150) زبان کے 36 گناہ اور محتلف مقالات

زبان کے 36 گناہ اور محتلف مقالات

۔۔1. جھوٹ بولنا  2. غیبت کرنا  3. جهوٹا وعدہ کرنا

۔۔4. زیادہ مذاق کرنا  5. بداخلاقی 6- دل توڑنا

۔۔7. دوسروں کی بےعزتی کرنا  8. تہمت لگانا

۔۔9- طعنہ زنی 10. ناحق حکم دینا

۔۔11. بےجا ملامت کرنا  12-. مذاق اڑانا

۔۔13. ناامیدکرنا  14. گفتار میں ریاکاری

۔k۔15. *قرآنی اوامر کا منکر* 16. *نواہی از معروف 

۔۔17. *زخم زبان لگانا* 18. *ناحق گواہی دینا 

۔۔19. *گفتار میں تکبر* 20- *افواہ پهیلانا

    ۔۔21. *مؤمن کو رنجیدہ کرنا* 22. *دین میں بدعت سیّہ داخل کرنا* 23. *گالم گلوچ

۔۔24. *دوسروں کو برے نام سے پکارنا* 25. *نامحرم سے مذاق کرنا 

۔۔26. *چاپلوسی کرنا* 27. *بلاوجہ چیخ و پکار کرنا

۔۔28. *لوگوں پر لعنت کرنا* 29. *حسد و بخل کا اظہار 

۔۔30. *مکروحیلہ سے گفتگو کرنا* 31. *مسائل دینی میں تحریف کرنا

۔۔32. *لوگوں کے راز فاش کرنا* 33. *جھوٹی خبر دینا

۔۔34. *دوسروں کی عیب جوئی* 35. *کسی کی آواز کی نقل اتارنا* 36. *قسم کهانا

    مذکورہ بالا گناہوں سے احتراز کریں اور اپنی زبان کا درست استعمال کریں

ایک لفظی غلطی جسکی درستگی لازم هے

 ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﺴﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ" ﺍﻧﺸﺎﺀ اللّٰه " ﻟﮑﮭﺎ ﺗﻮ کسی ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﮩﺎ:ﻟﻔﻆ "ﺍﻧﺸﺎﺀاللّٰه" ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ، ﺑﻠﮑﮧ یه " ﺍﻥ ﺷﺎﺀاللّٰه "* ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ…ﺍﻥ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻟﻔﻈﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﻟﮓ الگ ﻣﻌﻨﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮑﯽ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﺑﮩﺖ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮا - ﭘﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻋﻠﻢ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻓﻼﮞ ﺳﻮﺭة ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﮯ ﮨﯽ ﻟﮑﮭﺎ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮨﮯ ، ﺁﭖ ﮐﯿﺴﮯ ﮐﮩﮧ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﯾﮧ ﻏﻠﻂ ﮨﮯ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﻭﺿﺎﺣﺖ ﺩﯼ،ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ"ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﮐﺮﻭﮞ گا"خود سے ﺗﺤﻘﯿﻖ کی تو ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺻﺎﺣﺐ ﺻﺤﯿﺢ ﻓﺮﻣﺎ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ۔۔ﻟﻔﻆ " ﺍﻧﺸﺎﺀ " ﺟﺴﮑﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮨﮯ"ﺗﺨﻠﯿﻖ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ "ﻟﯿﮑﻦ ﺍﮔﺮ " ﺍﻧﺸﺎﺀاللّٰه " ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ مطلب بنتا هے اللّٰه ﺗﺨﻠﯿﻖ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ" ﻧﻌﻮﺫ ﺑﺎﺍللّٰه ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﺳﮯ ﺻﺎﻑ ﻇﺎﮨﺮ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻟﻔﻆ " ﺍﻧﺸﺎﺀ " ﮐﻮ ﻟﻔﻆ "اللّٰه "ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﮑﮭﻨﺎ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻏﻠﻂ ﮨﮯ- ﺍﺳﮑﮯ لیئے ﻗﺮﺁﻥ ﮐﯽ ﮐﭽﮫ ﺁﯾﺎﺕ ﮨﯿﮟ، ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﻟﻔﻆ " ﺍﻧﺸﺎﺀ " ﺍﮐﯿﻼ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮨﻮﺍ ہے...

