122) حروف سبعہ‘‘ کیا ہیں؟ (علمی مضمون)

حروف سبعہ‘‘ کیا ہیں؟ 

صحیح بخاری ’’کتاب فضائل القرآن ‘‘میں ایک روایت مذکور ہے کہ’’ قرآن کریم سات حروف پر نازل کیا گیا ہے، پس اس میں سے جو تمہارے لیے آسان ہو اس طریقے پر پڑھ لیا کرو

۔(۱)یہ حدیث کئی ایک طرق سے منقول ہے

۔(۲)اس حدیث میں مذکور ’’سات حروف ‘‘ سے کیا مراد ہے؟ 

اس کی تعیین میں ماہرین فن علوم قرآن کے ایک سے زائد اقوال ہیں۔ حافظ ابو حاتم بن حبان بستیؒ کے مطابق ان اقوال کی تعداد پینتیس ہے

۔(۳)۔لیکن ابن العربیؒ کے مطابق ان اقوال کا استناد کسی نص یا کسی روایت پر نہیں

۔ (۴) بلکہ ان تمام اقوال میں عقلی قرائن کو بنیاد بنایا گیا ہے۔اسی بحث کی ایک ذیلی شاخ ’’قراءات سبعہ و عشرہ‘‘ کی تحقیق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ زرکشی نے ’’احرف سبعہ بحث سے متصل اس موضوع کو چھیڑا ہے

۔(۵) کیا ان قراءات کا ثبوت ہے یا نہیں؟ 

کیا یہ قراءات اب تک محفوظ و موجود ہیں یا نہیں؟

 اور کیا یہ قراءات سبعہ و عشرہ یہی حروف سبعہ ہیں؟

 یہ تین بنیادی سوالات ہیں جو ان قراءات کے متعلق اٹھتے ہیں، اور تینوں ہی کی اہمیت کا علوم قرآن سے شغف رکھنے والوں کو بخوبی اندازہ ہے ۔ علامہ زاہد کوثریؒ نے اپنے اس مضمون میں جس کا ترجمہ قاری کے پیش نظر ہے، حروف سبعہ پر بحث کرتے ہوئے قراءاتِ سبعہ و عشرہ پر اختصار لیکن جامعیت کے ساتھ بحث کی ہے، اور تینوں ہی سوالات کے بلا تعیین و ترتیب جوابات دینے کی کوشش کی ہے۔ حروف سبعہ کی تعیین میں آراء کو پیش نظر رکھتے ہوئے قراء اتسبعہ و عشرہ کے متعلق بعض متقدمین اہل علم کی متفرد رائے پر کڑی تنقید کی ہے، جن کے ہاں یہ قراءات سرے سے ثبوت ہی نہیں رکھتی ہیں۔ ان اہل علم کی جلالت و مرتبت کو سامنے رکھتے ہوئے ان کے اس تفرد پر ان کے عذر کو بھی بیان کیا ہے۔

قابل تشویش بات یہ ہے کہ اس قابل گرفت اور خطرناک تفرد کو ماضی قریب کے بعض اہل علم اور بعض معاصرین نے بھی اختیار کیا ہے،لیکن جن کمزور دلائل پر اس دعویٰ کی بنیاد رکھی گئی ہے، وہ ہرگز اس بھاری رائے کو اٹھانے کے متحمل نہیں ہیں۔علامہ کوثری کا مضمون اپنے اجمال کے باوجود زیر بحث پیچیدہ موضوع کو سمجھنے کے لیے کلید قرار دیا جا سکتا ہے، جس میں متعلقہ مظان و مواد کی رہنمائی سمیت قابل قدر اجمالی اشارات موجود ہیں۔(از مترجم)

امت محمدیہ کی بے نظیر و بے مثال قرآنی خدمات

     تاریخ انسانی نے ماضی میں گزری اقوام میں سے کسی قوم کی بابت یہ بات نقل نہیں کی کہ اس قوم نے اپنی (طرف نازل ہونے والی)کتاب کی تعلیم و تعلم اور حفاظت کا اس قدر اہتمام کیا ہو، جس قدر اہتمام امت محمدیہ نے قرآن کریم یاد کرنے اور یاد کروانے، نیز جن علوم کو قرآن سے کچھ بھی تعلق ہو اس کی تعلیم و تدوین کے سلسلے میں کیا۔ امت محمدیہ کی طرف سے یہ اہتمام صبح اسلام کی طلوع سے گزری صدیوں سے تا حال جاری ہے اور جب تک اللہ تعالیٰ چاہیں گے جاری رہے گا۔ خداوند جل شانہ نے اس کی حفاظت کا وعدہ سچ کر دکھایا، جس وعدے کے متعلق خود خداوند نے فرمایا تھا

إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ (سورۃ الحجر:۹)

 بے شک یہ (کتاب )نصیحت ہم نے اتاری ہے اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں

شہر ، دیہات اور تمام اسلامی علاقوں میں چھوٹے بڑے، جوان بوڑھے ہر عمر کے افراد قرآن کریم کو زبانی یاد کرتے ہیں اور بڑے بڑے شہروں سے دور کسی چھوٹے سے علاقے میں بھی اگر کوئی قاری قرآن کے کسی کلمے، کسی حرف یا کسی حرکت میں ہی غلطی کر جائے تو اس قاری کو وہاں ایسے لوگ ضرور ملیں گے جو اس کی غلطی کی نشاندہی کریں اور درستگی کی جانب اس کی رہنمائی کریں۔ حفاظت ِقرآن کے نبوی اقدامات اور صحابہ کرام کی کوششیں خود نبی کریم ﷺ بھی قرآن کریم کے ہر جز و حصے کے اترتے ہی اس کے یاد کروانے کا خصوصی اہتمام فرمایا کرتے تھے۔

 آپ ﷺ صحابہ کو قرآن کریم سیکھنے اور سکھانے کی ترغیب دیتے ہوئے فرماتے:’’ تم میں سے بہترین ہے وہ شخص جو قرآن کریم کو سیکھے اور سکھائے۔‘‘ کتب حدیث میں اس مضمون سے متعلق دسیوں صحیح احادیث منقول ہوئی ہیں۔نبی کریم ﷺ نے ہجرت سے قبل عقبہ اولیٰ کے موقع پر اوس و خزرج کو قرآن کریم کی تعلیم دینے کی غرض سے سیدنا مصعب بن عمیر کو مدینہ منورہ روانہ کیا۔ آپؓ مدینہ کے دار القراء میں ٹھہرے اور اہل مدینہ کو قرآن کریم سکھلایا۔ ہجرت کے بعد مسجد نبوی کا صفہ دار القراء ہی کی مانند تھا، جس میں وہ فقرا صحابہ ٹھہرا کرتے تھے جن کے اہل و عیال نہ تھے۔

 یہ حضرات وہاں قرآن کریم کی تعلیم حاصل کرتے اور پھر پے در پے حاصل ہونے والی فتوحات کے زمانے میں مفتوحہ علاقوں میں جا کر وہاں کے باشندوں کو قرآن کریم پڑھاتے۔نبی کریم ﷺ کے حکم ہی سے مدینہ منورہ میں کبار صحابہ کی ایک جماعت لوگوں کو قرآن کریم کی تعلیم دینے کے لیے مختص تھی، جس کی وجہ سے مدینہ منورہ قراء سے بھرا رہتا تھا۔مکہ مکرمہ میں بے شمار افراد کو قرآن و علوم قرآن کی تعلیم دینے کے سلسلے میں پہلے سیدنا معاذ اور پھر سیدنا ابن عباس نے خوب اہتمام کیا۔

سیدنا ابن مسعود نے اہل کوفہ کی ایک بڑی جماعت کو قرآن و علوم قرآن کی تعلیم دی۔ بعض ثقات اہل علم نے ابن مسعود سے شرف تلمذ حاصل کرنے والے حضرات کی تعداد چار ہزار تک بیان کی ہے، جن میں بعض نے براہ راست ابن مسعود سے اور بعض نے ابن مسعود ہی کے کسی شاگرد کے واسطے سے یہ شرف حاصل کیا ہے۔اسی قسم کے کارہائے نمایاں سیدنا ابو موسیٰ اشعری نے بصرہ میں انجام دیے۔

 حفظ قرآن کی تعلیم گاہیں اور صحابہؓ و تابعینؒ اساتذہ کا طرزِ تدریس حافظ ابن ضریس ابو عبد اللہ محمد بن ایوب بجلی نے اپنی کتاب ’’فضائل القرآن‘‘ میں اپنی سند سے ابو رجا عطاردی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ: ابو موسی بصرہ کی اس مسجد میں (ہماری نگرانی کرتے ہوئے) چکر لگایا کرتے تھے اور ہمیں مختلف حلقوں میں بٹھا کر قرآن کریم پڑھاتے تھے۔ 

