خوارق و معجزات اور سائنس
اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو انسانی زندگی کے ہر گوشہ اور ہر موڑ پر انسان کی رہنمائی کرتا ہے۔ دنیا کے معاملات ہو یا آخرت کے احوال، اسلام نے سب کی تفصیلات اور زندگی کی ہر مشکل کا قابلِ عمل حل پیش کیا ہے۔ اسلام دینِ فطرت ہے، اس لیے اس کا ہر حکم عقلِ سلیم اور فطرتِ صحیحہ کے موافق ہے۔ اگر کسی شخص کو اسلامی عقائد و اعمال میں سے کوئی چیز خلافِ عقل نظر آتی ہے تو یہ دراصل اس کی عقل کا قصور ہے۔ عقل بھی تو ایک قوتِ شاعرہ ہی ہے۔ ہر حس و شعور کا دائرۂ عمل محدود ہوتا ہے۔ قوتِ باصرہ (آنکھ) ایک خاص حد تک کام کرتی ہے، اس سے آگے عاجز ہے۔ قوتِ سامعہ (کان) سے بھی ایک مخصوص حد تک استفادہ کیا جاتا ہے، لیکن اگر متکلم مخاطب سے بعید اور اس کی نگاہ سے اوجھل ہو تو نہ اس کی آواز سنی جا سکتی ہے اور نہ اس کی شکل و صورت دکھائی دیتی ہے۔ اسی بنا پر کوئی شخص اس کا دعویٰ نہیں کرتا کہ جو چیز میری نگاہ کے احاطہ میں نہیں ہے، وہ دراصل موجود نہیں ہے۔ اسی طرح عقل کا دائرۂ ادراک و شعور بھی محدود ہے، ہر چیز کو میزانِ عقل پر وزن نہیں کیا جا سکتا، عقل کی ترازو میں امورِ آخرت، حقیقت و آثارِ نبوت‘ ذات و صفاتِ الٰہی کی تفصیلات کو نہیں تولا جا سکتا۔ اس کی مثال ایسی ہوگی کہ کوئی شخص سونا تولنے کی ترازو (کانٹے) میں پہاڑوں کو تولنے لگے، تولنے والے کی حماقت ہے۔ علاوہ ازیں جس طرح آنکھ میں بصارت کا مادہ اور بینائی کی قوت موجود تو ہے، لیکن وہ تاریکی میں قوتِ باصرہ سے کام لینے کے لیے خارجی روشنی کی محتاج ہے، اسی طرح عقلِ انسانی بھی ماوراء العقل اُمور کے ادراک میں وحیِ الٰہی کی محتاج ہے۔ لہٰذا اگر عقل کے ساتھ وحیِ الٰہی کا لطیف و نور آفریں تعلق باقی رہے تو اسلام کا کوئی حکم خلافِ فطرت اور خلافِ حقیقت نظر نہیں آسکتا، لیکن اگر وحیِ سماوی اور تعلق مع اللہ کا کنکشن منقطع ہو جائے تو قدم قدم پر انسانی عقل اسی طرح ٹھوکریں کھاتی ہے، جیسے اندھیرے میں بینائی کی قوت، حتیٰ کہ پیشِ پا اُفتادہ حقائق اور بدیہیات بھی اس کے لیے نظریات بن جاتے ہیں، اسی لیے شریعتِ اسلامیہ نے عقل کو علم و معرفت کے باب میں مختار کل نہیں بنایا، بلکہ وحیِ ربانی کے تابع رکھ کر اس سے استفادہ کرنے کا حکم دیا ہے۔
موجودہ دور میں ملحدینِ یورپ کی کورانہ تقلید یا جدید تعلیم و تہذیب کے مسموم اثرات کی وجہ سے مسلمانوں میں ایک ایسا طبقہ پیدا ہو گیا جو اسلام کے معتقدات اور مسلمہ حقائق کو خلافِ فطرت کہہ کر ان کا مذاق اُڑاتا ہے، بلکہ سنجیدگی کے ساتھ ان پر غور کرنے اور سمجھنے کی کوشش کرنے کے بجائے اس تمسخر و استہزاء کو اپنے لیے سامانِ تفریح اور اپنی مجالس کو اس سے پُر رونق بناتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ یہ لوگ انتہائی وقاحت اور بے شرمی کے ساتھ اعلان کرتے ہیں کہ چونکہ یہ مسائل ہماری روشن عقل کے خلاف ہیں، اس لیے ہم ان کو تسلیم نہیں کر سکتے
