قربانی کرنا کس پر واجب ہے
مرتب:- محمد حسن فاضل:-وفاق المدارس العربیہ پاکستان
قربانی واجب ہونے کے لیے کچھ مخصوص شرائط رکھے گئے ہیں، ان شرائط کے پائے جانے کے بعد ہی قربانی واجب ہوتی ہے۔ ذیل میں یہ شرائط ذکر کی جاتی ہیں
مسلمان ہونا: بالغ ہونا: عاقل ہونا: مقیم ہونا
قربانی واجب ہونے کے لیےعاقل ہونا ضروری ہے کیونکہ مجنون پاگل پر قربانی واجب نہیں اگرچہ وہ صاحبِ نصاب ہو۔
قربانی واجب ہونے کے لیے مقیم ہونا ضروری ہے کیونکہ مسافر پر قربانی واجب نہیں اگرچہ وہ صاحبِ نصاب ہو اور شرعی اعتبار سے مسافر سے مراد وہ شخص ہے . جو اپنے مقام سے 48 میل (یعنی 77.25 کلومیٹر) یا اس سے زیادہ مسافت کے سفر پر ہو اور کسی جگہ پندرہ دن یا اس سے زیادہ مدت رہنے کی نیت نہ کی ہو۔
اگر کوئی مسافر قربانی کے تین دنوں میں مقیم ہو گیا اور وہ صاحبِ نصاب بھی تھا تو اس پر قربانی واجب ہو گی، اسی طرح اگر کوئی صاحبِ نصاب مقیم شخص قربانی ہی کے ایام میں مسافر ہو جائے تو اس کے ذمہ قربانی واجب نہیں رہی، اگر ایسی صورتحال میں وہ جانور خرید کر لایا تھا تو اس کے لیے وہ جانور فروخت کر کے اس کی رقم اپنے استعمال میں لانا درست ہے۔
قربانی واجب ہونے کے لیے صاحبِ نصاب ہونا ضروری ہے کیونکہ جو شخص صاحبِ نصاب نہ ہو اس پر قربانی واجب نہیں ۔ اگر مسافر اور غیر صاحبِ نصاب شخص بخوشی نفلی قربانی کرنا چاہیں تو بھی درست ہے ۔ (فتاوی شامی)
قربانی ہر شخص پر واجب نہیں، بلکہ اس کے لیے شریعت نے ایک خاص نصاب مقرر فرمایا ہے، جس شخص کے پاس اُس نصاب کے برابر مال ہو اس کو صاحبِ نصاب کہتے ہیں، صرف اسی پر قربانی واجب ہے، اور جو شخص صاحبِ نصاب نہ ہو اس پر قربانی واجب نہیں۔ اس لیے ہر مسلمان کو قربانی کے نصاب سے واقفیت حاصل کرنا انتہائی ضروری ہے تاکہ معلوم ہو سکے کہ اس پر قربانی واجب ہے یا نہیں۔
جس شخص پر زکوٰة فرض ہے اس پر قربانی بھی واجب ہے قربانی کا نصاب وہی ہے جو صدقۃ الفطر کا ہے یعنی قربانی میں بھی انھی اموال کا حساب لگایا جاتا ہے جن کا صدقۃ الفطر میں حساب لگایا جاتا ہے، اس لیے جس شخص کے پاس صدقۃ الفطر کا نصاب موجود ہے اس پر قربانی واجب ہے۔ تفصیل آگے ذکر ہوگی ان شاء اللہ۔
۔❗️ایک اہم مسئلہ
بہت سے لوگ اس غلط فہمی میں بھی مبتلا ہیں کہ جس شخص پر زکوٰۃ فرض ہے تو صرف اسی پر صدقۃ الفطر اور قربانی واجب ہے، اور جس شخص پر زکوٰۃ فرض نہیں تو اس پر صدقۃ الفطر اور قربانی بھی واجب نہیں حالانکہ یہ بات بالکل بھی درست نہیں، مزید تفصیل یہ ہے کہ زکوٰۃ، صدقۃ الفطر اور قربانی کے نصاب سے متعلق مسلمانوں میں تین طبقے پائے جاتے ہیں
۔❗️ پہلا طبقہ: وہ ہے جن کے پاس زکوٰۃ کا نصاب موجود ہوتا ہے۔
جس کا حکم یہ ہے کہ ان کے ذمّے زکوٰۃ بھی فرض ہے، اور اگر صدقۃ الفطر اور قربانی کے ایام میں یہ نصاب موجود ہو تو ان کے ذمّے صدقۃ الفطر اور قربانی بھی واجب ہیں۔
۔❗️ دوسرا طبقہ: جن کے پاس زکوٰۃ کا نصاب بھی نہیں ہوتا، اور صدقۃ الفطر اور قربانی کا نصاب بھی نہیں ہوتا۔