۔۔1. ﻭَﻫﻮَ ﺍﻟَّﺬِﯼ ﺃَﻧْﺸَﺄَ ﻟَﮑُﻢُ ﺍﻟﺴَّﻤْﻊَ ﻭَﺍﻟْﺄَﺑْﺼَﺎﺭَ ﻭَﺍﻟْﺄَﻓْﺌِﺪَۃَ ﻗَﻠِﯿﻠًﺎ ﻣَﺎ ﺗَﺸْﮑُﺮُﻭﻥَ، سورة ﺍﻟﻤﻮﻣﻦ 

۔۔2. ﻗُﻞْ ﺳِﯿﺮُﻭﺍ ﻓِﯽ ﺍﻟْﺄَﺭْﺽِ ﻓَﺎﻧْﻈُﺮُﻭﺍ ﮐَﯿْﻒَ ﺑَﺪَﺃَ ﺍﻟْﺨَﻠْﻖَ ﺛُﻢَّ ﺍﻟﻠَّﻪ ﯾُﻨْﺸِﺊُ ﺍﻟﻨَّﺸْﺄَۃَ ﺍﻟْﺂَﺧِﺮَۃَ ﺇِﻥَّ اللّٰهَ ﻋَﻠَﯽ ﮐُﻞِّ ﺷَﯽْﺀ ٍ ﻗَﺪِﯾﺮ . سورة ﺍﻟﻌﻨﮑﺒﻮﺕ 

۔۔3. ﺇِﻧَّﺎ ﺃَﻧْﺸَﺄْﻧَﺎﻫﻦَّ ﺇِﻧْﺸَﺎﺀ ً سورة ﺍﻟﻮﺍﻗﻌﮧ 

 ﺍﻥ ﺁﯾﺎﺕ ﺳﮯ ﺻﺎﻑ ﻇﺎﮨﺮ ﮨﮯ ﮐﮧ " ﺍﻧﺸﺎﺀ " ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﮩﯿﮟ " اللّٰه " ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮑﮭﺎ ﮔﯿﺎ.ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﯾﮧ ﻟﻔﻆ ﺍﻟﮓ ﻣﻌﻨﯽ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﮯ۔۔ﻟﻔﻆ "ﺍﻥ ﺷﺎﺀاللّٰه "*ﺟﺴﮑﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮨﮯ " ﺍﮔﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﭼﺎﮨﺎ "*" ﺍﻥ " ﮐﺎ ﻣﻌﻨﯽ ﮨﮯ " ﺍﮔﺮ  "ﺷﺎﺀ "ﮐﺎ ﻣﻌﻨﯽ ﮨﮯ " ﭼﺎﮨﺎ" "اللّٰه "ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ " اللّٰه ﻧﮯ  ﺗﻮ ثابت هوا که ﻟﻔﻆ" ﺍﻥ ﺷﺎﺀاللّٰه "*ﮨﯽ ﺩﺭﺳﺖ ﮨﮯ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﮐﭽﮫ ﺁﯾﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻭﺍﺿﺢ ﮨﮯ ۔۔

 ﻭَﺇِﻧَّﺎ ﺇِﻥْ ﺷَﺎﺀ َ ﺍﻟﻠَّﻪ ﻟَﻤُﮩْﺘَﺪُﻭﻥَ  (سورة ﺍﻟﺒﻘﺮﮦ )۔ ﻭَﻗَﺎﻝَ ﺍﺩْﺧُﻠُﻮﺍ ﻣِﺼْﺮَ ﺇِﻥْ ﺷَﺎﺀ َﺍﻟﻠَّﻪ ﺁَﻣِﻨِﯿﻦَ  (سورة ﯾﻮﺳﻒ )

ﻗَﺎﻝَ ﺳَﺘَﺠِﺪُﻧِﯽ ﺇِﻥْ ﺷَﺎﺀ َ ﺍﻟﻠَّﻪ ﺻَﺎﺑِﺮًﺍ ﻭَﻟَﺎ ﺃَﻋْﺼِﯽ ﻟَﮏَ ﺃَﻣْﺮًﺍ  (سورة ﺍﻟﮑﮩﻒ)  ﺳﺘَﺠِﺪُﻧِﯽ ﺇِﻥْ ﺷَﺎﺀ َ ﺍﻟﻠَّﻪ ﻣِﻦَ ﺍﻟﺼَّﺎﻟِﺤِﯿﻦَ (سورة ﺍﻟﻘﺼﺹ) 

