کامیاب استاذ بننے کے لئے رہنما اصول
بہترین استاذ وہ ہے جو بیک وقت نفسیات ، اخلاقیات اور روحانیت میں مہارت رکھتا ہو
ایک) اخلاص ... اچھا استاذ اپنے پیشے کے ساتھ مخلص ہوتا ہے
دو) تقوی ... علم اور تقوی کا باہم گہرا تعلق ہے، اسی وجہ سے قرآن پاک میں خشیت الہی کا مدار "علم" کو قرار دیا گیا ہے۔ نیز یہ بات ہم پر مخفی نہیں کہ استاذ کے دل میں جتنی خدا خوفی ہوتی ہے اس کی زبان میں اسی قدر تاثیر ہوتی ہے
تین ) بہترین عملی کردار ... شاگرد اپنے استاذ کو بہت باریک بینی سے دیکھتا ہے، یوں استاذ کی چال ڈھال، عادات و اطوار اور اخلاق و کردار لاشعوری طور پر بھی اس میں اترنے لگتے ہیں
چار ) تلاوت کا معمول ... تلاوت کا معمول روزانہ کی بنیاد پر ہونا چاہیے ۔ تلاوت کم از کم اتنی اونچی آواز سے کرنی چاہیے کہ اسے خود سن سکے، ان شاء اللہ اس عمل کی تاثیر وہ خود محسوس کرے گا
پانچ ) ذکر اللہ ... بہتر ہوگا کہ تلاوت کےعلاوہ ذکر الہی کے لئے کچھ وقت الگ سے نکالے۔ قلب کے احیا (دل کو زندہ رکھنے) کے لئے یہ عمل نہایت موثر ہے
چھ ) شکر ... اچھا مدرس وہ ہوتا ہے جس کی طبیعت میں شکر کا وصف موجود ہو، شکر سے مراد اس کی تینوں قسمیں ہیں، یعنی قلبی ، لسانی اور عملی
سات ) حیا ... استاذ کے لئے حیا ایک ناگزیر وصف ہے ۔ حیا کا مطلب ہے "انقباض النفس عن القبیح "یعنی اللہ کی طرف سے ناپسندیدہ قرار دی گئی باتوں/چیزوں سےاس کا جی تنگ پڑے
اٹھ ) ذمہ داری کا احساس ... یہ بات مشاہدے اور تجرے سے ثابت ہے کہ طلبہ کا غیر ذمہ دارانہ رویے کا ایک بڑا باعث استاد کا غیر ذمہ دارانہ مزاج ہے۔ کامیاب مدرس بننے کے لئے اپنے اندر ذمہ داری کا احساس جگانے کی ضرورت ہے
نو ) اچھی صحبت ... اچھا استاذ وہ ہوتا ہے جس کا مزاج اچھا ہو، اس کی بیٹھک اچھے لوگوں کے ساتھ ہو ، اس کی پہچان اچھی سوسائٹی ہو
دس ) تحمل اور برداشت ... تعلیم اور تزکیہ کے میدان میں صبر و تحمل کی اہمیت دوچند ہو جاتی ہے ۔ انبیا علیہ اسلام کو اللہ پاک نے بار بار اس کی تلقین فرمائی ہے ۔ استاذ میں جس قدر یہ خوبی ہوگی وہ اتنا ہی کامیاب مدرس ثابت ہوگا۔
گیارہ) زہد اور بے رغبتی ... ایک اچھا استاذ وہ ہوتا ہے جس میں کمال درجے کا زہد ہو
بارہ) عفو ، درگزر اور وسعتِ قلبی ۔.. ہر معمولی بات پر پکڑ کرنے والا کبھی کامیاب مدرس نہیں بن سکتا
تیرہ ) خدمت خلق کا جذبہ ۔.. استاذ اگر اپنے طلبہ کے سامنے خدمتِ خلق کا عملی نمونہ پیش کرے گا تو ان کے دل میں عظمت بڑھے گی
چودہ ) قوت اور امانت ۔.. اچھا استاذ وہی ہوتا ہےجس میں قوت اور امانت کا وصف بخوبی موجود ہو ۔
پندرہ ) رجائیت (پراُمید ہو) ۔.. اچھا استاذ کبھی مایوس نہیں ہوتا ، اس کی مثال اس پھل بیچنے والے کی سی ہے جو اپنے گاہک کے سامنے پھل کی ایسی تعریف کرے کہ وہ تھوڑے کے بجائے زیادہ لینے پر مجبور ہو جائے ۔
