121) کیا ان کاموں سے گھر میں غربت آتى ہے ؟


کیا ان کاموں سے گھر میں غربت آتى ہے؟

ایک 1) غسل خانے میں پیشاب کرنا :/ حمام میں پیشاب کرنے سے نبی کریم ﷺ نے منع فرمایا ہے مگر اس وقت کے حمام مٹی کے ہوتے تھے مگر آجکل کا حمام پکا ہوتا ہے اس لئے اس میں پیشاب کرنا جائز ہے اور یہ نبی کریم ﷺ کے فرمان میں نہیں ہے کہ حمام میں پیشاب کرنے سے غربت آتی ہے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی طرف یہ قول منسوب کیا جاتا ہے مگر یہ جھوٹ ہے 

دو 2) ٹوٹي ہوئی كنگھی سے كنگا کرنا :/ آپ ﷺ کا حکم ہے جس کے بال ہوں وہ ان کی عزت کرے (ابودائود شریف ، کتاب الترجل)

نوٹ : اس حدیث سے پتہ چلا کہ بالوں کی زینت کے لئے کنگھی کرنی چاہئے چاہے کنگھی ٹوٹی ہو یا سالم اگر کام لائق ہے تو کنگھی کریں کوئی حرج نہیں ہے اور نہ ہی اس کے کرنے سے غریبی آتی ہے 

تین 3) ٹوٹا ہوا سامان استعمال کرنا :/ ٹوٹا ہوا سامان کام کے لائق ہو تو اس کا استعمال جائز ہے 

حدیث شریف) حضرت ام سلمہؓ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ اور حضرات صحابہ کرام ﺭﺿﻮﺍﻥ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮩﻢ ﺍﺟﻤﻌﯿﻦ کے لئے ایک چوڑے برتن میں کھانا لائیں اتنے میں حضرت عائشہؓ آگئیں انہوں نے ایک چادر اوڑھ رکھی تھی اور ان کے پاس ایک پتھر تھا انہوں نے پتھر مار کر برتن توڑ دیا نبی کریم ﷺ نے برتن کو دونوں ٹکڑوں کو ملا کر رکھا اور دوبار فرمایا کھاؤ، تمہاری ماں کو غیرت آگئی تھی، اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہؓ کا برتن لے کر حضرت ام سلمہؓ کے ہاں بھیج دیا اور حضرت ام سلمہؓ کا ٹوٹا ہوا برتن حضرت عائشہؓ کو دے دیا (صحیح سنن النسائی شریف 3966)

علامہ البانیؒ نے حدیث کو صحیح کہا ہے ! (صحیح سنن النسائی شریف 3693)

چار 4) گھر میں كوڑا کرکٹ رکھنا :/ گھر کا کوڑا کرکٹ گھر کے کسی کونے میں جمع کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے جب زیادہ ہو جائے تو پھینک دے اس میں ایک احتیاط یہ ہونا چاہئے کہ کھانے پینے کی بچی ہوئی زائد چیزیں ضائع نہ کرے بلکہ کسی کو دیدے گھر میں کوڑا رکھنے سے غریبی آتی ہے یہ بھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی طرف منسوب جھوٹی بات ہے 

پانچ 5) رشتے داروں سے بد سلوکی کرنا :/ ایسا کوئی خاص فرمان نبوی ﷺ نہیں ہے کہ رشتے داروں سے بد سلوکی غربت کا سبب ہے لیکن بہت سارے ایسے نصوص ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ معصیت اور گناہ کے کام سے زرق میں تنگی ہوتی ہے 

چھ 6) بائیں پیر سے پاجاما پہننا :/ ممکن اس سے مراد ہو پاجامہ پہننے میں بائیں جانب سے شروع کرنا ... نبی کریم ﷺ شرف والا کام دائیں سے پسند فرماتے تھے اس بنا پر دائیں جانب سے پاجامہ پہننا بہتر ہے مگر کسی نے بائیں سے پہن لیا تو کوئی معصیت نہیں ہے اور نہ ہی یہ فقر و فاقہ کا سبب بنے گا 

سات 7) مغرب و عشاء کے درمیان سونا :/ مغرب اور عشاء کے درمیان سونا مکروہ ہے اس کا سبب عشاء کی نماز فوت ہو جانا ہے اس لئے نبی کریم ﷺ عشاء سے پہلے سونا اور عشاء کے بعد بات کرنا ناپسند فرماتے تھے اگر کوئی عادتا نہیں ضرورتا کبھی سو جائے تو وہ عشاء کی نماز آدھی رات سے پہلے کبھی بھی پڑھ لے 

