167) انسانوں کی ابتداء کس سے ہوئی؟

انسانوں کی ابتداء کس سے ہوئی؟

مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ انسانوں کی ابتداء حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے ہوئی اور اسی لئے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ابوالبشر یعنی انسانوں کا باپ کہا جاتا ہے۔ اور حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے انسانیت کی ابتداء ہونا بڑی قوی دلیل سے ثابت ہے مثلاً دنیا کی مردم شماری سے پتا چلتا ہے کہ آج سے سو سال پہلے دنیا میں انسانوں کی تعداد آج سے بہت کم تھی اور اس سے سو برس پہلے اور بھی کم

تو اس طرح ماضی کی طرف چلتے چلتے اس کمی کی انتہاء ایک ذات قرار پائے گی اور وہ ذات حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں یا یوں کہئے کہ قبیلوں کی کثیر تعداد ایک شخص پر جا کر ختم ہو جاتی ہیں مثلاً سیّد دنیا میں کروڑوں پائے جائیں گے مگر اُن کی انتہاء رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ایک ذات پر ہوگی، یونہی بنی اسرائیل کتنے بھی کثیر ہوں مگر اس تمام کثرت کا اختتام حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ایک ذات پر ہوگا۔

اب اسی طرح اور اوپر کو چلنا شروع کریں تو انسان کے تمام کنبوں ، قبیلوں کی انتہاء ایک ذات پر ہوگی جس کانام تمام آسمانی کتابوں میں آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہے اور یہ تو ممکن نہیں ہے کہ وہ ایک شخص پیدائش کے موجودہ طریقے سے پیدا ہوا ہو یعنی ماں باپ سے پیدا ہوا ہو کیونکہ اگر اس کے لئے باپ فرض بھی کیا جائے تو ماں کہاں سے آئے اور پھر جسے باپ مانا وہ خود کہاں سے آیا ؟

 لہٰذا ضروری ہے کہ اس کی پیدائش بغیر ماں باپ کے ہو اور جب بغیر ماں باپ کے پیدا ہوا تو بالیقین وہ اِس طریقے سے ہٹ کر پیدا ہوا اور وہ طریقہ قرآن نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے مٹی سے پیدا کیا جو انسان کی رہائش یعنی دنیا کا بنیادی جز ہے۔ 

پھر یہ بھی ظاہر ہے کہ جب ایک انسان یوں وجود میں آگیا تو دوسرا ایسا وجود چاہیے جس سے نسلِ انسانی چل سکے تو دوسرے کو بھی پیدا کیا گیا لیکن دوسرے کو پہلے کی طرح مٹی سے بغیر ماں باپ کے پیدا کرنے کی بجائے جو ایک شخص انسانی موجود تھا اسی کے وجود سے پیدا فرما دیا کیونکہ ایک شخص کے پیدا ہونے سے نوع موجود ہو چکی تھی چنانچہ دوسرا وجود پہلے وجود سے کچھ کم تر اور عام انسانی وجود سے بلند تر طریقے سے پیدا کیا گیا یعنی حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ایک بائیں پسلی ان کے آرام کے دوران نکالی اور اُن سے اُن کی بیوی حضرت حوا رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا کو پیدا کیا گیا۔

چونکہ حضرت حوا  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا مرد و عورت والے باہمی ملاپ سے پیدا نہیں ہوئیں اس لئے وہ اولاد نہیں ہو سکتیں۔

خواب سے بیدار ہو کر حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے پاس حضرت حوا  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کو دیکھا تو ہم جنس کی محبت دل میں پیدا ہوئی۔ مخاطب کر کے حضرت حوا  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا سے فرمایا تم کون ہو ؟ 

انہوں نے عرض کیا: عورت۔ فرمایا: کس لئے پیدا کی گئی ہو ؟

 عرض کیا: آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تسکین کی خاطر، چنانچہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اُن سے مانوس ہو گئے۔ (خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۱، ۱ / ۳۴۰)

یہ وہ معقول اور سمجھ میں آنے والا طریقہ ہے جس سے نسلِ انسانی کی ابتداء کا پتا چلتا ہے۔ بقیہ وہ جو کچھ لوگوں نے بندروں والا طریقہ نکالا ہے کہ انسان بندر سے بنا ہے تو یہ پرلے درجے کی نامعقول بات ہے۔ یہاں ہم سنجیدگی کے ساتھ چند سوالات سامنے رکھتے ہیں۔ آپ ان پر غور کرلیں ، حقیقت آپ کے سامنے آجائے گی۔

سوال یہ ہے کہ اگر انسان بندر ہی سے بنا ہے تو کئی ہزار سالوں سے کوئی جدید بندر انسان کیوں نہ بن سکا اور آج ساری دنیا پوری کوشش کر کے کسی بندر کو انسان کیوں نہ بنا سکی؟

نیز بندروں سے انسان بننے کا سلسلہ کب شروع ہوا تھا؟

کس نے یہ بنتے دیکھا تھا؟ 

کون اس کا راوی ہے؟

کس پرانی کتاب سے یہ بات مطالعہ میں آئی ہے؟

نیز یہ سلسلہ شروع کب ہوا اور کب سے بندروں پر پابندی لگ گئی کہ جناب! آئندہ آپ میں کوئی انسان بننے کی جرأت نہ کرے؟

نیز بندر سے انسان بنا تو دُم کا کیا بنا تھا ؟

 کیا انسان بنتے ہی دُم جھڑ گئی تھی یا کچھ عرصے بعد کاٹی گئی یا گھسٹ گھسٹ کر ختم ہو گئی اور بہرحال جو کچھ بھی ہوا ،کیا اس بات کا ثبوت ہے کہ دُم والے انسان پائے جاتے تھے۔

الغرض بندروں والی بات بندر ہی کر سکتا ہے۔ حیرت ہے کہ دنیا بھر میں جس بات کا شور مچایا ہوا ہے اس کی کوئی کَل سیدھی نہیں ، اس کی کوئی کَڑی سلامت نہیں ، اس کی کوئی تاریخ نہیں۔ بس خیالی مفروضے قائم کر کے اچھے بھلے انسان کو بندر سے جا ملایا۔

(تفسیر صراط الجنان/ سورة النساء/ آیت:01)

Comments