کاہلی اور مایوسی کا علاج
ڈاکٹر عمر عبدالکافی صاحب نے بتایا کہ ایک دن وہ ایک مسجد میں جمعہ کا خطبہ دے رھے تھے۔۔۔ نماز کے بعد ایک آدمی اس کے پاس آیا، جس کے لمبے لمبے بال اور لمبی داڑھی تھی۔۔۔حیرت کی بات یہ ھے کہ اس نے ظاھر کیا کہ اسے اپنے بارے میں بالکل بھی پرواہ نہیں ھے۔۔۔اس نے ڈاکٹر عمر سے کہا "میں بہت سُست ھوں، بہت زیادہ نیند کے ساتھ میں مشکل سے جاگتا ھوں، میں صرف کھانے کے لئے جاگتا ھوں اور دوبارہ سو جاتا ھوں۔ میں اپنے کام، اپنے مستقبل، اور ھر چیز کو نظر انداز کرتا ھوں اور مجھے کوئی پرواہ نہیں ھے۔ میرے بچے سمجھتے ھیں کہ میں ایک عجیب شخص اور بہت بورنگ ھوں۔ مجھ میں جوش کی کمی ھے، اور مجھے ھمیشہ مایوسی ھوتی ھے۔ مجھے کیا کرنا چاھئے براہ کرم میری مدد کریں۔"ڈاکٹر عمر نے اسے ایک دن میں کم سے کم 100 مرتبہ"استغفر اللہ"پڑھ کر اللہ سے معافی مانگنے اور ایک ھفتہ کے بعد اس کے پاس واپس آنے، اس کا نتیجہ بتانے کے لئے کہا۔۔۔
اس شخص نے کہا: *"میں آپ کو بتا رھا ھوں، کہ میں سُست ھوں، میں دن میں 15 گھنٹے سے زیادہ سوتا ھوں۔ میں اپنی دعاؤں، اپنے بچوں اور اپنے کاموں کو نظر انداز کر رھا ھوں، اور آپ مجھے اللہ سے معافی مانگنے کا کہہ رھے ھو۔۔۔"ڈاکٹر عمر نے کہا:" او بیٹا ھم گوشت اور خون ھیں۔ ھم انسان اپنے پروردگار کی نافرمانی کرنے اور گناہ کرنے کا انکشاف کرتے ھیں۔ یہ گناہ ھمارے جسموں پر بھاری ھو جاتے ھیں اور ھمیں سُست بناتے ھیں۔ وہ ھمارے جوش و جذبے کو کم کرتے ھیں، اور ھمیں سُستی کا درس دیتے ھیں۔ میرے مشوروں کو سنو اور اس کے نتیجے پر آپ حیران رہ جائیں گے۔"چھ دن کے بعد وہ شخص ڈاکٹر عمر کے پاس آیا، اور اس سے کہا"میں آپ کا ھاتھ چومنا چاھتا ھوں، اب میں کبھی کبھی ایک دن میں 100 مرتبہ یا 400 بار یا 1000 بار استغفار کرتا ھوں۔۔اللہ نے میرے دل میں سرگرمی اور الہام پیدا کیا ھے۔ میں 7 گھنٹے سے بھی کم سوتا ھوں اور یہ میرے لئے کافی ھے۔ میں اپنے کام کی جگہ کی ھر سرگرمی میں خود کو شامل کرنے کی کوشش کرتا ھوں۔ میں نے ایک نئی شراکت داری پر اتفاق کیا ھے اور میں نے 4 دن سے بھی کم عرصے میں معاھدہ کر لیا ھے۔ ان دنوں میں کبھی بھی اپنی دعاؤں سے محروم نہیں ھوا ھوں، اور میں اپنے بچوں کے ساتھ بہت قریب ھو گیا ھوں۔
استغفار میرے لئے ایک محرک دواؤں، جیسے انرجی ڈرنک، بجلی کے چارج کی طرح بن گیا ھے۔۔۔"استغفار ایسے ھاتھ کی طرح ھے، جو انسان کو آگے بڑھاتا ھے۔ یہ ھمارے پروردگار کی طرف سے ایک طاقت ھے۔بالکل اسی طرح جیسے چھتری ھمیں سورج اور بارش سے بچاتی ھے۔ استغفار اس ھاتھ کی طرح ھے جو ھماری راہ میں آنے والی کسی بھی مشکل سے ھماری حفاظت کرتا ھے۔۔۔اپنی زندگی کی کسی بھی ناکامی، یا جب آپ کو تکلیف ھو، یا مایوسی ھو، یا بیماری میں مبتلا ھو، یا کسی پریشانی کے لئے استغفار کا استعمال کریں۔۔۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ھی نشست کے دوران 70 سے زیادہ مرتبہ "استغفر اللہ"کہتے تھے۔۔۔استغفار کرنے کی وجہ سے، ھمارا پروردگار ھر طرح کی مشکلات سے ھماری حفاظت کرے گا۔۔۔ مسلم اسکالرز نے اس بات پر اتفاق کیا ھے کہ استغفار انسان کو ھر چیز میں کامیاب ھونے میں مدد دیتا ھے۔۔۔استغفار ھمارے لئے اللہ کی رحمت ھے۔ اللہ ھمارے استغفار کو ھماری بیماری، اور ھماری خوشی، اور ھماری زندگی کو بہترین زندگی میں بدلنے کا شفا بخش بنائے۔۔۔
سستی کا علاج ...... میں پچھلے دنوں رنگون اور برما کے بعض دوسرے شہروں کے سفر پر تھا۔ مسلسل دس بارہ روز سفر میں گزرے۔ متواتر بیانات کا سلسلہ رہا۔ ایک ایک دن میں بعض اوقات چار چار، پانچ پانچ بیانات ہوئے، اس لئے آواز بیٹھی ہوئی ہے، اور طبیعت میں تکان بھی ہے، اور اتفاق سے کل دوبارہ حرمین شریفین کا سفر درپیش ہے اس لئے آج طبیعت سستی کر رہی تھی، اور یہ خیال ہو رہا تھا کہ جب پچھلے جمعہ ناغہ ہو گیا تھا،تو ایک جمعہ اور سہی۔ لیکن اپنے حضرت ڈاکٹر صاحب قدس اللہ سرہٗ کی ایک بات یاد آگئی۔ ایک مرتبہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ:’’جب کسی معمول کے پورا کرنے میں سستی ہو رہی ہو، تو وہی موقع انسان کے امتحان کا ہے۔ اب ایک صورت تو یہ ہے کہ اس سستی کے آگے ہتھیار ڈال دے، اور نفس کی بات مان لے۔ تو پھر اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آج ایک معمول میں ہتھیار ڈالے۔ کل کو نفس دوسرے معمول میں ہتھیار ڈلوائے گا اور پھر آہستہ آہستہ طبیعت اس سستی کے تابع اور اسکی عادی ہو جائے گی۔ اور دوسری صورت یہ ہے کہ انسان اس سستی کا ہمت سے مقابلہ کر کے اس معمول کو کر گزرے، محنت اور مشقت کر کے زبردستی اس کام کو کرے، تو پھر اس محنت اور مشقت اور مقابلہ کرنے کی برکت سے اللہ تعالیٰ آئندہ بھی معمولات کے پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائیں گے
اور ایسے موقع پر ہمارے حضرت والا حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک ملفوظ سنایا کرتے تھے۔ حقیقت میں یہ ملفوظ یاد رکھنے، بلکہ دل پر نقش کرنے کے قابل ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ
’’وہ ذرا سی بات جو حاصل ہے تصوف کا، یہ ہے کہ جس وقت کسی طاعت کی ادائیگی میں سستی ہو، تو اس سستی کا مقابلہ کر کے اس طاعت کو کرے اور جس وقت کسی گناہ کا داعیہ (تقاضا) پیدا ہو، تو اس داعیے (تقاضے) کا مقابلہ کر کے اس گناہ سے بچے، جب یہ بات حاصل ہو جائے تو پھر کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ۔ اسی سے تعلق مع اللہ پیدا ہوتا ہے۔ اسی سے مضبوط ہوتا ہے، اور اسی سے ترقی کرتا ہے‘‘۔
