۔32🌻) میاں ، بیوی زندگی گزارنے کے معلومات


مرد کے لیے بیوی یا باندی کے علاوہ کسی بھی چیز کے ذریعہ شہوت کو ابھارنا یا شہوت پوری کرنا جائز نہیں ہے ، اسی طرح عورت کے لیے شوہر کے علاوہ دوسری کسی بھی چیز سے شہوت کو ابھارنا یا شہوت پوری کرنا جائز نہیں ہے لہٰذا زوجین کے لیے جنسی کھلونے وغیرہ استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 399)

 مرد و عورت کا ایک دوسرے کی شرمگاہ چاٹنا ... یہ عمل میاں بیوی کے درمیان غیر شریفانہ اور غیر مہذبانہ عمل ہے ، میاں بیوی کا ایک دوسرے کی شرمگاہ کو دیکھنا بھی غیر مناسب ہے اور نسیان کی بیماری کا سبب بنتا ہے ، لہذا اس سے احتراز کرنا ضروری ہے

شرعی اعتبار سے بیوی سے جس طرح چاہیں صحبت کر سکتے ہیں، کھڑے ہوکر، بیٹھ کر، لیٹ کر سب طرح بیوی سے صحبت کرنا جائز و درست ہے البتہ پچھلی شرم گاہ (پاخانہ کے مقام) میں صحبت کرنا جائز نہیں، حرام ہے

بلا وجہ کنڈوم کا استعمال اچھا نہیں ، اور اگر کوئی ضرورت داعی ہو، مثلاً پہلا بچہ ابھی دودھ پی رہا ہو یا عورت صحت کے اعتبار کمزور ہو تو ایسی صورت میں کنڈوم استعمال کر سکتے ہیں، اس صورت میں کنڈوم کے استعمال میں شرعاً کچھ حرج نہیں۔ 

  میاں بیوی دونوں کے لیے آپس میں جسم کے کسی بھی حصہ سے کوئی پردہ نہیں ہے؛ البتہ مناسب یہ ہے کہ اگر دونوں بالکل ننگے ہو کر ہم بستری کریں تو کوئی چادر وغیرہ جسم پر ڈال لیں۔

شریعتِ مطہرہ میں نکاح کے من جملہ اغراض و مقاصد میں سے ایک اہم مقصد توالد و تناسل ہے اور اولاد کی کثرت مطلوب ہے . یہی وجہ ہے کہ حدیثِ مبارک میں زیادہ بچہ جننے والی عورت سے نکاح کرنے کی ترغیب دی گئی ہے . فیملی پلاننگ کا مروجہ منصوبہ منشاءِ شریعت کے خلاف ہے . اس خطرہ کے پیش نظر کہ بچے زیادہ ہوں گے تو ان کے معاش کا انتظام کیسے ہوگا فیملی پلاننگ کرنا حرام ہے . زمانہ جاہلیت میں رزق کی کمی کے خدشہ سے اپنی اولاد کو قتل کر دیا کرتے تھے، آج کی فیملی پلاننگ بھی اس تصور کی ایک مہذب تصویر ہے، قرآنِ پاک میں اس سے سختی سے منع کیا گیا ہے کہ

” فقر کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو“

 اسی طرح کثرتِ آبادی کے خوف سے پیدائش کو محدود کرنا نظامِ خداوندی میں دخل اندازی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے جتنی جان دار مخلوق پیدا کی ہے سب کے لیے رزق کا وعدہ فرمایا ہے۔

لہٰذا مستقل طور پر بچہ دانی نکالنا ہرگز جائز نہیں ہے، البتہ عذر کی بنا پر عارضی طور پر مانعِ حمل تدابیر اختیار کی جا سکتی ہیں، چند عذر ذیل میں لکھے جاتے ہیں جن کی موجودگی میں مانعِ حمل تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں

ایک1 ۔ عورت اتنی کم زور ہو کہ حمل کا بوجھ اٹھانے کی استطاعت نہ ہو، حمل اور دردِ زہ کی تکالیف جھیلنے کی سکت نہ ہو  یا بچہ کی ولادت کے بعد شدید کم زوری اور نقاہت لاحق ہونے کا اندیشہ ہو ۔

دو2 ۔ دو بچوں کے درمیان اس غرض سے مناسب وقفہ کے لیے کہ بچے کو ماں کی صحیح نگہداشت مل سکے، اور دوسرے بچے کا حمل ٹھہرنے کی وجہ سے پہلے بچے کے لیے ماں کا دودھ مضر اور نقصان دہ نہ بنے۔

تین3 ۔ عورت بد اخلاق اور سخت مزاج ہو . خاوند اسے طلاق دینے کا ارادہ رکھتا ہو اور اندیشہ ہو کہ بچہ کی ولادت کے بعد اس کی بد اخلاقی میں مزید اضافہ ہو جائے گا، ایسی صورت میں بھی مانع حمل عمل کرنا جائز ہے۔

چار4 ۔ طویل سفر میں ہو، یا دارالحرب میں ہونے کی وجہ سے بچے کے جانی یا ایمانی نقصان کا اندیشہ ہو تو اس صورت میں بھی مانع حمل عمل کرنا جائز ہے۔

مذکورہ صورتوں میں مانعِ حمل ایسا طریقہ اور تدبیر اختیار کرنا درست ہے جس سے وقتی طور پر حمل روکا جا سکے، اس طور پر کہ جب چاہیں دوبارہ توالد و تناسل کا سلسلہ جاری رکھا جا سکتا ہو۔ باقی آپریشن کرکے بچہ دانی نکلوانا یا نس بندی کروانا یا کوئی ایسا طریقہ اپنانا جس سے توالد و تناسل (بچہ پیدا کرنے) کی صلاحیت بالکل ختم ہو جائے، شرعاً جائز نہیں ہے، یہ منشاءِ شریعت کے خلاف، نظامِ خداوندی میں دخل اندازی اور کفرانِ نعمت ہے۔

کوئی متقی مسلمان ڈاکٹر یا ڈاکٹرنی یہ تجویز اور تشخیص کر دے کہ بغیر بچہ دانی نکلوائے چارہٴ کار نہیں ورنہ جان کی ہلاکت کا قوی خطرہ ہے، تو ایسی مجبوری کی صورت میں نکلوا دینے کی گنجائش ہو سکتی ہے، فتاویٰ محمودیہ

                    جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کراچی

Comments