اٹھ 8) مہمان آنے پر ناراض ہونا :/ اسلام نے مہمان کی خاطر داری پہ ابھارا ہے لہذا کسی مہمان کی آمد پہ ناراضگی کا اظہار نہ کرے مہمان نوازی باہر سے آنے والے مسافر کے واسطے واجب ہے اور جو مقیم ہو اس کی ضیافت احسان و سلوک کے درجے میں ہے جس نے ضیافت میں احسان کو چھوڑا اس پہ گناہ نہیں مگر واجبی ضیافت کے ترک پہ معصیت آئے گی 

نو 9) آمدنی سے زیادہ خرچ کرنا :/ اسے بے وقوفی ، حماقت ، ناسمجھی اور فاش غلطی کہہ سکتے ہیں

دس 10) دانت سے روٹی کاٹ کر کھانا :/ دانت سے روٹی کاٹ کر کھانے سے غریبی نہیں آتی اگر ایسا ہوتا تو دنیا میں کوئی مالدار ہی نہیں ہوتا کیونکہ دانتوں سے کاٹ کر ہی لوگ بڑے ہوتے ہیں روٹی تو ہاتھ سے بھی توڑی جاسکتی ہے مگر ایسی بھی بہت چیزیں ہیں جنہیں اکثر دانت سے ہی کاٹ کر کھایا جاتا ہے آج انگریزی اسٹائل آیا ہے اور دیہاتوں میں تو نہیں شہروں میں کھانے کے ساتھ چاقو رکھ دیتے ہیں جبکہ آج سے پہلے یہ اسٹائل نہیں چلتا تھا 

گیارہ 11) چالیس دن سے زیادہ زیر ناف کے بال رکھنا :/ چالیس دن کے اندر زیر ناف مونڈ لینا چاہئے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے یہی حد مقرر کی ہے جو اس سے زیادہ تاخیر کرتے ہیں وہ سنت کی مخالفت کرتے ہیں 

بارہ 12) دانت سے ناخن کاٹنا :/ اسلام میں کہیں دانتوں سے ناخن کاٹنے کی ممانعت وارد نہیں ہے لیکن چونکہ اسلام حفظان صحت پہ دھیان دلاتا ہے اس لئے اگر دانت سے ناخن کاٹنے میں کوئی طبی نقصان کا پہلو نکلتا ہو تو اس سے پرہیز کیا جائے اور اگر اس میں نقصان نہیں تو بھی دانت سے ناخن کاٹنا صحیح نہیں لگتا کیونکہ ناخن میں گندگی ہوتی ہے اور گندی چیز کو منہ سے پکڑنا اور دانتوں سے کاٹنا صحیح نہیں ہے خصوصاً لوگوں کے سامنے 

تیرہ 13) کھڑے کھڑے پاجامہ پہننا :/ پاجامہ کھڑے اور پڑے دونوں پہن سکتے ہیں آپ کو جو سہولت ہو وہ اختیار کریں اور کسی پہ کوئی گناہ کوئی فقر نہیں شریعت کی جانب سے 

چودہ 14) عورتوں کا کھڑے کھڑے بال باندھنا :/ یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے اس میں ایک ہی بات اہم ہے کہ عورت اجنبی مرد کے سامنے بال نہ باندھے باقی وہ کھڑے ہو کر ، بیٹھ کر اور سو کر کسی بھی طرح بال باندھ سکتی ہے 

پندرہ 15) پھٹے ہوئے کپڑے جسم پر سینا :/ پھٹے ہوئے کپڑے جسم پہ ہوتے ہوئے رفو کرنا آسان ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں اور اتارنے کی ضرورت پڑے تو بہرصورت اسے اتارنا ہی ہوگا 

سولہ 16) صبح سورج نکلنے تک سونا :/ انسان کو چاہئے کہ وہ صبح سویرے بیدار ہو فجر کی نماز پڑھے اور پھر روزی کی تلاش میں نکلے، نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے مَن صَلَّى الصُّبحَ فَهُوَ فِي ذِمَّةِ اللَّهِ (صحيح مسلم شریف 657)

ترجمہ: جس نے فجر کی نماز پڑھی وہ اللہ کے امان میں آگیا 

جو بندہ نماز چھوڑ کر روزانہ تاخیر سے اٹھے اس کی قسمت میں بربادی ہی بربادی ہے کیونکہ اس نے اپنے رب سے امان اٹھا لیا اس کے ساتھ کبھی بھی اور کچھ بھی ہوسکتا ہے 

سترہ 17) درخت کے نیچے پیشاب کرنا :/ کسی بھی چیز کے سایہ میں خواہ درخت کا ہو یا کسی اور کا اس کے نیچے پیشاب و پاخانے سے منع کیا گیا ہے 

حدیث شریف) نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے اتقوا اللاّعِنَيْن، الذي يتخلى في طريق الناس أو في ظلهم (صحيح مسلم شریف)