بہرحال سستی دور کرنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے، یعنی اس سستی کا ہمت سے مقابلہ کرنا۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شیخ کوئی نسخہ گھول کر پلا دے گا تو ساری سستی دور ہو جائے گی اور سب کام ٹھیک ہوتے چلے جائیں گے۔ یاد رکھو کہ سستی کا مقابلہ ہمت سے ہی ہوگا اس کا اور کوئی علاج نہیں ۔
ہمارے حضرت ڈاکٹر صاحب قدس اللہ سرہٗ فرمایا کرتے تھے کہ اگر تم نے اپنا یہ معمول بنا کر رکھا ہے کہ فلاں وقت میں تلاوت کروں گا، یا فلاں وقت میں نفل نماز پڑھوں گا۔ لیکن جب وہ وقت آیا تو طبیعت میں سستی ہو رہی ہے، اور اٹھنے کو دل نہیں چاہ رہا ہے تو ایسے وقت میں اپنے نفس کی ذرا تربیت کیا کرو، اور اس نفس سے کہو کہ اچھا اس وقت تو تمہیں سستی ہو رہی ہے، اور بستر سے اٹھنے کو دل نہیں چاہ رہا ہے۔ لیکن یہ بتائو کہ اگر اس وقت صدر مملکت کی طرف سے یہ پیغام آجائے کہ ہم تمہیں بہت بڑا انعام، یا بہت بڑا منصب یا عہدہ دینا چاہتے ہیں ۔ اس لئے تم اس وقت فوراً ہمارے پاس آجاو۔ بتاو کیا اس وقت بھی سستی رہے گی؟
اور کیا تم پیغام لانے والے کو یہ جواب دو گے کہ میں اس وقت نہیں آسکتا کیونکہ اس وقت تو مجھے نیند آرہی ہے۔ کوئی بھی انسان جس میں ذرا بھی عقل و ہوش ہے، صدر مملکت کا یہ پیغام سن کر اس کی ساری سستی، کاہلی اور نیند دور ہو جائے گی اور خوشی کے مارے فوراً انعام حاصل کرنے کے لئے بھاگ کھڑا ہوگا۔
لہٰذا اگر اس وقت یہ نفس اس انعام کے حصول کے لئے بھاگ پڑے گا تو اس سے معلوم ہوا کہ حقیقت میں اٹھنے سے کوئی عذر نہیں تھا۔ اگر حقیقت میں اٹھنے سے کوئی عذر ہوتا تو صدر مملکت کا پیغام سن کر نہ اٹھتے، بلکہ بستر پر پڑے رہتے۔ اس کے بعدیہ سوچو کہ دنیا کا ایک سربراہِ مملکت اگر تمہیں ایک انعام یا منصب دینے کے لئے بلا رہا ہے تو تم اس کے لئے اتنا بھاگ سکتے ہو، لیکن وہ احکم الحاکمین جس کے قبضہ و قدرت میں پوری کائنات ہے۔ دینے والا وہی ہے، چھیننے والا وہی ہے۔ اس کی طرف سے بلاوا آرہا ہے تو اس کے دربار میں حاضر ہونے میں سستی کر رہے ہو؟
ان باتوں کا تصور کرنے سے انشاء اللہ اس کام کی ہمت ہو جائے گی اور سستی دور ہوجائے گی۔
بعض اوقات یہ ہوتا ہے کہ ایک نیک عمل کا دل میں خیال پیدا ہوا، کہ یہ نیک کام کرنا چاہئے۔ لیکن پھر انسان کا نفس اس کو یہ بہکاتا ہے کہ یہ کام تو اچھا ہے، البتہ کل سے یہ کام شروع کریں گے۔ یاد رکھو، یہ نفس کا کید ہے۔ اس لئے کہ وہ کل پھر نہیں آتی، جو کام کرنا ہے۔ وہ آج، بلکہ ابھی شروع کر دو، کیا پتہ کہ کل آئے، یانہ آئے، کیا معلوم کہ کل کو موقع ملے یا نہ ملے، کیا پتہ کل کو یہ داعیہ موجود رہے یا نہ رہے، کیا پتہ کل کو حالات سازگار رہیں یا نہ رہیں ، اور کیا پتہ کل کو زندگی رہے یا نہ رہے۔ اس لئے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا
وَسَارِعُوْا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُہَا السَّمٰوَاتُ وَالْاَرْضُ۔(سورۂ آل عمران:۱۳۳)
