97) زکر خفی


زکر خفی

حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ عین الفقر میں فرماتے ہیں کہ ہر جاندار کا دل اللہ کا ذکر کرتا ہے کچھ کا معدوم ہے اور کچھ کا معلوم ... ذکر الہٰی سے قلب میں دس صفات پیدا ہوتے ہیں

ایک ۔ ذکر الہٰی کی تاثیر سے قلب آفتاب کی طرح روشن ہو جاتا ہے اور وجود میں کسی قسم کی تاریکی نہیں رہتی

 دو ۔ قلب گہرے دریا کی مانند ہو جاتا ہے ،اس میں جو کچھ گرے ناپاک نہیں رہتا

 تین ۔ قلب آتش عشق الہٰی سے بھر جاتا ہے ،جو ماسوا اللہ کو جلا دیتی ہے

چار ۔ قلب چشمہ آب حیات سے بھر جاتا ہے ،جو بھی یہ آب حیات پی لے ،حیات ابدی پا جاتا ہے ،اسکا دل زندہ اور نفس مردہ ہو جاتا ہے

 پانچ ۔ قلب سخاوت کا کان بن جاتا ہے ،جس سے ظاہر و باطن معبود حقیقی کی عبادت میں مستغرق رہتا ہے

چھ ۔ قلب طلسمات کی مانند ہوتا ہے ،ذکر اللہ کی برکت سے ان طلسمات کو بھسم کر کے خزانہ معرفت الہٰی پا لیتا ہے

سات ۔ قلب ہر راہ حقیقت کو آئینے کی طرح دیکھ لیتا ہے

 اٹھ ۔ قلب چراغ کی طرح روشن ہو جاتا ہے

 نو ۔ قلب ذکر الہٰی کی باران رحمت سے ہرا بھرا ہو جاتا ہے

دس ۔ قلب قربِ الہٰی کا واصل بن جاتا ہے اور پھر اسکے مد نظر ہمیشہ اللہ کی ذات رہتی ہے۔

شاہ شمس تبریز رحمۃ اللہ علیہ کی ملاقات جب مولانا جلال الدین رومیؒ سے ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ مولانا کلمہ شریف آتا ہے اس سوال پر مولانا روم بہت حیران ہوئے اور کہنے لگے کہ حضرت اگر مجھے کلمہ نہیں آتا تو پھر کسے آئے گا موالانا صاحب نے ستر قسم کی قرت سے کلمہ سنایا جسے سن کر شاہ صاحب نے فرمایا یہ غلط ہے آپ دو برتن منگوائیں میں کلمہ پڑھ کر سناتا ہوں مولانا رومؒ نے دو پلیٹیں منگوائیں آپ نے پلیٹوں کو اوپر نیچے جوڑ کر لاالہ کا سانس کھینچا تو او پر والی پلیٹ چھت سے جا لگی اور جب الا اللہ کے سانس کی ضرب دل پر لگائی تو دونوں پلیٹیں آپس میں مل گئیں جس پر آپ نے فرمایا صحیح کلمہ وہ ہے جو بندے کو مولا سے اس طرح ملا دے جس طرح پلٹیں آپس میں مل گئیں ہیں ۔۔۔؛

جس شخص کو ذکر قلب خاص حاصل ھوتا ھے اسکے دل کی آنکھ کھل جاتی ھے اور اس آنکھ سے اسم اللہ اور ذکر اللہ کے سوا کچھ نہیں دیکھتا 

ذکر قلبی دل کو جو گوشت کا لوتھڑا ھے کسب سے جنبش دینےکا نام نہیں ھے بلکہ ذکر قلبی جنبش دل کی بجاۓ مشاھدہ قلبی کا نام ھے 

ذکر قلبی کا یہ نشان ھے کہ صاحب ذکر قلبی کا دل آیئنہ کیطرح صاف و شفاف اور باطن نما اور اس حدیث کا مصداق ھوتا ھے 

 قلب المومن مراةُ الرحمٰن 

صاحب قلب کو بجز طلب مولا کے کسی چیز کی طمع نہیں ھوتی نہ اسکے دل پر کسی قسم کے خطرات اور وسوسے پیدا ھوتے ھیں 

 صاحب ذکر قلبی کے دل سے خناس خرطوم وغیرہ سب اُٹھ جاتے ھیں 

یُحی القلب و یُمیت النفس ۔ یعنی قلب زندہ اور نفس مردہ ۔ اسکی صفت ھوتی ھے کیونکہ صاحب قلب یگانہ خدا اور بیگانہ ماسوا اللہ ھوتا ھے صاحب ذکر قلبی اسطرح ذکر میں مشغول ھوتا ھے کہ اسے نہ نفس و شیطان کی کچھ خبر ھوتی ھے اور نہ زر و مال دنیاۓ فانی کی کچھ یاد ھوتی ھے 

 قلب ۔ تین لفظوں سے مرکب ھے

 ق۔ سے مراد قرب الہی 

  ل۔ سے مراد لقائے الہی 

  ب۔ سے مراد بقا باللہ ھونا ہے 

جو قلب ایک دفعہ بیدار ھو جاتا ھے وہ ھمیشہ رویت ربوبیت میں مستغرق اور دیدار الہی کیلیے مشتاق رھتا ھے

Comments