محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم
یہ بات ہر شک و شبہے سے بالا ہے کہ محبت ایک مابعد الطبیعی حقیقت اور وجدانی کیفیت ہے ، اُسے منطقی اسلوب اور قانونی پیرائے میں سمویا اور سمجھایا نہیں جاسکتا۔ اس کی جامع و مانع تعریف ممکن نہیں، اس کی تعریف آپ اپنا وجود و صدور ہے، خواجہ یحییٰ بن معاذؒ کا ارشاد ہے
محبت ایک حال ہے، اس کی تعریف لفظوں میں ممکن نہیں
مولانا رومیؒ فرماتے ہیں
عشق کا وصف کہنے سننے میں نہیں آتا، عشق ایسا سمندر ہے، جس کی گہرائی بے پایاں ہے۔
تخلیقِ عالم کی اصل و اساس عشق و محبت پر ہے۔ ہر شئے کے قیام و بقا کا باعث کششِ عشق ہے۔ محبت کا مادہ انسان میں اسی روز ودیعت فرما دیا گیا تھا، جب روزِ ازل میں محبوبِ حقیقی نے اپنی صفاتِ عالیہ، یعنی جمال و احسان کا ظہور فرمایا تھا، انسان اسی خواہشِ ظہور کا فعال مظہر ہے۔ گویا محبت وجود کی اولین حرکت، زندگی کا نقطۂ آغاز اور ایسا ربانی فیضان ہے، جو صورت و حقیقت دونوں سطحوں پر وارد ہو کر، انسان کے تمام نقائص کا ازالہ کرکے اس مرتبۂ کمال تک پہنچاتی ہے، جو اُسے مظہرِ حق بننے کے لیے عطا کیا گیا ہے۔ تمام حرکت و عمل اسی حب اور عشق کا نتیجہ ہے اور دنیا کی ظاہری صورتیں اسی بے مثل حقیقت کا عکس
ساقئِ اَلست نے مے معرفت کا چھینٹا اس خاک پر ڈالا، جس سے اس کا ذرہ ذرہ مست اور سرشار ہو گیا
پھر اس مشتِ خاک کو کارنامہ ہائے محبت کے لیے کر لیا گیا اور قلب و نظر کی دولت عطا کی گئی، تاکہ محبت کے تقاضے ، ایمان و اعمال دونوں سطحوں پر بہ تمام و کمال ظاہر ہو کر جذبۂ محبت کی صداقت و رفعت کا ثبوت پیش کر سکیں، جس میں مزید ترقی اور صعود‘ معرفت اور عشق کا حال پیدا کردے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے حبِ الٰہی کو مومن کی پہچان اور ایمان کی جان قرار دیا ہے
’’وَالَّذِیْنَ أٰ مَنُوْا أَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ۔‘‘ (البقرۃ:۱۶۵)
’’اور ایمان والے اللہ سے شدید محبت کرتے ہیں۔‘‘
آیتِ مبارکہ سے پتا چلا کہ قرآن مجید کا بنیادی مقصد اور اساسی تصورِ تزکیہ اللہ تعالیٰ کی محبت ہے، نہ کہ والہانہ اطاعت۔ اطاعت و تابع داری تو اس محبت کا لازمی ثمرہ ہوگی۔ محبت کی طلب اور رغبت کا اصول یہ ہے کہ عاشق محبوب کے دوامی لقاء کا متمنی ہوتا ہے، وصلِ محبوب اور مشاہدۂ مطلوب ہی اس کی دیرینہ آرزو اور اطمینان اور سکینت کا سامان ہوتا ہے، اس کی خواہش ہوتی ہے کہ محبوب کے انداز و اطوار کو اختیار کرکے اپنی ذات کو محبوب کی صفات سے قائم کرلے اور بہ قدرِ محبت اس کے رنگ میں رنگین ہو جائے۔ بالفاظِ دیگر، محبوب کا مطاع ہونا محض ایک فطری ، وجدانی امر نہیں، بلکہ محسوس و مشاہد بھی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ پیکرِ محسوس نہیں ہے کہ اُسے دیکھ کر، سن کر اُس کی اطاعت و اتباع کی جاسکے۔ سو اس فیاضِ ازل اور محبوبِ حقیقی نے بہ طورِ احسان و امتنان، اس اضطراب کے ازالے کے لیے اپنی محبت کو رسول اللہ کی اتباع سے مشروط فرما دیا ہے، اپنے رسول کی زبانِ مبارک سے اعلان کروایا
’’قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ۔‘‘ (آل عمران:۳۱)
کہہ دیجئے! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، خود اللہ تم سے محبت کرے گا۔