سیدنا ابو درداء دمشق کی جامع مسجد میں طلوع شمس سے ظہر تک روزانہ قرآن کریم پڑھاتے تھے۔ آپؓ طلبا کو دس دس میں تقسیم کرتے اور ہر دس طلبا پر ایک نگران مقرر کرتے جو ان کو قرآن کریم سکھاتا اور خود سب کی سرپرستی کرتے۔ یہ طلبا جب کہیں غلطی کرتے تو سیدنا ابو دردا سے رجوع کرتے۔ یہ روایت ابوزرعہ دمشقی کی تاریخ دمشق اور تاریخ ابن عساکر دونوں میں اسی طرح ہے۔ یہی حال ان حضرات کے شاگردوں اور ان کے شاگردوں کے شاگردوں کا تھا ۔ یہی سیدنا ابن عامر کو لے لیجیے، جو قراء سبعہ کے طبقے میں سب سے پہلے اور پرانے ہیں، دمشق میں صرف آپؒ کی سرپرستی میں چار سو نگران‘ بچوں کو قرآن کی تعلیم دیا کرتے تھے ۔یہ وہ امام قراءت ہیں جن کی قراءت کے بارے میں شوکانی اور قنوجی گفتگو کی جرأت کرتے ہیں جب کہ ان دونوں کو اس کا کوئی حق نہیں،

 حالانکہ خود قراءاتِ متواترہ پر گفتگو ایک پر خطر معاملہ ہے۔ ابن جزری کی ’’النشر الکبیر‘‘ کی دوسری جلد میں ایک نہایت مفید بحث ہے جو شوکانی اور قنوجی جیسے ان تمام حضرات کی پرزور تردید کرتی ہے جو قراءاتِ متواترہ کی مخالفت کر کے خود بھی غلطی کرتے ہیں اور دوسروں کو غلطی میں ڈالتے ہیں، جس کی تفصیل میں نے سال ۱۳۵۷ھ کے رسالہ ’’اسلام‘‘ کے شائع کردہ تین شماروں ۱۱، ۲۵، اور ۲۶ میں بیان کی ہے۔

 قراءاتِ مشہورہ کی اہمیت اور ان قراءات کے انکار کا حکم سات ائمہ بلکہ دس ائمہ سے مروی قراءات جو نبی کریم ﷺ پر آخر عمر کے رمضان میں پیش کی گئیں، قرآن کریم کے وقت سے لے کر صدیوں سے بطریق تواتر نقل ہوتی آرہی ہیں، یہ تمام قراءات قرآن کریم ہی کے حصے ہیں، لہٰذا ان میں سے کسی قراء ت کا انکار بہت خطرے کی بات ہو سکتی ہے۔ البتہ اس قدر ضرور ہے کہ متواتر قراءات میں سے بعض قراءات وہ ہیں جن کے تواتر کو جمہور اہل علم بلاشک و شبہ جانتے ہیں اور بعض قراءات وہ ہیں جن کے تواتر کو صرف فن قراء ت کے ماہر قراء جانتے ہیں۔

 عام اہل علم کو ان قراءات کے متعلق علم نہیں ہے،چنانچہ پہلی قسم کی قراءات میں سے کسی قراءت کا انکار تو بالاتفاق کفر ہوگا، جب کہ دوسری قراءات میں سے کسی قراءت کا انکار اس وقت کفر ہو گا، جب کہ انکار کرنے والا دلائل کے پیش کر دیے جانے کے باوجود اپنے انکار پر مصر ہو۔اگر یہ تنقیح و تفصیل نہ کی جائے تو ابن جریر اور زمخشری کی جانب سے بعض ان قراءات سبعہ کے متعلق گفتگو جن کا تواتر ماہرین فن قراء ت کے نزدیک ثابت ہے- بہت خطرناک ہو سکتی ہے۔ابن جریر کو علوم قراءت میں مہارت حاصل کرنے کا موقع نہ مل سکا، انہوں نے پانچ شہروں کے قراء کی قراءات میں اختلاف کے بیان کے بارے میں ابو عبیدؒ کی کتاب سے نقل پر اکتفا کیا، چنانچہ جن غلطیوں سے ایک ماہر فن قراءت محفوظ رہتا ہے، ابو عبیدؒ بھی علم قراءت کے میدان کے فرد نہیں ہیں، بلکہ ان کی کوششیں بھی کئی ایک علوم میں منتشر تھیں، البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ قراء کے اختلاف قراءات کے بارے میں سب سے پہلے آپ نے کتاب تالیف کی۔ 