کاش! ان دشمنانِ عقل و دین سے کوئی دریافت کرے کہ تمہیں پتہ ہے کہ عقل کی حقیقت کیا ہے؟
اہلِ عقل کہلانے کے مستحق کون لوگ ہیں؟
اور کس نے تمہیں عقلاء کی فہرست میں شامل کیا ہے؟
انہی مدعیانِ عقل و دانش کے سامنے اگر کوئی تاریخی واقعہ پیش کیا جائے تو اس کو تسلیم کرنے میں ان کو کوئی تامل نہیں ہوتا، چاہے وہ کتنا ہی بعید از عقل کیوں نہ ہو، خصوصاً اگر کسی انگریز مؤرخ یا مستشرق نے اس کو قلمبند کیا ہو تو اس کا درجہ تو اُن کے نزدیک ایمان و یقین کے لحاظ سے وحیِ ربانی سے بھی زائد ہوگا۔ ذیل میں دو تاریخی واقعات درج کیے جاتے ہیں، جن سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان مدعیانِ عقل و خِرد کو اُن کے تسلیم کرنے میں تو کوئی کلام نہیں، لیکن اگر اس قسم کا واقعہ شریعت نے بیان کیا ہوتا تو اس میں ان دشمنانِ عقل و دین کو صدہا کیڑے نظر آتے اور صاف کہہ دیتے کہ خلافِ عقل ہے، ہم نہیں مانتے
ایک :- ’’ہنگری میں دو لڑکیاں پیدا ہوئیں، دونوں کے تمام اعضاء مستقل اور الگ الگ تھے، لیکن دونوں کے سرین (پچھلا حصہ) اس طرح ایک کا دوسرے سے جڑا ہوا تھا کہ دونوں کا مخرجِ براز (فضلہ نکلنے کی جگہ) ایک ہی تھی، اسی ایک راستہ سے دونوں قضاء حاجت کرتی تھیں، پیشاب گاہ الگ الگ تھی، جب ایک کو پیشاب کی حاجت ہوتی تو دوسری منقبض ہو جاتی۔ عمر کے چھٹے سال میں ایک کے اعضاء کسی مرض سے شل ہو گئے، اسی حالت میں وہ عمر بھر پھرتی رہی، لیکن دوسری کے اعضاء صحیح سالم تھے۔ بلوغ کی علامات بیک وقت دونوں میں ظاہر ہوئیں۔ جب بائیس سال کی عمر ہوئی تو ایک کو شدید بخار ہوا اور اسی مرض میں اس کا انتقال ہو گیا، تین گھنٹہ کے بعد دوسری بھی مرگئی اور ساتھ ہی دونوں کو دفن کیا گیا۔
دو :- ایک چینی لڑکا جس کی عمر بارہ برس کی تھی اپنے سینہ پر دوسرا بچہ اُٹھائے ہوئے تھا، اس دوسرے بچے کا سر اُس کے سینہ کے اندر چھپا ہوا تھا، باقی دھڑ اس کے سینہ سے گھٹنوں تک لٹکا رہتا تھا، اس بچہ میں کافی شعور تھا، ذرا سے چھونے سے وہ متاثر ہوتا اور اس سے وہ اُٹھا نے والا بھی متاثر ہوتا۔
اس قسم کے متعدد واقعات انسائیکلو پیڈیا میں موجود ہیں، یہ مدعیانِ عقل و خِرد ان کو تو بلا کسی تردد کے تسلیم کر لیتے ہیں، لیکن اگر خرقِ عادت کے طور پر انبیاء ؑو اولیاء ؒسے کوئی اسی قسم کی خلافِ عادت چیز ظہور میں آئے تو اس میں شکوک و شبہات پیدا ہو جاتے ہیں اور نہیں مانتے۔