اس آیتِ مبارکہ میں یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ ایمان کی اصل روح محبتِ الٰہی ہے اور اس محبت کی شرط یہ ہے کہ اس کے ساتھ کوئی ایسی محبت جمع نہ ہونے پائے جو اس کی ضد ہو، بلکہ جو شئے محبوب سے تعلق میں حارج ہو، وہ عاشق کے دشمن کے زمرے میں داخل ہو جائے۔ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ سے محبت کا دعویٰ ہے، ان کو رسول اللہ کی اتباع کرنی چاہیے، اللہ تعالیٰ سے محبت کا واحد راستہ اتباعِ رسول ہے۔ اس اتباع کی برکت سے اللہ تعالیٰ سے تمہارا دعوائے محبت ہی سچا ثابت نہیں ہوگا، بلکہ تم خود محبوبِ الٰہی بن جاؤ گے۔ بالفاظِ دیگر اللہ تعالیٰ سے محبت اور اللہ تعالیٰ کی محبوبیت کا ایک ہی راستہ ہے: اتباعِ رسول ﷺ ۔ آپ ﷺ کی اتباع عین اتباعِ الٰہی ہے
’’مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّٰہَ۔‘‘ (النساء:۸۰)
’’جس نے رسول ﷺ کی اطاعت کی، اس نے اللہ پاک کی اطاعت کی۔‘‘
اتباعِ خداوندی کا تصور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت و اتباع کے بغیر محال اور ایک مجرد خیال ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے متعلق فرشتوں کی گواہی ہے (الصحیح للبخاری)
’’جس نے حضرت محمد ﷺ کی اطاعت کی اس نے یقینا اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی اور جس نے حضرت محمد ﷺ کی نافرمانی کی اس نے فی الحقیقت اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور آپ ﷺ کی ذاتِ گرامی (اچھے اور برے) لوگوں کے درمیان معیارِ امتیاز ہے۔‘‘
اس لیے مدعیانِ محبتِ خداوندی کو اتباعِ نبوی لازم ہے اور اتباعِ کامل چونکہ شدید محبت کے بغیر ممکن نہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی زبانِ صداقتِ ترجمان سے اعلان کروایا کہ ایمان‘ رسول اللہ ﷺ سے ایسی محبت کا نام ہے کہ مال و عیال اور نفس و جاں تک اس محبوبِ جہاں کے سامنے حقیر و ذلیل اور ہیچ و ارزاں ہوجائیں۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے ( الصحیح لمسلم )
’’ تمہارا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوسکتا، جب تک اس کو میری محبت اپنے والدین ، بچوں اور تمام لوگوں سے زیادہ نہ ہو جائے۔‘‘
جس دل کی زمین میں ایسی محبت کا بیج پڑا ہو، وہاں اس کے برگ و بار اور ثمرات کا احوال و کیفیات کی صورت میں ظہور پذیر ہونا ناگزیر ہے، کیونکہ بہ قول سیدنا حضرت عیسیٰ مسیح علیہ الصلاۃ والسلام: ’’درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے۔‘‘ ہر معنوی اور روحانی حقیقت ظاہری آثار اور جسمانی علامات سے پہچانی جاتی ہے، اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (مشکوٰۃ المصابیح)
’’انسان اپنے دوست (محبوب) کے طور طریقے اپنا لیتا ہے، اس لیے ہر شخص اس کا خیال رکھے کہ کسے اپنا دوست بنا رہا ہے
اس فیاضِ ازل نے صاف بتلا دیا کہ میرا رسول ﷺ تمہارا رہبرِ کامل ہے، اس کی ذات ہرجہت میں تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے
’’لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ۔‘‘ (الاحزاب:۲۱)
ترجمہ:اور تمہارے لیے رسول اللہ کی زندگی میں بہترین نمونہ (موجود) ہے۔
