ایک اعتراض کم فہم لوگوں کی طرف سے کیا جاتا ھے کہ شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا رحمہ اللہ نے اپنی کتاب فضائل اعمال میں ضعیف احادیث کو ذکر کیا ہے۔
گویا معترضین اس کو جرم بنا کر پیش کرتے ہیں۔
آئیے ہم ضعیف حدیث کے حوالے سے محدثین کرام کا نقطہ نظر آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ معلوم ہو سکے کہ حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کا طرز محدثین کرام سے ہٹ کر نہیں بلکہ عین انہی کے مطابق ہے۔
جلیل القدر محدثین کرام کے ہاں کسی عمل کی فضیلت کو ثابت کرنے اور اس پر عمل کرنے کے لیے، کسی نیک کام کی ترغیب اور برے کام سے روکنے کے لیے ، وعظ و نصیحت کے لیے ، واقعات کو بیان کرنے کے لیے ضعیف حدیث کو چند شرائط کے ساتھ قبول کیا جاتا ہے اور ضعیف حدیث پر عمل کرنا جائز ہوتا ہے۔ اختصار کے ساتھ چند حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں:
۔1۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ [م241ھ] فرماتے ہیں: جب حلال و حرام کامعاملہ آن پڑے تو ہم احادیث کی اسانید کی چھان پھٹک میں سختی سے کام لیتے ہیں اور جب ترغیب و ترہیب کا باب ہو تو اسانید کی تحقیق میں تساہل برتتے ہیں اسی طرح ہمارا موقف ضعیف احادیث پر عمل کے بارے میں وہی ہے جو دیگر علماء کرام کا ہے کہ فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل کرنا درست ہے۔
(مجموع الفتاوٰی لابن تیمیہ : ج18، ص65)
۔2۔ امام حاکم رحمہ اللہ امام عبد الرحمن بن مہدی رحمہ اللہ کے حوالے سے نقل فرماتے ہیں :جب ہم حلال و حرام ار احکام سے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث روایت کرتے ہیں تو اسانید میں شدت اختیار کرتے ہیں اور رجال کی تحقیق میں خوب تفتیش سے کام لیتے ہیں اور جب فضائل اعمال ، ثواب و عقاب ، مباحات اور دعاؤں کی احادیث بیان کرتے ہیں تو تساہل سے کام لیتے ہیں۔
(المستدرک للحاکم: ج1ص490)
۔3۔ امام حافظ ابو زکریا العنبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :اگر حدیث ترغیب، ترہیب میں شدت یا رخصت کے باب میں مروی ہو تو اس کے راویوں کی چھان پھٹک اور اسانید کے جرح و تعدیل میں چشم پوشی سے کام لے کر تساہل اختیار کیا جاتا ہے۔
(الکفایۃ فی علم الروایہ: ص213)
۔4۔ امام نووی رحمہ اللہ [م676ھ] فرماتے ہیں:محدثین فقہاءنے کہا ہے کہ فضائل اور ترغیب و ترہیب میں ضعیف حدیث پر عمل جائز اور مستحب ہے بشرطیکہ وہ موضوع نہ ہو۔
(کتاب الاذکار: ص8)
مزید فرماتے ہیں :ہم پہلے یہ بات بیان کر چکے ہیں کہ فضائل اعمال میں تو ضعیف حدیث پر عمل کرنے پر علماء کا اتفاق ہے۔
(المجموع للنووی ج 3 ص 218)
۔5۔ امام ابن حجر عسقلانی شافعی رحمہ اللہ 852 ھ فرماتے ہیں :اہل علم محدثین کرام کے نزدیک مشہور یہی ہے کہ فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل کیا جائے گا ، موضوع حدیث پر نہیں۔
(تبيین العجب بما ورد فی شھر رجب :ج 1 ص2)
۔6۔ امام ابن ھمام حنفی رحمہ اللہ ( 861 ھ)فرماتے ہیں :کسی عمل کا مستحب ہونا ضعیف حدیث سے ثابت ہوجاتا ہے موضوع حدیث سے نہیں۔
( فتح القدیر ج 2 ص 133)