یہ مرض دراصل وحیِ الٰہی کی عظمت کے شعور سے محروم ہونے اور ایمان کی کمزوری کا نتیجہ ہے۔ اگر خلاّقِ عالم کی قدرت پر یقین کامل ہو تو تمام ’’خوارق‘‘ (معجزات و کرامات) پر ایمان لانے میں کسی قسم کا کوئی مانع پیش نہیں آسکتا۔ یہی وجہ تھی کہ جب معراج کا ایمان افروز واقعہ کفار نے صدیقِ اکبر کے سامنے پیش کیا، تاکہ ان سے حضور ﷺ کی تکذیب کرائیں تو صدیق اکبر نے فرمایا: اس میں کونسی تعجب کی چیز ہے؟
’’وحی‘‘ آنے پر جب میں ایمان لاچکا ہوں تو اس واقعۂ صادقہ کے تسلیم کرنے میں مجھے کیا تامل ہو سکتا ہے
موجودہ پُر فتن دور میں مادہ پرستی اور خدا و رسول کی تعلیمات سے بے گانگی حد سے زیادہ بڑھ جانے کی وجہ سے معجزات و کرامات کو یہ کہہ کر رد کر دیا جاتا ہے کہ ’’یہ چیزیں قانونِ قدرت کے خلاف ہیں اور انسانی عقل کی رسائی سے باہر ہیں، اس لیے ہم نہیں مانتے۔
معجزہ کو خلافِ قانونِ قدرت کہنا درحقیقت جہل کی دلیل ہے، ہاں! اس کی صحیح تعبیر یہ ہے کہ معجزہ یا کرامت عام قانونِ قدرت کے خلاف ہوتا ہے، اس لیے کہ اگر معجزہ عام انسانی دسترس سے باہر نہ ہو تو پھر وہ معجزہ ہی نہیں ہو سکتا۔
تاریخ کے اوراق میں بے شمار ایسے خوارق موجود ہیں جن کی صداقت پر کسی کو تردد نہیں ہوتا، اگر ایسے ہی خوارق کسی صاحبِ نبوت و ولایت ہستی سے صادر ہو تو اس میں کیا استحالہ ہے اور ان کے قبول کرنے میں کیوں تامل ہے؟
فرانس کے مشہور فیلسوف کامل ’’فلاریوں‘‘ نے اپنی کتاب ’’المجہول والمسائل الروحیۃ‘‘ میں لکھا ہے
ایک :-ایک عورت کا پستان بائیں ران پر تھا، وہ اس سے بچہ کو دودھ پلاتی تھی۔
دو :-جاپان میں تباہ کن زلزلہ آیا تھا جس سے کئی بستیاں تہ و بالا ہو گئیں۔
تین :-ضلع ہردوئی میں ایک بگولا اُٹھا تھا جس سے ایک جھیل کا پانی خشک ہو گیا اور دوسری جگہ جھیل بن گئی۔
اس قسم کے خوارق کو کوئی غلط نہیں کہتا، لیکن اگر یہ کہا جائے کہ حضور ﷺ کی ولادت باسعادت کے موقع پر ایوانِ کسریٰ میں زلزلہ آیا، اس کے چودہ کنگرے گر گئے یا فارس کے آتش کدہ کی ہزار سالہ آگ بجھ گئی تو ان واقعات کے تسلیم کرنے میں پس و پیش ہونے لگتا ہے۔
سائنس کی محیر العقول ایجادات سے قبل تو معجزات و خوارق وغیرہ کو سمجھنے اور سمجھانے میں دقت پیش آسکتی تھی، لیکن اس سائنسی دور میں تو خوارق و معجزات پر ایمان لانے میں کوئی اشکال پیدا ہی نہیں ہو سکتا۔ درحقیقت سائنس کے اکتشافات نے تسلیمِ خوارق کے لیے راہ ہموار کردی۔ امام العصر حجۃ اللہ فی الأرض حضرت مولانا سید انور شاہ قدس سرہٗ کا ارشاد ہے
’’اللہ تعالیٰ نے انبیاء کو جو معجزات عطا فرمائے ہیں وہ دراصل اس بات کی طرف اشارہ ہیں کہ مستقبل میں (سلسلۂ نبوت ختم ہونے کے بعد) لوگ مادی و سائل و اسباب کے ذریعہ ان جیسے خوارق تک رسائی حاصل کیا کرینگے جن کا ظہور انبیاء و رسل سے بغیر اسباب و وسائل کے ہوا تھا، تاکہ اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ و قاہرہ کا ظہور ہوتا رہے۔
