163🌻) History of Karachi (e/u)

The history of Karachi began during the Greek and Arab eras. The Arabs knew this area as the port of Debal. In 711, Muhammad bin Qasim invaded Sindh, which began with Debal. 

Defeated Raja Dahir, advanced further to Multan, his conquests continued till 713, Karachi was a village of fishermen named after a woman named Mai Kalachi. Over time, Mahi Kalachi changed to Karachi, the tribe of fishermen still lives in the port of Karachi, one tribe lives on the island of Abdullah Goth.

Lyari has shown a glimpse of ancient relics in its bosom. During archaeological exploration, traces of a civilization have been found here that stretched from Lyari to Orangi, Mangho Pir and Hub River in 4500 BC. It is said that they used the rainwater of the Lyari River and its tributaries extensively for agriculture before it fell into the nearby sea.

When water scarcity affected agriculture, the people here learned other skills to drive the vehicle of life. Now, instead of the lush fields, industries began to appear here. Factories for making and dyeing leather, factories for producing leather and fabric dyes, and oil extraction mills began to be established.

 In February 1839, the British occupied Karachi. Four years later, on February 4, 1843, the British connected the city to Bombay by sea and gave it the status of a district. On March 10, 1865, Freer Hall was built. On July 2, 1872, the Karachi Port Club was built. By then, the total population of Karachi was 65,384. In 1876, Quaid-e-Azam Muhammad Ali Jinnah was born in the Wazir Mansion. At that time, Karachi had become a developing city, which depended on the railway and the port. Gradually, Karachi became a major port. On January 2, 1880, it was connected to the rest of India through the railway system. On September 15, 1889, the Empress Market was built in Saddar during the British Raj, which was named after Queen Alexander Victoria, the title Empress of India, which is still known as the Empress Market. In 1947, Karachi was the largest grain-selling city in Britain. On August 14, 1947, Pakistan became independent, Karachi became its capital. At that time, Karachi's population was 405,500. As the capital, Karachi's population started to grow rapidly. Karachi continued to be the capital of Pakistan until 1953. Later, it was thought of shifting the capital to a new city. On January 18, 1958, the then President of Pakistan, Muhammad Ayub Khan, started development work on Islamabad. Finally, on June 20, 1968, the capital was shifted to Islamabad. The Karachi Zoo, which is known as Gandhi Garden, is still there.

On the banks of the river starting from Gadap Malir, small fruit trees were planted, which are called Liar in Sindhi and Liwar in Balochi. This place was called Liar Baliwar Wala area, which later came to be called Lyari, which gave rise to skilled workers, famous athletes, politicians, prominent religious scholars, leaders who played an active role in the Pakistan Movement, and people related to the arts. Lawrence Road is Lasbela Chowk ahead of Pakistan Quarters.

Nazimabad was established in the name of the former Prime Minister of Pakistan, Khawaja Nazimuddin. Lalu Khet was established in the name of a Baloch Lal Muhammad Lalu. Lalu's mansion is there, and it is called the first house because of its spaciousness.

Keamari, Meriwether Tower, Kharadar, Mithadar, Bolton Market, Maulvi Musafir Khana, Eidgah are on Bandar Road. Bandar Road (MA Jinnah Road) starts from Quaid-e-Azam's Tomb and ends at Keamari, the second is Old McLeod Road. State Bank of Pakistan, almost all the banks' head offices and GPO, Telegraph Office etc. are all on this road, Burns Road, Atma Ram Pritam Das Road, Business Recorder Road, McLeod Road, Habib Bank Plaza, Pakistan Railways City Station, Freer Hall towards Clifton.

Victoria Road, which is now known as Zeb-un-Nisa Street (Road), Radio Pakistan still exists, a veterinary hospital has been established next to it since the British era, the Civil Hospital, and the Karachi Medical College were established.

"Chill my horse carriage, Bandar Road se Keemari" This song is old but still famous, remember there used to be a famous cinema lighthouse on Bandar Road which is no more, ahead is the KMC head office made of Lal Jaipur stones, people of Salut generation built it, their descendants are still there today, along with the city courts, ahead is Jodia Bazaar Le Market, on the other side of Bandar Road, exit from Denso Hall and reach New Chali.

The temple of Guru Panj Mukhi Hanuman, which is today called Guru Mandir, from here, the President's Palace, Clifton, Quaid-e-Azam's Tomb will come, and all the buildings mentioned above will come, on the other hand, the University of Karachi, the stadium, Gora Cemetery, PECHS, etc., on one side, Soldier Bazaar, on the other, Liaquatabad, Nazimabad, etc.

