور وابستگی نہیں رکھنی چاہیے، اس لیے کہ اچھی صحبت سے انسان اچھا اور بری صحبت سے انسان برا بنتا ہے۔ اکثر لوگوں کی گمراہی کی وجہ غلط دوستوں کا انتخاب اور صحبتِ بد کا اختیار کرنا ہی ہے۔ اس لیے حدیث میں بھی صالحین کی صحبت کی تاکید اور بری صحبت سے اجتناب کا حکم دیا گیا ہے۔
تیسری نصیحت:اپنی خطاؤں اور گناہوں پر رونا
نبی کریم ﷺ نے تیسری نصیحت یہ فرمائی کہ : اپنی خطاؤں، اپنے گناہوں اور نافرمانیوں پر اللہ پاک کے حضور شرمسار ہوکر گڑگڑاؤ، اشک بہایا کرو، رویا کرو۔
احساسِ ندامت اور خوفِ خدا میں بہنے والے آنسو اللہ تعالیٰ کو بڑے محبوب ہیں۔ مومن آدمی جتنا اشکِ ندامت گراتا ہے، اتناہی اللہ کے ہاں محبوب بنتا چلا جاتا ہے۔ تفسیر کبیر میں امام رازی اور تفسیر روح المعانی میں علامہ آلوسی نے یہ حدیث قدسی نقل کی ہے، یعنی اللہ رب العالمین کا یہ ارشاد نقل فرمایا ہے کہ: گناہگاروں کا رونا، احساسِ گناہ میں آنسو بہانا،اللہ کے سامنے عاجزی کرنا، یہ اللہ تعالیٰ کو تسبیح خوانوں کی آواز سے زیادہ پسندیدہ ہے، اس لیے ہمیں یہ نصیحت کی گئی ہے کہ اپنے پروردگار کے سامنے اپنی خطاؤں پر رویا کرو۔
کَھمَس بن حسن قیسی کا چالیس برس تک رونا
حضرت کَھمَس بن حسن قیسی بصرہ میں ایک بڑے پایہ کے بزرگ گزرے ہیں، حدیث کی کتابوں میں ان کی سند سے کئی روایات بھی موجود ہیں، وہ مشہور روایت جس میں رسول اللہ نے حضرت عائشہ کو شب قدر کی دعا سکھائی ہے: ’’اللّٰہم إنک عفو کریم تحب العفو فاعف عنی‘‘ یہ روایت ان ہی کی سند سے ترمذی شریف میں منقول ہے۔ ۱۴۹ ہجری میں ان کا انتقال ہوا ہے۔ انہوں نے اپنی والدہ کی بڑی خدمت کی ہے ۔ ان کی سوانح میں لکھا ہے کہ جب ٹھنڈا پانی پیتے تو یہ ایک نعمت بھی ان کے نزدیک اتنی بڑی قیمت رکھتی تھی کہ ٹھنڈا پانی پی کر اس کے بدلے میں ، آنسو بہایا کرتے تھے، کہ: اے اللہ! آپ نے اپنے فضل سے ٹھنڈے پانی کی نعمت عطا کی۔
ان کے بارے میں کتابوں میں لکھا ہے کہ ایک معمولی غلطی پر چالیس سال تک آنسو بہاتے رہے۔ ایک دن یہ بیٹھے ہوئے ایک دوسرے بزرگ ابو سلمہؒ کے سامنے اپنے گناہوں کا شکوہ کرنے لگے، اور کہنے لگے: میں نے ایک ایسا گناہ کیا ہے جس پر چالیس سال سے رو رہا ہوں۔ ابوسلمہؒ نے یہ بات سنی تو حیران ہوئے اور پوچھا: ایسا کون سا گناہ سرزد ہوا ہے؟
کہنے لگے: ایک دن میرے بھائی مجھ سے ملنے آئے، میں نے ایک دینار کی مچھلی خریدی، چنانچہ میرے بھائی نے وہ مچھلی کھائی، میں نے اُٹھ کر اپنے پڑوسی کی دیوار سے مٹی کا ایک ٹکڑا اُٹھا لیا، تاکہ وہ اس سے ہاتھ پونچھ لے ، صاف کرلے۔ اس مٹی کے ٹکڑے کے اُٹھانے پر میں چالیس سال سے رو رہا ہوں، کیوں کہ وہ ٹکڑا میں نے اپنے پڑوسی کی اجازت اور اس کے علم میں لائے بغیر اُٹھالیا تھا۔ اللہ اکبر! کیسا احساس اور کیسا خدا کا خوف ان کے دلوں میں رچا بسا تھا، اور آخرت کا محاسبہ ہر وقت ان کی آنکھوں کے سامنے رہتا تھا، چڑھتے سورج کی طرح حساب کتاب اور پوچھ گچھ پر یقین و اعتقاد تھا۔
ترمذی شریف میں رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد منقول ہے، آپ نے فرمایا: ’’اس آدمی کو جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی جو اللہ کے خوف سے روتا ہو۔
نیز ایک طویل روایت میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں، آنحضرت ﷺ نے فرمایا: ’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سات آدمیوں کو اپنے سائے میں رکھے گا جس روز اللہ پاک کے سائے کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہوگا۔‘‘ ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنے دامن رحمت میں جگہ دے گا اور انہیں آخرت کی سختیوں سے بچائے گا۔ قیامت کے روز جب کہ تمام لوگ پریشان و حیران ہوں گے تو یہ سات قسم کے لوگ عرش کے سائے میں رحمتِ الٰہی کی نعمت میں آرام و سکون سے ہوں گے۔ان سات آدمیوں میں ایک وہ آدمی بھی شامل ہے جو تنہائی میں اللہ پاک کو یاد کرتا ہے اور اللہ پاک کے خوف سے اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں۔
حضرت ثابت بنانی کاخوف خدا میں رونا
حضرت ثابت بنانی تابعی ہیں، ائمہ حدیث میں سے ہیں،اللہ کے خوف اور خشیت سے بہت کثرت کے ساتھ رویا کرتے تھے، یہاں تک کہ ان کی آنکھیں دکھنے لگیں، طبیب نے کہا کہ ایک بات کا وعدہ کرلو، آنکھ اچھی ہوجائے گی، اور وہ بات یہ ہے کہ رویا نہ کرو۔ حضرت ثابت بنانی نے طبیب کی یہ بات سنی تو فرمایا: اس آنکھ میں کوئی خوبی ہی نہیں، اگر وہ روئے نہیں، وہ آنکھ ہی کیا جو اللہ کے خوف سے نہ روئے۔
حاصل یہ ہے کہ انسان اپنی خطاؤں پر رویا کرے، اور اگر رونا نہ آئے تو کم ازکم رونے کی شکل ہی بنا لیا کرے، بتکلف رونے کی کوشش کیا کرے،اس سے دل کی سختی دور ہوتی ہے۔ آنکھوں کا خشک رہنا، جامد رہنا، آنکھوں سے اللہ کی یاد میں آنسوؤں کا نہ بہنا، یہ اچھی علامت نہیں ہے،ایک حدیث مبارکہ میں اس کو بدبختی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان نصیحتوں پر عمل کی توفیق نصیب فرمائے
ماہنامہ بینات جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
Comments
Post a Comment