۔114🌻) خوف خدا اور فکرِ اخرت

 سیدی و مرشدی حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر نور اللہ مرقدہٗ نے اپنے مرشد حضرت شیخ عبد الغنی پھولپوری کی اثباتِ قیامت کی تقریر کو نظم میں فرمایا تھا، جس کا آخری شعر یہ ہے

قیامت کا دن منتہائے عمل ہے جزائے عمل ہے سزائے عمل ہے 

ان سادہ الفاظ میں جو جامعیت و نصیحت ہے وہ اظہر من الشمس ہے، یعنی دل میں خوفِ خدا اور دنیا سے بے رغبتی پیدا کرکے روزِ قیامت کی تیاری کے لیے فکرِ آخرت پیدا کرنا ہے۔حضور نبی کریم رحمۃ للعالمین فخر المرسلین ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’آنکھوں کو بھی عبادت کا حصہ دو، یعنی قرآن میں دیکھو اور اس میں غور و تدبر کرو اور اس کے عجائبات سے درسِ عبرت لو

(الصحیح لابن حبان بروایت ابی سعید، کنز العمال اردو مترجم:۱/۳۲۳، رقم الحدیث:۲۲۶۲)    

 امام التابعین حضرت حسن بصری کہتے ہیں کہ: ’’ پہلے لوگ قرآن شریف کو اللہ تعالیٰ کا فرمان سمجھتے تھے، رات بھر اس میں غور و تدبر کرتے تھے اور دن کو اس پر عمل کرتے تھے اور تم لوگ ا س کے حروف اور زیر و زبر تو بہت درست کرتے ہو، مگر اس کو فرمانِ شاہی نہیں سمجھتے، اس میں غور و تدبر نہیں کرتے۔(فضائل قرآن مجید، حدیث نمبر: ۱۹)    

 البتہ خود سے غور و تدبر کرنے کی بجائے علمائے کرام سے اس کا طریقہ پوچھنا چاہیے اور سیکھنا چاہیے، تاکہ خود ساختہ طریقے پر چلنے سے گمراہی میں مبتلا نہ ہو جائے، کیونکہ کلام پاک کے معنی کے لیے جو شرائط و آداب ہیں ان کی رعایت بھی ضروری ہے۔ اور ایک جگہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’افسوس اس شخص پر جس نے یہ آیت پڑھی۔۔۔۔۔-: ’’إِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ لَأٰیٰتٍ لِّأُوْلِیْ الْأَلْبَابِ‘‘۔ ( آل عمران:۱۹۰)  ’’بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات و دن کے بدل بدل کر آنے جانے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں‘‘۔ لیکن اس میں کچھ غور و فکر نہ کیا۔‘‘ (کنز العمال اردو مترجم:۱/۳۵۱، رقم:۲۵۷۶)     

اس آیت پر حضور ﷺ کا ایک واقعہ بھی منقول ہے، ملاحظہ ہو: حضرت عبید بن عمیر رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ: میں نے حضرت عائشہ رضی اللّٰه تعالیٰ عنہا سے پوچھا کہ آپ نے حضور ﷺ کی سب سے زیادہ عجیب بات جو دیکھی ہو، وہ ہمیں بتادیں۔ پہلے تو وہ خاموش ہوگئیں، پھر فرمایا: ایک رات حضور ﷺ نے فرمایا:’’اے عائشہ! مجھے چھوڑو، آج رات میں اپنے رب کی عبادت کروں۔‘‘ میں نے عرض کیا: اللہ پاک کی قسم! مجھے آپ کا قرب بھی پسند ہے اور جس کام سے آپ کو خوشی ہو وہ بھی پسند ہے، چنانچہ حضور ﷺ اُٹھے اور وضو کیا، پھر کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے اور نماز میں روتے رہے اور اتنا روئے کہ آپ ﷺ کی گود گیلی ہو گئی اور بیٹھ کر اتنا روئے کہ آپ ﷺ کی داڑھی آنسوؤں سے تر ہو گئی، پھر سجدہ میں اتنا روئے کہ زمین تر ہوگئی، پھر حضرت بلال رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ حضور ﷺ کو نماز کی اطلاع دینے آئے، جب انہوں نے حضور ﷺ کو روتے ہوئے دیکھا تو عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! آپ رو رہے ہیں؟

 حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف کردیئے ہیں ۔ حضور ﷺ نے فرمایا: تو کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں؟

 آج رات مجھ پر ایسی آیت نازل ہوئی ہے کہ جو آدمی اسے پڑھے اور اس میں غور و فکر نہ کرے، اس کے لیے ہلاکت ہے، وہ آیت یہ ہے 

إِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ لَأٰیٰتٍ لِّأُوْلِیْ الْأَلْبَابِ ( آل عمران:۱۹۰) ترجمہ:…’’بلاشبہ آسمانوں اور زمین کے بنانے میں اور رات و دن کے بدل بدل کر آنے جانے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔‘‘    (اخرجہ ابن حبان فی صحیحہ، کذا فی الترغیب:۳۳۲ بحوالہ حکایۃ الصحابہ:۳/۱۵۰، ۱۴۹ )

حضور ﷺ پر بڑھاپے کے آثار قبل از وقت کیوں؟  

   مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ قرآن پاک کے بنیادی مضمون تین ہیں . توحید، …رسالت، …قیامت ۔ قرآن پاک میں کچھ سورتیں ایسی ہیں جن میں قیامت کی ہولناکیاں اور اگلی اقوام کے حالات وغیرہ کا ذکر ہے۔ مختلف احادیث میں ان سورتوں کی نشاندہی فرمائی گئی ہے۔ ان سب روایات کا خلاصہ یہ ہے کہ صحابۂ کرام  مثلاً حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ ، حضرت عمر فاروق رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ وغیرہ نے ریش مبارک میں بالوں کی سفیدی دیکھ کر اظہارِ رنج کے ساتھ عرض کیا کہ: یا رسول اللہ ﷺ ! آپ بوڑھے ہو گئے؟ 

سید الانبیاء حضور سرور عالم ﷺ نے فرمایا کہ: مجھے سورۂ ہود اور دوسری چند سورتوں نے بڑھاپے سے قبل ہی سفید بالوں والا یعنی بوڑھا کردیا۔ (مستفاد از کنز العمال اردو مترجم) ان سورتوں میں پچھلی قوموں پر نازل ہونے والے قہر الٰہی، مختلف قسم کے عذابوں، قیامت کے ہولناک واقعات اور ان کی منظر کشی، کفار و فجار کی سزا اور مؤمنین و متقین کی جزاء وغیرہ کا ذکر خاص انداز میں آیا ہے، اس لیے ان واقعات کے خوف و دہشت کی وجہ سے آپ ﷺ پر بڑھاپے کے آثار شروع ہو گئے۔

اسی طرح ایک حدیث میں آیا ہے کہ حضور اقدس ﷺ دولت کدہ سے تشریف لاتے ہوئے داڑھی مبارک پر ہاتھ پھیر رہے تھے، حضرت ابوبکر رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ مسجد میں تشریف فرما تھے، حضرت ابوبکر رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ نے یہ منظر دیکھا اور عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، کس قدر جلدی آپ پر بڑھاپا آگیا ہے اور یہ کہہ کر رونے لگے اور آنسو جاری ہو رہے تھے۔ حضور ﷺ نے فرمایا: سورۂ ہود جیسی سورتوں نے مجھے بوڑھا کر دیا ہے۔ (شمائل ترمذی مع اردو شرح خصائل نبوی، ص:۴۳) 

سورتوں کے نام ۔ وہ سورتیں جن کا ذکر آپ ﷺ نے مختلف روایات میں فرمایا، وہ مندرجہ ذیل ہیں: ۱:… ہود ، ۲:… الواقعۃ ، ۳:… الحاقۃ ، ۴:… المعارج ، ۵:… المرسلات ، ۶:… النبأ ، ۷:… التکویر ،  ۸:… الغاشیۃ ، ۹:… القارعۃ ۔ (کنز العمال اردو مترجم،ج:۱،رقم الحدیث:۲۵۸۶ -۲۵۹۲،  ۴۰۹۱- ۴۰۹۶)  ان سورتوں کے علاوہ بھی اس طرح کی بہت سی سورتیں اور آیتیں ہیں، لیکن چونکہ درج بالا سورتوں میں اس موضوع کا خاص طور پر ذکر ملتا ہے، اس لیے ان کے نام لے کر بتائے گئے۔

ایک ہی رات میں بال سفید ہوگئے (ایک واقعہ) علامہ زمخشری کہتے ہیں: میں نے ایک کتاب میں دیکھا ہے کہ ایک شخص شام کے وقت بالکل سیاہ بال جوان تھا، ایک ہی رات میں بالکل سفید ہو گیا۔ لوگوں نے پوچھا، تو اس نے کہا کہ میں نے رات قیامت کا منظر دیکھا ہے کہ لوگ زنجیروں سے کھینچ کر جہنم میں ڈالے جا رہے ہیں، اس کی دہشت مجھ پر کچھ ایسی غالب ہوئی کہ اس نے ایک ہی رات میں مجھے اس حالت پر پہنچا دیا۔ اللہ اکبر! (شمائل ترمذی مع اردو شرح خصائل نبوی:۴۴، ۴۳)