سولہ) اخلاقی جرات ۔.. ایک اچھا استاذ اپنے اندر اخلاقی جرات رکھتا ہے ۔ یاد رہے کہ اخلاقی جرات کا تعلق اخلاق سے ہے، آپ کے اندر جتنی بھی بری باتیں ہوں جب تک ان سے جان نہیں چھڑا لیتے اخلاقی جرات کا فقدان رہے گا۔
سترہ) قول و فعل میں مطابقت ۔.. جس استاذ کے قول و فعل میں تضاد ہو وہ ایک بدنام اور ناکام مدرس ہے۔
اٹھارہ) وضع قطع ۔.. استاذ کو چاہیے کہ اپنے باطن کی طرح ظاہر کو بھی اللہ کے رنگ میں رنگ دے۔ شریعت کے مطابق وضع قطع نہ صرف سنتِ نبوی کی اتباع ہے بلکہ اس سے آپ باوقار تشخص کی تعمیر کر سکیں گے۔
انیس) للّٰھیت ۔.. دینی خدمات محض تنخواہ کے لئے سرانجام نہ دے ۔ اس سے چاشنی اور لذت جاتی رہتی ہے ۔ اپنے کسی قول و فعل کے ذریعے شاگردوں کے سامنے بھی ایسا تاثر دینے سے باز رہے۔
بیس) شاگردوں کے حق میں دعا گو ۔.. استاذ کو اپنے شاگرد پر ہاتھ اٹھانے کا اس وقت تک کوئی حق نہیں جب تک اس کے لئےتہجد میں اللہ پاک سے دعا نہ مانگ لے
ڈاکٹر عبدالکلام کہتے ہیں میں نے 22 سال تک اس طریقہ سے پڑھایا
ایک). میں نے کبھی حاضری نہیں لی کیونکہ کلاس اتنی دلچسپ ہوتی تھی کہ طلباء کو خود ہی آنا پڑتا تھا۔
دو). میں نے کبھی بھی کلاس روم میں خوف پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی، کیونکہ کلاس روم طلباء کا دوسرا گھر ہوتا ہے۔
تین). کوئی بھی طالب علم جو دیر سے آیا، میں نے شرکت کی اجازت دی، چاہے وہ کلاس ختم ہونے سے دس منٹ پہلے ہی کیوں نہ ہو، اس کا مطلب ہے ذمہ داری کا احساس۔
چار). میں نے کبھی بھی لفظ کو دو بار سے زیادہ نہیں دہرایا، کیونکہ میں جانتا تھا کہ ہر کوئی اتنی گہرائی سے سن رہا ہے کہ اسے دہرانے کی ضرورت ہی نہیں ۔
پانچ). میں نے کبھی بھی مکمل 90 منٹ تک نہیں پڑھایا، کیونکہ میں جانتا تھا کہ اچھے، اوسط اور کمزور طلبہ کی حوصلہ افزائی مختلف ہوتی ہے۔
چھ). میں نے کبھی نقد جرمانہ نہیں کیا، کیونکہ میں جانتا تھا کہ کلاس میں کوئی یتیم یا غریب بچہ ہوگا۔
سات). میں نے اپنے طالب علموں کو کبھی اپنے دروازے کے پیچھے انتظار کرنے نہیں چھوڑا، کیونکہ میں جانتا تھا کہ دروازے کے پیچھے کھڑا ہونا عزت نفس کو ختم کر دے گا۔
اٹھ). میں نے ہمیشہ اجتماعی سزا کو انفرادی سزا سے بہتر سمجھا ، کیونکہ میں جانتا تھا کہ گروہ ناقابل فراموش تفریح ہے، لیکن فرد دل دہلا دینے والا ہے۔
نو). میں نے ہمیشہ طالب علم کو بورڈ پر بلایا اور اس سے وہ پوچھتا جو کچھ وہ جانتا تھا
دس)۔ اُستاد احساس ذمہ داری سے سرشار شخصیت کا نام ہوتا ہےجس کی ساری زندگی نئی نسل کی تعلیم و تربیت میں گزر جاتی ہے اور اُن کا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے جب اُن کا کوئی شاگرد کسی مقام پہ پہنچتا ہے
Comments
Post a Comment