درویش نے نوجوان کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور بڑے جذب سے دُعا دی" اللّہ پاک تجھے آسانیاں بانٹنے کی توفیق عطا فرمائے
دعا لینے والے نے حیرت سے کہا
حضرت! الحمد للّہ ہم مال پاک کرنے کے لیے ھر سال وقت پر زکواۃ نکالتے ہیں، بلاؤں کو ٹالنے کے لیے حسبِ ضرورت صدقہ بھی دیتے ہیں.... اس کے علاوہ ملازمین کی ضرورتوں کا بھی خیال رکھتے ہیں، ہمارے کام والی کا ایک بچہ ہے، جس کی تعلیم کا خرچہ ہم نے اٹھا رکھا ہے، اللّہ کی توفیق سے ہم تو کافی آسانیاں بانٹ چکے ہیں ۔۔۔
درویش تھوڑا سا مسکرایا اور بڑے دھیمے اور میٹھے لہجے میں بولا
"میرے بچے! پیسے، کھانا وغیرہ یہ سب تو رزق کی مختلف قسمیں ہیں۔۔اور یاد رکھو "رَازِق اور الرَّزَّاق" صرف اور صرف الله تعالٰی کی ذات ہے۔۔۔تم یا کوئی اور انسان یا کوئی اور مخلوق نہیں ۔۔ تم جو کر رہے ہو، اگر یہ سب کرنا چھوڑ بھی دو تو اللّہ تعالٰی کی ذات یہ سب فقط ایک ساعت میں سب کو عطا کر سکتی ہے ، اگر تم یہ کر رہے ہو تو اپنے اشرف المخلوقات ہونے کی ذمہ داری ادا کر رہے ہو
درویش نے نرمی سے اس کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھ میں لیا اور پھر بولا:میرے بچے! آؤ میں تمہیں سمجھاؤں کہ آسانیاں بانٹنا کسے کہتے ہیں
۔🌹کبھی کسی اداس اور مایوس انسان کے کندھے پے ہاتھ رکھ کر، پیشانی پر کوئی شکن لائے بغیر ایک گھنٹا اس کی لمبی اور بے مقصد بات سننا..... آسانی ہے
۔🌹اپنی ضمانت پر کسی بیوہ کی جوان بیٹی کے رشتے کے لیے سنجیدگی سے تگ ودو کرنا آسانی ہے
۔🌹صبح دفتر جاتے ہوئے اپنے بچوں کے ساتھ محلے کے کسی یتیم بچے کی اسکول لے جانے کی ذمہ داری لینا۔۔۔یہ آسانی ہے
۔🌹 اگر تم کسی گھر کے داماد یا بہنوئی ہو تو خود کو سسرال میں خاص اور افضل نہ سمجھنا... یہ بھی آسانی ہے
۔🌹غصے میں بپھرے کسی آدمی کی کڑوی کسیلی اور غلط بات کو نرمی سے برداشت کرنا یہ بھی آسانی ہے
۔🌹چاۓ کے کھوکھے والے کو اوئے کہہ کر بُلانے کی بجائے بھائی یا بیٹا کہہ کر بُلانا . یہ بھی آسانی ہے
۔🌹 گلی محلے میں ٹھیلے والے سے بحث مباحثے سے بچ کر خریداری کرنا....یہ آسانی ہے
۔🌹تمہارا اپنے دفتر، مارکیٹ یا فیکٹری کے چوکیدار اور چھوٹے ملازمین کو سلام میں پہل کرنا، دوستوں کی طرح گرم جوشی سے ملنا، کچھ دیر رک کر ان سے ان کے بچوں کا حال پوچھنا..... یہ بھی آسانی ہے
۔🌹ہسپتال میں اپنے مریض کے برابر والے بستر کے انجان مریض کے پاس بیٹھ کر اس کا حال پوچھنا اور اسے تسّلی دینا ..... یہ بھی آسانی ہے
۔🌹ٹریفک اشارے پر تمہاری گاڑی کے آگے کھڑے شخص کو ہارن نہ دینا جس کی موٹر سائیکل بند ہو گئی ہو ...... سمجھو تو یہ بھی آسانی ہے