Jamshed Road is named after Jamshed Sarawanji Mehta, who was the elected president of Karachi Municipality from 1922 to 1933 and the first mayor of Karachi. After their arrival, the British built barracks for the soldiers around the Holy Family after the Karachi President. A market was built, which is called Soldier Bazaar. Gustaji Mehta built Uncle Saria Hospital. The central government built Jinnah Hospital in Karachi, which is very big.

These are all memories of old Karachi, in which there is no mention of Defense, Gulistan, Johar, Korangi, etc.

کراچی کی تاریخ

کراچی کی تاریخ یونان اور عرب کے دور سے شروع ہوئی، عرب اس علاقے کو دیبل  بندرگاہ کے نام سے جانتے تھے، 711ء میں محمد بن قاسم نے سندھ پر حملہ کیا، جسكا آغاز دیبل سے ہوا 

راجہ داہر کو شکست دی، آگے ملتان تک بڑھا اس کی فتوحات 713ء تک جاری رہیں، کراچی ایک خاتون مائی کلاچی کے نام سے مچھیروں کا ایک گاؤں تھا . وقت کے ساتھ ساتھ ماہی کلاچی سے کراچی میں تبدیل ہو گیا، ماہی گیروں کا قبیلہ آج بھی کراچی کی بندرگاہ میں آباد ہے، ایک قبیلہ عبداللہ گوٹھ کے جزیرے پر آباد ہے۔

لیاری نے اپنے سینے میں قدیم آثار کی جھلک دکھا دی ہے یہاں آثار قدیمہ کی تلاش کے دوران ایسی تہذیب کے آثار ملے ہیں جو 4500 (چار ہزار پانچ سو) قبل مسیح میں لیاری سے اورنگی، منگھو پیر اور حب ندی تک پھیلی ہوئی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ انھوں نے دریائے لیاری اور معاون کے برساتی پانی کو قریب واقع سمندر میں گرنے سے پہلے بھرپور طریقے پر اسے زراعت کے لیے استعمال کیا۔

پانی کی کمی نے جب زراعت کو متاثر کیا تو یہاں کے لوگوں نے زندگی کی گاڑی چلانے کے لیے دوسرے ہنر سیکھ لیے اب یہاں لہلہاتے کھیتوں کی جگہ  صنعتیں نظر آنے لگیں، چمڑا بنانے اس کو رنگنے کے کارخانے چمڑے اور کپڑے کے رنگ تیار کرنے کے کارخانے اور تیل نکالنے کی چکیاں قائم ہونے لگیں۔

 فروری 1839ء میں برطانیہ نے کراچی پر قبضہ کر لیا، چار سال بعد یعنی 4 فروری 1843ء میں اس شہر کو انگریزوں نے سمندری راستے سے بمبئی سے ملا دیا اور اس کو ایک ضلع کی حیثیت دے دی، 10 مارچ 1865 میں فریئر ہال کی تعمیر کی گئی، 2 جولائی 1872ء میں کراچی پورٹ کلب کی تعمیر ہوئی اس وقت تک کراچی کی مجموعی آبادی 65384 تھی۔ 1876ء میں وزیر مینشن میں قائد اعظم محمد علی جناح کی پیدائش ہوئی، اس وقت کراچی ترقیاتی شہر کی صورت اختیار کر چکا  تھا، جس کا انحصار ریلوے اور بندرگاہ پر تھا . رفتہ رفتہ کراچی بڑی بندرگاہ بنتا گیا، 2 جنوری 1880ء میں ریلوے کے نظام میں بقیہ ہندوستان سے جوڑ دیا گیا ۔ 15 ستمبر 1889ء کو برٹش راج میں صدر میں واقعہ ایمپریس مارکیٹ کو تعمیر کیا گیا جس کو کوئن الیگزانڈر وکٹوریہ، لقب ایمپریس آف انڈیا کے نام سے رکھا گیا جو کہ آج بھی ایمپریس مارکیٹ کے نام سے جانی جاتی ہے، 1947ء میں کراچی برطانیہ کا سب سے بڑا اناج فروخت کرنے والا شہر تھا۔ 14 اگست 1947ء کو پاکستان آزاد ہوا، اس کا دارالحکومت کراچی بنا اس وقت کراچی کی آبادی 405500 تھی، دارالحکومت کی حیثیت سے کراچی کی آبادی تیزی سے بڑھنا شروع ہوئی، 1953ء تک کراچی بدستور پاکستان کا دارالحکومت رہا بعد ازاں دارالحکومت کو نئے شہر منتقل کرنے کا سوچا گیا، 18 جنوری 1958ء میں اس وقت کے پاکستان کے صدر محمد ایوب خان نے اسلام آباد پر ترقیاتی کاموں کا آغاز کیا بالآخر 20 جون 1968ء کو دارالحکومت کو اسلام آباد منتقل کر دیا گیا، کراچی کا چڑیا گھر جو گاندھی گارڈن کے نام سے مشہور ہے وہ اب بھی موجود ہے۔