حضرت سلیمان علیہ لسلام کا تخت ہوا پر اُڑ کر صبح سے شام تک دو ماہ کی مسافت طے کرتا تھا، آج فضا میں ہزاروں میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ہوائی جہاز پرواز کرتے ہیں، جو کام الیکٹرک سے ہو سکتا ہے کیا اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی تصدیق کے لیے وہی کام بغیر الیکٹرک کے ظاہر نہیں کر سکتے؟
حضرت سلیمان علیہ اسلام پرندوں کی بولیاں بخوبی سمجھتے تھے، جبکہ عام انسان طیور کی چہچہاہٹ کو مہمل اور بے معنی چیز سمجھتے ہیں، اس معجزہ کی نظیر بھی سائنس نے پیش کر دی۔ آپ کسی پوسٹ آفس میں چلے جائیں، وہاں تار کی کٹ کٹ گھنٹوں سنتے رہیں، آپ کے نزدیک اس کی حیثیت بے معنی حرکات و اصوات (حرکتوں اور آوازوں) کی ہوگی، لیکن پوسٹ ماسٹر فوراً آپ کو بتا دے گا کہ فلاں جگہ سے فلاں شخص یہ کہہ رہا ہے پھر کیوں کر انکار کیا جاتا ہے اس سے کہ صانعِ حقیقی نے نغماتِ طیور کو بھی مختلف معانی و مطالب کے اظہار کے لیے وضع کیا ہے اور اپنی قدرتِ کاملہ کے اظہار کے لیے بطور پیغمبرانہ اعجاز کے اپنے ایک اولو العزم نبی علیہ سلام کو اس کا علم عطا فرما دیا ہے۔ شبِ معراج میں حضور اکرم ﷺ کا آسمانوں کا سفر کرنا اور عجائباتِ قدرت کو دیکھ کر واپس آنا، اس سرعتِ رفتار کو جٹ ہوائی جہاز اور بجلی کی رفتار یا راکٹ کی سبک رفتاری سے بخوبی سمجھا اور باور کیا جا سکتا ہے۔ موجودہ دور کے حیرت انگیز آپریشنوں نے شقِ صدر کے معجزہ کو باور کرا دیا۔ معراج سے واپسی کے بعد مکہ معظمہ میں حضور ﷺ کا بیت المقدس کو بلا حجاب دیکھ کر کفار کے سوالات کا جواب دینا اس کی نظیر بھی ہمارے سامنے موجود ہے۔ دوربین یا خوردبین کے ذریعہ ایک شخص جو چیزیں دیکھتا ہے، دوسرے کو وہ اشیاء نظر نہیں آتیں، لیکن ا س نظر نہ آنے کی بنا پر کوئی شخص بھی ان کے وجود سے انکار نہیں کر سکتا، تو اگر پیغمبر اپنی خداداد دوربین نگاہ سے بیت المقدس کا نقشہ دیکھ کر جوابات دے رہے ہوں تو اس میں کیا تعجب ہے اور کیوں اس کا انکار کیا جاتا ہے؟
حضرت عیسیٰ علیہ سلام مٹی سے پرندہ بنا کر ’’نفخ‘‘ کے ذریعہ (پھونک مار کر) اس کو ہوا میں اُڑا دیا کرتے تھے، اس معجزہ کو بھی سائنس کی ایجاد نے حل کر دیا۔ معدنیات کے چند مادے اور ٹکڑے ملا کر برقی طاقت کے ذریعہ ان کو راکٹ کی صورت میں بغیر پائلٹ کے ہوا میں اُڑا دینا اس معجزہ کو باور کراتا ہے۔ اگر برقی طاقت کے ذریعہ جہاز یا راکٹ کو فضا میں چلایا اور کنٹرول کیا جا سکتا ہے تو کیا اللہ تعالیٰ اپنی قدرتِ کاملہ و قاہرہ سے بتوسطِ نفخِ عیسیٰ مٹی کے پرندہ کو ہوا میں نہیں اُڑا سکتے؟
