71) ’’لا حول ولا قوۃ الا باللہ‘‘ کی فضیلت



 ’’لا حول ولا قوۃ الا باللہ‘‘ کی فضیلت                                    

   ڈاکٹر حسین آل شیخ

  آپؐ ﷺ نے ابو موسیؓ کو فرمایا تھا کہ تم ’’لَاحَولَ وَلَا قْوَّۃَ الَّا بِاللہ‘‘ (نیکی کرنے کی طاقت اور برائی سے بچنے کی ہمت اللہ کے بغیر ممکن نہیں) کہا کرو، کیونکہ یہ جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے‘‘۔ ( بخاری، مسلم)

جس وقت یہ ذکر انسانی زبان پر جاری ہو تو عین اس وقت دل عظیم الشان ذات کی وحدانیت کا اقرار کر رہا ہوتا ہے؛ کہ اسی سے مدد، کامیابی، تنگی سے نکلنے کا راستہ اور خوشحالی طلب کی جاتی ہے؛ فرمانِ باری تعالی ہے

عنقریب اللہ تعالی مشکل کے بعد آسانی فرما دے گا‘‘۔ (الطلاق: 7)

امام ابن قیمؒ کہتے ہیں: ’’مشکلات کا مقابلہ کرنے اور مصیبتیں جھیلنے کے لیے اس ’’لَاحَولَ وَلَا قْوَّۃَ اِلَّا بِاللہ‘‘ ذکر کی حیران کر دینے والی اثر انگیزی ہے، نیز بادشاہوں اور با رعب شخصیات کے سامنے جانے اور پرخطر امور میں بھی یہ ذکر مؤثر ہے‘‘۔

عوف بن مالک کے بیٹے سالم کو مشرکوں نے قید کر لیا تو وہ نبی کریمؐ ﷺ کے پاس آئے اور کہا: ’’اللہ کے رسول ﷺ میرے بیٹے کو دشمنوں نے قید کر لیا ہے اور گھر میں بھی فاقہ کشی ہے‘‘۔ اس پر رسول اللہؐ نے فرمایا: آل محمد کے پاس بھی کل شام تک ایک مد (دونوں ہاتھوں کے بھراؤ کے برابر) غلہ تھا، تقوی الہی اختیار کرو اور صبر سے کام لو اور “لَا حَولَ وَلَا قْوَّۃَ اِلَّا بِاللہ‘‘ کثرت سے کہو۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ آپؐ نے انہیں اور ان کے بیٹے کی ماں کو بھی کثرت سے اس ذکر کا حکم دیا، اس پر انہوں نے عمل کیا، عوف بن مالکؓ اپنے گھر میں ہی تھے کہ ان کا بیٹا واپس آگیا اور دشمن کو پتا بھی نہ چلا، ساتھ میں وہ دشمن کے اونٹ بھی اپنے والد کے پاس لے آئے ان دنوں ان کی مالی حالت بہت پتلی تھی، اس کے باوجود وہ رسول اللہؐ کے پاس آئے اور بیٹے کے بارے میں خبر بتلائی اور یہ بھی بتلایا کہ وہ ساتھ میں دشمن کے اونٹ لے آیا ہے۔ آپؐ نے انہیں فرمایا: (تمہیں اختیار ہے ان کا جو مرضی کرو، جیسے تم اپنے اونٹوں کے ساتھ کرتے تھے) اور اس پر یہ آیات نازل ہوئیں: ’’اور جو اللہ سے ڈرے تو اللہ اس کے لیے نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے اور وہ اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرماتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوتا‘‘۔ (الطلاق: 2-3) 

رسول اللہؐ ﷺ کا فرمان ہے 

سْبحَانَ اللہِ، وَالحَمدْ لِلّہِ، و لَا اِلہ اِلَّا اللہْ، وَاللہْ اکبَرْ وَلَا حَولَ وَلَا قْوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ

کہنے سے سارے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں چاہے سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔ (اسے احمد نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے اسے حسن قرار دیا، جبکہ حاکم نے اسے صحیح کہا ہے اور امام ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے)

اسی طرح سیدنا عبادہ بن صامتؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہؐ ﷺ نے فرمایا: جو شخص رات کے وقت بیدار ہوا، اور اس نے یہ کہا

لاَ اِلَہَ اِلَّا اللَّہْ وَحدَہْ لاَ شَرِیَک لَہْ، لہْ المْلکْ وَلَہ الحَمدْ، وھْوَ عَلی کْلِّ شَیئٍ قَدِیر

سْبحَانَ اللہِ، وَالحَمدْ لِلّہِ، و لَا اِلہ اِلَّا اللہْ، وَاللہْ اکبَرْ وَلَا حَولَ وَلَا قْوَّۃَ اِلَّا باللہ

پھر اس نے کہا: یا اللہ! مجھے بخش دے، یا کوئی اور دعا مانگی تو اس کی دعا قبول ہوگی، اور اگر وضو کر کے نماز پڑھی تو اس کی نماز بھی قبول ہوگی‘‘۔ (بخاری)

  رسول اللہؐ ﷺ کا فرمان ہے: جو شخص گھر سے نکلتے ہوئے کہے

بسمِ اللہ تَوکَّلتْ عَلی اللہِ لَا حَولَ وَلاَ قْوَّۃَ اِلَّا بِاللَّہ۔ِ

تو اسے کہا جاتا ہے: تمہارے لیے اللہ پاک کافی ہے، تمہیں محفوظ کر دیا گیا ہے اور تمہاری رہنمائی کر دی گئی، نیز شیطان اس سے دور ہٹ جاتا ہے‘‘۔ (ابو داود، ترمذی)

Comments