ترجمہ : لعنت کا سبب بننے والی دو باتوں سے بچو ایک یہ کہ آدمی لوگوں کے راستے میں قضائے حاجت کرے، دوسرے یہ کہ ان کے سائے کی جگہ میں ایسا کرے 

طبرانی نے معجم الاوسط میں پھلدار درخت کے نیچے قضائے حاجت کی ممانعت والی روایت ذکر کی ہے یہ روایت ضعیف ہے پھلدار درخت سایہ والی مذکورہ بالا حدیث کے ضمن میں ہے کیونکہ عام طور سے ہر درخت کا سایہ ہوتا ہے لیکن جو درخت عام ہو اور ویسے ہی بلا ضرورت آبادی سے دور سنسان جگہ پہ پڑا ہو تو اس کے نیچے قضائے حاجت میں کوئی حرج نہیں

اٹھارہ 18) بیت الخلا میں باتیں کرنا :/ قضائے حاجت کے وقت بات کرنا منع ہے، نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے لا يخرجُ الرجلانِ يضربانِ الغائطَ كاشفَينِ عن عوراتِهما يتحدَّثانِ ، فإنَّ اللهَ يمقُتُ على ذلك (صحیح الترغیب للالبانی 155)

ترجمہ : دو آدمی قضاء حاجت کرتے ہوئے آپس میں باتیں نہ کریں کہ دونوں ایک دوسرے کے ستر کو دیکھ رہے ہوں کیوں کہ اللہ تعالیٰ اس بات پر ناراض ہوتے ہیں 

 یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آج کل گھروں میں حمام بنا ہوتا ہے تو کیا اس میں باتیں کرنا جائز ہے؟

حدیث کی رو سے اس حالت میں کلام منع ہے جب دو آدمی ننگے ہو کر ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے بات کرے لیکن حمام میں بات کرنے کی ممانعت پہ کوئی دلیل نہیں ہے پھر بھی بہتر صورت یہی ہے کہ حمام میں قضائے حاجت کرتے وقت بات نہ کرے لیکن ضرورت پڑے یا پھر قضائے حاجت سے پہلے حمام میں داخل ہوتے وقت بات کرسکتا ہے 

انیس 19) الٹا سونا :/ پیٹ کے بل سونا ناپسندیدہ اور مکروہ عمل ہے اس کی کراہت کی وجوہات میں جہنمیوں کے سونے کی مشابہت اور جسمانی نقصان وغیرہ ہیں 

اللہ تعالی کا فرمان ہے، يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلَى وُجُوهِهِمْ ذُوقُوا مَسَّ سَقَرَ (سورة القمر آیت نمبر 48)

ترجمہ : جس دن وہ اپنے منہ کے بل آگ میں گھسیٹے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا دوزخ کی آگ لگنے کے مزے چکھو 

حدیث شریف) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا إِنَّ ھٰذِہِ ضِجْعَۃٌ یُبْغِضُھَا اللّٰہُ تَعَالٰی یَعْنِی الْاَضْطِجَاعُ عَلَی الْبَطَنِ (صحیح الجامع الصغیر 2271)

ترجمہ : یقینا اس طرح لیٹنے کو اللہ تعالیٰ ناپسند فرماتا ہے یعنی پیٹ کے بل (اوندھا) لیٹنا ! (الاضطجاع علی البطن) یعنی ایسے سونا کہ پیٹ زمین کی طرف اور پشت اوپر کی طرف ہو اس لئے کسی کو پیٹ کے بل نہیں سونا چاہئے مگر ایسا سونے سے غریبی آتی ہے اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے 

بیس 20) قبرستان میں ہنسنا :/ قبرستان ایسی جگہ ہے جہاں جاکر آخرت یاد کرنی چاہئے اس لئے وہاں ہنسنا ناسندیدہ عمل ہے وہاں بات کرتے ہوئے یا یوں ہی ہنسی آگئی تو اس میں کوئی حرج نہیں اور اس سے رزق پہ کوئی اثر نہیں پڑے گا 

اکیس 21) پینے کا پانی رات میں کھلا رکھنا :/ کھانے پینے کا برتن رات میں کھلا رکھنے سے غربت نہیں آتی البتہ سوتے وقت غداء والا برتن ڈھک دیا جائے ۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے، أطفِئوا المصابيحَ إذا رقدتُم، وغلِّقوا الأبوابَ ، وأوكوا الأسقِيةَ ، وخَمِّروا الطَّعامَ والشَّرابَ - وأحسَبُه قالَ - ولو بِعودٍ تعرُضُه عليهِ (صحيح البخاري 5624)