 چند مخصوص آیات مبارکہ کا تذکرہ خوفِ خدا اور فکرِ آخرت پر حضور اقدس ﷺ ، صحابۂ کرام اور علماء و مشائخ کے ایسے بے شمار واقعات ہیں کہ ایک ہی آیت کو پڑھتے رہے اور خوف و خشیت سے روتے رہے ۔

   ایک ا ۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ: ’’سب سے زیادہ خوف زدہ کرنے والی آیت

فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْراً یَّرَہٗ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرّاً یَّرَہٗ‘‘ ہے۔ (الزلزال:۸، ۷)  

’’چنانچہ جس نے ذرہ برابر کوئی اچھائی کی ہوگی وہ اسے دیکھے گا اور جس نے ذرہ برابر کوئی برائی کی ہوگی وہ اُسے دیکھے گا۔‘‘ 

سب سے زیادہ امید رساں اور دل کو تقویت بخشنے والی آیت

 ’’ قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ أَسْرَفُوْا عَلٰی أَنْفُسِہِمْ لَاتَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ‘‘ ہے۔(الزمر:۵۳)

 ’’کہہ دو کہ:اے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر رکھی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔‘‘ (کنز العمال اردو مترجم:۱/۳۵۰، رقم الحدیث: ۲۵۶۰)  

   دو 2 ۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’میں تم پر ایک سورت (التکاثر) پڑھتا ہوں، جو اس پر رویا اس کے لیے جنت واجب ہوگئی، پس جس کو رونا نہ آئے وہ رونے کی کوشش کرے۔ (شعب الایمان بروایت عبد الملک بن عمیر، مرسلاً، کنز العمال اردو مترجم:۱/۳۶۵، رقم الحدیث:۲۷۱۵) اس سورت میں دنیا کی زندگی اور مال و دولت کو مقصد بنانے والوں کی مذمت کی گئی ہے، نیز مال کی بے ثباتی، روز قیامت اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے بارے میں سوال ہونے اور جہنم سے ڈرایا گیا ہے۔

 تین 3 ۔ نبی اکرم ﷺ ایک مرتبہ تمام رات روتے رہے اور صبح تک نماز میں یہ آیت تلاوت فرماتے رہے: ’’ إِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَإِنَّہُمْ عِبَادُکَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَہُمْ فَإِنَّکَ أَنْتَ الْعَزِیْزُالْحَکِیْمُ‘‘(المائدۃ:۱۱۸) ترجمہ:۔۔۔۔۔’’اگر آپ ان کو سزا دیں تو یہ آپ کے بندے ہیں اور اگر آپ ان کو معاف فرما دیں تو آپ زبردست ہیں، حکمت والے ہیں۔‘‘ یعنی آپ ان کے مالک ہیں اور مالک کو حق ہے کہ بندوں کو ان کے جرائم پر سزا دے، اس لیے آپ اس کے بھی مختار ہیں، قدرت والے ہیں، معافی پر بھی آپ قادر ہیں، اس لیے اس کے بھی آپ مختار ہیں تو آپ کی معافی بھی حکمت کے موافق ہوگی، اس لیے اس میں بھی کوئی قباحت نہیں ہو سکتی، مطلب یہ کہ آپ دونوں حالت میں مختار ہیں، میں کچھ دخل نہیں دیتا۔ (بیان القرآن، زیرآیت ہذا: ۲۷۱، وحکایات صحابہؓ:۳۶)  

   چار 4 ۔حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ: حضور ﷺ نے ایک قاری کو یہ آیت پڑھتے ہوئے سنا: ’’إِنَّ لَدَیْنَا أَنْکَالًاوَّجَحِیْمًا‘‘ ۔ (المزمل:۱۲)ترجمہ ’ہمارے یہاں بیڑیاں ہیں اور دوزخ ہے‘‘۔ یہ سن کر حضور ﷺ بے ہوش ہو گئے۔  (حیاۃ الصحابہؓ،ج:۲،ص:۶۸۸)   

