حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ
۔1) حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کا تعلق سکھ گھرانے سے تھا آپ ابتداۓ جوانی میں کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگۓ اور دارلعلوم دیوبند میں داخلہ لے لیا۔ حتی کہ آپ دورہ حدیث کے درجے تک پہنچ گۓ
آپ یہ واقعہ خود سنایا کرتے تھے کہ جب میرے سسر کو انکے گھر والوں نے کہا کہ اب ہماری لڑکی جوان ہے اسکے لیۓ کوئ مناسب رشتہ تلاش کرکے نکاح کر دینا چاہیے وہ پنجاب کے مدارس کے دورے پر نکلے تاکہ انہیں اپنی بچی کے لیے کوئ عالم فاضل نوجوان مل سکے حتی کے دارلعلوم دیوبند پہنچ گے جب انہوں نے دورہ حدیث کی کلاس کو دیکھا تو انکی نگاہیں میرے اوپر اٹک گیئں . انہوں نے شیخ الہذا حضرت مولانا محمود حسینؒ سے پوچھا کہ یہ طالب علم کون ہے؟
انہوں نے بتایا کہ یہ سکھ گھرانے سے تعلق رکھتا ہے اور مسلمان ہو کر ہمارے پاس علم حاصل کر رہا ہے انہوں نے پوچھا کیا یہ شادی شدہ ہے ؟
شیخ الہذا نے فرمایا نہیں ... انہوں نے شیخ الہذا سے پوچھا کیا یہ شادی کرنا چاہتا ہے؟
تو میرے استاد محترم نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم شادی کے لیے تیار ہو؟
میں نے عرض کیا حضرت میں مسلمان ہوں اور میرا سارا خاندان سکھ ہے اب مجھ اکیلے کو کون بیٹی دے گا . انہوں نے پوچھا کہ اگر کوئ آپکو اپنی بیٹی نکاح میں دے تو کیا خیال ہے؟
میں نے کہا حضرت میں اس سنت کو ضرور ادا کروں گا میں اس کے ترک کا گناہ اپنے سر کیوں لوں چناںچہ میرے سسر صاحب نے فرما دیا کہ کل عصر کے بعد نکاح ہوگا . فرماتے ہیں اسکے بعد میں اپنے دوستوں کے پاس آیا اور انہیں بتایا کہ کل میرا نکاح ہے طلباء طلباء ہی ہوتے ہیں وہ یہ سن کر مجھ سے بہت پیار کی باتیں کرنے لگ گۓ کافی دیر بعد ایک دوست نے کہا جی آپ کے کپڑے بہت میلے ہیں لہذا آپ کو چاہیے کہ آپ کسی دوست سے کپڑے ادھار لے لیں اور وہ پہن کر نکاح کی تقریب میں جاٸیں میں نے کہا میری عزت نفس اس بات کو گوارہ نہیں کرتی میں جو کچھ ہوں سو ہوں میں تو ادھار نہیں مانگوں گا . طلباء بھی منطقی ہوتے ہیں آسانی سے نہیں چھوڑتے چنانچہ وہ کہنے لگے اچھا اگر کسی سے نہیں مانگنا تو آپ اسی سوٹ کو دھو کر دوبارہ پہن سکتے ہیں تاکہ صاف کپڑے ہوں
حضرت کہتے ہیں میری بدبختی آگئ کہ میں نے اپنے دوستوں کی بات مان لی چنانچہ میں نے دھوتی باندھی اور کپڑے دھو لیے سردی کا موسم تھا اور اوپر سے آسمان ابر آلود ہو گیا عصر کا وقت آگیا میں نے مسجد کے ایک طرف کپڑے ہوا میں لہرانے شروع کر دیے اور ساتھ ہی ساتھ دعایئں بھی مانگنی شروع کر دیں کہ اے اللہ ان کپڑوں کو خشک فرما دے اور موسم کی خرابی کی وجہ سے کپڑے خشک ہونے پر نہیں آرہے تھے حتی کہ عصر کی اذان ہوگئ اور میں سردی کے موسم میں گیلے کپڑے پہنے مجمع میں آکر بیٹھ گیا لیکن میرے سسر کا دل سونے کا بنا ہوا تھا کہ انکی نظر ان چیزوں پر بلکل نہیں تھی انہوں نے دیکھا کہ کل بھی یہی کپڑے تھے اور آج بھی وہی کپڑے ہیں اور گیلے ہیں اسکے پاس کوئ دوسرا جوڑا نہیں ہے اسکے باوجود انہوں نے اپنی بیٹی کا نکاح کر دیا اور کچھ عرصے بعد رخصتی ہوگئ . ابتداء کے چند دنوں میں میرے اوپر فاقے آۓ کیوں کہ میں طالب علم تھا اور تازہ تازہ پڑھ کر فارغ ہوا تھا کمائ کا کوئ ایسا سلسلہ بھی نہیں تھا کبھی کھانے کو مل جاتا اور کبھی نا ملتا کچھ عرصے میری دلہن میرے گھر میں رہی اسکے بعد جب وہ اپنے والدین کے گھر گئ تو اسکی والدہ نے پوچھا بیٹی تونے اپنے نۓ گھر کو کیسا پایا؟
فرماتے ہیں کہ میری بیوی نیک اور پاک عورت تھی اسکی نظر میری دینداری پر تھی چنانچہ اس نے اسکو سامنے رکھتے ہوۓ اپنی والدہ سے کہا اماں میں تو سمجھتی تھی کہ مرنے کے بعد جنت میں جایئں گے لیکن میں تو جیتی جاگتی جنت میں پہنچ گئ ہوں . حضرت لاہوریؒ فرمایا کرتے تھے . میرے سسر نے مجھے اس وقت پہچان لیا تھا جب احمد علی احمد علی نہیں تھا اور آج تو احمد علی احمد علی ہے
۔2) احمد علی لاھوری رحم اللہ طلباء کے جماعت سے باہر نکلے اور اپنی دستار کرسی پر رکھ لی ایک طالب علم نے اس کا دستار اپنے سر پر رکھ لی اور اسی کرسی پر بیٹھ گیا جس پر لاھوری صاحب بیٹھ کر پڑھایا کرتے تھے ۔ طالب علم کو سارے طلباء عجیب شکلوں میں نظر انے لگے ۔ انہوں نے دستار کرسی پر رکھی اور جب لاہوری صاحب اۓ تو ان سے معافی مانگی اور واقعہ سنایا ۔ احمد علی لاھوری رحم اللہ نے فرمایا کہ جب میں کرسی پر سبق پڑھانے کے لیے روزانہ کرسی پر دستار سر پر رکھ کر بیٹھ جاتا ھوں تو مجھے بھی ایسا نظر اتا ہے لیکن میں کسی کو بتاتا نہیں
۔3) احمد علی لاھوری رحم اللہ جماعت کے طلباء میں ایک طالب علم سے روزانہ دوسرے طلباء کو سبق دہراتے تھے ۔ ایک دن اس طالب علم پر غسل واجب ہوا وہ ویسے ہی کلاس میں بیٹھ گیا ۔۔۔ لاھوری صاحب نے اس دن کسی اور لڑکے کو دہرانے کے لیے بولا ۔۔۔ جس سے سارے طلباء حیران تھے ۔۔۔ یہ ھوتی ہے اللہ والو کی نظر
Comments
Post a Comment