معاشرہ انسانی میں سب سے زیادہ ناتواں و لاچار وہ عورت کہلاتی ہے جس کے سر سے اُس کے شوہر کا سایہ اُٹھ گیا ہو اور وہ بیوگی کی زندگی گزار رہی ہو ایسی بے یار و مدد گار عورت کے کھانے پینے کی نہ کسی کو فکر ہوتی ہے اور نہ ہی اُس کے رہن سہن کا کسی کو کوئی خیال بلکہ اُلٹا ایسی بے سہارا و غیر محافظ بیوہ عورت کے روحانی و جسمانی دُشمن ہمہ وقت اُس کے پس و پیش گدھ کی طرح منڈلاتے رہتے ہیں اور اُس پر حملہ آور ہونے کے لئے کسی مناسب موقع کی تاک میں لگے رہتے ہیں ہمارے معاشرہ کے روز مرہ کے بیسیوں واقعات اِس تلخ حقیقت پر شاہد عدل ہیں
اِس سلسلہ میں اگر دُنیا کے بڑے مذاہب کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہےکہ یہودی و عیسائی مذاہب میں یہ قانون رائج تھا کہ جب کسی شادی شدہ عورت کا شوہر مر جاتا تو وہ بیوہ ہوکر اُس کے دوسرے بھائی کی ملکیت میں آجاتی تھی دیور یا جیٹھ اپنی بھابھی کے ساتھ جس طرح چاہتا معاملہ کرتا بیوہ بھابھی کو اِس میں اُف کرنے کا بھی اختیار نہ تھا بعد ازاں عیسائی مذہب میں قانون ختم تو ہوگیا لیکن اُس میں کوئی دوسرا متبادل مثبت پہلو پیش نہیں کیا جاسکا ہندو مذہب میں اب بیوی عورت کی زندگی کی کوئی ضرورت ہی نہیں سمجھی جاتی بلکہ اُس کا نظریہ تو یہ ہے کہ اب اِس بیوہ عورت کو اپنے شوہر کی چتا سے لپٹ کر بے موت مر جانا چاہیے یا اگر زندہ رہنا چاہے تو دُنیا کی تمام آرائش و آسائش سے علیحدہ ہوکر ساری عمر شوہر کے سوگ میں گزار دے مشرکین عرب بیوہ عورت کو اپنی ملکیت میں لے کر اُس کے ساتھ جس طرح چاہتے سلوک کرتے اُس پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے دردناک اذیتیں و مصیبتیں پہنچاتے اُس سے دین مہر معاف کرا لیتے اور اُس کو اپنی مرضی کے بغیر کہیں شادی نہیں کرنے دیتے
لیکن اِن تمام مذاہب کے برعکس جب دُنیا میں مذہب اسلام نے غلبہ حاصل کیا تو اُس نے معاشرہ انسانی کے اِس جنس لطیف کے گروہِ ناتواں کی فریاد رسی و اشک شوئی کی اور سب سے پہلے یہ کیا کہ بیوہ عورت کے غیر محدود زمانۂ سوگ کو چار ماہ اور دس دن تک محدود کر دیا تاکہ اِس زمانہ میں وہ اپنے شوہر کی جدائی کے تھوڑے بہت غم کا زالہ کر سکے نیز اِس سے یہ بھی معلوم ہو سکے کہ سابقہ شوہر کے نطفہ سے اُس کا کوئی حمل ہے یا نہیں؟
اگر ہے تو اِس کی عدت حمل جننے تک دراز ہو جائے گی اور اگر نہیں ہے تو یہی چار ماہ اور دس دن کا زمانہ اِس کی عدت کے ایام تصور کئے جائیں گے اِس کے بعد یہ دیکھا جائے گا کہ سابقہ شوہر کی طرف سے اِس بیوہ عورت کو حق مہر ادا کیا گیا تھا یا نہیں؟