ان تمام وجوہ کی بنیاد پر ابن جریر اور ابو عبید کو تو ان کے غلطی کر جانے میں معذور قرار دیا جا سکتا ہے،لیکن دلیل و حجت کے ذریعے ان کی غلطی و اضح ہو جانے کے بعد بھی جو شخص ان کی تقلید کرے، وہ ہرگز معذور قرار نہیں دیا جا سکتا۔ قراءاتِ متواترہ کے چند مظان ابو عمرو دانی کی ’’التیسیر‘‘، شاطبی کی ’’حرز الأمانی‘‘ میں جو قراء سبعہ کی سات قراءات منقول ہیں، وہ سوائے چند کے جن کی اہل فن نے وضاحت کر دی ہے، سب کی سب متواتر ہیں،  اسی طرح ’’منجد المقرئین‘‘ اور ’’النشر الکبیر‘‘ میں منقول وہ تین قراءات بھی متواتر ہیں، جن سے دس قراءات کی تعداد پوری ہوتی ہے۔ مزید براں’’منجد‘‘ میں ان قراءات کے ہر طبقے میں (مجموعی طور پر ) تواتر کے ثبوت کے بارے میں تفصیل بھی موجود ہے،

 جب کہ انہوں نے ہر طبقے میں ان دس قراءات کے تمام قراء کا مکمل احاطہ بھی نہیں کیا۔ قراءاتِ متواترہ کے بارے میں اہل علم کا اختلاف مختلف قراءات کے اختیار کرنے میں ان قراء کے نقطہ ہائے نظر کا باہمی اختلاف (نہ کہ ایک دوسرے کا انکار) ہی ان کی جانب سے دیگر قراءات کے تواتر کا اعتراف ہے، اور دوسری قراءات کو بھی ان کی طرف سے جائز قرار دینا شمار ہو گا

 چاہے ہم ان کے اس اختلاف کو ایک ہی قراءت کی مختلف صورتیں کہیں یا اس اختلاف ہی کو ’’ حروف سبعہ‘‘ شمار کریں جو زمانے سے محفوظ چلے آرہے ہیں۔ پہلی رائے (کہ یہ اختلاف ایک ہی قراءت کی مختلف صورتیں ہیں) اہل علم کی اس جماعت کی ہے کہ جن کے مطابق یہ’’ حروف سبعہ‘‘ زمانۂ نزول قرآن کے وقت تھے اور نبی کریم ﷺ ہی کے زمانے میں جب آپ ﷺ پر قرآن کریم آخری مرتبہ پیش ہوا یہ حروف منسوخ کر دیے گئے تھے اور صرف ایک حرف باقی رہ گیا تھا۔

اسی طرح یہ رائے ان اہل علم کی بھی ہے جن کے مطابق سیدنا عثمان نے لوگوں کو ایک قراءت پر جمع فرما دیا تھا اور باقی چھ قراءات سے بوجہ مصلحت منع فرما دیا تھا۔ ابن جریر کی رائے یہی ہے، جس رائے کو لوگوں نے بہت بہتر سمجھ کر اختیار کر لیا۔ لیکن یہ بڑی خطرناک رائے ہے اور ابن حزم  نے ’’الفصل‘‘ اور ’’الاحکام‘‘ میں اس رائے پر بہت کڑی تنقید کی ہے اور اس تنقید میں وہ برحق بھی ہیں ۔ دوسری رائے

 (کہ اس اختلاف ہی کو ’’ حروف سبعہ‘‘ شمار کیا جائے)

اہل علم کی اس جماعت کی ہے جن کے مطابق یہ سات قراءات عرضۂ اخیرہ(یعنی نبی کریم ﷺ پر جبریل  کے دہن مبارک سے آخری مرتبہ پیش کیے گئے قرآن کریم کے وقت )سے محفوظ ہیں۔اسی طرح یہ قراءات سیدنا ابو بکر اور سیدنا عثمان کے حکم سے صحابہ کرام کے جمع کردہ مصاحف میں بھی محفوظ ہیں۔ چونکہ اس وقت کے رسم الخط میں الفاظ کی خاص شکلیں، نقطے اور کلمات کے درمیان میں مختلف الف وغیرہ نہیں تھے، 

اس لیے جب مختلف قراءات کو ایک ہی خط میں ایک ساتھ جمع کرنا ممکن تھا، تو انہیں ایک ہی خط میں جمع کر دیا گیا، جب کہ جن قراءات میں کسی حرف کی کمی بیشی ہوتی ان قراءات کو جمع عثمانؓ میں مصاحف پر تقسیم کر دیا گیا تھا اور جمع ابی بکرؓ میں حاشیے پر تحریر کر دیا گیا تھا۔یہ تفصیل ’’المقنع ‘‘اور مشہور قصیدہ رائیہ کی شروح سے معلوم ہوتی ہے۔

