25) داڑھی کی شرعی حیثیت



داڑھی کی شرعی حیثیت
 

مردوں کے لیے داڑھی رکھنا واجب ہے ، اس کی شرعی مقدار ایک قبضہ یعنی ایک مشت اور داڑھی رکھنا اسلامی اور مذہبی شعار ہے ۔ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی متفقہ سنت اور شرافت و بزرگی کی علامت ہے ۔ اسی سے مردانہ شکل وصورت کی تکمیل ہوتی ہے‘ آنحضرت ﷺ کا دائمی عمل ہے اور حضور ﷺ نے اسے فطرت سے تعبیر فرمایا ہے‘ لہذا اسلام میں داڑھی رکھنا ضروری ہے اور منڈانا یا ایک مٹھی سے پہلے کترانا حرام اور گناہ کبیرہ ہے ۔

داڑھی کی شرعی حد

اللّٰه پاک ارشاد فرماتا ہے

 لقد کان لکم فی رسول اللّٰه اسوۃ حسنۃ  (الاحزاب) 

  بیشک تمہیں رسول ﷺ کی پیروی بہتر ہے‘‘(کنز الایمان)

امام مالک و احمد و بخاری و مسلم و ابو داؤد و ترمذی و نسائی و طحاوی ، حضرت عبد اللّٰه بن عمر رضی اللّٰه تعالی عنہم سے روایت ہیں کہ حضور ﷺ فرماتے ہیں

خالفو المشرکین احفوا الشوارب و اوفروا اللحیۃ 

 مشرکوں سے اختلاف کرو ، مونچھیں خوب پست کرو اور داڑھیاں بڑھاؤ

داڑھی ایک مشت یعنی چار انگلیوں تک رکھنا "واجب" ہے اور اس سے کم کرنا ناجائز ہے ۔ 

  شیخ محقق شاہ عبد الحق محدث دہلوی (رح) لکھتے ہیںں

داڑھی بمقدار ایک مشت رکھنا واجب ہے اور جو اسے سنت قرار دیتے ہیں وہ اس معنی میں ہے کہ یہ دین میں آنحضرت ﷺ کا جاری کردہ طریقہ ہے یا اس وجہ سے کہ اس کا ثبوت سنت نبوی ﷺ سے ہے، جیسا کہ نماز عید کو سنت کہا جاتا ہے ۔

حضرت عبد اللّٰه بن عمر و بن عاص رضی اللّٰه تعالی عنہم سے مروی ہے

 ان النبی ﷺ کان یاخذ من لحیتہ من عرضھا و طولھا 

حضور ﷺ اپنی ریش مبارک کے بال عرض و طول سے لیتے تھے ۔ 

ان عبارات سے واضح ہو گیا کہ ایک مشت کی مقدار داڑھی رکھنا واجب ہے ، نیز حضور اکرم ﷺ کی داڑھی مبارک ایک مشت تھی ، جب تجاوز کرجاتی تو آپ ﷺ طول و عرض میں سے کم فرماتے ، لیکن ایک مشت ہمیشہ رہی ۔ نیز داڑھی اس قدر لمبی رکھنا کہ بد نما صورت ہو جائے، وہ خلاف سنت و مکروہ ہے 

 داڑھی کترے امام کے پیچھے نماز

جو شخص داڑھی منڈاتا ہو یا کتروا کر ایک مٹھی سے کم کرواتا ہو، اگرچہ حافظ قرآن ہے اس کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے ۔ حضور ﷺ نے فرمایا

  لا يؤم فاجر مؤمناً الا ان يقهره سلطان يخاف سيفه او سوطه  

  ہر گز کوئ فاسق کسی مسلمان کی امامت نہ کرے مگر یہ کہ طاقت سے مجبور کر دیا جائے یا تلوار کا ڈر ہو 

البتہ اگر بالغ نوجوان حافظ قرآن ہے اور ہنوز داڑھی نہیں آئی تو اس کی امامت میں کوئی حرج نہیں ۔ 

 حضرت عائشہ رَضی اللّٰه تعالیٰ عنہا آنحضرت ﷺ کا ارشاد مبارک نقل فرماتی ہیں

  "عشر من الفطرۃ قص الشارب واعفاء اللحیۃ․․․ الخ""

دس چیزیں فطرت میں سے ہیں:1..․․ مونچھوں کا کتروانا 2.․․․ داڑھی بڑھانا 3..․․ مسواک کرنا 4..․․ ناک میں پانی ڈال کر ناک صاف کرنا 5․․․ ناخن تراشنا 6.․․․ بدن کے جوڑوں کو دھونا۔ 7..․․بغل کے بال اکھاڑنا  8.․․․ زیر ناف بال صاف کرنا 9.․․․پانی سے استنجاء کرنا، راوی کو دسویں چیز یاد نہ رہی۔ فرماتے ہیں : ممکن ہے کہ وہ کلی کرنا ہو۔

اس حدیث میں جو سنداً نہایت قوی حدیث ہے، دس چیزوں کو جن میں سے داڑھی کا بڑھانا اور مونچھوں کا کترانا بھی فطرت بتلایا گیا ہے اور فطرت عرف شرع میں ان امور کو کہا جاتا ہے جو تمام انبیا اور رسل کی معمول بہ اور متفق علیہ سنت ہو اور امت کو ان پر عمل کرنے کا حکم ہو دوسری جگہ ارشاد نبوی ہے

”عن ابن عمر قال: قال النبی ا خالفوا المشرکین اوفروا اللحی واحفوا الشوارب‘ وفی روایة: انہکوا الشوارب واعفوا اللحی متفق علیہ“۔"