ان کا حکم یہ ہے کہ ان کے ذمّے زکوٰۃ،صدقۃ الفطر اور قربانی میں سے کوئی حکم بھی لازم نہیں ہوتا، یہی وہ غریب طبقہ ہے جن کو زکوٰۃ، صدقۃ الفطر اور صدقاتِ واجبہ دینا جائز ہے۔
۔❗️ تیسرا طبقہ: جن کے پاس زکوٰۃ کا نصاب تو نہیں ہوتا البتہ صدقۃ الفطر اور قربانی کا نصاب موجود ہوتا ہے۔
ان کا حکم یہ ہے کہ ان کے ذمّے زکوٰۃ تو فرض نہیں البتہ صدقۃ الفطر اور قربانی واجب ہیں، یہ وہ طبقہ ہے کہ ان کے لیے بھی زکوٰۃ لینا جائز نہیں۔
قربانی اور زکوٰۃ کے نصاب میں فرق
قربانی اور زکوٰۃ کے نصاب میں فرق یہ ہے کہ زکوٰۃ میں تو صرف چار چیزوں یعنی سونا، چاندی، رقم اور سامانِ تجارت کا اعتبار کیا جاتا ہے، جبکہ قربانی میں ان چار چیزوں کے علاوہ ضرورت سے زائد سامان اور مال کا بھی حساب کیا جاتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ان چار چیزوں کی وجہ سے صاحبِ نصاب بنا ہے تو اس کو زکوٰۃ کا نصاب کہا جاتا ہے، لیکن اگر وہ ضرورت سے زائد سامان کی وجہ سے صاحبِ نصاب بنا ہے تو اس کو قربانی کا نصاب کہا جاتا ہے۔ نیز یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ قربانی اور صدقة الفطر کا نصاب ایک ہی ہے . تاہم فی الحال یہاں قربانی کے مسائل بتائے جا رہیں لہذا اسی پر توجہ دیں۔
مذکورہ تفصیل سے یہ احکام ثابت ہوتے ہیں
۔1 جس شخص کے پاس زکوٰۃ کا نصاب موجود ہے تو اس کے ذمّے زکوٰۃ بھی فرض ہے اور اس کے ذمّے صدقۃ الفطر اور قربانی بھی واجب ہے، اور ایسے شخص کے لیے زکوٰۃ لینا بھی جائز نہیں۔
۔2️⃣ جس شخص کے پاس زکوٰۃ کا نصاب تو نہ ہو لیکن قربانی کا نصاب ہو تو اس پر زکوٰۃ تو فرض نہیں البتہ اس کے ذمّے قربانی واجب ہے،اور اس کے لیے زکوٰۃ لینا جائز نہیں۔
۔3 زکوٰۃ صرف اسی شخص کو دینا جائز ہے جس کے پاس زکوٰۃ کا نصاب بھی نہ ہو اور قربانی کا نصاب بھی نہ ہو۔
اس سے معلوم ہوا کہ زکوٰۃ دیتے وقت صرف یہ دیکھنا کافی نہیں کہ اس پر زکوٰۃ فرض ہے یا نہیں، بلکہ زکوٰۃ دیتے وقت یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس کے پاس قربانی جتنا نصاب ہے یا نہیں
جس شخص پر زکوٰة فرض ہے اس پر تو قربانی واجب ہے ہی، لیکن جس شخص کے پاس زکوٰة کا نصاب تو نہ ہو البتہ صدقۃ الفطر اور قربانی کا نصاب موجود ہو تو اس پر بھی قربانی واجب ہے۔
امید ہے کہ ان اُصولی باتوں سے متعدد غلط فہمیوں کا اِزالہ ہو سکے گا۔
یہ اصولی باتیں اچھی طرح ذہن نشین کر لیجیے تاکہ بعد میں ذکر کیے جانے والے مسائل سمجھنے میں سہولت رہے
بنیادی طور پر قربانی پانچ چیزوں پر واجب ہوتی ہے، جن کو اموالِ قربانی کہا جاتا ہے
سونا ۔ چاندی۔ سامانِ تجارت۔ رقم۔ ضرورت سے زائد اشیاء اور سامان۔
۔⬅️ ان پانچ چیزوں کو سامنے رکھتے ہوئے درج ذیل صورتوں میں قربانی واجب ہوتی ہے:
۔1 جس شخص کے پاس صرف سونا ہو، باقی چار چیزوں (یعنی چاندی، رقم، مالِ تجارت اور ضرورت سے زائد سامان) میں سے کچھ بھی نہ ہو تو ایسی صورت میں سونے کا نصاب ساڑھے سات تولہ (یعنی 87.84 گرام) سونا ہے، جو سونا اس سے کم ہو اس پر قربانی واجب نہیں۔
۔2️⃣ جس شخص کے پاس ان پانچ چیزوں میں سے صرف چاندی، یا صرف سامانِ تجارت، یا صرف رقم ہو تو ایسی صورت میں ان میں سے ہر ایک کا نصاب ساڑھے باون تولہ (یعنی 612.36 گرام) چاندی ہے۔ جو چاندی ساڑھے باون تولے سے کم ہو، اسی طرح جو سامانِ تجارت یا رقم ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت سے کم ہو تو اس پر قربانی واجب نہیں۔ پاکستان میں آجکل ان دنوں جون 2023 میں ساڑھے باؤن تولہ چاندی کی قیمت ایک لاکھ پچاس ہزار روپے سے ایک لاکھ پچپن ہزار روپے کے درمیان چل رہا ہے، باقی ممالک والے وہاں کے مارکیٹ کے مطابق چاندی کے نصاب کا ریٹ معلوم کر لیں۔
۔3 جس شخص کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ضرورت سے زائد سامان ہو تو اس پر قربانی واجب ہے۔
۔4️⃣ جس شخص کے پاس ساڑھے سات تولہ سے کم سونا ہو، لیکن ساتھ ساتھ اس کے پاس کچھ چاندی یا کچھ سامانِ تجارت یا کچھ تھوڑی سی رقم بھی ہو تو اس صورت میں اگر اس ساڑھے سات تولہ سے کم سونا اور چاندی یا رقم وغیرہ کی مجموعی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت تک پہنچتی ہے تو ان پر قربانی واجب ہے، ورنہ نہیں۔
۔5️⃣ کسی شخص کے پاس یہ پانچوں چیزیں (یعنی سونا، چاندی، سامانِ تجارت، رقم اور ضرورت سے زائد سامان) ہوں یا ان میں سے بعض ہوں لیکن ان میں سے کوئی چیز بھی اپنے نصاب تک نہیں پہنچتی ہو تو اس صورت میں ان کو ملا کر ان کی مجموعی قیمت کا حساب لگایا جائے گا، اگر ان کی مجموعی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت تک پہنچتی ہے تو اس شخص پر قربانی واجب ہے، ورنہ نہیں۔
۔6️⃣ جس شخص کے پاس کچھ سونا یا کچھ رقم ہو اور ساتھ میں ضرورت سے زائد سامان بھی ہو اور ان کی مجموعی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی تک پہنچتی ہو تو اس پر قربانی واجب ہے۔
قربانی واجب ہونے کے لیے کس وقت صاحبِ نصاب ہونا ضروری ہے؟
قربانی واجب ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ شخص قربانی کے تین دنوں (یعنی 10، 11 اور 12 ذوالحجہ) یعنی عیدالاضحی کے پہلے دوسرے اور تیسرے دنوں میں صاحبِ نصاب ہو، یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص قربانی کے ان تین دنوں سے پہلے صاحبِ نصاب تھا یا ان تین دنوں کے بعد صاحبِ نصاب بنا لیکن قربانی کے ان تین دنوں میں صاحبِ نصاب نہیں تھا تو ایسے شخص پر قربانی واجب نہیں۔ اور یہ واضح رہے کہ اگر کوئی شخص قربانی کے تین دنوں میں 12 ذوالحجہ کے سورج غروب ہونے سے پہلے کسی بھی وقت صاحبِ نصاب بن جائے تو اس پر قربانی واجب ہو گی، ایسی صورت میں اگر قربانی کے ایام میں جانور ذبح کرنے کا موقع نہیں ملا تو قربانی کے ایام ختم ہونے کے بعد اب درمیانے درجے کے بکرے یا دنبے کی قیمت صدقہ کرنا ضروری ہے۔ اگر جانور خریدنے کے باوجود بھی قربانی کے ایام میں قربانی نہ کرسکا تو اب اسی جانور کو صدقہ کرنا ضروری ہے۔