جمہور اہل علم کی یہی رائے ہے، جن میں ابن حزمؒ، ابن جبارہؒ، جعبریؒ وغیرہ شامل ہیں۔یہاں اہل علم کے ان اقوال کی تفصیل بیان کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ حدیثِ ’’حروف سبعہ ‘‘کے متعلق اہل فن کی توجیہات قرآن کریم کا سات حروف پر نازل ہونے کا بیان احادیث میں تواتر کے ساتھ منقول ہے، لیکن ان روایات کی تفسیر و تاویل میں تقریباً چالیس اقوال ہیں، 

جن میں سے کچھ ہی ہیں جن پر بحث کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ فتح مکہ تک قرآن کریم کا بیشتر حصہ ایک ہی لغت ، لغت قریش کے مطابق نازل ہوتا رہا ۔ (بعد ازاں جب) لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہونا شروع ہوئے اور کئی ایک عرب قبائل کے وفود آنا شروع ہوئے، تب اپنی لغت و لہجے سے یک دم نبی کریم ﷺ کی لغت و لہجے کی طرف منتقلی کی صعوبت سے انہیں آسانی مہیا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ اجازت عطا فرمادی کہ یہ قبائل قرآن کریم کو اپنی لغت اور اپنے لہجوں کے مطابق پڑھیں،

 جیسا کہ بخاری، مسلم ، ترمذی وغیرہ کتب حدیث میں منقول سیدنا ابی بن کعب کی روایت سے معلوم ہوتا ہے۔امام طحاوی ’’مشکل الآثار‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’ چونکہ لوگ اپنی لغت کے علاوہ کسی اور لغت کے مطابق قرآن کریم پڑھنے میں دشواری محسوس کرتے تھے، اس لیے انہیں ان حروف و کلمات کی ادائیگی میں گنجائش دی گئی (کہ وہ انہیں اپنی لغت کے مطابق ادا کریں)جہاں الفاظ مختلف اور معنی ایک تھے، وہاں الفاظ کے مختلف پڑھنے کی اجازت دی گئی۔ یہ حالت برقرار رہی تا آنکہ جب لکھنے والوں کی تعدا بڑھ گئی اور لوگوں کی زبان رسول کریم ﷺ کی زبان کے مطابق ڈھلنے لگی اور ان میں رسول کریم ﷺ کے الفاظ یاد رکھنے کی صلاحیت پیدا ہوگئی، تو ان کے لیے ان الفاظ کے علاوہ کسی اور لفظ کے ساتھ پڑھنے کی گنجائش بھی ختم ہوگئی۔

امام قرطبی فرماتے ہیں: ’’ابن عبد البر کہتے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ یہ سات حروف ضرورت کی وجہ سے ایک خاص وقت تک برقرار رکھے گئے، پھر جب ضرورت ختم ہوگئی تو ان سات حروف کے مطابق ادائیگی کی گنجائش بھی ختم کر دی گئی، اور قرآن کریم کو اسی ایک حرف کے مطابق پڑھا جانے لگا۔‘‘ امام طحاوی  نے مشکل الآثار کی چوتھی جلد (صفحہ: ۱۸۱ تا ۱۹۴) میں اس موضوع پر اس قدر سیر حاصل بحث کی ہے، جس کی مثال کسی اور کتاب میں آپ کو نہیں ملے گی۔ حدیث ’’ما لم تختم عذابا برحمۃ أو رحمۃ بعذاب‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے من جملہ اور کئی نکات کے ایک بات یہ فرمائی ہے: ’’اس حدیث میں بھی اس بات پر دلالت موجود ہے کہ سات حروف اسی طرح تھے جس طرح ہم نے ذکر کیے،

 اور وہ ایسے تھے کہ ان کے الفاظ چاہے مختلف ہوں، لیکن ان کے معانی مختلف نہیں ہوتے تھے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی ایک گنجائش تھی جو ان کی ضرورت و حاجت کے پیش نظر دی گئی تھی۔ نبی کریم ﷺ پر جو کچھ نازل ہوا، وہ ایک ہی الفاظ کی صورت میں نازل ہوا تھا۔‘‘ امام شافعی ’’اختلاف الحدیث‘‘ میں تشہد کے کلمات کے اختلاف پر بحث کے دوران کہتے ہیں: ’’بعض صحابہؓ نے کچھ الفاظِ قرآن کے بارے میں نبی کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں اپنے اختلاف کا تذکرہ کیا ہے، ان الفاظ کے معنی میں کوئی فرق نہیں تھا، نبی کریم ﷺ نے ان کو اپنے اختلاف پر برقرار رکھا اور فرمایا: ’’اسی طرح سات حروف پر نازل ہوا ہے، جیسے آسانی ہو تلاوت کرو۔‘‘(جب قرآن کریم میں اس قدر گنجائش ہے تو )قرآن کریم کے علاوہ دیگر اذکار کے بارے میں الفاظ کی تبدیلی کی -جب کہ اس سے معنی میں تبدیلی نہ ہوتی ہو- بطریق اولیٰ گنجائش ہونی چاہیے۔ امام سخاوی الفیہ عراقی کی شرح (صفحہ: ۲۷۷) میں ’’حدیث کی روایت بالمعنی ‘‘ کے موضوع پر گفتگو کے سلسلے میں فرماتے ہیں