نبی کریم ﷺ کا معجزہ آپ نے سنا ہوگا کہ آپ ﷺ پشت کے پیچھے کی چیزیں اسی طرح دیکھتے تھے جس طرح سامنے کی اشیاء کو ملاحظہ فرماتے تھے۔ اس معجزۂ حقہ کی حقیقت بھی اہلِ سائنس کی کاوشوں نے واضح کردی۔ ایک انگریز ماہرِ ’’علمِ بصارت‘‘ لکھتا ہے کہ انسان کے بدن کی جلد کے نیچے چھوٹے خلّیے پائے جاتے ہیں جو سارے جسم میں پھیلے ہوئے ہیں، یہ خلّیے دراصل ننھی ننھی آنکھیں ہیں، ان میں اسی طرح سامنے کی چیزوں کا عکس پڑتا ہے اور تصویر اُتر آتی ہے جس طرح آنکھ کی پتلی میں۔ وہ کہتا ہے کہ انسان کی پیشانی کی جلد میں بھی قوتِ باصرہ موجود ہے، یہی قوت دماغ کو پیغام پہنچاتی ہے۔
حضور ﷺ کے سامنے درخت جھک جاتے اور آپ ﷺ کو سلام کرتے تھے۔ ملحدین نے اس معجزہ کا بھی مذاق اُڑایا، لیکن آج ماہرینِ علمِ نباتات نے درختوں اور پودوں کے متعلق جو حیرت انگیز انکشافات کیے ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ پودوں میں دیکھنے سننے کی بھی قدرت ہے، آپس میں بات چیت بھی کرتے ہیں، ان پر عشق و محبت اور رنج و غم کی کیفیات بھی وارد ہوتی ہیں، ان میں سے بعض میں ’’ذکاوتِ حس‘‘ کا مادہ بھی موجود ہے، بعض پودے محض چھونے ہی سے سکڑ جاتے ہیں اور ادنیٰ اشارے سے بند ہو جاتے ہیں، اسی ذکاوتِ حس کی وجہ سے ایک پودے کو اردو میں ’’چھوئی موئی‘‘ کہتے ہیں۔ ہندوستان کے مشہور ماہر سائنس سر جگدیش چندر بوس نے طویل تجربہ و تحقیق کے بعد ایک کتاب ’’پلانٹس آٹو گرافس اینڈ ویر ریویلیشن‘‘ کے نام سے شائع کی ہے، جس میں اس نے پودوں کے متعلق نہایت حیرت انگیز معلومات جمع کی ہیں جن کو سننے یا پڑھنے کے بعد کوئی عقل و دانش کا مالک انسان مذکورہ معجزہ سے انکار نہیں کر سکتا۔
تاریخِ اسلام کا مشہور واقعہ ہے کہ فاروق اعظم رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ نے مدینہ میں مسجد نبوی کے منبر پر کھڑے ہوکر مجاہدین کے سپہ سالار ساریہ کو پکار کر کہا: ’’ یا ساریۃ الجبل!‘‘ اسی وقت یہ آواز ساریہ کے کانوں تک پہنچ گئی، حالانکہ وہ مدینہ منورہ سے صدہا میل دور تھے۔ یہ آواز ان تک کس طرح پہنچی! اس کرامتِ کو وائرلیس کی ایجاد نے حل کر دیا، آج آپ وائرلیس ٹیلیفون کے ذریعہ ایک ملک سے دوسرے ملک تک اپنی آواز پہنچا سکتے ہیں، اسی طرح فاروق اعظم رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ نے روحانی وائرلیس کے ذریعہ ساریہ تک اپنی آواز پہنچادی۔
عالمگیر جنگ کے زمانہ میں ایک لاسلکی پیغام میٹرو گریڈ سے لندن چلا، راستہ میں بعض جرمن ماہرین اُسے جذب کرنے لگے، اوپر سے ایک فرانسیسی طیارہ نے ان پر بم پھینکا اور ان کی اس کوشش کو ناکام بنا دیا۔ اس واقعہ سے وحیِ آسمانی کی شہاب کے ذریعہ حفاظت کا مسئلہ بھی بآسانی ذہن نشین ہو جاتا ہے کہ عرش سے جو لاسلکی پیغام ارضِ حجاز کو جا رہا ہے، شیاطین اس کو درمیان سے اُچکنا چاہتے ہیں، اوپر سے شہابِ ثاقب ان کا کام تمام کر دیتا ہے۔