اس لیے زندگی کے ہر شعبے اور حیات کے ہر گوشے میں آنکھیں بند کرکے رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کی جائے، کیونکہ آپ ﷺ کی اطاعت و غلامی ہی میں عین اطاعتِ الٰہی ہے۔ اسلام کی شانِ اعجاز ہی یہ ہے کہ اس نے اپنے ماننے والوں کو اظہار و اندازِ محبت کے تمام اسلوب اور طریقے خود ہی سکھا دئیے ہیں، تاکہ عقیدت و محبت کا نذرانہ محبوب کے معیار کے مطابق اس کی بارگاہ میں پیش ہوکر شرفِ قبول پاسکے۔ اہلِ محبت کے لیے یہ دلیل مُقنع ہے کہ محبت مُستلزمِ اتباع ہے۔ محبت بلا اتباع‘ دھوکا اور خام خیالی ہے، کیونکہ
اگر تیری محبت میں صداقت ہوتی تو تُو اپنے محبوب کی فرمانبرداری کرتا، کیونکہ محب محبوب کا مطیع ہوتا ہے۔
اسی طرح اطاعت بلا محبت بھی اہلِ نظر اور صاحبانِ قلب کے نزدیک مرتبۂ کمال سے فروتر ہونے کے باعث مردود و مطرود ہے۔ بسا اوقات آدمی خارجی دباؤ کے زیرِ اثر جبراً اطاعت پر آمادہ ہوجاتا ہے، اس کے باطن میں تسلیم و رضا کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا، جوں ہی اس دباؤ سے آزادی ملتی ہے، طبیعت پھر سے سرکشی اور بغاوت پر مائل ہو جاتی ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ پر تنہا ایمان لانے کو کافی نہیں بتلایا، بلکہ آپ کی تعظیم و تکریم اور حمایت ونصرت کے ساتھ اتباع واطاعت بجالانے والوں کو دائمی فلاح کامژدہ سنایا ہے
’’فَالَّذِیْنَ أٰ مَنُوْا بِہٖ وَعَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ وَاتَّبَعُوْا النُّوْرَ الَّذِیْ أُنْزِلَ مَعَہٗ أُولٰئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ‘‘ (الاعراف:۱۵۷)
’’سو جو لوگ اس نبی ﷺ پر ایمان لاتے ہیں، ان کی عزت و تکریم بجالاتے ہیں اور ان کی مدد کرتے ہیں اور اس نور کا اتباع کرتے ہیں جو اُن کے ساتھ بھیجا گیا ہے، ایسے لوگ پوری فلاح پانے والے ہیں۔‘‘
اطاعت و اتباع کا داعیہ تو محبت و تکریم کے نتیجے میں از خود پیدا ہوگا، کیونکہ محبوب کی اقتدا و اتباع اہلِ عقل کے نزدیک مسلم ہے، اطاعت بلا محبت ‘ محض ضابطہ و قانون ہوتی ہے، حقیقی اطاعت و اتباع نہیں۔ اصل چیز جو علامتِ ایمان اور مومن کی شناخت ہے، وہ ہے حب النبی ۔ حضرت امام بخاری نے بخاری شریف میں ایک باب باندھا ہے: ’’باب حب الرسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم من الإیمان‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔ ’’رسول اللہ سے محبت جزوِ ایمان ہے۔‘‘ (صحیح البخاری، ج:۱، ص:۶، طبع:مکتبۃ الحسن، لاہور)
اس محبت اور عشق کا معیار اہل السنت کے پیشوا اور حنفیہ کے مایہ ناز مقتدا سیدنا ملا علی قاری علیہ الرحمۃ (متوفی:۱۰۱۴ھ) یہ بیان فرماتے ہیں
’’حبِ رسول اللہ کی علامت یہ ہے کہ سنت سے محبت ہو
[یہ نہیں کہ بدعات کی رونق پر فریفتہ ہو]
اور سنت سے محبت کی علامت آخرت کی محبت ہے اور آخرت کی محبت کی علامت یہ ہے کہ دنیا سے بغض ہو اور بغضِ دنیا کی علامت یہ ہے کہ دنیا سے فقط اتنا ہی لے کہ عقبیٰ تک پہنچنے کی ضرورتیں پوری ہوسکیں
ایمان کا تقاضا ہے رسول اللہ ﷺ سے ایسی محبت کرنا ہے کہ ایمان حال بن کر پورے وجود اور اس کے فعال عناصر، ذہن، ارادے اور طبیعت پر غالب ہوکر خیالات و خواہشات اور جذبات و احساسات میں ایسے رَچ بس جائے کہ
م شاخِ گل میں جس طرح بادِ سحر گاہی کا نم
