85) تجدیدِ بیعت کی اہمیت اور مدت



تجدیدِ بیعت کی اہمیت اور مدت

راہِ سلوک کی تمام جدوجہد، مجاہدات و ریاضات کا اصل مقصود صفتِ احسان کا حصول، باطنی رذائل کا تزکیہ اور حق جل مجدہٗ کے ساتھ ربط و تعلق میں روز افزوں اضافہ اور ترقی ہے۔ بیعت اس سلسلے کا ایک اہم ذریعہ ہے، جس کی اجمالی حقیقت یہ ہے کہ بیعت‘ شیخ اور مرید کے درمیان تین اجزاء پر مشتمل ایک عہد ہے

ایک…مرید کا اپنے گزشتہ تمام گناہوں سے توبہ کرنا

 دو…شیخ کی اتباع کا عہد کرنا

 تین…شیخ کا مرید کی تربیت کا وعدہ کرنا

قرآن و حدیث میں ثبوت ملتا ہے جیسے

  ایک :-ایمان پر بیعت 

دو :-ہجرت کے لیے بیعت 

تین :-جہاد پر بیعت

 چار:- خلافت پر بیعت 

  پانچ:- شرعی احکام کے التزام (پابندی) 

جو کہ صوفیاء کی اصطلاح میں ’’بیعتِ طریقت‘‘ سے معروف ہے۔ قرآن کریم میں ہے

’’یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ إِذَا جَائَ کَ الْمُؤْمِنَاتُ یُبَایِعْنَکَ عَلَی أَنْ لَّا یُشْرِکْنَ بِاللّٰہِ شَیْْئاً وَّلَا یَسْرِقْنَ وَلَا یَزْنِیْنَ وَلَا یَقْتُلْنَ أَوْلَادَہُنَّ وَلَا یَأْتِیْنَ بِبُہْتَانٍ یَّفْتَرِیْنَہٗ بَیْْنَ أَیْْدِیْہِنَّ وَأَرْجُلِہِنَّ وَلَا یَعْصِیْنَکَ فِیْ مَعْرُوفٍ فَبَایِعْہُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَہُنَّ اللّٰہَ إِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔‘‘ (الممتحنۃ:۱۲)

 صحیح بخاری میں ہے

’’عن عبادۃ بن الصامت ؓ قال: دعانا النبی صلی اللہ علیہ وسلم فبایعناہ ، فقال فیما أخذ علینا: أن بایعنا علی السمع والطاعۃ فی منشطنا ومکرہنا وعسرنا ویسرنا وأثرۃ علینا و ألاننازع الأمر أہلہٗ إلا أن تروا کفرا بواحاعندکم من اللّٰہ فیہ برہان۔

 (کتاب الفتن، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم : سترون بعدی اموراً تنکرونہا، ج:۲،ص:۱۰۴۵،ط:قدیمی)

اسی بنا پر سلف و خلف سے ’’بیعتِ طریقت‘‘ کا معمول معروف و متداول چلا آرہا ہے، اس میں مرید کی حیثیت مریض کی اور شیخ کا مقام طبیب و معالج کا ہوتا ہے، لہٰذا

ایک… اگر مرید کسی شیخ کے ہاں فائدہ محسوس نہ کرے یا شیخ کا انتقال ہو جائے تو کسی دوسرے متبعِ سنت شیخ کے ہاتھ پر بیعت کرے اور بہتر ہے کہ اسی سلسلے کے کسی دوسرے شیخ سے بیعت کا تعلق جوڑے ۔ سابقہ بیعت اب شیخ کے انتقال کے بعد ختم ہو گئی، اب لوگوں کو یہ کہہ کر تجدیدِ بیعت سے روکنا کہ بیعت باقی ہے، درست نہیں ہے۔ ہمارے اکابر و مشایخ کا یہی عمل چلا آرہا ہے کہ ایک شیخ کے انتقال کے بعد کسی دوسرے شیخ کے ہاتھ پر بیعت کر لیا کرتے تھے، نیز بیعت کا مقصود بھی اصلاح ہے جو تجدیدِ بیعت کی صورت میں ہی حاصل ہو سکتا ہے، لہٰذا مذکورہ لوگوں کا یہ عمل درست نہیں۔

دو… سابقہ تفصیل سے واضح ہوا کہ بیعت کرنا اگرچہ فرض یا واجب نہیں، لیکن راہِ سلوک کی منازل بآسانی طے ہونے کا ایک اہم ذریعہ اور ضروری تدبیر کے درجہ میں ہے، نیز یہ قرآن و حدیث سے بھی ثابت ہے۔

تین… شیخ کے انتقال کے بعد تجدیدِ بیعت کے لیے کوئی مخصوص مدت نہیں، بلکہ فوراً بعد تجدید کر سکتا ہے۔القول الجمیل میں ہے

’’واستفاض عن رسول اللّٰہ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- أن الناس کانوا یبابعونہٗ تارۃ علی الہجرۃ والجہاد، وتارۃ علی إقامۃ أرکان الإسلام، وتارۃ علی الثبات والقرار فی معرکۃ الکفار، وتارۃ علی التمسک بالسنۃ والاجتناب عن البدعۃ والحرص علی الطاعات، کما صح أنہ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- بایع نسوۃ من الأنصار علی أن لاینحن۔‘‘ (القول الجمیل للشاہ ولی اللہ ؒ المطبوع مع شرحہ شفاء العلیل، ص:۸،ط:مطبع قیومی، کانپور) 

أیضاً: ’’فاعلم أن البیعۃ سنۃ، ولیست بواجبۃ۔‘‘ (ایضاً،ص:۱۲) 

أیضاً: ’’فاعلم أن تکرار البیعۃ من رسول اللّٰہ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- مأثور، وکذلک عن الصوفیۃ، أما من الشیخین فإن کان بظہور خلل فیمن بایعہٗ فلابأس، وکذٰلک بعد موتہٖ أو غیبتہ المنقطعۃ۔‘‘ (ایضاً، ص:۱۹-۲۰) 

  جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

Comments