76) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قبر کہا ہے



حضرت عیسٰی علیہ سلام کا قبر کہا ہے
 

اہلِ اسلام کا متفقہ عقیدہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اﷲ تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ سے بغیر باپ کے پیدا فرمایا اور انہیں سولی پر نہیں چڑھایا گیا، بلکہ زندہ ہی آسمانوں پر اُٹھا لیا گیا، قیامت کے قریب وہ آسمان سے زمین پر نازل ہوں گے، چالیس یا پینتالیس برس زمین پر رہیں گے، پھر اُن کا انتقال ہوگا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ مبارک میں دفن ہوں گے۔

    متعدد روایات میں یہ مضمون وارد ہے کہ اسی حجرۂ مبارک میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات شیخین رضی اللہ عنہم کی تین قبورِ مبارکہ کے ساتھ چوتھی قبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بھی ہوگی اور وہ روزِ حشر انہی کے ساتھ محشور ہوں گے۔

ایک1) ۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا . حضرت عیسیٰ علیہ السلام (قربِ قیامت میں آسمان سے) زمین پر اُتریں گے تو وہ نکاح کریں گے اور ان کی اولاد ہوگی، دنیا میں ان کی مدتِ قیام (تقریباً) پینتالیس (۴۵) برس ہوگی، پھر اُن کی وفات ہو جائے گی اور وہ میری قبر یعنی میرے مقبرہ میں میرے پاس دفن کیے جا ئیں گے (چنانچہ قیامت کے دن) میں اور عیسی ابن مریم علیہ السلام دونوں ایک ہی مقبرہ سے ابو بکرؓ اور عمرؓ کے درمیان اُٹھیں گے ۔

 دو 2)۔ حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ تورات میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف مذکور ہیں ( ان میں یہ بھی ہے) اور حضرت  عیسیٰ علیہ السلام آپ کے ساتھ دفن کیے جائیں گے۔

   تین 3)۔ حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ اپنے آباء و اجداد سے روایت نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ 

’’یُدْفَنُ عِیْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلّٰی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَصَاحِبَیْہِ فَیَکُوْنُ قَبْرُہُ الرَّابِعُ۔‘‘    (معجم الکبیر للطبرانی، رقم الحدیث:۳۸۴) 

 چار 4)۔ ایک موقع پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسی مقام پر اپنے لیے تدفین کی خواہش ظاہر کی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ تیرے لیے یہ کہاں ممکن ہے؟

 اس مقام پر تو صرف میری اور ابوبکرؓ اور عمر ؓ کی قبریں ہوں گی اور عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام بھی اسی جگہ مدفون ہوں گے ۔

  پانچ 5)۔ حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: ’’روضۂ اقدس میں ایک قبر کی جگہ موجود ہے، اس میں عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام دفن ہو ں گے

 (اخبارِ مدینہ: ۱۳۵) 

   چھ 6)۔ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام [دوبارہ آسمان سے زمین پر ناز ل ہوں گے] اس کے بعد آپ کی وفات ہو جائے گی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ اطہر میں چوتھی قبر آپ کی ہوگی۔‘‘ (ختم نبوت:۴۷۶، بحوالہ الاشاعۃ للبرزنجی، رقم الحدیث:۵۵) 

  حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ یہودیوں کا یہ کہنا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام مقتول و مصلوب ہو کر دفن ہو گئے اور پھر زندہ نہیں ہوئے اور ان کے اس خیال کی حقیقت قرآن کریم نے سورۂ نساء کی آیت

وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ وَلٰـکِنْ شُبِّہَ لَہُمْ

میں واضح کردی ہے اور اس آیت میں بھی ’’وَمَکَرُوْا وَمَکَرَ اللّٰہُ‘‘ ۔۔۔۔۔ نصاریٰ کا کہنا یہ تھا کہ عیسیٰ علیہ السلام مقتول و مصلوب تو ہو گئے، مگر پھر دوبارہ زندہ کر کے آسمان پر اُٹھا لیے گئے۔ مذکورہ آیت میں ان کے اس غلط خیال کی بھی تردید کر دی اور بتلا دیا کہ جیسے یہودی اپنے ہی آدمی کو قتل کرکے خوشیاں منا رہے تھے، اس سے یہ دھوکہ عیسائیوں کو بھی لگ گیا کہ قتل ہونے والے عیسیٰ ؑ ہیں، اس لیے ’’شُبِّہَ لَہُمْ‘‘ کے مصداق یہود کی طرح نصاریٰ بھی ہو گئے۔ ان دونوں گروہوں کے بالمقابل اسلام کا وہ عقیدہ ہے جو اس آیت اور دوسری کئی آیتوں میں وضاحت سے بیان ہوا ہے کہ ﷲ تعالیٰ نے ان کو یہودیوں کے ہاتھ سے نجات دینے کے لیے آسمان پر زندہ اُٹھالیا۔ نہ ان کو قتل کیا جا سکا، نہ سولی پر چڑھایا جا سکا، وہ زندہ آسمان پر موجود ہیں اور قربِ قیامت میں آسمان سے نازل ہوکر یہودیوں پر فتح پائیں گے اور آخر میں طبعی موت سے وفات پائیں گے (معارف القرآن ،ج: ۲،ص:۷۸-۷۹)  

    حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اسی عقیدہ پر تمام اُمتِ مسلمہ کااجماع نقل کیا ہے۔ (تلخیص الحبیر:۳۱۹) 

    امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اس معاملہ میں متواتر ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قبلِ قیامت نازل ہونے کی خبر دی ہے

 (نووی شرح مسلم، ج:۲، ص:۴۰۳۔ تفسیر ابن کثیر: تحت آیت :’’وَإِنَّہٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَۃِ‘‘۴۳:۶۱) 

نیز عصر حاضر کے علمائے عرب کا فیصلہ بھی اسی کے موافق ہے

’’ذھب أہل السنۃ والجماعۃ إلی أن المسیح عیسٰی علیہ الصلوۃ والسلام لم یزل حیاً، وأن اللّٰہ رفعہٗ إلی السماء وأنہٗ سینزل آخر الزمان عدلاً یحکم بشریعۃ نبینا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ویدعوا إلٰی ماجاء بہٖ من الحق ، وعلٰی ذٰلک دلت نصوص القرآن والأحادیث الصحیحۃ۔‘‘  (فتاویٰ علماء البلدالحرام، ص:۴۶۰، طبع: ریاض سعودی عرب) 

  مگر دورِ حاضر کے متجدد جاوید احمد غامدی صاحب کابیان یہ ہے کہ 

 ’’سیدنا مسیح کے بارے میں جو کچھ قرآن سے میں سمجھ سکا ہوں، وہ یہ ہے کہ ان کی روح قبض کی گئی اور اس کے فوراً بعد ان کا جسد مبارک اُٹھا لیا گیا تھا کہ یہود اس کی بے حرمتی نہ کریں۔ یہ میرے نزدیک ان کے منصبِ رسالت کا ناگریز تقاضا تھا

 (ماہنامہ اشراق : ۴۵، اپریل ۱۹۹۵ء)  

غامدی صاحب کا مذکورہ خود ساختہ نظریہ کتاب و سنت کے سراسر خلاف اور اُمتِ مسلمہ کے اجماعی عقیدہ سے متصادم ہے، کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات اور ان کے نزول کا عقیدہ کتاب اﷲ کے واضح حکم اور احادیثِ متواترہ سے ثابت ہے، جس کا انکار کفر ہے۔(دیکھئے! ہمارا رسالہ’’غامدی صاحب کا منہجِ فکر‘‘ :۵۵-۵۶) 

 امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: حضرت عائشہ کے کمرے میں جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دفن کیا گیا وہاں ایک قبر کی جگہ خالی ہے۔ اس میں حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ کو دفن کرنے پر حضرت عائشہ بھی راضی تھیں، لیکن بنو امیہ مانع ہوئے۔ پھر حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو دفن کرنے پر بھی آپ راضی تھیں، لیکن انہیں وہ جگہ نہ ملی، پھر حضرت عائشہ سے کہا گیا کہ آپ کو یہاں دفن کریں گے، مگر اس پر بھی وہ راضی نہ ہوئے، بلکہ دوسری ازواجِ مطہراتؓ کے ساتھ جنت البقیع میں سیدہ عائشہ کو دفن کیا گیا۔ شاید ان سب کاموں میں یہ حکمت تھی کہ یہ جگہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قبر کے لیے ہوگی

(اشعۃ اللمعات، ج:۴، ص:۳۷۶۔ مرقاۃ شرح مشکوۃ، ج:۸، ص:۳۴۹۶، تحت رقم الحدیث:۵۵۰۸) 

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں ایک قبر کی جگہ باقی ہے، ایک قول یہ ہے کہ وہ (جگہ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صدیقینؓ (حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہم ) کے درمیان ہے اور یہی قول ادب کے زیادہ مناسب ہے۔ اور دوسرا قول یہ ہے کہ (وہ خالی جگہ) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی قبر کے بعد ہے، اور یہ قول زیادہ قرینِ قیاس ہے

 شیخ جزریؒ فرماتے ہیں کہ: حجرے میں داخل ہونے والوں اور تینوں قبور کی زیارت کرنے والوں میں سے بہت سے حضرات نے ہمیں یہی بتلایا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر سب سے آگے ہے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا سر مبارک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کمر مبارک کے سامنے ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی قبر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی قبر کے سامنے اسی کیفیت میں ہے( یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا سر مبارک حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی کمر مبارک کے سامنے ) اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں مبارک کے سامنے ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پہلو میں ایک قبر کی جگہ باقی ہے۔ اور (حدیث شریف میں) آیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زمین میں کچھ عرصہ رہنے کے بعد حج بھی کریں گے اور واپس لوٹیں گے، پھر مکہ اور مدینہ کے درمیان وفات پائیں گے، پھر انہیں مدینہ لایا جائے گا، پھر انہیں حجرۂ شریفہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پہلو میں دفن کیا جائے گا، چنانچہ یہ دو معزز صحابیؓ قیامت تک ان دو عظیم نبیوں کے درمیان ہوں گے۔‘‘    ( مرقاۃ شرح مشکوۃ، کتاب الفضائل، باب فضائل سید المرسلین صلوات اللہ وسلامہ علیہ، ج:۹، ص:۳۶۹۳)

 ترمذیؒ نے حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کی روایت بیان کی ہے، فرماتے ہیں کہ: توراۃ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حالات میں لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدفون ہوں گے۔ اس حدیث کے راویوں میں سے ایک راوی ابو داؤد کہتے ہیں کہ: حجرۂ شریفہ میں ایک قبر کی جگہ باقی ہے۔ طبرانی ؒ کی روایت میں ہے کہ: حضرت عیسیٰ علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہم کے ساتھ مدفون ہوں گے تو یہ چوتھی قبر ہوگی۔

    مذکورہ دلائل و بیانات سے جہاں یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہوگئی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمانوں پر زندہ ہیں اور قربِ قیامت میں وہ آسمان سے زمین پر نازل ہوں گے اور تقریباً پینتالیس سال زمین پر رہنے کے بعد ان کا انتقال ہوگا اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ انور میں حضرات شیخین رضی اللہ عنہم کے ساتھ مدفون ہوں گے اورحجرۂ عائشہ ؓ میں چوتھی قبر آپ ؑﷺ کی ہوگی

 منکرینِ ختمِ نبوت کا یہ دعویٰ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ہوچکی [نعوذباﷲ] اور ان کی قبر سرینگر [کشمیر] میں ہے، سراسر جھوٹ ہے

  ماہنامہ بینات جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

Comments