ترجمہ : رات میں جب سونے لگو تو چراغ بھجا دیا کرو، دروازے بند کر دیا کرو، مشکیزے کا منھ باندھ دیا کرو، کھانے پینے کے برتنوں کو ڈھانپ دیا کرو، اگر ڈھکنے کیلئے کوئی چیز نہ ملے تو بسم اللہ کہہ کر کوئی لکڑی ہی چوڑائی میں رکھ دو 

ایک دوسری روایت اس طرح ہے، غطُّوا الإناءَ . وأوكوا السِّقاءَ . فإنَّ في السَّنةِ ليلةً ينزلُ فيها وباءٌ . لا يمرُّ بإناءٍ ليسَ عليهِ غطاءٌ ، أو سقاءٍ ليسَ عليهِ وِكاءٌ ، إلَّا نزلَ فيهِ من ذلِكَ الوباءِ (صحيح مسلم شریف 2014)

ترجمہ : نبی کریم ﷺ نے فرمایا برتن ڈھک دو، مشکیزے کا منہ بند کرو، اس لئے کہ سال میں ایک رات ایسی آتی ہے جس میں بلا نازل ہوتی ہے اور جس چیز کا منہ بند نہ ہو اور جو برتن ڈھکا ہوا نہ ہو اس میں یہ وبا اتر پڑتی ہے 

برتن کھلا چھوڑنے سے غریبی آنے والی بات شیعہ کتب سے منقول ہے اس کی کتاب میں لکھا ہے کہ بیس خصلتیں ایسی ہیں جن سے رزق میں کمی آتی ہے ان میں سے ایک پانی کے برتن کا ڈھکنا کھلا رکھنا ہے 

(بحار الأنواراز محمد باقر مجلسی ج 73 ، ص 314 ، ح 1)

بائیس 22) رات میں سوالي کو کچھ نہ دینا :/ یہ بات بھی شیعہ کتب سے آئی ہے اور اسے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی طرف منسوب کی جاتی ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں رات ہو یا دن سائل کو اگر دینے کے لئے کچھ ہے تو دینا چاہئے کیونکہ اللہ کا تعالی کا فرمان ہے، وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ (سورہ الذاریات آیت نمبر 19)

ترجمہ : اور ان کے مال میں مانگنے والوں کا اور سوال سے بچنے والوں کا حق تھا 

قرآن کی آیت وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ (سورہ حشر آیت نمبر 9) سے پتہ چلتا ہے کہ رات کے وقت ہی آپ ﷺ کے پاس ایک سائل آیا تھا مگر آپ ﷺ کے پاس کچھ نہیں تھا تو آپ ﷺ نے انہیں کچھ نہیں دیا اور اس سائل کی ضیافت دوسرے صحابی کے ذمہ لگائی 

تئیس 23) برے خیالات کرنا :/ انسان گناہوں کا پتلہ ہے اس سے ہمیشہ غلطی ہوتی رہتی ہے اس کے دماغ میں برے خیالات آتے رہتے ہیں ایک مسلم کا کام ہے کہ وہ ان برے خیالات سے توبہ کرتا رہے اور انہیں عملی جامہ پہنانے سے بچے اللہ تعالی اپنے بندوں پہ بہت مہربان ہے وہ بندوں کے دل میں پیدا ہونے والے برے خیالات پہ پکڑ نہیں کرتا جب تک کہ اسے عملی جامہ نہ پہنا دے 

حدیث شریف) إنَّ اللهَ تجاوزَ عنْ أمتي ما حدَّثتْ بهِ أنفسَها ، ما لمْ تعملْ أو تتكلمْ (صحيح البخاري 5269)

ترجمہ : سیدنا حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بے شک اللہ نے میری امت کے ان وسوسوں سے درگزر فرمایا ہے جو سینوں میں پیدا ہوتے ہیں جب تک لوگ ان پر عمل نہ کریں یا زبانی اظہار نہ کریں 

اس لئے یہ بات کہنا غلط ہے کہ برے خیالات سے غریبی آتی ہے البتہ ایک بات یہ کہی جاسکتی ہے کہ برائی اور فحش کام کرنے سے غربت آسکتی ہے 

اللہ تعالی کا فرمان ہے، الشَّيْطَانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُم بِالْفَحْشَاءِ (سورہ البقرۃ آیت نمبر 268)

ترجمہ : شیطان تمہیں فقیری سے دھمکاتا ہے اور بےحیائی کا حکم دیتا ہے 

چوبیس 24) بغیر وضو کے قرآن مجید پڑھنا :/ افضل یہی ہے کہ وضو کر کے قرآن کی تلاوت کرے لیکن بغیر وضو کے ہاتھ لگاۓ بغیر بھی مصحف سے تلاوت کرنا جائز ہے اس لئے یہ بات کہنا مبنی بر غلط ہے کہ بغیر وضو کے قرآن مجید پڑھنے سے فقر آتا ہے 