درویش نے حیرت میں ڈوبے نوجوان کو شفقت سے سر پر ھاتھ پھیرا اور سلسلہ کلام جارے رکھتے ہوئے دوبارہ متوجہ کرتے ہوئے کہا
"بیٹا جی! تم آسانی پھیلانے کا کام گھر سے کیوں نہیں شروع کرتے۔۔۔۔.؟
۔🌹آج واپس جا کر باھر دروازے کی گھنٹی صرف ایک مرتبہ دے کر دروازہ کُھلنے تک انتظار کرنا
۔🌹 آج سے باپ کی ڈانٹ ایسے سننا جیسے موبائل پر گانے سنتے ہو
۔🌹آج سے ماں کے پہلی آواز پر جہاں کہیں ہو فوراً ان کے پاس پہنچ جایا کرنا.... اب انھیں تمہیں دوسری آواز دینے کی نوبت نہ آئے
۔🌹 آئندہ سے بیوی کی غلطی پر سب کے سامنے اس کو ڈانٹ ڈپٹ مت کرنا
۔🌹 سالن اچھا نہ لگے تو دسترخوان پر حرف شکایت بلند نہ کرنا .کبھی کپڑے ٹھیک استری نہ ہوں تو خود استری درست کر لینا۔۔۔
میرے بیٹے! ایک بات یاد رکھنا زندگی تمہاری محتاج نہیں ، تم زندگی کے محتاج ہو ، منزل کی فکر چھوڑو، اپنا اور دوسروں کا راستہ آسان بناؤ ، ان شاء اللّہ تعالٰی منزل خود ہی مل جائے گی۔۔۔۔۔
حاصل کلام ... آئیں صدقِ دِل سے دُعا کریں کہ اللّہ تعالٰی ہم سب کو آسانیاں بانٹنے کی توفیق عطا فرمائے ، آمین ثم آمین یا رب العالمین
بچے پاک فطرت پہ پیدا ہوتے ہیں
والد کتاب پڑھنے میں مشغول ہیں، والدہ کچن میں برتن دھو رہی ہیں اور بچہ ہال میں کھلونوں کے ساتھ کھیل رہا ہے۔ ٹیلیفون بجتا ہے ماں کام چھوڑ کر ٹیلیفون کی طرف جانا چاہتی ہیں لیکن والد ان سے پہلے ہی اٹھ کر فون اٹھا لیتے ہیں۔ فون پر بات کرکے دوبارہ مطالعہ شروع کر دیتے ہیں۔
والد گھر میں نہیں، بچہ مسلسل ماں کا دامن کھینچ رہا ہے کہ میرے ساتھ کھیلیں لیکن ماں کھانا بنانے میں مصروف ہیں اس لیے کہتی ہیں : تھوڑا صبر کرو بیٹا چند منٹ بعد آؤں گی۔ اچانک فون بجتا ہے، ماں کام چھوڑ کر فون اٹھاتی ہیں۔بچہ چند دنوں سے اس بات کو نوٹ کر رہا ہے (فون کی آواز سن کر کام چھوڑ کر جواب دینا)
آج بھی فون بجا بچہ جو کاپی میں رنگ کر رہا تھا، فوراً فون کا جواب دینے اٹھا سب سے پہلے اس نے فون اٹھایا لیکن ماں نے مسکرا کر اس کے ہاتھوں سے فون لے لیا۔
اب آگے دیکھئے ۔۔۔ بچہ اپنی گاڑی سے کھیل رہا ہیں ، ماں کپڑے استری کر رہی ہے، والد صوفے پہ لیٹے اخبار پڑھ رہے ہیں۔
مسجد سے اذان کی آواز آتی ہے بچہ سر اٹھا کر ایک نظر باہر ڈالتا ہے اور آواز کو ڈھونڈتا ہے پھر ایک نظر اپنے والدین پر کوئی خاص حرکت نہیں دیکھی دوبارہ کھیلنے میں مصروف ہو گیا ۔ ماں پھلوں کی پلیٹ لے کر والد کے نزدیک بیٹھتی ہیں۔ بچے کو اپنی گود میں بٹھاتی ہیں۔ سب میوے کھانے میں مصروف ہیں۔ اذان کی آواز آتی ہے، بچہ پھر آواز کی طرف توجہ کرتا ہے، والدین کی طرف سے کوئی اقدام دیکھنا چاہتا ہے لیکن چند روز تک ایسے ہی ہوتا ہے۔ اج پھر گھر میں سب اپنے کاموں میں لگے ہوئے ہیں اور بچہ کھیلنے میں۔ اذان کی آواز آتی ہے لیکن بچہ سر اٹھا کہ بھی نہیں دیکھتا۔