ﺍﻥ ﺁﯾﺎﺕ ﺳﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﮯ ﮐﮧﻟﻔﻆ *" ﺍﻥ ﺷﺎﺀاللّٰه "*ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮨﮯ *" ﺍﮔﺮ اللّٰه ﻧﮯ ﭼﺎﮨﺎ "

امام غزالی رحمہ اللہ نے لکھا ہے

 کہ بغض و عداوت کی وجہ سے آٹھ خرابیاں اکثر سامنے آتی ہیں 

 ۔۔*1۔ حسد :* یعنی تمنا ہوتی ہے کہ دوسرے کے پاس سے نعمت جاتی رہے اور اس کو نعمت ملنے پر دل میں کڑھتا ہے اور اس کی مصیبت پر خوش ہوتا ہے ، یہ منافقین کی خصلت ہے اور دین کا ستیاناس کرنے والی صفت ہے۔

 ۔۔*2۔ شماتت :*  یعنی دوسرے کی مصیبت پر دل ہی دل میں خوب خوشی محسوس کرے۔

 ۔۔*3۔ ترک تعلقات :* کہ دلی کینہ کی وجہ سے بول چال  ، آنا جانا سب بند کر دیتا ہے۔

 ۔۔*4۔ دوسرے کو حقیر سمجھنا :* عموماً کینہ کی وجہ سے دوسرے کو ذلیل و حقیر سمجھتا ہے ۔

 ۔۔*5۔ زبان درازی :*  جب کسی سے بغض ہوتا ہے تو اس کے بارے میں غیبت ، چغلی ، بہتان طرازی ، الغرض کسی بھی برائی سے احتراز نہیں کیا جا سکتا۔

 ۔۔*6۔ مذاق اڑانا :* یعنی کینہ کی وجہ سے دوسرے کا مذاق اڑاتا ہے اور بے عزتی کرتا ہے۔

 ۔۔*7۔ مارپیٹ :* یعنی کبھی کبھی کینہ کی وجہ سے آدمی مار پیٹ پر بھی اتر آتا ہے۔

 ۔۔*8۔ سابقہ تعلقات میں کمی :* یعنی اگر کچھ اور نہ بھی ہو تو بغض کا ایک ادنیٰ اثر یہ ہوتا ہی ہے کہ اس شخص سے پہلے جو تعلقات اور بشاشت رہی ہوتی ہے وہ ختم ہو جاتی ہے۔

(مذاق العارفین ، 3 /199 )

 ( از، اللہ سے شرم کیجیۓ ، صفحہ نمبر : 193 )

اللہ پاک کی رضا اور جنت کا پروانہ 

رَضِيْتُ بِاللهِ رَبًّا وَّ بِالْإِسْلَامِ دِيْنًا وَّ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَبِيًّا

ترجمہ : میں اللہ کے پروردگار ہونے پر ،اِسلام کے دین ہونے پر اور حضرت محمد ﷺ کے نبی ہونے پر راضی ہوں۔

فائدہ :اِس کلمہ کی فضیلت حدیث میں یہ ذکر کی گئی ہے

كَانَ حَقًّا عَلَى اللهِ أَنْ يُرْضِيَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ

یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے ذمّہ لے لیا ہے کہ اِن کلمات کے پڑھنے والے کو قیامت کے دن راضی کر دیں گے۔(مسند احمد:18967)

ایک روایت میں ہے”مَنْ قَالَهُنَّ دَخَلَ الْجَنَّةَ“جس نے یہ کلمات کہے وہ جنّت میں داخل ہوگا (مسند احمد:11102)

ایک اور روایت میں اِن کلمات کے پڑھنے والے کے بارے میں آپ ﷺنے فرمایا:*

”ذَاقَ طَعْمَ الْإِيْمَانِ“*یعنی اُسے ایمان کا ذائقہ نصیب ہوگا۔ *(مسلم:34)*

محروم کون ہیں ۔ محروم وہ ہے 

جسے علم ہو کہ اِشراق/چاشت کا وقت تقریباً 6 گھنٹے ہے اور وہ 2 رکعتیں نہ پڑھ سکے ۔ جو کہ اِنسانی جسم کے 360 جوڑوں کا صدقہ ہیں ۔