امام شافعی کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کے ساتھ نرمی کا معاملہ کرتے ہوئے قرآن کریم کو سات حروف پر نازل کیا ہے، اس لیے کہ باری عز اسمہ جانتے ہیں کہ یادداشت میں بھول چوک ہو سکتی ہے (سات حروف پر نازل کرنے کی حکمت اس وجہ سے برتی گئی) تاکہ قرآن کریم کی تلاوت اس وقت تک جائز رہے جب تک کہ الفاظ کے مختلف ہونے کے باوجود معنی میں کسی قسم کی تبدیلی و تغیر نہ ہو۔ (جب کلام خداوندی کے بارے میں یہ گنجائش موجود ہے تو)قرآن کریم کے علاوہ دیگر نصوص میں تو الفاظ کی تبدیلی کی- جب تک کہ اس سے معنی میں کسی قسم کی تبدیلی پیدا نہ ہوتی ہو- بطریق اولیٰ گنجائش ہوگی۔

 امام شافعی سے پہلے، امام یحیٰی بن سعید قطان بھی اس طرح کی بات کر چکے ہیں، وہ کہتے ہیں:’’قرآن کریم (مرتبہ و مقام کے حوالے سے )حدیث سے برتر ہے اور قرآن کریم کے بارے میں رخصت ہے کہ آپ اس کو سات حروف کے مطابق پڑھیں۔ خطیب نے ’’الکفایۃ‘‘ (صفحہ: ۲۱۰) میں یحیی بن سعید کا یہ فرمان سند کے ساتھ نقل کیا ہے

 مجھے ڈر ہے کہ لوگوں کے لیے (حدیث کے)الفاظ کا تتبع اور ان کی رعایت بہت دشوار ہو گی، اس لیے کہ قرآن کریم (حدیث سے )زیادہ حرمت اور قدر کا حامل ہے، اور اس میں اس بات کی گنجائش دی گئی ہے کہ جب تک معنی تبدیل نہ ہوں ایک سے زائد طریقوں سے اس کو پڑھا جاسکتا ہے۔‘‘ (تب حدیث میں تو بطریق اولیٰ روایت بالمعنی کی گنجائش ہونی چاہیے)۔ سورۂ فرقان کی تلاوت میں سیدنا عمر اور سیدنا ہشام بن حکیم کے مابین ہونے والے اختلاف اور نبی کریم ﷺ کے فرمان : ’’بیشک یہ قرآن سات حروف پر نازل ہوا ہے، جو اس نازل کردہ میں سے آسان لگے اسی کے مطابق تلاوت کرو‘‘ کی شرح میں فتح الباری میں ہے: ’’اس حدیث میں قرآن کریم کے متعدد لغات پر نازل کیے جانے کی حکمت کی طرف اشارہ ہے کہ یہ تلاوت کرنے والے کے لیے سہولت پیدا کرنے کی خاطر تھا۔

اس تشریح سے ان اہل علم کی تائید ہوتی ہے جن کے مطابق حدیث میں مذکور ’’أحرف‘‘ سے مراد ایک معنی کو ادا کرنے کے لیے مترادف لفظ کا استعمال ہے، چاہے یہ ایک ہی لغت میں کیوں نہ ہو، اس لیے کہ صاحب واقعہ سیدنا ہشام اور سیدنا عمر دونوں ہی کی لغت لغت قریش تھی، اس کے باوجود ان کی قراءات میں اختلاف واقع ہوا۔ اس نکتے پر ابن عبد البر نے تنبیہ فرمائی ہے، اور اکثر اہل علم سے نقل کیا ہے کہ ’’احرف سبعہ‘‘ سے یہی مراد ہے۔ ابوعبید و دیگر کی رائے ہے کہ اس سے مراد لغات کا اختلاف ہے، ابن عطیہ کی یہی رائے ہے۔ ان کے مطابق اختلافِ قراءات سے فصیح اور افصح کا اختلاف مراد ہے۔ قرآن کریم پہلے پہل لغت قریش ہی کے مطابق نازل ہوا تاہم بعد میں امت پر آسانی کی خاطر اجازت دی گئی کہ وہ قرآن کریم کو لغت قریش کے علاوہ بھی پڑھ سکتے ہیں۔ 