یعنی اپنے پروردگار کی مغفرت کی طرف جلدی دوڑو، دیر نہ کرو،اور اس جنت کی طرف دوڑو، جس کی چوڑائی ساتوں آسمان اور زمین کے برابر ہے۔
حضرت تھانوی قدس سرہٗ کی ایک بات اور یاد آگئی، یہ بات بھی میں نے حضرت والا ہی سے سنی! فرمایا کہ جب حضرت والا مرض الوفات میں بیمار اور صاحبِ فراش تھے۔ اور ڈاکٹروں نے آپ کو ملاقات اور بات چیت سے منع کر رکھا تھا۔ ایک دن آپ بستر پر آنکھیں بند کئے لیٹے تھے۔ لیٹے لیٹے اچانک آنکھ کھولی، اور فرمایا کہ مولوی محمد شفیع صاحب کہاں ۔ ان کو بلاو ’’مولوی محمد شفیع صاحب‘‘ سے مراد میرے والد ماجد ہیں ۔ حضرت والا نے میرے والد صاحب کو ’’احکام القرآن‘‘ عربی زبان میں تالیف کرنے پر لگا رکھا تھا۔ چنانچہ جب والد صاحب تشریف لائے تو ان سے فرمایا آپ ’’احکام القرآن‘‘ لکھ رہے ہیں مجھے ابھی خیال آیا کہ قرآن کریم کی فلاں آیت سے فلاں مسئلہ نکلتا ہے، یہ مسئلہ میں نے اس سے پہلے کہیں نہیں دیکھا۔ جب آپ اس آیت پر پہنچیں تو اس مسئلہ کو بھی لکھ لیجئے گا۔ یہ کہہ کر پھر آنکھیں بند کر کے لیٹ گئے۔ اب دیکھئے کہ مرض الوفات میں لیٹے ہیں ۔ مگر دل و دماغ میں قرآن کریم کی آیات اور ان کی تفسیر گھوم رہی ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر آنکھ کھولی اور فرمایا کہ فلاں صاحب کو بلاو، جب وہ صاحب آگئے تو ان سے متعلق کچھ کام بتا دیا۔ جب بار بار آپ نے ایسا کیا تو مولانا شبیر علی صاحب جو حضرت کی خانقاہ کے ناظم تھے،اور حضرت والا سے بے تکلف بھی تھے فرمایا کہ حضرت ... ڈاکٹروں اور حکیموں نے تو بات چیت سے منع کر رکھا ہے۔ مگر آپ بار بار لوگوں کو بلا کر ان سے بات کرتے ہیں ، خدا کے لئے آپ ہماری جان پر تو رحم کریں ۔ ان کے جواب میں حضرت والا نے فرمایا کہ
بات تو تم ٹھیک کہتے ہو، لیکن میں یہ سوچتا ہوں کہ وہ لمحاتِ زندگی کس کام کے جو کسی کی خدمت میں صرف نہ ہو ۔ اگر کسی خدمت کے اندر یہ عمر گزر جائے تو اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے
یہ ’’خادمیت‘‘ بڑی عجیب چیز ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمارے دلوں میں پیدا فرما دے۔ ہر ایک کے خادم بنو، اپنے اندر خدمت کا جذبہ پیدا کرو۔ حضرت ڈاکٹر صاحب قدس اللہ سرہٗ فرمایا کرتے تھے کہ دنیا کے تمام عہدوں کا یہ حال ہے کہ اگر انسان ان کو حاصل کرنا چاہے تو اس کو حاصل کرنا اختیار میں نہیں ہوتا۔ مثلاً دل چاہ رہاہے کہ میں ’’صدر مملکت‘‘ بن جاوں ، لیکن صدر مملکت بننا اختیار میں نہیں ۔ یا دل چاہ رہا ہے کہ ’’وزیر اعظم‘‘ بن جاوں ، لیکن وزیر اعظم بننا اختیار میں نہیں ، یا دل چاہ رہا ہے کہ اسمبلی کا صرف ممبر بن جاوں ۔ وہ بھی اختیار میں نہیں ۔ یا کہیں افسر بننا چاہتا ہے، ملازمت حاصل کرنا چاہتا ہے، تو اب اس کے لئے درخواست دو، انٹرویو دو، کتنے پاپڑ پیلو، اور تمام کوشش کرنے کے بعد جب وہ منصب حاصل ہو گیا تو اب لوگ حسد کرنے لگے کہ یہ ہم سے آگے بڑھ گیا، اور ہم پیچھے رہ گئے۔ اب اسکے خلاف سازشیں ہونے لگیں کہ کسی طرح یہ منصب اور یہ عہدہ اس سے چھین لیا جائے۔ چنانچہ اچھا خاصا وزیر اعظم بنا ہوا تھا۔ اب ختم ہو گیا، عہدہ چھن گیا۔ صدر بنا ہوا تھا، ختم ہو گیا۔ تو دنیا کے سارے عہدوں اور منصبوں کا یہی حال ہے کہ نہ تو ان کا حصول اپنے اختیار میں ہے اور اگر حاصل ہو جائے تو اس پر برقرار رہنا اپنے اختیار میں نہیں ۔ پھر لوگ اس پر حسد بھی کرتے ہیں ۔ فرمایا کرتے تھے کہ میں تمہیں ایک ایسا منفرد منصب بتاتا ہوں ، جس کا حاصل کرنا بھی اپنے اختیار میں ہے، اور اگر تم وہ منصب حاصل کرلو تو کوئی شخص تمہارے اوپر حسد بھی نہیں کرے گا، اور نہ کوئی تم سے لڑے گا، اور نہ کوئی تمہیں اس سے معزول کر سکتا ہے۔ وہ ہے ’’خادم‘‘ کا منصب، تم خادم بن جاو۔ یہ منصب اپنے اختیار میں ہے۔ اس کے لئے درخواست دینے کی بھی ضرورت نہیں ۔ نہ ووٹ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ نہ الیکشن کی ضرورت ہے اگر یہ منصب حاصل ہو جائے تو اس پر دوسروں کو حسد بھی نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ یہ تو کام ہی خدمت کا کر رہا ہے تو اب دوسرا شخص اس پر کیا حسد کرے گا۔ اور نہ کوئی شخص تمہیں اس منصب سے معزول کر سکتا ہے۔ اس لئے فرمایا کہ خادم بن جاو۔ کس کے خادم بن جائو؟
اپنے گھر والوں کے خادم بن جاو ۔ گھر کا جو کام کرو خدمت کی نیت سے کرو۔ اپنی بیوی کا خادم اپنے بچوں کا خادم، اپنے دوستوں کا خادم، اور جو کوئی ملنے
والے آئیں ، ان کی بھی خدمت کرو، اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی، اللہ پاک کے نیک بندوں کی خدمت کرو، جو کام بھی کرو خدمت کی نیت سے کرو، اگر وعظ کہہ رہے ہو وہ بھی خدمت کے لئے۔ تصنیف کر رہے ہو وہ بھی خدمت کے لئے۔ اس خادمیت کے منصب کو حاصل کرو، اس لئے کہ سارے جھگڑے مخدوم بننے میں ہیں ۔ اس لئے حضرت والا خود اپنے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ میں تو اپنے آپ کو خادم سمجھتا ہوں ، اپنی بیوی کا بھی خادم، اپنے بچوں کا بھی خادم، اپنے مریدوں کا بھی خادم، اپنے اہل تعلقات کا خادم، اور یہ وہ منصب ہے کہ جس میں شیطانی وساوس بھی کم ہوتے ہیں ۔ اس لئے کہ عجب، تکبر، بڑائی وغیرہ ان عہدوں میں پیدا ہوتی ہے جو دنیاوی اعتبار سے بڑے سمجھے جاتے ہیں ۔ اب خادم کے عہدے میں کیا بڑائی ہے اس لئے شیطانی وساوس بھی نہیں آتے، اس واسطے اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرو۔
بہرحال، میں یہ عرض کر رہا تھا کہ آج طبیعت میں سستی ہو رہی تھی۔ لیکن ہمارے حضرت والا کی یہ باتیں یاد آگئیں اور ہمت ہو گئی، اور اللہ والوں سے تعلق قائم کرنے کا یہی فائدہ ہوتا ہے۔ اب معلوم نہیں کہ یہ باتیں حضرت والا نے کب کہی ہوں گی، ہماری طرف سے نہ تو طلب تھی، نہ خواہش تھی، نہ کوئی کوشش تھی، مگر حضرت والا نے زبردستی کچھ باتیں کان میں ڈال دیں ، اور اب وہ باتیں الحمد للہ وقت پر یاد آجاتی ہیں ، اور کام بنا دیتی ہیں