پچیس 25) استنجا کرتے وقت باتیں کرنا :/ آج کل گھروں میں بیت الخلا بنے ہوتے ہیں اور آدمی پردے میں ہوتا ہے اس لئے ضرورت کے تحت استنجا اور قضائے حاجت کے وقت کلام کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے 

اس سلسلے میں ایک حدیث آتی ہے، لا يَخرجِ الرَّجلانِ يَضربانِ الغائطَ ، كاشفَينِ عَن عورتِهِما يتحدَّثانِ فإنَّ اللَّهَ يمقُتُ علَى ذلِكَ (السلسلۃ الصحيحة 7/321)

ترجمہ : دو مردوں کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ بیت الخلاء کے لئے نکلیں تو اپنی اپنی شرمگاہ کھلی رکھـ کر آپس میں باتیں کرنے لگیں کیونکہ اللہ تعالی اس عمل سے ناراض ہوتا ہے 

اس حدیث میں قضائے حاجت کے وقت بات کرنے کی ممانعت دو باتوں کے ساتھ ہے 

پہلی بات) دونوں بات کرنے والے آدمی اپنی شرمگاہ کھولے ہوئے ہوں 

دوسری بات) وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہوں 

یونہی استنجا اور قضائے حاجت کے وقت بات کرنا مکروہ ہے مگر ضرورت کے تحت بات کرسکتے ہیں 

شیخ ابن عثیمینؒ سے سوال کیا گیا کہ قضائے حاجت سے پہلے حمام کے اندر بات کرنے کا کیا حکم ہے؟ تو شیخؒ نے جواب دیا اس میں کوئی حرج نہیں ہے خصوصاً جب ضرورت درپیش ہو کیونکہ اس کی ممانعت کی کوئی صراحت نہیں ہے سوائے اس صورت کے جب دو آدمی ایک دوسرے کے پاس بیٹھ کے پاخانہ کرے اور دونوں باتیں کرے اور مجرد قضائے حاجت والی جگہ کے اندر سے کلام کرنے کی ممانعت نہیں ہے 

26) ہاتھ دھوئے بغیر کھانا كھانا :/ کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا ضروری نہیں ہے روایات سے پتہ چلتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ہاتھ دھوئے بغیر بھی کھانا کھایا ہے کھانا کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے والی کوئی روایت صحیح نہیں ہے سوائے ایک روایت کے جو نسائی میں ہے 

 حدیث شریف) عن أم المؤمنين عائشة رضي الله عنها - أن رسول الله صلى الله عليه وسلم - كان إذا أراد أن ينام وهو جنب توضأ ، وإذا أراد أن يأكل غسل يديه (رواہ النسائي وصححه الألباني)

ترجمہ : حضرت عائشہؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ جب بھی سونے کا ارادہ کرتے اور آپ حالت جنابت میں ہوتے تو وضو کرتے اور جب کھانے کا ارادہ کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ دھوتے 

اس حدیث کو شیخ البانیؒ نے صحیح قرار دیا ہے 

اس روایت میں مطلق ہاتھ دھونے کا ذکر نہیں ہے بلکہ جنابت سے متعلق ہے اس لئے یہ کہا جائے گا کہ اگر ہاتھ میں گندگی لگی ہو تو کھانے سے پہلے ہاتھ دھوں لینا چاہئے ورنہ ضرورت نہیں ہے اور اس سے متعلق غربت والی بات جھوٹی ہے 

ستائیس 27) اپنی اولاد کو كوسنا :/ اولاد کی تربیت والدین کے ذمہ ہے ماں باپ بچوں کی تربیت کے لئے ڈانٹ سکتے ہیں کوس سکتے ہیں بلکہ مار بھی سکتے ہیں کیونکہ بچوں کے سلسلے میں اہم چیز ان کی تربیت ہے 

تربیت کی غرض سے بچوں کو مارنے کا حکم ہمیں اسلام نے دیا ہے، مُرُوا أولادَكم بالصلاةِ و هم أبناءُ سبعِ سِنِينَ ، واضرِبوهم عليها وهم أبناءُ عشرِ سِنِينَ ، وفَرِّقُوا بينهم في المضاجعِ (صحيح الجامع للالبانی 5868) 

ترجمہ : جب تمہاری اولاد سات سال کی عمر کو پہنچ جائے تو انہیں نماز کا حکم دو اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو نماز میں کوتاہی کرنے پر انہیں سزا دو اور بچوں کے سونے میں تفریق کر دو 