 جسے علم ہو کہ رات تقریباً 11 گھنٹوں کی ہے اور وہ تہجّدکی 2 رکعت بھی نہ پڑھ سکے 

 جسے علم ہو کہ دن اور رات میں 24 گھنٹے ہوتے ہیں اور وہ مختصر وقت میں فرض نماز نہ پڑھ سکے اور قرآن کریم کے ایک رکوع کی بھی تلاوت نہ کر سکے 

جسے علم ہو کہ زبان تھکتی نہیں اور وہ دن بھر میں بالکل بھی اللّٰهﷻ کا ذِکر نہ کریں

بنی اسرائیل  میں سے ایک آدمی کا انتقال ہو گیا ۔ اس کے دو بیٹے تھے ۔ ان دونوں کے مابین ایک دیوار کی تقسیم کے سلسلے میں جھگڑا ہو گیا ۔ جب دونوں آپس میں جھگڑ رہے تھے تو انہوں نے دیوار سے ایک غیبی آواز سنی کہ تم دونوں جھگڑا مت کرو۔ کیونکہ میری حقیقت یہ ہے کہ میں ایک مدت تک اس دنیا میں بادشاہ اور صاحب مملکت رہا ۔ پھر میرا انتقال ہو گیا اور میرے بدن کے اجزا مٹی کے ساتھ مل گئے ۔ پھر اس مٹی سے کمہار نے مجھے گھڑے کی ٹھیکری بنا دیا ایک طویل مدت تک ٹھیکری کی صورت میں رہنے کے بعد مجھے توڑ دیا گیا ۔پھر ایک لمبی مدت تک ٹکڑوں کی صورت میں رہنے کے بعد میں مٹی اور ریت کی صورت میں تبدیل ہو گیا ۔پھر کچھ مدت کے بعد لوگوں نے میرے اجزائے بدن کی اس مٹی سے اینٹیں بنا ڈالیں ۔ اور آج تم مجھے اینٹوں کی شکل میں دیکھ رہے ہو ۔ لہٰذا تم ایسی مذموم و قبیح دنیا پر کیوں جھگڑتے ہو ۔ کسی شاعر  نے کیا خوب کہا ہے

غرور تھا نمود تھی ، ہٹو بچو کی تھی صدا  

اور آج تم سے کیا کہوں لحد کا بھی پتہ نہیں 

آہ !آہ ! یہ دنیا بڑی فریب دہندہ ہے فانی ہونے کے باوجود یہ لوگوں کی محبوب بنی ہوئی ہے ۔ یہ اپنی ظاہری رنگینی اور رعنائی سے لوگوں کو گمراہ کرتے ہوئے آخرت سے غافل کرتی ہے ۔ ماخوذ از:" آج کا سبق "تالیف :مفتی اعظم حضرت مولانا محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ

شیرعلی خان مجاہد  ککے زئی  

 نے 1872ء کےدوران کالا پانی میں چهری کے وار کر کے وائس رائے ہند گورنر جنرل لارڈ میو (جس کے نام پر لاہور کا میو ہسپتال مشہور ہے) کو قتل کر کے تاج برطانیہ کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس عظیم مسلمان پختون ہیرو کو 11مارچ 1872ء کو سر عام پهانسی پر لٹکا دیا گیا۔

غازی شیر علی خان مجاہد ککے زئی کو پھانسی کی سزا سناتے ہوئے جج نے کہا تھا کہ ہم ایسا کام کریں گے دنیا تجھے بھول جائے گی لیکن لارڈ میو کو نہیں بھولے گی لیکن اس مجاہد کا نام اور کام ابھی تک یاد ہے

ایک بار جبرائیل علیہ سلام

نبی کریم ﷺ کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ جبرایل کچھ پریشان ہے آپ نے فرمایا جبرائیل کیا معاملہ ہے کہ آج میں آپ کو غمزدہ دیکھ رہا ہوں جبرائیل نے عرض کی اے محبوب کل میں اللہ پاک کے حکم سے جہنم کا نظارہ کر کے آیا ہوں اسکو دیکھنے سے مجھ پہ غم کے آثار نمودار ہوے ہیں نبی کریم ﷺ نے فرمایا جبرائیل مجھے بھی جہنم کے حالات بتاو جبرائیل نے عرض کی جہنم کے کل سات درجے ہیں 

ان میں جو سب سے نیچے والا درجہ ہے اللہ اس میں منافقوں کو رکھے گا اس سے اوپر والے چھٹے درجے میں اللہ تعالی مشرک لوگوں کو ڈالیں گے 