اگر ادا کیا گیا تھا تو فبہا ورنہ اُس کے ترکہ میں سے اِس کا حق مہر اِس کو دلایا جائے گا پھر اگر اِس کی اولاد ہوئی تو سابقہ شوہر کے ترکہ میں سے اِس کو کل مال کا آٹھواں حصہ دلایا جائے گا اور اگر اولاد نہ ہوئی تو سابقہ شوہر کے ترکہ میں سے اِس کو کل مال کا چوتھا حصہ دلایا جائے گا
ایام عدت گزر جانے کے بعد اسلامی نقطہ نظر سے شرعی حدود و قیود کے اندر رہ کر اب بیوہ عورت بالکل آزاد اور خود مختار ہے اب وہ اپنے لئے ہر قسم کی جائز اور مناسب زیب و زینت کر سکتی ہے اسلام نے اُس کے سر سے اُس کے دیور جیٹھ نند ساس سسر وغیرہ تمام عزیز و اقارب کی جابرانہ حکومتوں کا خاتمہ کرکے اُس کے ہاتھ میں آزادی و خود مختاری کا پروانہ پکڑوا دیا ہے لہٰذا اِس کے بعد اب وہ جہاں کہیں مناسب سمجھے اپنی مرضی سے اپنا نکاح کر سکتی ہے
اِسلام نے اپنے ماننے والوں کو یہ حکم خوب صراحت کے ساتھ دیا ہے کہ جس سوسائٹی اور معاشرہ سے بیوہ عورت کو دوسروں نے نکال دیا ہو تم اُس کو عزت و ادب کے ساتھ اُس میں داخلہ کا موقع دو اور اُس کے مخلص شریک حیات بن کر دوبارہ اُس کو دوبارہ وہ شرف و عنایت بخشو جس کے سایہ سے وہ محروم ہوگئی ہے
ارشادِ خداوندی ہے
ترجمہ: تم اپنے میں سے بغیر شوہر والی عورتوں سے نکاح کرو
(سورۂ نور:۳۲/۲۴)
سیرتِ نبویہ کے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ خود حضور ﷺ اِس اخلاقی وصف کے پورا کرنے میں پیش پیش تھے آپ نے پچیس سال کی عمر میں حضرت خدیجہؓ جیسی چالیس سالہ بیوہ عورت سے شادی کی اور پھر پچیس سال تک اِس طرح اُن کے ساتھ شریک حیات رہے کہ اِس دوران آپ نے کوئی دوسرا نکاح نہیں فرمایا اور حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد بھی آپ ﷺ نے جن دس عورتوں
حضرت عائشہ بنت ابی بکرؓ . حضرت سودہ بنت زمعہؓ . حضرت حفصہ بنت عمرؓ
حضرت زینب بنت خزیمہؓ . حضرت اُم سلمہ بنت ابی امیہؓ . حضرت زینب بنت جحشؓ
حضرت جویریہ بنت الحارثؓ . حضرت اُم حبیبہ بنت ابی سفیانؓ . حضرت صفیہ بنت حُیَیّؓ
اور حضرت میمونہ بنت حارثؓ سے نکاح کیا وہ بھی سوائے حضرت عائشہؓ کے ساری بیوہ ہی تھیں . اسی طرح متعدد صحابہ کرامؓ نے بھی اپنے زمانے کی مختلف بیوہ عورتوں کی فریاد رسی کی اور اُن کے شریک حیات بن کر خود اُن کو سہارا دیا حضرت اسماء بنت عمیسؓ کے بارے میں آتا ہے کہ اُن کے شوہر حضرت جعفر طیارؓ جب غزوۂ موتہ میں شہید ہوگئے تو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اُن سے شادی کی اسی طرح حضرت عاتکہؓ کے شوہر حضرت عبداللہ بن ابی بکرؓ جب شہید ہوئے تو حضرت عمر فاروقؓ نے اُن سے شادی کی
حضورِ اقدسﷺ اور آپ کے جاں نثار صحابہ کرامؓ نے اپنی زیر کفالت تمام بیوہ عورتوں کے نان نفقہ کا بوجھ اپنے کندوں پر اُٹھایا اور سوسائٹی و معاشرے میں دوبارہ اُن کو عزت و آبرو کے ساتھ داخلے کا موقع دیا اور اُن کو سماج و معاشرہ میں اُس مہر و عنایت سے مشرف فرمایا جس کے سائے سے وہ محروم ہوگئی تھیں