یہ وہی فرمانِ حضور اکرم ﷺ ہے جس میں خبردار کیا گیا ہے
"بچے پاک فطرت پہ پیدا ہوتے ہیں، یہ ماں باپ ہیں جو اسے بے دین کرتے ہیں"*
اگر والدین اذان کی آواز سن کر کام کاج چھوڑ کر نماز کی طرف جائیں تو بچے کے تحت شعور میں محفوظ ہو جائے گا کہ اذان کی آواز آئے تو کیا کرنا ہوتا ہے؟
جیسے فون کی آواز کے بعد کا ردعمل اس کے ذہن میں رہ گیا۔اسی طرح ہمارے عمل سے بچہ نماز سے آشنا ہوتا ہے اور بغیر بولے ہمارے عمل سے سیکھتا ہے۔ اب یہ والدین کے ذمہ ہے کے وہ اپنے بچے کو کیا سکھاتے ہیں۔
سب سے برکت والا نکاح کون سا ہے؟
سرور عالم صلی الله علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں
اِنَّ اَعْظَمَ النِّکَاحِ بَرَکَةً اَیْسَرُہٗ مَئُوْنَةً
سب سے زیادہ برکت والا نکاح وہ ہے جس میں خرچ کم ہو اور سادگی ہو۔ بے جا اخراجات میں پیسہ اڑانے سے بہتر ہے کہ وہی پیسہ بچا کر اپنی بیٹی کو دے دو، داماد کو دے دو، مسجد میں دری بچھوا دو، کسی طالب علم کا خرچہ برداشت کرلو، غرض کسی صحیح مصرف میں لگا دو۔ دعوت ولیمہ جو مسنون ہے وہ لڑکے کے لیے ہے جس کے گھر بیوی آتی ہے مگر آج الٹا معاملہ ہے، لڑکی والا بھی لڑکے کے ہمراہ آنے والے سینکڑوں باراتیوں کے کھلانے پلانے پر لاکھوں روپے خرچ کرتا ہے، جس کی پانچ لڑکیاں ہیں وہ چھ لاکھ کا انتظام سوچتا ہے اور پھر اس کی وجہ سے چوری کرتا ہے، ڈاکہ مارتا ہے، رشوت لیتا ہے۔ اور لڑکے والوں پر بھی اتنی بڑی دعوتِ ولیمہ کرنا ضروری نہیں کہ شامیانہ لگے، دس ہزار آدمی آئیں اور لاکھوں روپے کھلانے میں خرچ ہوں۔ پانچ آدمی سے بھی ولیمہ ہو سکتا ہے۔ اگر کسی خاندان والے کو کوئی نہ بلائے تو اس کو شکایت کا حق نہیں ہے۔
صحابہ کرام اور اکابر کے نکاح میں سادگی
مدینہ شریف کی چھوٹی سی بستی میں سرور عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو ایک صحابی حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی دعوت ولیمہ میں نہیں بلایا۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کے کپڑے پر خوشبو کا پیلا رنگ لگا دیکھ کر اندازہ لگایا اور پوچھا کہ شاید تم نے نکاح کر لیا لیکن آپ کو ذرا بھی ناگواری نہیں ہوئی کہ تم نے ہمیں دعوت ولیمہ میں کیوں نہیں بلایا۔