حضرت والا فرمایا کرتے تھے کہ مجلس میں جو باتیں ہوتی ہیں ، بعض لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ان باتوں کو یاد کرلیں ۔ مگر یہ باتیں یاد نہیں ہوتیں ۔ اس پر اپنا واقعہ سنایا کہ میں بھی حضرت تھانوی قدس اللہ سرہٗ کی مجلس میں جب حاضر ہوتا تو یہ دل چاہتا کہ حضرت والا کی باتیں لکھ لیا کروں ، بعض لوگ لکھ لیا کرتے تھے۔ مجھ سے تیز لکھا نہیں جاتا تھا اس لئے میں لکھنے سے رہ جاتا تھا۔ میں نے ایک دن حضرت تھانوی سے عرض کیا کہ
حضرت! میرا دل چاہتا ہے کہ ملفوظات لکھ لیا کروں ۔ مگر لکھا جاتا نہیں ، اور یاد رہتے نہیں ہیں ۔ بھول جاتا ہوں ۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے جواب میں فرمایا کہ لکھنے کی کیا ضرورت ہے خود صاحبِ ملفوظ کیوں نہیں بن جاتے؟
حضرت والا فرماتے ہیں کہ میں تو تھرا گیا کہ میں کہاں صاحبِ ملفوظ بن سکتا ہوں ۔ پھر حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ بات دراصل یہ ہے کہ جو بات حق ہو اور فہم سلیم پر مبنی ہو، صحیح فکر پر مبنی ہو۔ جب ایسی بات تمہارے کان میں پڑ گئی، اور تمہارے دل نے اسے قبول کر لیا، وہ بات تمہاری ہو گئی اب چاہے وہ بات بعینہ انہی لفظوں میں یاد رہے یا نہ رہے، جب وقت آئے گا انشاء اللہ اس وقت یاد آجائے گی، اور اس پر عمل کی توفیق ہو جائے گی۔
بزرگوں کی خدمت میں جانے اور ان کی باتیں سننے کا یہی فائدہ ہوتا ہے کہ وہ کان میں باتیں ڈالتے رہتے ہیں ۔ ڈالتے رہتے ہیں ۔ یہاں تک کہ وہ باتیں انسان کی طبیعت میں داخل ہو جاتی ہیں ، اور پھر وقت پر یاد آجاتی ہیں ۔
میں آج سوچتا ہوں کہ حضرت والد ماجد قدس اللہ سرہٗ، حضرت ڈاکٹر صاحب قدس اللہ سرہٗ اور حضرت مولانا مسیح اللہ خاں صاحب قدس اللہ سرہٗ، ان تینوں بزرگوں سے میرا تعلق رہا ہے، اپنا حال تو تباہ ہی تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ان بزرگوں کی خدمت میں حاضری کی توفیق عطا فرمادی۔ یہ ان کا فضل و کرم تھا۔ اب ساری عمر بھی اس پر شکر ادا کروں تب بھی ادا نہیں ہو سکتا، یہ بزرگ کچھ باتیں زبردستی کان میں ڈال گئے۔ اپنی طرف سے نہ تو جن کی طلب تھی اور نہ خواہش اور اگر میں ان باتوں کو اب نمبر وار لکھنا چاہوں جو ان بزرگوں کی مجلسوں میں سنی تھیں ، تو فوری طور پر سب کا یاد آنا مشکل ہے لیکن کسی نہ کسی موقع پر وہ باتیں یاد آجاتی ہیں ۔ اور بزرگوں سے تعلق کا یہی فائدہ ہوتا ہے،اور جس طرح بزرگوں کی خدمت میں حاضری نعمت ہے، اور ان کی بات سننا نعمت ہے۔ اسی طرح ان بزرگوں کے ملفوظات، حالات، سوانح پڑھنا بھی اس کے قائم مقام ہو جاتا ہے۔ آج یہ حضرات موجود نہیں ہے مگر الحمد للہ سب باتیں لکھی ہوئی چھوڑ گئے ہیں ان کو مطالعہ میں رکھنا چاہئے۔ یہ باتیں کام آجاتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ہمیں ان بزرگوں کا دامن تھامے رکھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