حضرت امام شافعیؒ کہتے ہیں باپوں اور ماؤں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولادوں کو ادب سکھلائیں طہارت اور نماز کی تعلیم دیں اور باشعور ہونے کے بعد کوتاہی کی صورت میں ان کی پٹائی کریں ! (شرح السنۃ 2/407)

اٹھائیس 28) دروازے پر بیٹھنا :/ دروازہ سے لوگوں کی آمدورفت ہوتی ہے اس لئے ادب کا تقاضہ ہے کہ دروازے پہ نہ بیٹھیں ۔ نبی کریم ﷺ نے حکم فرمایا ہے کہ راستے کو حق دو 

لیکن اگر اپنا گھر ہو لوگوں کی آمد و رفت نہیں ہو تو پھر اپنے گھر کے دروازے پہ بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں ہے فرشتے جمعہ کے دن مسجد کے دروازے پہ کھڑے رہتے ہیں، إذا كان يومُ الجمعةِ كان على كلِّ بابٍ من أبوابِ المسجدِ ملائكةٌ يكتبون الأوَّلَ فالأوَّلَ . فإذا جلس الإمامُ طوَوْا الصُّحفَ وجاؤوا يستمعون الذِّكرَ (صحيح مسلم شریف 850)

ترجمہ : رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جب جمعہ کا دن ہوتا ہے تو فرشتے مسجد کے ہر دروازے پر کھڑے ہو جاتے ہیں پہلے آنے والے کا نام پہلے اس کے بعد آنے والے کا نام اس کے بعد لکھتے ہیں اسی طرح آنے والوں کے نام ان کے آنے کی ترتیب سے لکھتے رہتے ہیں جب امام خطبہ دینے کے لیے آتا ہے تو فرشتے اپنے رجسٹر جن میں آنے والوں کے نام لکھے گئے ہیں لپیٹ دیتے ہیں اور خطبہ سننے میں مشغول ہوجاتے ہیں 

حدیث شریف) دروازے پہ فرش بچھانے سے متعلق حضرت انسؓ سے مروی روایت عَنْ أَنَسٍ قَالَ : نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أَنْ يُفْرَشَ عَلَى بَابِ الْبُيُوتِ، وَقَالَ: نَكِّبُوهُ عَنِ الْبَابِ شيئًا (إتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة)

س کی سند میں موسى بن محمد بن إبراهيم التيمي ضعیف راوی ہے اس لئے یہ ناقابل اعتبار ہے 

انتیس 29) لہسن پیاز کے چھلکے جلانا :/ یہ بات بھی شیعہ سے منقول ہے ان کی کتاب جامع الاخبار میں مذکور ہے جسے بعض صوفیوں نے اپنی کتاب میں ذکر کر دیا اور عوام میں مشہور ہوگئی اس بات کو ترکستان کے حنفی عالم برھان الدین زرنوجی نے اپنی کتاب تَعْلِیْمُ الْمُتَعَلِّمِ طَرِیْقُ التَّعَلِّمِ میں ذکر کیا مگر اسلام میں اس بات کی کوئی حقیقت نہیں ہے 

تیس 30) فقیر سے روٹی یا پھر اور کوئی چیز خریدنا :/ یہ بات بھی شیعہ کی کتاب جامع الاخبار میں موجود ہے فقیر تو خود ہی محتاج ہوتا ہے وہ کیوں کسی سے کچھ بیچے گا اور اگر اس کے پاس کوئی قیمتی سامان ہے تو اسے بیچ سکتا ہے ۔ فقیر سے کچھ خریدنا فقر کا سبب ہو تو کوئی فقیر مالدار نہیں ہوسکتا اور فقیر سے خریدنے والا کوئی مالدار نہیں رہ سکتا عقل و نقل دونوں اعتبار سے یہ جھوٹی بات ہے 

اکتیس31) پھونک سے چراغ بجھانا :/ یہ بات شیعہ کتاب جامع الاخبار سے منقول ہے جو ہمارے لئے حجت نہیں ہے چراغ تو پھونک سے ہی بجھایا جاتا ہے کوئی دوسرے طریقے سے بجھائے اس میں بھی کوئی حرج نہیں لیکن پھونک سے چراغ بجھانا باعث فقر ہے مبنی بر غلط ہے 

بتیس 32) بسم اللہ پڑھے بغیر کھانا :/ کھانا کھاتے وقت بسم اللہ کہنا واجب ہے 

حدیث شریف) عن أُمُّ كُلْثُومٍ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا أَكَلَ أَحَدُكُمْ فَلْيَذْكُرْ اسْمَ اللَّهِ تَعَالَى فَإِنْ نَسِيَ أَنْ يَذْكُرَ اسْمَ اللَّهِ تَعَالَى فِي أَوَّلِهِ فَلْيَقُلْ بِسْمِ اللَّهِ أَوَّلَهُ وَآخِرَهُ (صحيح سنن أبي ابودائود شریف 3202)