یہ اس وقت کی بات ہے جب عرب کثرت سے اسلام میں داخل ہوئے، روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ آسانی فتح مکہ کے بعد کی گئی ۔ ان حضرات اہل علم کی رائے کا حاصل یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کے ارشاد گرامی: ’’قرآن کریم سات حروف پر نازل کیا گیا‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ قاری کے لیے سہولت رکھی گئی تھی کہ وہ قرآن کریم کو سات طریقوں سے پڑھ سکتا ہے، اس کے لیے گنجائش ہے کہ ایک طریق کو چھوڑ کر دوسرا طریق اختیار کرلے، گویا کہ سات طرق پر قرآن کریم کا نزول اس شرط یا اس گنجائش کے ساتھ مشروط تھا ، تاکہ قرآن کریم کی تلاوت میں سہولت پیدا ہو جائے، اس لیے کہ ایک ہی طریقے(لہجہ و لغت)کے اختیار کرنے کو لازم کر دیا جاتا تو وہ لوگ مشقت میں پڑ جاتے۔ 

ابن حجر نے ابن قتیبہ کے مشکل القرآن میں ذکر کردہ اس نکتے کو ذکر کیا ہے کہ ہذلی (یعنی بنو ہذیل ،قرآن کریم کی قراءات مشہورہ کے الفاظ ’’حتی حین‘‘ کو ) ’’عتی عین‘‘ پڑھتے ہیں،اسدی(بنو اسد ، ’’تعلمون‘‘ تا پر زبر کے ساتھ کو ) ’’تعلمون‘‘  تا پر زیر کے ساتھ پڑھتے ہیں، تمیمی (بنو تمیم) ہمزہ پڑھتے ہیں، جب کہ قرشی (اہل قریش) ہمزہ نہیں پڑھتے۔ ابن قتیبہ مزید کہتے ہیں: اگر ہر فریق ارادہ کرتا کہ وہ اپنے اس لب و لہجے اور لغت کو چھوڑ دے جس کا وہ بچپن، جوانی، اور ادھیڑ عمر سے عادی ہے تو یہ بات ان کے لیے بہت زیادہ گراں ہوتی، چنانچہ باری عز اسمہ نے اپنے فضل و احسان سے ان پر یہ نرمی اور سہولت فرما دی۔ اگر حدیث بالا کی مراد یہ ہوتی کہ قرآن کریم کا ہر ہر کلمہ سات طریقوں سے پڑھا جاسکتا ہے تو حدیث کے الفاظ: (’’ أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف ‘‘کے بجائے )’’أنزل القرآن سبعۃ احرف‘‘ ہوتے۔

 حدیث کی مراد یہ ہے کہ کسی بھی کلمے میں ایک، یا دو، یا تین، یا زیادہ سے زیادہ سات وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ابن عبد البر کہتے ہیں: اکثر اہل علم نے حدیث میں موجود لفظ ’’أحرف‘‘ کے ’’لغات‘‘ کے معنی میں ہونے کا انکار کیا ہے، جیساکہ سیدنا ہشام اور سیدنا عمر کے مابین اختلاف والی مذکورہ روایت سے واضح ہو جاتا ہے،اس لیے کہ ان دونوں کی لغت کے ایک ہونے کے باوجود ان میں اختلاف ہوا۔ اکثر اہل علم کا کہنا یہی ہے کہ حدیث میں مذکور ’’سات حروف‘‘ سے مراد ایک معنی رکھنے والے مختلف الفاظ (یعنی مترادفات )کے استعمال کی سات صورتیں ہیں، مثلاً: أقبل، تعال ، ہلم ،(یہ تینوں مترادف الفاظ ہیں جو ایک دوسرے کی جگہ استعمال ہوسکتے ہیں)۔ 

