۔95🌻) خواتین کا اسکول ، کالج میں تعلیم لینا


عموماً اسکول میں دینیات کی تعلیم نہیں ہوتی بلکہ بعض کتابیں ایسی پڑھائی جاتی ہیں جن سے لڑکیوں میں دین سے آزادی پیدا ہو جاتی ہے . پڑھانے والی دیندار نہیں ہوتی اور استاد کا اثر شاگرد پر ضرور ہوتا ہے . اس لیۓ صحبت بد سے لڑکیاں خراب ہو جاتی ہیں اور شریعت میں بری صحبت سے بچنے کی سخت تاکید ہے اس صورت میں پردہ کی احتیاط نہیں ہو سکتی جیسا کہ مشاہدہ ہے اس بے احتیاطی سے بعض دفعہ ناگوار صورتیں پیدا ہو جاتی ہیں {امداد الاحکام ١/ ٢١٠}

مفتی رشید احمد صاحب فرماتے ہیں کہ عورت کو عصر حاضر کے کالجوں یونیورسٹیوں میں تعلیم دلانے میں کئی مفاسد ہیں خواہ لڑکیوں کا لڑکوں کے ساتھ اختلاط نہ بھی ہو

عورت کا بلا ضرورت شرعیہ گھر سے نکلنا ، مردوں کو اپنی طرف مائل کرنے کا سبب بننا ، برے ماحول میں جانا  ، مختلف مزاج رکھنے والی عورتوں سے مسلسل اختلاط کی وجہ سے کئی خرابیوں کا جنم لینا ، کالج یونیورسٹی کی غیر شرعی تقریبات میں شرکت ، بلا حجاب مردوں سے پڑھنے کی معصیت ، بے دین عورتوں سے تعلیم حاصل کرنے میں ایمان و اعمال اور اخلاق کی تباہی اور بے دین عورتوں کے سامنے بلا حجاب جانا ۔۔۔ شریعت نے تو فاسقہ عورت سے بھی پردہ کرنے کا حکم دیا ہے

{قال العلامة إبن عابدین رحمه اللّٰه تعلیٰ ، ولا ینبغی للمرأة الصالحة ان تنظر الیها المرأة الفاجرۃ لانها تصفها عند الرجال فلا تضع جلبا بها ولا خمارھا کما فی السراج {رد المحتار:٥/ ٢٣٨}

 کافر اور بے دین قوموں کی نقالی کا شوق

اس تعلیم کے سبب حب مال اور حب جاہ کا بڑھ جانا ، اس وجہ سے دنیا و آخرت تباہ ہونا ، شوہر کی خدمت اولاد کی تربیت اور گھر کی دیکھ بھال صفائی وغیرہ جیسی فطری اور بنیادی ذمہ داریوں سے غفلت ، دفتروں میں ملازمت اختیار کرنا جو دین و دنیا دونوں کی تباہی کا باعث ہے ، مردوں پر ذرائع معاش تنگ کرنا ، شوہر پر حاکم بن کر رہنا ، مخلوط طریقہ تعلیم میں مفاسد مذکورہ کے علاوہ لڑکوں کے ساتھ اختلاط اور بے تکلفی کی وجہ سے لڑکوں ، لڑکیوں کی آپس میں دوستی ، عشق بازی ، بدکاری اور اغواء جیسے گھناؤنے مفاسد بھی پائے جاتے ہیں ، اس لیۓ عصر حاضر کے تعلیمی اداروں میں عورتوں کو دنیاوی تعلیم دلانا جائز نہیں

 الجواب مفتی رشید احمد رحمه الله علیه

حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمه اللّٰه علیه فرماتے ہیں کہ آج کل تعلیم جدید کے متعلق علماء پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ لوگ جدید تعلیم حاصل کرنے سے روکتے ہیں اور اسکو ناجائز بتلاتے ہیں حلانکہ میں بقسم کہتا ہوں کہ اگر جدید تعلیم کے {وہ برے} آثار نہ ہوتے جو علی العموم اس وقت اس پر مرتب ہو رہے ہیں ، تو علماء کرام ہر گز اس سے منع نہ فرماتے لیکن اب دیکھ لی جیۓ کہ کیا حالت ہو رہی ہے ، جس قدر جدید تعلیم  یافتہ لوگ ہیں باستشناء شاذ و نادر، انکو نہ نماز سے غرض ہے  ،نہ روزے سے ، نہ شریعت کے کسی دوسرے حکم سے بلکہ ہر بات میں شریعت کے خلاف ہی چلتے ہیں اور پھر کہتے ہیں اس سے اسلام کی ترقی ہو رہی ہے``{ فضل العلم والعمل :ص٨}

حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسن رحمه اللّٰه کا ارشاد ہے کہ اگرچہ انگریزی تعلیم کا آخری نتیجہ یہی ہے ہے عموماً جو دیکھا گیا ہے کہ لوگ نصرانیت کے رنگ میں رنگ جائیں یا ملحدانہ گستاخیوں سے اپنے مزہب والوں کا مزاق اڑائیں یا حکومت وقت کی پرستش کرنے لگیں تو ایسی تعلیم پانے سے ایک مسلمان کے لیۓ جاھل رہنا اچھا ہے

 {خطبة صدارت: ١٩٢٠ افتتاحیه مسلم نیشنل یونیورسٹی علی گڑھ}

باقی مسلمان لڑکیوں کے لیۓ اتنا انگلش پڑھنا کہ انگلش میں اپنا نام پتہ لکھ سکے اتنا سیکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ کبھی شوہر سفر میں ہو اس سے رابطہ میں مشکل نہ ہو پتہ پڑھنے کی ضرورت ہو تو غیر کے پاس جانے کی نوبت پیش نہ آۓ ۔۔۔ لڑکیوں کو اسکول کالج میں داخل کرکے اونچی تعلیم دلانا اور ڈگریاں حاصل کرنا جائز نہیں کہ اس میں نفع  کم اور نقصان کہیں زیادہ ہے (أثمهما أکبر من نفعهما: القرآن)

انگلش تعلیم اور کالج کے ماحول سے اسلامی عقائد اخلاق و عادات بگڑ جاتے ہیں آزادی بے شرمی بے حیائی بڑھ جاتی جیسا کہ اکبر الہ آبادی نے فرمایا

نظریں ان کی رہی کالج میں بس علمی فوائد پر

 گرائیں چپکے چپکے بجلیاں دینی عقائد پر

خلاصہ یہ ہے کہ زبان سیکھنے کی حد تک فی نفسہ اس تعلیم میں کوئی قباحت نہیں لیکن اسکول کالج کا موجودہ ماحول خراب ہونے کی بناء پر علمی فوائد حاصل ہونے کے ساتھ دین کا نقصان ہو جاتا ہے اس لیۓ اس ماحول میں رہ کر تعلیم حاصل کرنے کے عدم جواز کا فتویٰ دیا جاتا ہے اس لیۓ اپنی اولاد کو اس ماحول سے بچائیں نیز ماں باپ پر اولاد کا بڑا حق یہ ہے کہ ان کو اسلامی تعلیمات سے خوب اچھی طرح واقف کریں صرف رسمی طور پر کچھ ابتدائی دینی تعلیم دینا کافی نہیں ہے بلکہ عصری علوم کے ساتھ اسلامی تعلیمات اور تہذیب و اخلاق سے بھی انکو آراستہ کیا جاۓ یہ ان کا ماں باپ پر بہت بڑا حق ہے جسے پورا کرنا اور اس پر پوری توجہ دینا ہمارا دینی اور ملی فریضہ ہے اس کے بغیر ہم اپنے فریضہ سے سبکدوش نہیں ہو سکتے

خواتین کو ڈاکٹری کی تعلیم دلانے کا کیا حکم ہوگا جبکہ میڈیکل کالجوں میں مخلوط طریقہ تعلیم رائج ہے اور پڑھانے والے مرد استاذۂ کرام ہوتے ہیں ؟ 

اس بارے میں حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب زید مجدہم فرماتے ہیں شریعت کا اصل حکم تو یہ ہے کہ نا محرم مردوں اور عورتوں کے اختلاط سے پرہیز کیا جاۓ خاص طور پر ایسا مستقل مشغلہ اختیار کرنا جس میں نا محرم خواتین کے ساتھ مستقل میل جول ہو بغیر ضرورت جائز نہیں لھذا حکومت اور مسلم معاشرہ کی شرعی ذمہ داری ہے کہ وہ مخلوط تعلیم کی بجاۓ لڑکوں کے لۓ الگ اور لڑکیوں کے لۓ الگ تعلیمی ادارے قائم کریں لیکن جب تک ایسا انتظام نہ ہو تو چونکہ میڈیکل تعلیم حاصل کرنا ایک ضرورت ہے اور اس میدان میں متدین افراد کی کمی جسے دور کرنے کا یہی راستہ ہے کہ متدین افراد میڈیکل تعلیم حاصل کریں اس لۓ اگر اس تعلیم کے حصول کا وہ راستہ نہ ہو جو اوپر بیان کیا گیا تو اس شرائط کے ساتھ تعلیم کے حصول کی گنجائش معلوم ہوتی ہے کہ حتی الامکان اپنے آپ کو بے پردہ نامحرم خواتین سے دور رکھیں اور جہاں کہیں ایسی خواتین کا سامنا ہو وہاں نگاہ نیچی رکھیں اور اپنی نگاہ اور دل کی حفاظت کریں خواتین کے لۓ بھی میڈیکل تعلیم کا حصول اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ وہ پردہ کا مکمل اہتمام کریں اور مردوں کے قریب نہ بیٹھیں عورتوں کے لۓ تعلیم کی غرض سے مردوں کو دیکھنے کی گنجائش ہے مگر یہ گنجائش ضرورت کی حد تک محدود رہنی چاہۓ

