چھ جھوٹے مدعیان نبوت کے واقعات
نبی کریم ﷺ نےخود یہ پیشین گوئی فرمائی ہے کہ اس امت میں تیس سے زیادہ نبوت کے جھوٹے دعویدار پیدا ہوں گے۔ہر ایک یہی کہتا ہوگا کہ وہ نبی ہے . حالانکہ وہ جھوٹا کذاب اور مثل دجال ہوگا۔
۔۔👈 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک تیس دجال کذاب افراد کا ظہور نہ ہوگا،ان سب کا یہی دعوی ہوگا کہ وہ اللہ کے رسول ہیں۔
[حكم الالبانى]: صحيح، الصحيحة (683)(بخاری ،مسلم)
۔۔👈 حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک ان نشانیوں کا ظہور نہ ہو: ایک یہ کہ میری امت کے کچھ قبائل مشرکوں سے مل جائیں گے یہاں تک کہ وہ بت پرستی میں مبتلا ہو جائیں گے۔دوسری یہ کہ میری امت میں تیس جھوٹوں کا ظہور ہوگا ۔ہر ایک کا دعوی یہی ہوگا کہ وہ اللہ کا نبی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ میں آخری نبی ہوں ،میرے بعد اللہ کی طرف سے کوئی نبی نہیں آئے گا (ابوداؤد، ترمذی، صحیح)
۔۔🔷1... اسود عنسی
اس کذاب کا تعلق یمن سے تھا۔ یہ خاتم الانبیاء سید المرسلین حضرت محمد ﷺ کی حیات مبارکہ میں دعویٰ نبوت کرنے والا پہلا شخص تھا۔ اسود عنسی شعبدہ بازی اور کہانت میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا چونکہ اس زمانے میں یہ دو چیزیں کسی کے باکمال ہونے کی دلیل سمجھی جاتی تھیں لہٰذا لوگوں کی بڑی تعداد اس کی معتقد بن گئی۔ اسود عنسی کو ذوالحمار کے لقب سے بھی جانا جاتا تھا، تاریخ نویس لکھتے ہیں کہ اس کے پاس ایک سدھایا ہوا گدھا تھا یہ جب اس کو کہتا خدا کو سجدہ کرو تو وہ فوراً سر بسجود ہو جاتا، اسی طرح جب بیٹھنے کو کہتا بیٹھ جاتا اور کھڑے ہونے کو کہتا کھڑا ہو جاتا، نجران کے لوگوں کو جب اس کے دعویٰ نبوت کا علم ہوا تو انہوں نے اسے امتحان کی غرض سے اپنے ہاں مدعو کیا۔ اس نے وہاں بھی اپنی شعبدے بازی دکھائی، لوگوں کو متاثر کیا اور چکنی چپڑی باتوں سے اہل نجران کی اکثریت کو اپنا ہم نوا بنا لیا اور آہستہ آہستہ اس نے اپنی طاقت بڑھانا شروع کر دی۔ سب سے پہلے اس نے نجران پر ہی فوج کشی کر کے حضرت عمرو بن حزم اور حضرت خالد بن سعید کو وہاں سے بے دخل کیا اور پھر بتدریج پورے یمن پر قبضہ کرلیا۔ حضرت عمرو بن حزم اور حضرت خالد بن سعید نے مدینہ منورہ پہنچ کر سارا قصہ حضور نبی کریم ﷺ کے گوش گزار کیا جس پر آپ ﷺ نے یمن کے بعض سرداروں اور اہل نجران کو اسود کے خلاف جہاد کا حکم نامہ تحریر فرمایا اور یوں یہ لوگ باہم اسود کے خلاف متحد ہوگئے۔