اس سے اوپر پانچویں درجے میں اللہ پاک سورج اور چاند کی پرستش کرنے والوں کو ڈالیں گے 

چوتھے درجے میں اللہ پاک آتش پرست لوگوں کو ڈالیں گے 

تیسرے درجے میں اللہ پاک یہود کو ڈالیں گے

دوسرے درجے میں اللہ تعالی عیسائیوں کو ڈالیں گئ

یہ کہہ کر جبرائیل علیہ سلام خاموش ہو گئے تو نبی کریم ﷺ نے پوچھا 

جبرائیل آپ خاموش کیوں ہو گئے مجھے بتاو کہ پہلے درجے میں کون ہوگا  جبرائیل علیہ سلام نے عرض کیا 

اے اللہ کے رسول ﷺ پہلے درجے میں اللہ پاک آپکے امت کے گنہگاروں کو ڈالے گے

جب نبی کریم ﷺ نے یہ سنا کہ میری امت کو بھی جہنم میں ڈالا جاے گا تو آپ بے حد غمگین ہوے اور آپ ﷺ نے اللہ پاک کے حضور دعائیں کرنا شروع کی تین دن ایسے گزرے کہ اللہ کے محبوب ﷺ مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے تشریف لاتے نماز پڑھ کر حجرے میں تشریف لے جاتے اور دروازہ بند کرکہ اللہ پاک کے حضور رو رو کر فریاد کرتے صحابہ حیران تھے کہ نبی کریم ﷺ پہ یہ کیسی کیفیت طاری ہوئی ہے مسجد سے حجرے جاتے ہیں

گھر بھی تشریف لیکر نہیں جا رہے۔ جب تیسرا دن ہوا تو سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ سے رہا نہیں گیا وہ دروازے پہ آے دستک دی اور سلام کیا لیکن سلام کا جواب نہیں آیا ۔ آپ روتے ہوے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آے اور فرمایا کہ میں نے سلام کیا لیکن سلام کا جواب نہ پایا لہذا آپ جائیں آپ کو ہو سکتا ہے سلام کا جواب مل جاے آپ گئے تو آپ نے تین بار سلام کیا لیکن جواب نہ آیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ  نے سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو بھیجا لیکن پھر بھی سلام کا جواب نہ آیا حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے واقعے کا تذکرہ علی رضی اللہ تعالی سے کیا انہوں نے سوچا کہ جب اتنے اعظیم شحصیات کو سلام کا جواب نہ ملا تو مجھے بھی خود نھی جانا چاھیئے بلکہ مجھے انکی نور نظر بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا اندر بھیجنی چاھیئے۔ لہذا آپ نے فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو سب احوال بتا دیا آپ حجرے کے دروازے پہ آئی " ابا جان اسلام و علیکم"

بیٹی کی آواز سن کر محبوب کائینات اٹھے دروازہ کھولا اور سلام کا جواب دیا  ابا جان آپ پر کیا کیفیت ھے کہ تین دن سے آپ یہاں تشریف فرما ہے  نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جبرائیل نے مجھے آگاہ کیا ہے کہ میری امت بھی جہنم میں جاے گی فاطمہ بیٹی مجھے اپنے امت کے 

گنہگاروں کا غم کھاے جا رہا ہے اور میں اپنے مالک سے دعائیں کر رہا ہوں کہ اللہ پاک ان کو معا ف کر اور جہنم سے بری کر یہ کہہ کر آپ پھر سجدے میں چلے گئے اور رونا شروع کیا یا اللہ میری امت یا اللہ میری امت کے گناہگاروں پہ رحم کر انکو جہنم سے آزاد کر 

کہ اتنے میں حکم آگیا "وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَى

اے میرے محبوب غم نہ کر میں تم کو اتنا عطا کردوں گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے.. 

آپ خوشی سے کھل اٹھے اور فرمایا لوگوں اللہ پاک نے مجھ سے وعدہ کر لیا ہے کہ وہ روز قیامت مجھے میری امت کے معاملے میں خوب راضی کریں گا اور میں نے اس وقت تک راضی نہیں ہونا جب تک میرا آخری امتی بھی جنت میں نہ چلا جاے 

 آنکھوں سے آنسو آگئے کہ ہمارا نبی اتنا شفیق اور غم محسوس کرنے والا ہے اور بدلے میں ہم نے انکو کیا دیا..؟؟

Comments