ومقدمة رد المحتار: ١/ ٤٢ طبع سعید قال فی تبیین المحارم واما فرض الکفایة من العلم فهو کل علم لا یتغنی عنه فی قوام امور الدنیا کالطب والحساب

وفی الدر المختار: ٦/ ٣٧٠ {طبع سعید} ینظر الطبیب الی موضع مرضها بقدر الضرورۃ اذالضرورات تتقدر بقدرها وکذا نظر قابلة وختان وینبغی أن یعلم أمرأۃ تداویها لأن نظر الجنس الی الجنس أخف وفی الشامیة تحة فی الجوهرۃ اذا کان المرض فی سائر بدنها غیر الفرج فینبغی أن یعلم أمرۃ تداویها فان لم توجد وخافوا علیها أن تهلك أو یصیبها وجع لا تحتمله یستروا منها کل شئی الا موضع العلة ثم یدا ویها الرجل ویغض بصره ما استطاع الا عن موضع الجرح {فتویٰ عثمانی: ١/ ١٩٢}

حضرت اقدس مفتی رشید احمد لدھیانوی رحمه اللّٰه نے تحریر فرمایا عورت کے لٸے عصر حاضر کے میڈیکل کالجوں میں تعلیم حاصل کرنا جائز نہیں خواہ طریقہ تعلیم مخلوط ہو یا غیر مخلوط کیونکہ پڑھانے والے دونوں صورتوں میں مرد استاذہ ہوتے ہیں عورتوں کے لۓ طبی تعلیم کی صحیح صورت یہ ہے کہ مردوں سے علیحدہ انتظام ہو اور پڑھانے والی بھی خواتین ہوں نیز مردوں کی چیر پھاڑ بھی حرام ہے عملی مشق کے لۓ انسانی ڈھانچوں کی بجائے حیوانات کے ڈھانچے استعمال کیۓ جائیں ممالک اسلامیہ میں مسلمان خواتین کو ڈاکٹروں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ لڑکیوں کے علیحدہ میڈیکل کالجوں اور ہسپتالوں کا انتظام بسہولت کیا جاسکتا ہے { احسن الفتاویٰ :٨/ ٣٤

خواتین کے لیۓ سائنس حکمت اور اکنامکس کی تعلیم حاصل کرنے کا حکم

 اس بارے میں استاد محترم حضرت مفتی محمد تقی عثمانی زید مجدهم تحریر فرماتے ہیں خواتین اگر میڈیکل سائنس حکمت یا ہوم اکنامکس کی تعلیم اس غرض سے حاصل کریں کہ ان علوم کو مشروع طریقے پر عورتوں کی خدمت کے لیۓ استعمال کریں گی تو ان علوم کی تحصیل میں بزاتہی کوئی حرمت و کراہت نہیں بشرطیکہ ان علوم کی تحصیل میں اور تحصیل کے بعد ان کے استعمال میں پردے اور دیگر احکام شریعت کی پوری رعایت رکھی جاۓ اگر کوئی خاتون ان تمام احکام کی رعایت رکھتے ہوۓ یہ علوم حاصل کرے تو کوئی کراہت نہیں لیکن چونکہ آج کل ان میں بیشتر علوم کی تحصیل اور استعمال میں احکام شریعت کی پابندی عنقاء جیسی ہے اس کا عام مشورہ نہیں دیا جاسکتا

فی البحر {٨/ ١٩٢} والطیب انما یجوزله ذلك اذا لم یوجد امرأۃ طبیبة فلو وجدت گلا یجوزله أن ینظر لأن نظر الجنس الی الجنس أخف وینبغی للطیب أن یعلم امرأۃ ان أمکن {وفی الشامیة {٦/ ٣٧١}

{قوله وینبغی} کذا أطلقه فی الهدایة والخانیة وقال فی الجوهرۃ اذا کان المرض فی سائر بدنها غیر الفرج یجوز النظر الیه عند الداء لانه موضع ضرورۃ وان کان گی موضع الفرج فینبغی أن یعلم أمرۃ تداویها فان لم توجد وخافوا علیها أن تهلك والظاهر أن ینبغی ھنا للوجوب وکذافی الهندیة:٥/ ٣٣, وفی البدائع ٥/ ١٢٤}*

{ماخوذ از فتویٰ عثمانی:١/ ١٦٣}

Comments