اسود عنسی نے صنعا پر قبضے کے بعد اس شہر کے مسلمان حاکم شیر بن باذان کی بیوی آزاد کو اپنے گھر میں قید کر لیا لیکن وہ اس سے سخت نفرت کرتی تھیں۔ ادھر آزاد کے چچا ذاد بھائی فیروز کو اس کا سخت رنج ہوا اور وہ آزاد کو اسود سے نجات دلانے اور انتقام لینے کے لیے مواقع ڈھونڈنے لگا۔ جب آپ ﷺ کا حکم نامہ ملا تو یمن کے مسلمان اسود کے خلاف لشکر کشی کے بجائے گھر میں گھس کر اسود عنسی کذاب کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی کرنے لگے۔ اسی دوران فیروز اپنی تایا زاد بہن آزاد سے ملا اور اس کو اسود عنسی کے قتل کرنے میں مدد کے لیے آمادہ کرلیا۔ آزاد کی مدد سے فیروز اپنے ساتھیوں کے ہمراہ محل میں داخل ہوا اور کذاب اسود کے کمرے میں گھس کر اس کی گردن توڑ کر مار ڈالا۔ اسود عنسی کے گلے سے خرخر کی آواز سن کر پہرے دار آگے بڑھے مگر آزاد نے یہ کہہ کر انہیں روک دیا کہ خبردار آگے مت جانا تمہارے نبی پر وحی کا نزول ہو رہا ہے۔ فیروز نے محل سے باہر نکل کر اس کذاب کی موت کی خبر سنائی تو سب پر سکتہ طاری ہو گیا۔ اسود کے قتل کے بعد جب مسلمانوں کا غلبہ ہو گیا تو اسود کے پیروکار صنعا اور نجران کے درمیان صحرا نوردی اور بادیہ پیمائی کی نذر ہو گئے اور یوں یمن و نجران ارتداد کے وجود سے پاک ہو گیا اور آپ ﷺ کے احکامات دوبارہ بحال کر دیے گئے۔ اسود عنسی پہلا کذاب تھا جو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حکم پر آپ ﷺ کی حیات مبارکہ میں اپنے انجام کو پہنچا۔
۔۔🔷2... مسیلمہ کذاب یمامہ
یہ شخص کذاب یمامہ کے لقب سے بھی مشہور ہے اس کی خود ساختہ نبوت کا فتنہ کافی عرصے تک رہا جس کو بڑے بڑے صحابہؓ نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر جڑ سے اکھاڑ دیا جس وقت اس نے نبوت کا دعویٰ کیا اس کی عمر سو سال سے بھی زیادہ ہو چکی تھی۔
مسیلمہ نے دربار نبوی ﷺ میں حاضر ہو کر آپ ﷺ سے عرض کیا کہ مجھے اپنا جانشین مقرر فرمائیں، اس وقت آپ ﷺ کے سامنے کھجور کی ٹہنی پڑی تھی آپ ﷺ نے اس کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: اے مسیلمہ! اگر تم امر خلافت میں مجھ سے یہ کھجور کی شاخ بھی مانگو تو میں دینے کو تیار نہیں۔ یہ جواب سن کر وہ مایوس لوٹ گیا۔
جب آپ ﷺ کے دربار سے مایوس مسیلمہ کذاب یمامہ واپس لوٹا تو اس نے اہل یمامہ کو جھوٹی یقین دہانی کرائی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی نبوت میں شریک کر لیا ہے اور اپنی من گھڑت وحی اور الہام سنا سنا کر کئی لوگوں کو اپنا ہم نوا اور معتقد بنا لیا۔ جب آپ ﷺ کو اطلاع ہوئی تو آپ ﷺ نے اس کے ہی قبیلے کے ایک با اثر شخص ’’نہار‘‘ کو یمامہ روانہ کیا تاکہ وہ مسیلمہ کو سمجھا بجھا کر راہ راست پر لے آئے مگر یہ شخص بھی یمامہ پہنچ کر مسیلمہ کذاب کا معتقد بن گیا اور لوگوں کے سامنے اس کے شریک نبوت ہونے کی جھوٹی تصدیق کرنے لگا۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسیلمہ کذاب کا حلقہ بڑھنے لگا۔ اپنے ہم نواؤں کی کثرت دیکھ کر مسیلمہ کذاب نے اپنے دماغ میں یہ بات پختہ کرلی کہ واقعی وہ حضور نبی کریم ﷺ کی نبوت میں شریک ہے۔
