غار ثور کی تجلیات بقلم:عبدالجبار
آج نماز فجر پڑھنے کے بعد جب میں صبح کے جھٹ پٹے میں حسب ترتیب سابق جبل ثور پہ گیا تو ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی دل کی دنیا بدل گئی حرمین شریفین کے آس پاس کی معروف آبادیوں میں اجیاد،محطۃ النسیم،بطحاء قریش،راشدیہ،عزیزیہ،حوالی،مشاعر اور شیشہ وغیرہ معروف،بارونق اور قدیمی آبادیاں ہیں۔حسن اتفاق سے ان آبادیوں میں کہیں نہ کہیں ہمارے شناسا،رفقاء و احباب اور قریبی رشتہ دار مقیم ہیں۔یہاں نماز فجر سے ظہر تک اور نماز عصر سے مغرب تک کے درمیان کافی وقفہ ہوتا ہے۔عام طور پہ آرام ملاقاتوں،مقامات متبرکہ کی زیارتوں اور کتب خانے دیکھنے کی ترتیب انہیں دو اوقاتوں میں سے کسی وقت طے کی جاتی ہے۔چنانچہ (اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے) کے مصداق فرصت کے لمحات میں آنا جانا رہتا ہے۔
کل شب چند احباب نے بندہ کو حکم دیا کہ غار ثور پہ ہم سب اکٹھے چلیں گے۔مگر بندہ نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ اپنی قلبی و باطنی کیفیات سے پورا حظ اٹھانے کے لئے کم از کم آج کا دن ہمیں اکیلا چھوڑ دیجے۔حتی کہ اہلخانہ بھی اپنے طور پہ الگ سے جا رہے ہیں۔ جب غار شریف کے دہانے پہ پہنچا تو جسم ناتواں کی رگ رگ سپیدۂ سحری میں بدل چکی تھی اور بدن کے ریشے ریشے کو بحمد اللہ تعالیٰ مصروف آہ و بکاء پایا۔ ایک عالم نے اپنے حرمین شریفین کے سفرنامہ میں ایک سطر لکھی تھی جو اللہ جانے کب پڑھی تھی۔مگر آج وہ ہاتھ باندھے بغتۃً یوں جلوہ گر ہوئی
کاش میں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے قدموں کی وہ چاپ ہوتا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غار ثور کی طرف گئے تھے
مگر بندہ نے جب اپنی حیثیت دیکھی تو وہ نہ یار غار کے قدموں کی چاپ بننے کے قابل نظر آئی اور نہ زمانہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ہوا کا کوئی جھونکا
پھر اچانک جب اس مقدس و معنبر اور منور و مطہر مقام کا خیال آیا اور خود کو وہاں کھڑے پایا تو اپنے مقدر کا ستارہ سر پہ ضوء فگن نظر آیا
سبحان اللہ العظیم کون کہتا ہے کہ اخلاص اور وفا ہواؤں میں بکھر جاتے ہیں؟
یا زمانے کی گردشی چکی میں پس جاتے ہیں؟
آج جبکہ مادی ترقی سعودی عرب میں دندنا رہی ہے اور کائنات ارضی کی ساری مصنوعات اقسام بہ اقسام کھنچ کھنچ کے اس طرف کا رخ کر رہی ہیں۔فلک بوس عمارتیں نہ جانے کب کی فلک سے بوس و کنار چھوڑ کے کہیں دور نکل چکی ہیں۔مگر جونہی جبل ثور پر چڑھنے کے لئے پہلا قدم اٹھایا جاتا ہے تو یوں لگتا ہے جیسے سارا جہان حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے جوتوں میں مشت خاک بن کے سمٹ آیا ہے۔چاروں طرف سے دنیا اپنی طنابیں کھینچ لیتی ہے۔علوم و فیوض اور معرفتوں کے سارے کے سارے چشمے اس ایک تصور کے آگے خشک ہو جاتے ہیں کہ میں ریزہ غار ثور کا یہاں بلند و بالا پہاڑ کی چوٹی پہ واقع غار ثور کے طنطنہ و طمطراق اور روح پرور سناٹوں نے عجیب وارفتگی کا سماں باندھ رکھا ہے جسے لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔میں غار شریف کو ہر جانب سے عاشقانہ و غلامانہ نظروں سے دیکھتا رہا۔