(بدائع الصنائع، رد المحتار)
ضرورت سے زائد سامان سے متعلق وضاحت
جو چیزیں ضرورت اور استعمال کی ہیں ان کا تو اعتبار نہیں کیا جاتا جیسے: رہائشی مکان، پہننے کے کپڑے اور جوتے، کھانے پینے کے برتن، ضرورت کی گاڑی، گھریلو ضرورت میں استعمال ہونے والی چیزیں جیسے سلائی اور دھلائی کی مشینیں، پنکھا، فرنیچر، فریج، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، موبائل فون، اسی طرح صنعت و حرفت یعنی پیشے، تجارت اور مزدوری کے آلات واوزار جیسے درزی کی سلائی مشینیں، فیکٹری کی مشینیں وغیرہ، یہ سب ضرورت کی چیزیں ہیں۔لیکن یہ واضح رہے کہ
۔1️⃣ ہر دور اور معاشرے کے حساب سے ضرورت کی چیزیں مختلف ہوتی رہتی ہیں، اس لیے اس معاملے میں دورِ حاضر کو پچھلے زمانوں پر قیاس نہیں کیا جائے گا، بلکہ دورِ حاضر ہی کی ضرورت کا اعتبار ہوگا۔
۔2️⃣ اسی طرح جو چیز ضرورت کی ہو وہ بھلے جتنی بھی مہنگی ہو وہ ضرورت ہی کی شمار ہو گی، جیسے ایک مناسب گھر سے ضرورت پوری ہو جاتی ہے تو اس سے قیمتی عالیشان گھر کو قربانی کے معاملے میں ضرورت سے زائد شمار نہیں کریں گے، اسی طرح جب موبائل ضرورت کی چیز ہے تو ایک قیمتی موبائل کو قربانی کے معاملے میں ضرورت سے زائد شمار نہیں کریں گے۔
مسئلہ ... جو غلّہ یعنی گندم، چاول، گھی، آٹا، چینی اور دیگر کھانے کی چیزیں جو مہینے یا سال بھر کی ضروریات کے لیے رکھا ہوا ہو اور وہ نصاب کے برابر بھی ہو تب بھی وہ ضرورت کی چیزوں میں شمار ہوتا ہے۔
ضرورت سے زائد سامان سے مراد و ہ چیزیں ہیں جو کسی بھی طرح استعمال میں آتی نہ ہوں جیسے
۔❗️محض زیب و زینت کے لیے رکھے گئے برتن وغیرہ۔
۔❗️وہ چیزیں جو گھروں، دکانوں یا فیکٹریوں میں پرانی یا خراب ہونے کی وجہ سے ویسے ہی پڑی رہتی ہیں اور قیمت بھی رکھتی ہیں جیسے فالتو مشینیں، فالتو فرنیچر وغیرہ؛ یہ سب چیزیں ضرورت سے زائد ہیں۔
۔❗️ اگر کسی کے پاس اپنے گھر کے علاوہ کوئی خالی پلاٹ ہو تو وہ بھی ضرورت سے زائد ہے۔
۔❗️ کسی نے اپنا ایک گھر کرایے پر دے رکھا ہو تو اگر اس کا کرایہ گھر کی ضروریات میں استعمال ہوتا ہو تو وہ ضرورت سے زائد نہیں، لیکن اگر وہ کرایہ گھر کی ضرورت سے زائد ہو تو وہ گھر ضرورت سے زائد چیزوں میں شمار ہوگا۔ (بہشتی زیور ) یہی حکم کرایہ پر دی جانے والی تمام چیزوں کا ہے۔
۔❗️ کسی شخص کے پاس دو گاڑیاں ہیں، جن میں سے ایک گاڑی ضرورت اور استعمال کی ہے جبکہ دوسری گاڑی استعمال میں نہیں آتی تو وہ بھی ضرورت سے زائد ہے۔ اسی طرح ہر وہ چیز جو ایک سے زائد مقدار میں ہو اور وہ زائد مقدار ضرورت اور استعمال سے زائد اور اضافی ہو، جیسے کسی کے پاس استعمال کے جوتوں کے علاوہ ضرورت سے زائد اضافی جوتے ہیں تو وہ بھی ضرورت سے زائد چیزوں میں شمار کیے جائیں گے۔
مزید تفصیل کے لیے اہلِ علم حضرات سے رابطہ فرمائیں۔
Comments
Post a Comment