چنانچہ مسیلمہ کذاب نے حضور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک خط لکھا
’’مسیلمہ رسول اللہ کی طرف سے محمد رسول اللہ کے نام معلوم ہو کہ میں امر نبوت میں آپ کا شریک کار ہوں۔ عرب کی سرزمین نصف آپ کی ہے اور نصف میری لیکن قریش کی قوم زیادتی اور ناانصافی کر رہی ہے‘‘۔
یہ خط دو قاصدوں کے ہاتھ جب حضور نبی کریم خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں پہنچایا گیا تو آپ ﷺ نے ان قاصدوں سے پوچھا تمہارا مسیلمہ کے بارے میں کیا عقیدہ ہے؟
انہوں نے کہا کہ ہم بھی وہ ہی کہتے ہیں جو ہمارا سچا نبی کہتا ہے۔ اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ’’ اگر قاصد کا قتل جائز ہوتا تو میں تم دونوں کو قتل کرا دیتا‘‘۔ خاتم المرسلین سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جواب میں مسیلمہ کو لکھا۔
’’ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منجانب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بنام مسیلمہ کذاب۔سلام اس شخص پر جو ہدایت کی پیروی کرے، اس کے بعد معلوم ہو کہ زمین اللہ کی ہے، اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا مالک بنا دیتا ہے اور عاقبت کی کامیابی متقیوں کے لیے ہے‘‘
آنحضرت ﷺ کی حیات مبارکہ میں یہ مسئلہ کسی نہ کسی طرح چلتا رہا مگر آپ ﷺ کے وصال پاتے ہی مسیلمہ کذاب نے لوگوں کو اپنے دین اور جھوٹی نبوت کی طرف راغب کرنے کے لیے ایک ایسے عامیانہ اور رندانہ مسلک کی بنیاد ڈالی جو عین انسان کے نفس امارہ کی خواہشات کے مطابق تھا، چنانچہ اس نے
۔۔▪ شراب حلال کر دی،
۔۔▪زنا کو مباح کر دیا،
۔۔▪ نکاح بغیر گواہوں کے جائز کر دیا،
۔۔▪ختنہ کرنا حرام قرار پایا،
۔۔▪ماہ رمضان کے روزے اڑا دیے،
۔۔▪فجر اور عشا کی نماز معاف کر دی،
۔۔▪قبلہ کی طرف منہ کرنا ضروری نہیں،
۔۔▪سنتیں ختم صرف فرض نماز پڑھی جائے۔
ان کے علاوہ اور بہت سی خرافات اس نے اپنی خود ساختہ شریعت میں جاری کیں چونکہ یہ سب باتیں انسانی نفس امارہ کے عین مطابق تھیں اس لیے کم عقل لوگ اس پر ایمان لانے لگے اس کا اثر یہ ہوا کہ ہر طرف فواحشات اور عیش کوشی کے شرارے بلند ہونے لگے اور پورا علاقہ فسق و فجور کا گہوارہ بن گیا ۔
۔1 ایک مرتبہ ایک شخص کے باغات کی شادابی کی دعا کی تو درخت بالکل سوکھ گئے.