بہرحال! میں یہ عرض کر رہا تھا کہ جب بھی سستی ہو، اس سستی کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ اور معمول کو پورا کرنا چاہئے۔ دیکھئے ’’عذر‘‘ اور چیز ہے ’’سستی‘‘ اور چیز ہے، اگر عذر کی وجہ سے معمول چھوٹ جائے تو پھر کوئی غم نہیں ۔ مثلاً بیماری کی وجہ سے معمول چھوٹ گیا۔ یا سفر کی وجہ سے معمول چھوٹ گیا، اس میں کوئی حرج نہیں ، اس لئے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اس پر مواخذہ نہیں کیا، بلکہ عذر کی وجہ سے رعایت دی ہے تو پھر ہم خود کون ہوتے ہیں پابندی کرانے والے؟
اس لئے کسی عذر کی وجہ سے اس کے چھوٹنے پر رنج نہیں کرنا چاہئے۔
حضرت ڈاکٹر عبدالحي ٔ صاحب قدس اللہ سرہٗ حضرت تھانوی کی یہ بات نقل فرماتے تھے کہ ایک شخص رمضان میں بیمار ہو گیا، اور بیماری کی وجہ سے روزہ چھوٹ گیا، اب اس کو اس بات کا غم ہو رہا ہے کہ رمضان کا روزہ چھوٹ گیا، حضرت فرماتے ہیں کہ غم کرنے کی کوئی بات نہیں ، اس لئے کہ یہ دیکھو کہ تم روزہ کس کے لئے رکھ رہے ہو؟
اگر تم اپنی ذات کے لئے اپنا جی خوش کرنے کے لئے، اور اپنا شوق پورا کرنے کے لئے روزہ رکھ رہے ہو، پھر تو بیشک اس پر غم اور صدمہ کرو کہ بیماری آگئی، اور روزہ چھوٹ گیا لیکن اگر اللہ تعالیٰ کے لئے روزہ رکھ رہے ہو۔ تو پھر غم کرنے کی ضرورت نہیں ، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے تو خود فرما دیا ہے کہ بیماری میں روزہ چھوڑ دو۔
لہٰذا اگر شرعی عذر کی وجہ سے روزے قضا ہو رہے ہیں ، یا معوملات چھوٹ رہے ہیں مثلاً بیماری ہے، سفر ہے، یا خواتین کی طبعی مجبوری ہے یا کسی زیادہ اہم مصروفیت کی وجہ سے جو دین ہی کا تقاضہ تھی، معمول چھوٹ گیا مثلاً ماں باپ بیمار ہیں ، ان کی خدمت میں لگا ہوا ہے، اور اس خدمت کی وجہ سے معمول چھوٹ گیا، تو اس سے بالکل رنجیدہ اور غمگین نہ ہونا چاہئے، لیکن سستی کی وجہ سے معمول کو چھوڑنا نہیں چاہئے عذر کی وجہ سے چھوٹ جائے تو اس پر رنجیدہ نہ ہونا چاہئے۔
سستی کا واحد علاج یہ ہے کہ اس کا مقابلہ کرو، اور اس کے آگے ڈٹ جاو، اور ہمت سے مقابلہ کرو، اس کاعلاج سوائے استعمال ہمت کے اور کچھ نہیں ہے۔ اگر ہماری زندگیوں میں صرف یہ بات آجائے یعنی ’’سستی کا مقابلہ کرنا‘‘ تو سجھ لو کہ آدھا کام ہو گیا اور اس کے بعد بقیہ آدھے کام کے حصول کی کوشش کرے۔ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے سستی کا مقابلہ کرنے کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے۔
از مولانہ مفتی محمد تقی عثمانی صاحب
Comments
Post a Comment