تقدیر کو سمجھو
ایک 1 ۔ تقدیر پر راضی رہیے
حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ان کاموں کی حرص کرو جو تم کو نفع پہنچانے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگو اور عاجز ہو کر نہ بیٹھو اور اگر دنیاوی زندگی میں تمہیں کوئی مصیبت اور تکلیف پہنچے تو یہ مت کہو کہ اگر یوں کر لیتا تو ایسا نہ ہوتا اور اگر یوں کر لیتا تو ایسا ہو جاتا ۔ بلکہ یہ کہو کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور مشیت یہی تھی جو اللہ نے چاہا اس لیے کہ لفظ "اگر "شیطان کے عمل کا دروازہ کھول دیتا ہے (مسلم )
اس حدیث شریف میں عجیب و غریب تعلیم دی گئی ہے کہ اس دنیا میں سکون ، عافیت اور اطمینان حاصل کرنے کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ انسان تقدیر پر یقین اور ایمان لے آئے ۔ یہ دنیا خوشی و غم سے مرکب ہے ۔ ہماری کیا حقیقت ہے دنیا کی اس زندگی میں انبیاء علیہم السلام پر بھی تکالیف اور پریشانیاں آتی ہیں اور عام لوگوں سے زیادہ آتی ہیں اس لیے دنیا کی ان تکالیف پر یہ سوچنا شروع کر دیا کہ ہائے یہ کیوں ہوا ؟
اگر ایسا کر لیتے تو یہ نہ ہوتا ، فلاں وجہ اور سبب کے ایسا ہو گیا ایسا سوچنے سے حسرت بڑھتی ہے اور اللہ تعالیٰ پر شکوہ پیدا ہوتا ہے کہ معاذ اللہ یہ ساری مصیبتیں میرے مقدر میں رہ گئی تھیں
اس لیے حدیث شریف میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جب تمہیں پریشانی یا تکلیف آئے تو یہ سمجھ لو کہ یہ جو کچھ پیش آرہا ہے یہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور ارادے سے پیش آیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہی اس کی حکمت و مصلحت جانتے ہیں ۔ البتہ اس تکلیف پر رونا آئے تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔ بشرطیکہ اللہ تعالیٰ سے اس مصیبت پر شکوہ نہ ہو ۔
سامان تسکین : حقیقت میں انسان کے پاس تقدیر پر راضی ہونے کے علاوہ چارہ ہی کیا ہے ؟ اس لیے کہ تمہارے ناراض ہونے سے وہ فیصلہ بدل نہیں سکتا، جو غم پیش آیا ہے ،تمہاری ناراضگی سے وہ غم دور نہیں ہو سکتا ۔ بلکہ اس میں مزید اضافہ ہو جائے گا ۔ اگر غور کیا جائے تو یہ نظر آئے گا کہ تقدیر پر راضی رہنے میں درحقیقت انسان کی تسلی کا سامان ہے ۔
دو 2 ۔ تقدیر پر راضی رہنا خیر کی دلیل ہے
حدیث شریف میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کی بھلائی اور خیر کا ارداہ فرماتے ہیں تو اس کو اپنی قسمت پر راضی کر دیتے ہیں اور اس قسمت میں اس کے لیے برکت بھی عطا فرماتے ہیں ۔ ا ور جب کسی سے بھلائی کا ارادہ نہ فرمائیں (العیاذ باللہ) تو اس کو اس کی قسمت پر راضی نہیں کرتے اور اس میں برکت بھی نہیں عطا فرماتے۔
قسمت پر راضی ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ آدمی تدبیر چھوڑ دے بلکہ کام کرتا رہے اور اس کام کے نتیجے میں جو کچھ مل رہا ہے وہ میرے لیے بہتر ہے تو پھر اللہ تعالیٰ اس کے لیے اس میں برکت عطا فرما دیتے ہیں۔
اس کے برعکس جو قسمت پر راضی نہ ہو بلکہ ہر وقت ناشکری کرتا رہے تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو تھوڑا بہت ملا ہوا ہے اس کی لذت سے بھی محروم ہو جاتا ہے اور اس میں برکت بھی نہیں ہوتی ۔
اس لیے اللہ تعالیٰ کی عطا فرمودہ نعمتوں پر راضی رہو ، چاہے وہ مال و دولت کی نعمت ہو ، صحت کی نعمت ہو ، حسن و جمال کی نعمت ہو ، بس یہ فکر حاصل کرنے کی ضرورت ہے ۔ اسی سے قناعت حاصل ہوتی ہے ۔ اسی سے تقدیر پر راضی رہنا نصیب ہوتا ہے ۔ اسی سے تکلیفیں اور صدمے دور ہوتے ہیں ۔
تین 3 ۔ تقدیر و تدبیر
تقدیر کا عقیدہ عجیب و غریب ہے لیکن اس کو صحیح طور پر نہ سمجھنے کی وجہ سے لوگ غلطیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔
پہلی بات یہ ہے کہ کسی واقعہ کے پیش آنے سے پہلے تقدیر کا عقیدہ کسی انسان کو بے عملی پر آمادہ نہ کرے ۔ مثلاً کوئی شخص تقدیر کا بہانہ کرکے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائے ۔ یہ عمل اسلامی تعلیم کےخلاف ہے بلکہ حکم یہ ہے کہ جس چیز کے حاصل کرنے کی جو تدبیر ہے اس کو اختیار کرو اور اس میں کوئی کسر نہ چھوڑو۔
دوسری بات یہ ہے کہ تقدیر کے عقیدے پر عمل کسی واقعہ کے پیش آنے کے بعد شروع ہوتا ہے ۔مثلاً کوئی واقعہ پیش آچکا تو ایک مومن کا کام یہ ہے کہ وہ یہ سوچے کہ میں نے جو تدبیریں اختیار کرنی تھیں وہ کرلیں اور اب جو واقعہ ہماری تدبیر کے خلاف پیش آیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے جس پر ہم راضی ہیں ۔ اس میں راہ اعتدال یہ ہے کہ جب تک تقدیر پیش نہیں آتی اس وقت تک تمہارا فرض ہے ۔کہ اپنی حد تک کوشش کرو اور احتیاطی تدابیر کو اختیار کرو ۔ اس لیے کہ ہمیں نہیں معلوم تقدیر میں کیا لکھا ہے؟
یہ بھی سمجھ لیا جائے کہ غم اور صدمہ کا اظہار الگ چیز ہے اور اللہ تعالیٰ کےفیصلے پر راضی ہونا الگ چیز ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ عین حکمت پر مبنی ہے اور ہمیں اس کی حکمت کا علم نہیں ۔ اس وجہ سے دل کو تکلیف پہنچ رہی ہے اس لیے غم اور صدمہ بھی ہے جس کی وجہ سے ہم رو بھی رہے ہیں لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو فیصلہ کیا ہے وہ برحق ہے لہٰذا رضا سے مراد رضاء عقلی ہے یعنی عقلی طور پر انسان یہ سمجھے کہ یہ فیصلہ صحیح ہے ۔
ماخوذ از: آج کا سبق
تالیف :مفتی اعظم حضرت مولانا محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ
Comments
Post a Comment