۔۔2 کنوؤں کا پانی بڑھانے کے لیے حضور علیہ التحیتہ والسلام کی طرح مسیلمہ نے اپنا آب دہن ڈالا تو کنویں کا پانی اور نیچے چلا گیا اور کنواں سوکھ گیا ۔
۔۔ 3بچوں کے سر پر برکت کے لیے ہاتھ پھیرا تو بچے گنجے ہو گئے۔
۔۔4 ایک آشوب چشم پر اپنا لعاب دہن لگایا تو وہ بالکل اندھا ہو گیا۔
۔۔5 بکری کے تھن پر ہاتھ پھیرا تو اس کا سارا دودھ خشک ہو گیا اور تھن سکڑ گئے۔
مسیلمہ کذاب کی پذیرائی کو دیکھ کر دوسرے مزید بد باطن لوگوں کو بھی دعویٰ نبوت کی جرأت ہوئی جس میں طلیحہ اسدی بھی تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فراست ایمانی سے آغاز خلافت ہی میں ان تمام ہنگاموں کی قوت کا پورا اندازہ لگا لیا تھا۔ چنانچہ منصب خلافت سنبھالتے ہی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا تقرر طلیحہ مدعی نبوت کے مقابلے میں کیا اور ساتھ ہی طلیحہ اسدی کے قبیلے سے حضرت عدی بن حاتمؓ کو بھی روانہ کیا کہ ان کو سمجھا کر تباہی سے بچائیں۔ انہوں نے اپنے قبیلے کو بہت سمجھایا جس کے نتیجے میں قبیلہ طئے اور قبیلہ جدیلہ نے خلیفہ اسلام کی اطاعت قبول کرلی۔طلیحہ حضرت خالد بن ولیدؓ کے مقابلے میں شکست کے بعد شام کی طرف بھاگ گیا جہاں کچھ عرصہ بعد دوبارہ حلقہ بگوش اسلام ہو گیا۔ امیر المؤمنین حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے تمام فتنوں کی سرکوبی کے لیے مجموعی طور پر گیارہ لشکر ترتیب دیے تھے۔جب حضرت خالد رضی اللہ عنہ یمامہ پہنچے تو مسیلمہ کذاب کے لشکر کی تعداد چالیس ہزار تک پہنچ چکی تھی جبکہ مسلمانوں کا لشکر 13 ہزار نفوس پر مشتمل تھا۔ مسیلمہ کذاب نے جب حضرت خالد رضی اللہ عنہ کی آمد کی اطلاع سنی تو آگے بڑھ کر عقربانا نامی مقام پر پڑاؤ ڈالا۔ اسی میدان میں حق و باطل کا مقابلہ ہوا۔ اس جنگ میں بڑے بڑے صحابہ رضی اللہ عنہم شہید ہوئے جن میں ثابت بن قیس، حضرت زید بن خطاب رضی اللہ عنہما وغیرہ شامل ہیں۔
مسیلمہ اس جنگ کے دوران ایک باغ میں قلعہ بند چھپا رہا مگر لشکر اسلام نے قلعے کا دروازہ توڑ کر حملہ کر دیا اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قاتل وحشی رضی اللہ عنہ نے جو مسلمان ہو چکے تھے اپنا مشہور نیزہ پوری قوت سے مسیلمہ پر پھینکا جس کی ضرب فیصلہ کن ثابت ہوئی اور مسیلمہ زمین پر گر کر تڑپنے لگا۔ قریب ہی ایک انصاری صحابیؓ کھڑے تھے، انہوں نے اس کے گرتے ہی اس پر پوری شدت سے تلوار کا وار کیا جس سے مسیلمہ کا سر کٹ کر دور جا گرا اور یوں دوسرا جھوٹا نبی بھی نشان عبرت بن گیا۔
مؤرخین نے لکھا ہے کہ یہ جنگ (یمامہ) جھوٹے ’’مدعیان نبوت‘‘ کے خلاف آخری معرکہ تھا جس کے بعد دور صدیقی رضی اللہ عنہ میں کسی اور شخص کو نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے کی ہمت نہ ہو سکی۔
۔۔⏪ 3 ... سجاح