میرے شیخ شاہ ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم نے ایک بہت بڑے اور معزز خاندان میں اپنی بیٹی دی۔ پروفیسر حکیم عرفان اللہ صاحب مجلسِ شوریٰ دیوبند کے ممبر اور طبیہ کالج علی گڑھ کے بہت بڑے حکیم تھے۔ حضرت نے ان سے فرمایا کہ تم اپنے بیٹے کو لانا اور ایک بچہ اور لے آنا یعنی علی گڑھ سے ہر دوئی تین آدمی سے زیادہ نہ آئیں۔ بس ابا جان آئیں، بیٹا جو داماد بننے والا ہے اور ایک بچہ اور لا سکتے ہیں، چوتھا آدمی نہیں آئے گا۔ اس کو کہتے ہیں سادگی، لیکن آج کہتے ہیں کہ سادگی اختیار کرنے سے ناک کٹ جائے گی۔ ارے ناک تو اللہ کے ہاتھ میں ہے، اگر سادگی اختیار کرتے تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہماری عزت ہوتی۔
نکاح میں اسراف کا وبال
جب سے امت شادی بیاہ کے موقع پر خرافات اور تکلفات میں مبتلا ہوئی ہے، اس وقت سے مقروض ہونے، سودی قرضے اور رشوت لینے جیسی برائیوں میں مبتلا ہو گئی اور ان برائیوں کی جڑ یہی فضول خرچی اور اسراف ہے۔ جب نکاح کی برکت کم خرچ کرنے میں ہے تو امت برکت کیوں نہیں لیتی؟
کیوں زیادہ خرچ کرکے نام و نمود کرکے برکت سے محروم ہوتی ہے؟
ایک گاؤں میں غریب نائی رہا کرتا تھا
جو ایک درخت کے نیچے کرسی لگا کے لوگوں کی حدمت کرتا
مشکل سے گزر بسر ہو رہی تھی
اس کے پاس رہنے کو نہ گھر تھا
نہ بیوی اور بچے تھے
صرف ایک چادر اور ایک تکیہ تھا
جو اس کی ملکیت تھی جب رات ہوتی تو ایک بند سکول کے باہر چادر بچھاتا
تکیہ رکھتا اور سو جاتا
ایک دن صبح کے وقت گاوں سیلاب آ گیا
اس کی آنکھ کھلی تو ہر طرف شور و غل تھا
وہ اٹھا اور سکول کے ساتھ بنی ٹینکی پر چڑھ گیا
چادر بچھائی، دیوار کے ساتھ تکیہ لگایا اور لیٹ کر لوگوں کو دیکھنے لگا
لوگ اپنا سامان، گھر کی قیمتی اشیا لے کر بھاگ رہے تھے. کوئی نقدی لے کر بھاگ رہا ہے، کوئی زیور کوئی بکریاں تو کوئی کچھ قیمتی اشیا لے کر بھاگ رہا ہے۔
اسی دوران ایک شخص بھاگتا ارہا تھا اس نے سونے کے زیور پیسے اور کپڑے اٹھا رکھے تھے۔ جب وہ شخص اس نائی کے پاس سے گزرا اور اسے سکون سے لیٹے ہوئے دیکھا تو غصے سے بولا ہمارہ سب کچھ اجڑ گیا اور تو ارام سے بے فکر لیٹا ہوا ہے . یہ سن کر نائی بولا ... لالے اج غریبی کی قیمت کا پتہ لگا ... جب میں نے یہ کہانی سنی تو ہنس پڑا مگر پھر ایک خیال آیا کہ شاید روز محشر کا منظر بھی کچھ ایسا ہی ہوگا۔جب تمام انسانوں سے حساب لیا جائے گا۔ ایک طرف غریبوں کا حساب ہو رہا ہوگا ۔ دو وقت کی روٹی، کپڑا ۔حقوق اللہ اور حقوق العباد ۔
ایک طرف امیروں کا حساب ہو رہا ہوگا ۔پلازے، دکانیں، فیکٹریاں، گاڑیاں، بنگلے، سونا اور زیوارات ۔ ملازم ۔ پیسہ ۔ حلال و حرام ۔ عیش و آرام ۔ زکواۃ ۔ حقوق اللہ۔ حقوق العباد۔۔۔۔
اتنی چیزوں کا حساب کتاب دیتے ہوئے پسینے سے شرابور اور خوف سے تھر تھر کانپ رہے ہوں گے۔
تب شاید اسی نائی کی طرح غریب ان امیروں کو دیکھ رہے ہو گے۔ چہرے پر ایک عجیب سا سکون اور شاید دل ہی دل میں کہہ رہے ہوں گے۔۔۔۔اج غریبی کی قیمت کا پتہ لگا
Comments
Post a Comment