    ابن حجر نے ایک تنبیہ یہ ذکر کی ہے کہ یہ گنجائش اور اجازت محض تشہی اور دل چاہنے کی خاطر نہ ہونی چاہیے کہ ہر شخص اپنی لغت کے مطابق جس کلمے کے مترادف کو استعمال کرنا چاہے بلا قید استعمال کرے، بلکہ اس میں نبی کریم ﷺ سے سماع کی رعایت ضروری ہے ۔ اسی کی طرف سیدنا ہشام اور سیدنا عمر کے الفاظ اشارہ کرتے ہیں جو حدیث باب میں مذکور ہوئے:(یعنی دونوں حضرات نے یوں فرمایا:) ’’مجھے نبی کریم ﷺ نے اس طرح پڑھایا ہے‘‘۔پھر کہتے ہیں: لیکن ایک سے زائد صحابہ کرام سے منقول ہے کہ وہ اپنے تئیں مترادفات استعمال کر لیا کرتے تھے، گو کہ وہ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے نہ سنے ہوں، الی آخرہ۔ اس بحث کو ابن حجر نے کافی تفصیل سے (جلد: ۹، صفحہ: ۲۲پر ) بیان کیا ہے۔ 

خلاصۂ بحث گزشتہ ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ

 ۔۱:… قراء ات سبعہ جو ’’تیسیر‘‘ اور ’’شاطبیہ‘‘ میں مدون ہیں وہ متواتر قراءات ہیں اور قرآن کریم کے اجزاء ہیں، سوائے چند ایک مقامات کے جن کے بارے میں ماہرین فن نے تنبیہ فرمائی ہے۔ 

۔۲:… اور ایک نازل کردہ لفظ کی بجائے مترادف لفظ استعمال کرنے کی گنجائش ایک وقتی ضرورت کے پیش نظر تھی، اور یہ گنجائش خود عہد نبوی ہی میں مشہور عرضۂ اخیرہ کے وقت منسوخ ہوگئی تھی

۔ ۳:… یہ مختلف متواتر قراءات جو آج تک موجود ہیں، یہ یا تو ایک ہی حرف کی مختلف صورتیں ہیں، اور باقی سات مثلاً: تعال و أقبل وغیرہ عہد نبوی میں منسوخ ہوگئی تھیں، یا پھر یہی قراءات وہ سات حروف ہیں جو عرضۂ اخیرہ کے وقت بھی محفوظ تھے اور جمع نبویؐ، جمع ابی بکرؓ اور جمع عثمانؓ جس کی صورت یہ تھی کہ حضرت ابوبکر کے صحائف ہی کو سامنے رکھ کر کثیر تعداد میں نسخے نقل کروائے گئے

 تاکہ انہیں مسلمان علاقوں میں تقسیم کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ نقل و نسخ کی سرگرمی مسلسل پانچ سال تک جاری رہی۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے (یہاں علامہ کوثری کے الفاظ ’’شکر فضلہم‘‘ہے، اردو زبان کی تنگ دامنی یا عربی زبان کی وسعت کے باعث مفہومی ترجمے پر اکتفا کیا گیا) اور ان کو بڑا اجر عطا فرمائے۔ اس تشریح کے بعد اہل علم کا باہمی اختلاف ان وجوہ قراءات کا صرف نام طے کرنے میں ہے، ان قراءات کے متواتر ہونے میں نہیں جو طویل زمانے سے ایک طبقے سے دوسرے طبقے کی طرف منتقل ہوتی آرہی ہیں۔ان قراءات کے متواتر ہونے اور قرآن کریم کے اجزاء ہونے میں کوئی اختلاف نہیں، جس کا ابھی بیان ہوا ۔

 امید ہے کہ حروف سبعہ کی پیچیدہ اور دشوار گزار بحث کے سمجھنے میں اس قدر تفصیل کافی ہوگی، مزید یہ کہ ایسے علمی مباحث میں رسائل اور مجلات اس سے زیادہ تفصیل کی گنجائش بھی نہیں رکھتے۔درست راہ سمجھانے والے اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی ہیں

حواشی ... ۱:… بخاری، محمد بن اسماعیل جعفی، صحیح البخاری، کتاب فضائل القرآن، باب أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف، حدیث نمبر: ۴۹۹۱، ط: دار طوق النجاۃ ۲:…ابن الجزری، محمد بن محمد بن محمد عمری شافعی ، النشر فی القرا ء ات العشر، ص: ۳۲، ج: ۱ ، ط: مکتبہ المعارف ۳:… زرکشی، بدر الدین محمد بن عبداللہ،البرہان فی علوم القرآن،ج:ـ۱،ص: ۲۱۲۔ دار احیاء اللغۃ العربیۃ، حلب۔ علوم القرآن مؤلفہ: مفتی محمد تقی عثمانی میں غلطی سے اس تعداد بتانے کی نسبت ابن العربی کی طرف کی گئی ہے۔ البرہان کی طرف مراجعت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تعداد حافظ حاتم بن حبان بستی نے شمار کروائی ہے۔ ۴:… حوالہ بالا ۵:… حوالہ بالا

ماہنامہ بینات جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

Comments