ترجمہ : حضرت ام کلثومؓ حضرت عائشہؓ سے بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی کھانا کھائے تو اللہ کا نام لے اور اگر اللہ تعالی کا نام لینا ابتدا میں بھول جائے تو کہے بِسْمِ اللَّهِ أَوَّلَهُ وَآخِرَهُ

واقعی بسم اللہ کے بغیر کھانا کھانا باعث نقصان و خسران ہے اس کے کھانے میں شیطان شامل ہو جاتا ہے اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اللہ کے ذکر کے بغیر مستقل کھانا کھانے سے وہ کھانے کی نعمت اور اس کی برکت سے محروم ہو جائے گا لیکن اگر بھولے سے ایسا ہو جائے تو اللہ تعالی نے بھول چوک کو معاف کر دیا ہے 

تینتیس 33) غلط قسم کھانا :/ اسلام میں جھوٹی قسم کھانا گناہ کبیرہ ہے نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے الكبائرُ : الإشراكُ باللهِ ، وعقوقُ الوالديْنِ ، أو قال : اليمينُ الغَموسُ (صحيح البخاري 6870)

ترجمہ : کبیرہ گناہ یہ ہیں، اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، جھوٹی قسم کھانا 

ایسے لوگوں کے لئے دردناک عذاب ہے اس لئے ایک مسلمان کو قطعی طور پر جھوٹی قسم نہیں کھانا چاہئے اگر کسی نے سابقہ کسی معاملے پہ عمدا جھوٹی قسم کھائی ہے تو سچی توبہ کرے اگر جھوٹی قسم کے ذریعہ کسی کا حق مارا تو اس کو واپس کرے اور اگر آئندہ کسی کام کے نہ کرنے پہ قسم کھائی اور وہ کام کرلیا تو قسم کا کفارہ ادا کرے اس کا کفّارہ دس مسکینوں کو اوسط درجے کا کھانا کھلانا ہے جو اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو یا اسی طرح ان مسکینوں کو کپڑے دینا ہے یا ایک گردن یعنی غلام یا باندی کو آزاد کرنا ہے جسے یہ سب کچھ میسر نہ ہو تو وہ تین دن روزہ رکھے

چونتیس 34) جوتا چپل الٹا دیکھ کر سیدھا نہیں کرنا :/ اسلامی اعتبار سے اس بات کی کوئی حقیقت نہیں ہے نبی کریم ﷺ کے زمانے میں بھی جوتا تھا مگر آپ ﷺ سے حضرات صحابہ کرام ﺭﺿﻮﺍﻥ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮩﻢ ﺍﺟﻤﻌﯿﻦ سے یا حضرات ائمہ اربعہ رحمتہ اللہ علیہ سے اس قسم کی کوئی بات منقول نہیں ہے 

ابن عقیل حنبلیؒ نے کتاب الفنون میں لکھا ہے والويل لمن رأوه أكب رغيفا على وجهه،أو ترك نعله مقلوبة ظهرها إلى السماء (الآداب الشرعية 1 / 268 - 269)

ترجمہ : بربادی ہے اس کے لئے جس نے الٹی ہوئی روٹی دیکھی یا پلٹا ہوا جوتا جس کی پیٹھ آسمان کی طرف ہو اسے چھوڑ دیا 

اس کلام میں بہت سختی ہے قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کلام کی کوئی حیثیت نہیں رہتی !

حدیث شریف) نبی کریم ﷺ جوتے میں نماز پڑھتے تھے، حضرت انس بن مالکؓ سے سوال کیا گیا أكان النبي صلى الله عليه وسلم يصلي في نعليه؟ قال : نعم (رواه البخاري 386)

ترجمہ : کیا نبی کریم ﷺ اپنے جوتوں میں نماز پڑھتے تھے، کہنے لگے ہاں 

ظاہر سی بات ہے جوتے میں نماز پڑھتے ہوئے جوتا پلٹے گا، اس لئے الٹے جوتے کے متعلق مذکورہ بالا باتیں کرنا ٹھیک نہیں ہے البتہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ جوتے کے نچلے حصے میں گندگی لگی ہوتی ہے بنابریں الٹے جوتے کو پلٹ دیا جائے تاکہ لوگ اس سے گھن نہ محسوس کریں !