گڈاپ ملیر سے شروع ہونے والی ندی کے کنارے چھوٹے پھل دار درخت لگے تھے جن کو سندھی زبان میں لیار اور بلوچی زبان میں لیوار کہا جاتا ہے اس مقام کو لیار بالیوار والا علاقہ کہا جاتا تھا جو بعد میں لیاری کہا جانے لگا، ہنرمندوں، محنت کشوں، مایہ ناز کھلاڑیوں، سیاستدانوں، ممتاز مذہبی علما تحریک پاکستان میں سرگرم کردار ادا کرنے والے رہنما، فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے افراد دیے۔ لارنس روڈ پاکستان کوارٹرز سے آگے لسبیلہ چوک ہے۔

پاکستان کے سابقہ وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کے نام سے ناظم آباد کا قیام عمل میں آیا، ایک بلوچ لال محمد لالو کے نام سے لالو کھیت آباد کیا گیا، لالو کی حویلی موجود ہے کشادہ ہونے کی وجہ سے اس کو پہلا مکان کہا جاتا ہے۔

کیماڑی، میری ویدر ٹاور، کھارادر، میٹھادر، بولٹن مارکیٹ، مولوی مسافر خانہ، عیدگاہ بندر روڈ پر ہیں۔ بندر روڈ (ایم اے جناح روڈ) قائد اعظم کے مقبرے سے شروع ہو کر کیماڑی پر ختم ہوتا ہے، دوسرا پرانا میکلوڈ روڈ ہے . اسٹیٹ بینک آف پاکستان تقریباً تمام بینکوں کے ہیڈ آفس اور جی پی او، ٹیلی گراف آفس وغیرہ یہ تمام اسی روڈ پر ہیں، برنس روڈ آتما رام پریتم داس روڈ، بزنس ریکارڈر روڈ، میکلوڈ روڈ پر حبیب بینک پلازہ، پاکستان ریلوے کا سٹی اسٹیشن، فریر ہال کی طرف سے کلفٹن کو جاتے ہیں۔

وکٹوریہ روڈ جو کہ اب زیب النسا اسٹریٹ (روڈ) کے نام سے منسوب ہے، ریڈیو پاکستان بالکل ویسا ہی موجود ہے اس کے برابر میں جانوروں کا اسپتال برطانیہ کے دور سے  آج بھی قائم ہے، سول اسپتال، کراچی  میڈیکل کالج قائم ہوئے۔

’’چلی میری گھوڑا گاڑی، بندر روڈ سے کیماڑی‘‘ یہ گیت ہے پرانا لیکن آج بھی مشہور ہے، یاد آیا بندر روڈ پر ایک مشہور سینما لائٹ ہاؤس ہوتا تھا جو اب نہیں ہے، آگے کے ایم سی کا ہیڈ آفس لال جے پور کے پتھروں سے بنا ہوا ہے، سلوٹ نسل کے لوگوں نے اسے بنایا ان کی اولادیں آج بھی موجود ہیں، ساتھ ہی سٹی عدالتیں ہیں، آگے جوڑیا بازار لی مارکیٹ، بندر روڈ سے دوسری جانب ڈینسو ہال سے نکل کر نیو چالی پر پہنچتے ہیں۔

گروپنج مکھی ہنومان کا مندر، جو آج گرومندر کہلاتا ہے یہاں سے صدر، کلفٹن، قائد اعظم کا مقبرہ آگے وہ تمام عمارات آئیں گی جن کا مندرجہ بالا ذکر کیا گیا ہے، دوسری جانب جامعہ کراچی، اسٹیڈیم، گورا قبرستان، پی ای سی ایچ ایس وغیرہ، ایک طرف سولجر بازار تو دوسری طرف لیاقت آباد، ناظم آباد وغیرہ جاتے ہیں۔

جمشید سراونجی مہتا کے نام سے جمشید روڈ ہے، 1922ء سے 1933ء تک کراچی میونسپل کے منتخب صدر اور کراچی کے پہلے میئر رہے، انگریزوں نے اپنی آمد کے بعد کراچی صدر کے بعد آگے ہولی فیملی کے آس پاس فوجیوں کے لیے بیرکس تعمیر کرائیں مارکیٹ بنی جس کو سولجر بازار کہتے ہیں، گستاجی مہتا نے انکل سریا اسپتال بنوایا، مرکزی گورنمنٹ نے جناح اسپتال کراچی بنوایا جو بہت بڑا ہے

یہ سب پرانی کراچی کی یادیں ہیں جس میں ڈیفنس گلستان جوہر کورنگی وغیرہ کا کہیں نام و نشان تک نہیں ہے

Comments