یعنی مشرکین کی مخالفت کرو مونچھیں پست کرو (چھوٹی کرو) اور داڑھی کو معاف رکھو (یعنی اسے نہ کاٹو)

امام نووی شرح مسلم میں فرماتے ہیں: ”قالوا: ومعناہ انہا من سنن الانبیاء صلوات اللّٰه وسلامہ علیہم“ ۔

یعنی فطرت کے معنی یہ ہے کہ وہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی سنتوں میں سے ہے ۔

اس حدیث شریف سے صاف ظاہر ہو گیا کہ داڑھی بڑھانے کا حکم تمام شریعتوں میں تھا اور یہ تمام انبیا کرام علیہم السلام کی سنت رہی ہے ۔

 فقہ حنفی 

 امام ابوحنیفہ رحمۃ اللّٰه علیہ کی کتاب الآثار میں ہے . امام ابوحنیفہ رحمۃ اللّٰه علیہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللّٰه بن عمر رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ داڑھی کو مٹھی میں پکڑ کر مٹھی سے زائد حصہ کو کاٹ دیا کرتے تھے ۔ امام محمد رحمۃ اللّٰه علیہ فرماتے ہیں کہ ہمارا عمل اسی حدیث پر ہے اور حضرت امام اعظم  رحمۃ اللّٰه علیہ نے بھی یہی فرمایا ہے ۔

  فقہ مالکی 

فقہ مالکی کے مشہور فقیہ علامہ محمد بن محمد غیثنی مالکی ”المنح الوفیہ شرح مقدمہ العزیة“ میں فرماتے ہیں:”

داڑھی رکھنا فطرت میں سے ہے اور چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے کہ بڑھائی جائے ، لیکن جس شخص کی داڑھی ایک قبضہ سے لمبی ہو جائے تو ایسے شخص کو قبضہ سے زائد حصہ کو کتروا ڈالنے میں کوئی حرج نہیں ۔

فقہ شافعی 

مشہور شافعی فقیہ اور محدث امام نووی ”حدیث خصال فطرت“ کی شرح میں تحریر فرماتے ہیں . مذہب یہ ہے کہ داڑھی کو بالکل چھوڑ دیا جائے اور اس کے ساتھ کترنے اور منڈوانے کا تعرض بالکل نہ کیا جائے ۔

 فقہ حنبلی 

حضور ﷺ کی سنت داڑھی کو چھوڑ دینا ہے اس طرح کہ اس میں سے کچھ بھی نہ تراشے جب تک کہ وہ لمبی ہوکر بڑی نہ لگنے لگے اور اس کا منڈانا تو بالکل حرام ہے، البتہ قبضہ سے زیادہ حصہ کا تراشنا مکروہ نہیں ۔ 

مذکورہ تمام احادیث اور فقہا کرام کے اقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ داڑھی رکھنا واجب ہے اور ایک مشت یعنی قبضہ سے کم کرنا مکروہ تحریمی ہے۔

  داڑھی منڈانے والا اذان اور اقامت کا اھل نہیں ھے

 اسلام میں ڈاڑھی منڈانا یا ایک مشت سے کم پر کاٹنا حرام و ناجائز  ہے اور ایسا شخص شریعت کی نظر میں فاسق ہوتا ہے ، فاسق کسی دینی تعظیم و اکرام کا اہل نہیں ہوتا ۔ اذان شعائر اسلام میں سے ہے اور ایک اہم ترین دینی منصب ، عہدہ ہے

حضرت عمر نے فرمایا : اگر خلافت کی ذمہ داری نہ ہوتی تو میں اذان دیا کرتا؛ اس لیے جو شخص داڑھی منڈاتا ہو یا ایک مشت سے کم پر کاٹتا ہو، وہ ہرگز اذان یا اقامت کا اہل نہیں، لوگوں کو چاہیے کہ ایسی شخص کو نہ اذان کہنے دیں اور نہ اقامت؛ بلکہ نمازیوں میں کوئی باشرع شخص اذان دیا کرے اور اقامت کہا کرے۔ اور اگر ایسا شخص مسجد کا مستقل موٴذن ہو تو اسے معزول کر دیا جائے اور کسی دوسرے باشرع کو موٴذن مقرر کیا جائے 

Fatwa:61-44/N=2/1440    دارالعلوم دیوبند 

حوالہ جات

 (صحیح البخاری ،کتاب اللباس،2/875۔ صحیح مسلم ،کتاب الطہارۃ،باب خصال الفطرۃ،1/129۔ سنن الترمذی،5/95۔ سنن النسائی المجتبی،1/16۔ سنن ابی داؤد،4/84 

 مسند احمد،2/16،شرح معانی الآثار، 4/230)

 (جامع الترمذی،ابواب الآداب ، باب ما جاء فی الاخذ من اللحیۃ،2/ 100،امین کمپنی دھلی)

 (غنیه المستملي شرح منية المصلي، ص 279، مطبوعہ مجتبائی پریس، دہلی)

 (سنن ابن ماجہ، صفحہ: 77، مطبوعہ آفتاب عالم پریس، لاہور)

  صحیح مسلم ج:1‘ص:129

  فتاویٰ رحیمیہ جدید‘ ج:10‘ ص:106

  مشکوٰۃ: ص:380

  نووی شرح مسلم‘ ج:1‘ ص:128

  بحوالہ داڑھی کا وجوب ص:75تا76 حضرت شیخ محمد زکریا                 

Comments