پینتیس 35) حالات جنابت میں حجامت کرنا :/ حالت جنابت میں مرد و عورت کے لئے محض چند چیز ممنوع ہیں ان میں نماز ، طواف ، مسجد میں قیام اور قرآن کی تلاوت وغیرہ، بقیہ دیگر کام جنبی انجام دے سکتا ہے حالت جنابت میں حجامت کو باعث فقر بتلانا غیر اسلامی نظریہ ہے 

چتھیس 36) مکڑی کا جالا گھر میں رکھنا :/ یہ بات بھی باطل و مردود ہے اس بات کی نسبت حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی طرف کی جاتی ہے، طهّروا بيوتكم من نسيج العنكبوت ، فإنّ تركه في البيوت يورث الفقر

ترجمہ : گھروں کو مکڑی کے جالوں سے صاف رکھا کرو کیونکہ مکڑی کے جالوں کا گھر میں ہونا افلاس کا باعث ہے 

یہ بات تفسیر ثعلبی اور تفسیر قرطبی کے حوالے سے بیان کی جاتی ہے مگر اس کی سند میں عبداللہ بن میمون القداح متروک متہم بالکذب راوی ہے ! (تهذيب التهذيب 44-45/6)

سنتیس 37) رات کو جھاڑو لگانا :/ رات ہو یا دن کسی بھی وقت جھاڑو لگا سکتے ہیں اس کی ممانعت کی کوئی دلیل نہیں ہے نہ ہی اس کام سے معصیت ہوتی ہے اس لئے رات کو جھاڑو دینا تنگدستی کا سبب بتلانا توہم پرستی اور ضعف اعتقادی ہے مسلمانوں میں بریلوی طبقہ اس توہم کا شکار ہے، اللہ تعالی انہیں ہدایت دے ! آمین یا رب العالمین

اٹتھیس 38) اندھیرے میں کھانا :/ ویسے اجالے میں کھائے تو اچھی بات ہے مگر کسی کو اجالا میسر نہ ہوسکے تو اندھیرے میں کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے، سورہ حشر میں ایک انصاری صحابی کا ذکر ہے جنہوں نے مہمان رسول ﷺ کو اندھیرے میں مہمانی کرائی باوجود یہ کہ چراغ موجود تھا مگر انہوں نے بیوی کو چراغ بجھانے کہا تاکہ اندھیرے میں مہمان شکم سیر ہو کر کھائے اور میزبان بھوکا رہے 

اس منظر کو اللہ دیکھ رہا ہے اس نے آیت نازل کی ويؤثرون على أنفسهم ولو كان بهم خصاصة (سورہ الحشر آیت نمبر 9)

ترجمہ : وہ اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں گوخود کو کتنی ہی سخت حاجت ہو 

انتالیس 39) گھڑے میں منہ لگا کر پینا :/ پانی کا کوئی بھی برتن ہو اگر منہ لگا کر پینا آسان ہو اس کا حجم بڑا نہ ہو یا اس کا دہانہ کشادہ نہ ہو جس سے منہ میں مقدار سے زیادہ پانی جانے کا خطرہ ہو تو برتن سے منہ لگا کر پیا جاسکتا ہے متفق علیہ ایک روایت میں مشک سے منہ لگا کر پانی پینے کی ممانعت ہے 

حدیث شریف) وعن ابن عباس قال نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الشرب من قي السقاء (صحيح البخاری 5629)

ترجمہ : اور حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مشک کے دھانے سے پانی پینے سے منع فرمایا ہے 

اس حدیث کے علاوہ ایک دوسری حدیث ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے مشک میں منہ لگا کر پانی پیا ہے 

حدیث شریف) دخلَ عليَّ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ فشرِبَ من في قربةٍ معلَّقةٍ قائمًافقمتُ إلى فيها فقطعتُهُ  (صحيح الترمذی 1892) 

ترجمہ : ایک دن رسول اللہ ﷺ میرے یہاں تشریف لائے تو آپ ﷺ نے کھڑے کھڑے لٹکی ہوئی مشک کے منہ سے پانی پیا چنانچہ میں مشک کے منہ کے پاس جا کر کھڑی ہوئی اور اس کو کاٹ لیا 

خلاصہ کے طور پہ یہ کہنا چاہوں گا کہ برتن چھوٹا ہو تو اس میں منہ لگا کر پانی پئیں بڑا ہو تو دوسرے چھوٹے برتن میں انڈیل کر پئیں اور اگر بڑے برتن سے پینے کی حاجت پڑ جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں 

 چالیس 40) قرآن مجید نہ پڑھنا :/ قرآن پڑھنے اور عمل کرنے کی کتاب ہے جو اس سے دوری اختیار کرتا ہے وہ واقعی اللہ کی رحمت سے دور ہو جاتا ہے نبی کریم ﷺ نے قرآن پڑھنے کا حکم دیا ہے اس سے ایمان میں زیادتی، علم و عمل میں پختگی اور زندگی کی تمام شئے میں برکت آتی ہے اس لئے قرآن پڑھنے کا معمول بنائیں 

Comments