اس کے بعد ایک مومن ’’سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا‘‘ کا مکمل مظہر بن جاتا ہے، اس سے محویت و استغراق کے عالم میں بھی کوئی ایسا فعل ظہور میں نہیں آتا جو منافیِ شریعت ہو، کیونکہ اس کی مراد اور اس کا مقصود صرف محبوب اور منشائے محبوب ہے اور جب فقط محبوب ہی مقصود و مراد ہے تو اہلِ عشق اپنے اختیار سے دست کش ہو کر کامل سپردگی اور تفویض کی کیفیت میں زندگی گزار دیتے ہیں، حضرت مولانا رومی فرماتے ہیں
’’عاشق اپنے آپ کو کسی کام پر مختار نہیں سمجھتا، بلکہ معشوق کو فعل کا مختار سمجھتا ہے۔‘‘
عاشق کامل اپنے جذبات و احساسات کو پامال کرکے رضائے محبوب کا طالب ہوتا ہے، چاہے اس میں کیسی ہی کلفت ہو۔ محبت میں حدود و محبت کا عدمِ لحاظ عارفین و عاشقین کے نزدیک دعوائے محبت کو باطل کر دیتا ہے۔ عارف شیرازی فرماتے ہیں
’’رندی کی دنیا میں خود اپنی فکر اور اپنے اصول اور رائے کا دخل ممنوع ہے، اس مذہب میں خود بینی وخود رائی کفر ہے۔‘‘
یہاں کا تو بس ایک اصول ہے
’’مہربانی وہی ہے جو تو خیال کرے اور حکم وہی ہے جو تو دے۔‘‘
جہانِ عشق میں خود پسندی اور خود رائی کی کوئی گنجائش نہیں، خود وضعی کا رویہ انسان کو خود غرضی اور نفس پرستی کی بدترین کیفیات میں مبتلا کرکے خود پرست باور کراتا ہے، عاشق کا مذہب رضائے محبوب ہوتا ہے۔
خود کو محبوب کی رضا و منشأ کے سپرد کردینے سے عاشق‘ صفتِ عشق کی تجلیات سے مستنیر ہوتا ہے، نفسِ مطمئنہ کے اکرام سے نوازا جاتا ہے اور ’’یُحِبُّہُمْ وَیُحِبُّوْنَہٗ‘‘ کی سعادت و بشارت کا مصداق بن جاتا ہے۔ ایسی شدید محبت اور کامل اطاعت کے آمیختے سے پروان چڑھنے والے مومنین کے معیاری و منتہائی نمونے حضرات صحابہ و اہل بیت ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی محبت اور کفر ، گناہ، عصیان اور نافرمانی سے دوری و اِغماض از حکم شریعت نہیں ، از راہِ طبیعت حاصل تھی۔ اللہ تعالیٰ نے جس دین کو اتمام کی سعادت اور رضا کی سند سے نوازا، اس دین کی اضافت صریح طور پر صحابہ کی طرف ہے: ’’اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ‘‘ ۔۔۔۔۔ ایمان ان کے دلوں کی طلب اور قلوب کی زینت بنادیا گیا تھا، انہی کو ’’أُولٰئِکَ ہُمُ الرَّاشِدُوْنَ‘‘ کا زریں تمغہ عنایت فرمایا گیا کہ رشد وہدایت ان ہی کے طریق میں منحصر ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ’’ماأنا علیہ وأصحابی‘‘ فرما کر ان کے طریقے کو نجات یافتہ لوگوں کا طریق قرار دیا اور قرآن نے اس سے روگردانی کرنے والوں کو ’’سبیل المنافقین‘‘پر چلنے والا بتلایا ۔ محبت و اطاعت کی دنیا میں معیارِ حق صحابہ ہیں۔ ان کے اقوال و اعمال حجت، اتباع واجب اور اختلاف و نزاع میں تصفیے کی کلید ہیں۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود (متوفی:۳۲ھ) کا ارشاد ہے
’’لوگ نیک اور اسلام پر قائم رہیں گے جب تک علم ان کے پاس اصحابِ رسول کی طرف سے اور اُن لوگوں کے اکابر کی طرف سے آئے گا، اور جب ان اصاغر سے اُبھرنے لگے (جو اوپر والوں سے علم نہیں لیتے) تو ہلاک ہوجائیں گے۔‘‘
اللہ تعالیٰ ہم سب کو رسول اللہ کی ذات مبارک سے ایسا حقیقی اور والہانہ تعلق اور آپ کی ایسی کامل محبت عطا فرمائے جو ہمارے اندر آپ کی اتباع و اطاعت کا داعیہ پیدا کردے، جو محبت کا جوہر اور عشق کا مقتضا ہے
جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
Comments
Post a Comment