  پانچ 5 ۔ حضرت عبد اللہ رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ: حضور ﷺ نے مجھ سے فرمایا: مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ، میں نے عرض کیا: میں آپ کو قرآن پڑھ کر سناؤں؟ حالانکہ قرآن تو خود آپ پر نازل ہوا ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا: میرا دل چاہتا ہے کہ میں دوسرے سے قرآن سنوں، چنانچہ میں نے سورۂ نساء پڑھنی شروع کردی اور جب میں ’’فَکَیْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ أُمَّۃٍ بِشَہِیْدٍ وَّجِئْنَا بِکَ عَلٰی ہٰؤُلَائِ شَہِیْداً‘‘ (نسائ:۴۱)  ’’پھر (یہ لوگ سوچ رکھیں کہ) اس وقت (ان کا) کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لے کر آئیں گے اور (اے پیغمبر!) ہم تم کو ان لوگوں کے خلاف گواہ کے طور پر پیش کریں گے۔‘‘ پر پہنچا تو حضور ﷺ نے فرمایا: بس کرو! میں نے آپ ﷺ کی طرف دیکھا تو آپ ﷺ کی آنکھیں آنسو بہا رہی تھیں۔   (اخرجہ البخاری، کذا فی البدایۃ:۶/۵۹، بحوالہ حیاۃ الصحابہؓ:۲/۶۹۲)   فائدہ: تمام انبیائے کرام علیہ اسلام قیامت کے روز اپنی اپنی امتوں کے اچھے برے اعمال پر گواہی دیں گے اور آنحضرت ﷺ کو اپنی امت کے لوگوں پر گواہ بنا کر پیش کیا جائے گا۔ (آسان ترجمۂ قرآن:۱/۲۶۶)   یعنی جن لوگوں نے اللہ کے احکام دنیا میں نہ مانے ہوں گے، ان کے مقدمہ کی پیشی کے وقت بطور سرکاری گواہ کے انبیاء کے اظہارات سنے جاویں گے، جو جو معاملات انبیاء علیہ اسلام کی موجودگی میں پیش آئے تھے سب ظاہر کریں گے، اس شہادت کے بعد ان مخالفین پر جرم ثابت ہوکر سزادی جاوے گی۔                                            (بیان القرآن، زیر آیت ہذا:۱۷۶)   

  چھ 6 ۔ شرح السنۃ میں لکھا ہے کہ ایک صاحب کو خواب میں حضور ﷺ کی زیارت ہوئی، انہوں نے پوچھا: یا رسول اللہ ﷺ ! مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا ہے کہ سورۂ ہود نے مجھے بوڑھا کر دیا، کیا بات ہے؟ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: اس میں ایک آیت ہے: ’’فَاسْتَقِمْ کَمَا أُمِرْتَ‘‘ یعنی دین پر ایسے مستقیم رہو جیسا کہ حکم  ہے اور ظاہر ہے کہ حکم کے موافق پوری استقامت بہت ہی مشکل امر ہے، اس لیے صوفیاء نے لکھا ہے کہ استقامت ہزار کرامتوں سے افضل ہے۔   (شمائل ترمذی مع اردو شرح خصائل نبوی:۴۳) 

   سات 7 . حضرت ابوہریرہ رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی:’’ أَفَمَنْ ہَذَا الْحَدِیْثِ تَعْجَبُوْنَ وَتَضْحَکُوْنَ وَلَاتَبْکُوْنَ‘‘۔ (النجم:۶۰، ۵۹) ’’سو کیا (ایسی خوف کی باتیں سن کر بھی) تم لوگ اس کلام (الٰہی) سے تعجب کرتے ہو اور ہنستے ہو اور (خوفِ عذاب سے) روتے نہیں ہو۔‘‘ تو اصحابِ صفہؓ اتنا روئے کہ آنسو اُن کے رُخساروں پر بہنے لگے، حضور ﷺ نے جب ان کے رونے کی ہلکی ہلکی آواز سنی تو آپ ﷺ بھی ان کے ساتھ رو پڑے، آپ ﷺ کے رونے کی وجہ سے ہم بھی رو پڑے، پھر حضور ﷺ نے فرمایا: جو اللہ کے ڈر سے روئے گا وہ آگ میں داخل نہیں ہوگا اور جو گناہ پر اصرار کرے گا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا اور اگر تم گناہ نہ کرو (اور استغفار کرنا چھوڑ دو) تو اللہ پاک ایسے لوگوں کو لے آئے گا جو گناہ کریں گے (اور استغفار کریں گے) اور اللہ پاک ان کی مغفرت کریں گے۔   (اخرجہ البیہقی، کذا فی الترغیب:۵/۱۹۰، بحوالہ حیاۃ الصحابہؓ: ۲/۶۹۳) 

 ماہنامہ بینات جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

Comments