حضورِ اقدسﷺ نے تا قیامت آنے والی اپنی اُمت کو بیوہ عورتوں کے بارے میں اِس بات کی بشارت و نوید سنائی کہ بیوہ اور مسکین کے لئے دوڑ دھوپ کرنے والا ایسا ہے جیسے ﷲ تعالیٰ کے راستے میں دوڑنے والا ہوتا ہے (راوی کہتا ہے) اور میں گمان کرتا ہوں کہ آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا جیسے وہ نمازی جو نماز سے نہیں تھکتا اور وہ روزہ دار جو کبھی اپنا روزہ نہیں توڑتا اور ایک روایت میں آتا ہے کہ بیوہ اور مسکین کے لئے دوڑ دھوپ کرنے والا ﷲ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنے والے دن بھر روزہ رکھنے والے اور شب بھر نماز پڑھنے والے کی طرح ہے (بخاری، مسلم، مؤطا امام مالک)
لیکن اگر کوئی بیوہ عورت اپنے بچوں کی خاطر دوسری شادی نہ کرنا چاہے تو ﷲ تعالیٰ نے اُس کو بھی ثواب سے محروم نہیں رکھا بلکہ اُس کے لئے اپنے اجر کا وعدہ فرمایا ہے حضرت عوف بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں اور غمگین چہرے والی عورت جس کا شوہر مرگیا اور اُس نے اپنے بچے کو دیکھ کر صبر کر لیا جنت میں اِس طرح ہوں گے (الادب المفرد) دوسری حدیث میں یہ بھی آتا ہے کہ وہ جاہ و منصب اور حسن و جمال والی عورت جو اپنے شوہر کے مر جانے کے بعد بیوہ ہوگئی ہو اور اپنے یتیم بچوں (کی خدمت) کی خاطر اپنے آپ کو (کسی دوسری جگہ شادی کرنے سے) روکے رکھا یہاں تک کہ وہ بچے اُس سے جدا ہو جائیں یا مرجائیں (تو میں اور وہ جنت میں اِس طرح اکٹھے ہوں گے جیسے شہادت کی انگلی اور درمیان والی انگلی آپس میں اکٹھی ہوتی ہیں یعنی بالکل ساتھ ساتھ ہوں گے (سنن ابی داؤد)
اب ذرا ہم اپنے معاشرے کی طرف نظر دوڑائیں اور دیکھیں کہ ہمارے ارد گرد اور آس پاس کتنی ہی ایسی بے سہارا اور بے کس اور محتاج بیوہ عورتیں موجود ہیں جو انتہائی کسمپرسی اور لاچاری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں کیا ہم نے کبھی اُن کی فریاد رسی یا اشک شوئی کی ہے؟
کیا ہم نے کبھی اُن کے کھانے پینے اور اُن کے رہن سہن کی فکر کی ہے؟
یا حضورِ اقدس ﷺ اور آپ کے جاں نثار صحابہ کرامؓ کی سیرتِ مقدسہ پر عمل کرتے ہوئے ہم میں سے کسی نے اُن کے شریک حیات بن کر اُن کو سوسائٹی و سماج میں مہر و عنایت کا سہارا دیا ہے؟
اگر دیا بھی ہے تو بہت ہی کم لوگوں نے تو پھر آئیے آج ہی ہم اپنے پردگار کے حضور یہ نیت اور ارادہ کرتے ہیں کہ آئندہ ہم انسانی معاشرہ کی سب سے مظلوم و لاچار اِس صنف نازک کی فریاد رسی و اشک شوئی کے سلسلہ میں کسی بھی قسم کی پہلو تہی و سستی اور کوتاہی و لاپرواہی نہیں کریں گے
Comments
Post a Comment