۔7۔ امام جلال الدین محلی رحمہ اللہ (م 864 ھ) [ایک حدیث کو ذکر کرنے کے بعد] فرماتے ہیں. اگرچہ حدیث ضعیف ہے لیکن فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل کیا جاتا ہے۔
(کشف القناع ج 1 ص 103)
۔8۔ امام حافظ شمس الدین محمد بن عبدالرحمٰن سخاوی شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ (م902 ھ) فرماتے ہیں۔ جمہور محدثین جس کے قائل ہیں ، وہ یہ ہے کہ (فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پراس کی شرائط کے ساتھ عمل کیا جائے گا ، احکام میں نہیں۔
(القول البديع فی الصلاة على الحبيب الشفيع: ص256)
۔9۔ امام ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ*(م 974 ھ)فرماتے ہیں :علماء محدثین کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل کرنا جائز ہے۔ (الفتح المبین شرح الاربعین ص 32)
۔10۔ امام ملا علی قاری رحمہ اللہ (م 1014ھ) فرماتے ہیں :حفاظ محدثین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل کرنا جائز ہے۔ ( المرقاة: ج 2ص183)
غیر مقلدین کے اکابرین کے فتاویٰ جات
۔1 اہل حدیث کے محدث عبداللہ روپڑی لکھتے ہیں۔ فضائل اعمال میں ضعیف احادیث پر عمل درست ہے۔ (فتاویٰ اہل حدیث جلد دوم صفحہ 554)
۔2: غیر مقلدین کے شیخ الکل کا فتوی: فضائل میں ضعیف حدیث مقبول ہے اسے موضوع نہیں کہنا چاہئے۔ (فتاوی نذیریہ جلد اول صفحہ 303 )
۔3: غیر مقلدین کے شیخ الاسلام ثناءاللہ امرتسری صاحب فرماتے ہیں ضعیف حدیث پر عمل کرنا جائز ہے (فتاویٰ ثنائیہ جلد دوم صفحہ 76)
۔4: غیر مقلد عالم اسماعیل سلفی ایک حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں۔ "اس حدیث کی اسناد ضعیف ہیں مگر تمام امت نے اسے قبول کیا ہے اور اس پر عمل کیا ہے" (مجموعہ رسائل صفحہ 412)
۔5: بعض ضعیف احادیث ایسی ہیں کہ کثرت طرق کی بنا پر قبولیت کا درجہ حاصل کر لیتی ہیں۔ اور بعض احادیث پر عمل کرنا واجب ہو جاتا ہے۔ (فتاوی ثنائیہ جلد اول صفحہ297)
۔6: مسلک اہل حدیث کے امام لکھتے ہیں فضائل کے باب میں ضعیف احادیث پر عمل کیا جائے گا اس پر علماء و فقہاء امت کا اجماع ہے (مقالات راشدیہ جلد دوم صفحہ348)
ایسے اور بھی بہت سے حوالہ جات موجود ہیں مگر اختصار کے پیش نظر اتنے حوالے کافی ہیں ۔ اس کے علاوہ غیر مقلدین فضائل اعمال میں موجود کشف و کرامات سے متعلق واقعات و حکایات پر بھی اعتراضات کرتے رہتے ہیں تو ان کے بارے اتنا ہی عرض ہے کہ ان جدید غیر مقلدین کے تمام بڑے اکابرین کشف وکرامات کے قائل تھے اور ان کی کتب ایسی کرامات سے بھری پڑی ہیں۔ صرف جدید دور کے کچھ جہلا نے اس کا انکار کیا ہے۔ ان کا بس نہیں چلتا ورنہ یہ قرآن میں موجود ایسے واقعات کا بھی انکار کر دیں۔ جی ہاں کسی انسان کا سو سال سوئے رہنا ، کسی کا تین سو سال سوئے رہنا ، کسی کے لیے بغیر موسم کے پھل ملنا ، کسی غیر نبی کا پلک جھپکتے مہینوں کی مسافت سے تخت اٹھا لانا، یہ تمام واقعات اگر قرآن کے علاوہ کسی اور کتاب میں ہوتے تو سوچیں انہوں نے ان کے بارے میں کیا کیا لب کشائی کرنی تھی ۔ مزید فضائل اعمال کی جن روایات اور واقعات پر اعتراضات کیے گئے ہیں ان کے تفصیلی جوابات کے لیے موبائل ایپ *دفاع احناف لائبریری* سے کتب ڈاؤنلوڈ کر کے پڑھیں ۔
Comments
Post a Comment