قرآنِ مجید میں ارشادِ ربانی ہے کہ:’’ شیطان اور اس کا لشکر تم کو دیکھتا ہے، لیکن تم ان کو نہیں دیکھتے۔‘‘ آج ٹیلی ویژن سے اس مسئلہ کو بھی بآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔ ٹیلی ویژن پر تقریر کرنے والے کو وہ سب لوگ دیکھتے ہیں جو اس کے سامنے ہیں، لیکن وہ ان میں سے کسی ایک کو بھی نہیں دیکھ سکتا، اس کی تقریر اور اس کی نقل و حرکت کو دوسرے دیکھتے ہیں، وہ خود اس سے عاجز ہے کہ اپنے دیکھنے والوں کو دیکھ سکے۔
نبی کریم ﷺ نے’’ مستقبل بعید ‘‘ اور ’’مابعد الموت‘‘ کے احوال تفصیل سے بیان فرمائے اور قبر اور اس کے بعد جہنم کے مہیب عذاب اور خوفناک کیفیات سے اُمت کو ڈرایا ہے، اس مسئلہ کو سمجھنے کے لیے ’’رڈار‘‘ سے مدد لی جا سکتی ہے، ’’رڈار‘‘ ایک آلہ ہے جس کی مدد سے جہازوں کا نظام چل رہا ہے۔
یہی آلہ آپ کو بتاتا ہے کہ آگے کونسی چیز آرہی ہے جس سے جہاز کو نقصان لاحق ہو سکتا ہے، تقریباً سو میل سے ہی یہ آلہ بتلا دیتا ہے کہ سامنے بادل یا بلند پہاڑ آرہا ہے۔ اگر ایک بے جان آلہ مسافتِ بعیدہ کے حالات سے آپ کو مطلع کر سکتا ہے تو کیا پیغمبر کی بصیرتِ قلبی و فراستِ ایمانی مستقبل کے حالات کا ادراک نہیں کر سکتی؟
بعض اولیاء اللہ کے متعلق مشہور ہے کہ ہوا میں اُڑنے لگے، اس پر زائغین کو ہنسی آتی تھی کہ انسان کس طرح ہوا میں اُڑ سکتا ہے، لیکن تدریجی طور پر سائنس ان تمام ناقابل فہم مشکلات کا حل پیش کر رہی ہے، چند ماہ قبل اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ ’’امریکہ‘‘ میں ایک انسان کو خلائی جہاز میں سوار کر کے اسمان کے سفر پر روانہ کیا گیا، مدار پر پہنچ کر وہ سوار جہاز سے باہر نکل آیا، کئی منٹ تک فضا میں پرواز کرتا رہا، بعد میں خود ہی جہاز کے اندر چلا گیا۔ اس خبر کا تو کسی نے انکار نہیں کیا، لیکن اگر ایسا واقعہ کسی خدا رسیدہ بزرگ کا بیان کیا جائے، اس میں شکوک و شبہات پیدا ہو جاتے ہیں۔
الغرض سائنس کی ترقی اور محیر العقول سائنسی ایجادات کا بغور مطالعہ کرنے سے اسلام کے بہت سے پیچیدہ مسائل قابلِ قبول ہو جاتے ہیں، اب جبکہ ہر طرف سے ایمان کی متاعِ گراں مایہ کو لوٹنے کے لیے نئے سے نئے فتنے رونما ہو رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ بھی اسی سرکش انسان کے ہاتھوں عجیب ایجادات ظاہر فرما رہے ہیں، تاکہ اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ و قاہرہ کو تسلیم نہ کرنے والوں پر اتمامِ حجت ہو جائے اور یہ عذر باقی نہ رہے
ماہنامہ بینات جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
Comments
Post a Comment