اندر داخل ہو کر ان رشک بہشت زروں پہ اپنی آنکھیں لگائیں جہاں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اپنی گود مبارک میں سرور دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کا سر اقدس رکھ کے پہرہ دے رہے تھے۔اور اس جگہ پہ بھی اپنے ہاتھ مس کئے جہاں معروف قول کے مطابق حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے سوراخ پہ اپنے مبارک پاؤں کی ایڑھی ٹیک رکھی تھی۔ان کو ان کے نصیب کے مطابق ارفع شان ملی اور لاکھ گناہوں،کوتاہیوں اور عیوب کے باوجود محروم وہ بھی نہ رہے جو آج خود کو میں (ریزہ غار ثور کا )کے رنگ میں دیکھ رہے تھے۔
علماء کرام مکۃ المکرمۃ آنے والوں کو بطور خاص نصیحت فرمایا کرتے ہیں کہ اگر ہمت ہو تو غار ثور پہ ضرور جانا کیونکہ وہ اہل السنت والجماعت کا ہیڈ کوارٹر ہے۔اور قرآنی خلافت راشدہ موعودہ کے پہلے تاجدار کی عظیم یادگار ہے۔
واقعی آج کئ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی اس غار شریف کی شبابی و شادابی اپنے جوبن پہ ہے۔جس نے محبت و وفا کو مجسم دیکھنا ہو تو وہ غار ثور پہ آ کے چند لمحات کے لئے اپنی آنکھیں بند کر لے۔پھر ماضی کے جھروکوں میں کھو جائے تو اسے برگ گل کی نظافتیں،چاند کی چاندنی،سورج کی شعائیں،آسمان کی بلندیاں،زمین کی وسعتیں،سمندروں کی موجیں،آبشاروں کا رقص،درختوں کا حسن،حسین وادیوں کی رعنائیاں،زبانوں کی طلاقت اور دماغوں کا شعور سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دل افروز جمال میں پا گرفتہ نظر آئے گا۔شہنشاہ اور بادشاہ یہاں آ کے بار عیش کھول دیتے ہیں۔بلکہ سبھی کچھ بھول جاتے ہیں۔شاعری کے بڑے بڑے طناز اور نغز گو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی منقبت میں کچھ ایسے گم ہو جاتے ہیں کہ ان کی ایمانی و وجدانی حالت کو دیکھ کر اہل علم بہ چشم ہوش فیصلہ سناتے ہیں کہ
اذھما فی الغار اذ یقول لصاحبہ لاتحزن ان اللہ معنا
کے حقیقی نور سے آج بھی غار ثور کی تنہائیاں معمور ہیں۔
جی ہاں یہ وہ اصلی غار ہے جو مکۃ المکرمۃ کے جبل ثور پہ بھی نظر آتی ہے اور قرآن مجید کی آیت غار کا بھی مستقل سرنامہ ہے۔
ہجرت کی رات مکہ والوں کی امانتیں حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ کے سپرد ہوئی تھیں۔جبکہ اللہ تعالیٰ کی امانت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے سپرد ہوئی۔ایک ہی رات میں رب العزت نے دونوں کو کس قدر نواز دیا کہ علی رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کا بستر لے گئے اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بستر والا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم لے گئے
غار ثور پہ بیٹھے جب مجھے میری مفلوک الحالی،تہی دامنی،علمی و عملی بے بضاعتی اور ناتوانی نے سراسیمہ و شرمندہ کیا تو ایک بار پھر اچانک اس تصور نے بیدار کر کے نجات کی امنگ پیدا کر دی کہ میں تو اس وقت غار ثور پہ ہوں اور میرا ایمان ہے کہ یہاں آنے والوں کو اللہ پاک کبھی رسوا نہیں کرے گا
Comments
Post a Comment