یہ عورت اپنے زمانے کی مشہور کاہنہ تھی۔ نہایت فصیحہ و بلیغہ اور بلند حوصلہ عورت تھی۔ مذہباً عیسائی تھی، سجاح کو اپنی فطرت اور باکمال خوبیوں پر بہت ناز تھا۔ ایک دن اس نے سوچا مسیلمہ کذاب جیسا 100سالہ بوڑھا نبوت کا دعویٰ کر کے با اقتدار بن گیا ہے تو مجھے بھی اپنی خوبیوں سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ جیسے ہی اس نے سید المرسلین ﷺ کے وصال کی خبر سنی تو دعویٰ نبوت کر دیا چونکہ جناتی طاقت اور تحریر و تقریر کے فن پر اس کو عبور حاصل تھا۔ لہٰذا اس نے بہت جلد بنی تغلب اور بنی تمیم کے بڑے بڑے سرداروں کو اپنا ہم نوا بنا لیا، مالک بن ہبیرہ، حنف بن قیس اور حارث بن بدر جیسے سردار بھی سجاح کی سحر بیانی سے مرعوب ہو کر مرتد ہو گئے۔جب سجاح کی طاقت بڑھ گئی تو اس نے ایک رات تمام معتقدین سرداروں کو بلا کر یمن پر حملے کی تیاری کا حکم دیا، جب سجاح کا لشکر یمن کی طرف روانہ ہوا جہاں مسیلمہ کذاب پہلے سے اپنی جھوٹی نبوت کی دکان کھولے بیٹھا تھا تو اسی دوران حضرت صدیق اکبرؓ نے ایک لشکر سجاح بنت حارث کی سرکوبی کے لیے بھی روانہ کر دیا تھا۔ لشکر اسلام کچھ فاصلہ آگے بڑھا تھا کہ معلوم ہوا کہ نبوت کے دو جھوٹے دعویداروں کے درمیان تصادم ہونے جا رہا ہے تو لشکر اسلام وہیں رک گیا۔ ادھر مسیلمہ کذاب کو جب سجاح کے حملے کی خبر ملی تو وہ سخت پریشان ہوا کیونکہ اس کو معلوم تھا کہ سجاح بہت ہوشیار اور حوصلہ مند عورت ہے۔ اس لیے اس نے کمال مکاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتہائی قیمتی تحائف کے ساتھ راستے میں ہی سجاح بنت حارث سے ملاقات کی اور اسے اپنے جال میں پھانس لیا اور دونوں نے 3 دن تک مسیلمہ کذاب کے خیمے میں اپنی اپنی نبوت پر بحث و مباحثے کے دوران داد و عیش کے دور گزارنے کے بعد نکاح کر لیا۔ جب 3 روز بعد سجاح نے اپنے معتقدین کو مسیلمہ کذاب کے نبی برحق ہونے اور نکاح کی خبر سنائی تو بڑے بڑے سردار اس سے ناراض ہو کر الگ ہونے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے سجاح بنت حارث اکیلی رہ گئی اور خاموشی سے اپنے نانہالی قبیلے بنی تغلب میں زندگی گزارنی شروع کر دی، جب حضرت امیر معاویہؓ کے زمانے میں ایک سال قحط پڑا تو انہوں نے بنی تغلب کو بصرہ میں آباد کر لیا، سجاح بنت حارث بھی ان کے ساتھ یہاں آباد ہو گئی اور توبہ استغفار کر کے مسلمان ہو گئی ۔ انتہائی دینداری، پرہیز گاری اور ایمانی کیفیت میں ان کا انتقال ہوا. بصرہ کے حاکم اور صحابی رسولﷺ سمرہ بن جندبؓ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔
۔۔⏪ 4... حارث کذاب دمشقی
جو شخص بھوکا رہے، کم سوئے، کم بولے اور نفس کشی اختیار کر لے اس سے بعض دفعہ ایسے افعال صادر ہو جاتے ہیں جو دوسروں سے نہیں ہو سکتے، ایسے لوگ اہل اللہ میں سے ہوں تو ان کے ایسے فعل کو کرامت کہتے ہیں اور اگر اہل کفر یا گمراہ ہو تو ان کے ایسے فعل کو استدراج کہتے ہیں۔ حارث کذاب بھی اپنی ریاضت و مجاہدات اور نفس کشی کی بدولت ایسے افعال کرتا تھا، مثلاً: یہ لوگوں کو کہتا کہ آؤ میں تمہیں دمشق سے فرشتوں کو جاتے ہوئے دکھاؤں چنانچہ حاضرین محسوس کرتے کہ نہایت حسین و جمیل فرشتے بصورت انسان گھوڑوں پر سوار جا رہے ہیں۔ یہ لوگوں کو موسم سرما میں گرمیوں کے اور گرمیوں میں موسم سرما کے پھل کھلاتا۔ اس کے گمراہ کن افعال اور شعبدوں کی شہرت آس پاس پھیل گئی اور اس بدبخت نے بھی نبی ہونے کا دعویٰ کر دیا۔ خلق خدا کو گمراہ ہوتے دیکھ کر ایک دمشقی رئیس قاسم بن بخیرہ اس کے پاس آئے اور دریافت کیا کہ تم کس چیز کے دعویدار ہو، حارث بولا میں اللہ کا نبی ہوں۔ اس پر قاسم نے کہا: اے دشمن خدا تو بالکل جھوٹا ہے۔حضرت خاتم المرسلین ﷺ کے بعد نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو چکا ہے۔ یہ کہہ کر قاسم سیدھا خلیفہ وقت عبدالمالک بن مروان کے پاس گئے اور سارا ماجرا سنادیا۔
عبدالمالک نے حارث کو گرفتار کر کے دربار میں پیش کرنے کا حکم دیا لیکن اس دوران وہ بیت المقدس کی جانب فرار ہوچکا تھا اور وہاں پہنچ کر اس نے اعلانیہ اپنی جھوٹی نبوت کا آغاز کر دیا۔ بصرہ کے ایک شخص نے اس سے ملاقات کی اور بہت دیر تک تبادلہ خیال کے بعد سمجھ گئے کہ یہ جھوٹا نبی ہے۔ تاہم اس کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے اس کا اعتماد حاصل کیا اور کچھ عرصے بعد خلیفہ کے دربار میں پہنچ کر سارا قصہ بیان کرنے کے بعد حارث کی گرفتاری کے لیے 20 سپاہی لے کر پھر بیت المقدس پہنچ گئے اور موقع ملتے ہی حارث کو زنجیروں میں باندھ لیا۔ بیت المقدس سے بصرہ تک راستے میں حارث نے شیطانی طاقتوں کے ذریعے 3 سے زائد بار اپنی زنجیریں کھلوائیں مگر یہ شخص جس نے گرفتار کیا تھا وہ کسی طور مرعوب نہیں ہوئے اور جھوٹے نبی کو خلیفہ کے دربار میں پیش کر دیا۔ خلیفہ کے دربار میں بھی حارث نبی ہونے کا دعویدار رہا جس پر خلیفہ نے محافظ کو نیزہ مارنے کا اشارہ کیا لیکن پہلے نیزہ کے وار نے اس کے جسم پر کوئی اثر نہیں کیا جس پر اس کے حواریوں کی بانچھیں کھل گئیں۔ پھر خلیفہ عبدالمالک نے محافظ سے کہا کہ بسم اللہ پڑھ کر نیزہ مارو۔ اس نے بسم اللہ پڑھ کر نیزہ مارا تو وہ حارث کے جسم کے پار ہو گیا اور یوں یہ جھوٹا نبی بھی اپنے انجام کو پہنچ گیا۔
حارث کی شیطانی کرامات زنجیروں کے کھلنے اور فرشتوں کے نظر آنے سے متعلق علامہ ابن تیمیہ نے اپنی کتاب الفرقان بین اولیاء الرحمن و اولیاء الشیطان میں لکھا ہے کہ حارث کی زنجیریں کھولنے والا اس کا کوئی موکل یا شیطان تھا اور فرشتوں کو جو گھوڑوں پر سوار دکھایا وہ فرشتے نہیں جنات تھے۔
۔۔⏪ 5... مغیرہ بن سعید
یہ شخص خالد بن عبداللہ قمری والی کوفہ کا آزاد کردہ غلام تھا۔حضرت محمد باقرؓ کی رحلت کے بعد پہلے امامت اور پھر نبوت کا دعویٰ کرنے لگا۔ یہ کہتا تھا کہ میں اسم اعظم جانتا ہوں اور اس کی مدد سے مردوں کو زندہ اور فوجوں کو شکست دے سکتا ہوں۔ اگر میں قوم عاد وثمود کے درمیانی عہد کے لوگوں کو بھی چاہوں تو زندہ کر سکتا ہوں۔ اس کو جادو اور سحر پر بھی کامل دسترس حاصل تھی اور دوسرے طلسمات بھی جانتا تھا جس سے کام لے کر لوگوں پر اپنی بزرگی اور عقیدت کا سکہ جماتا تھا۔
جب خالد بن عبداللہ قمری کو جو خلیفہ ہشام بن عبدالملک کی طرف سے عراق کا حاکم تھا یہ معلوم ہوا کہ مغیرہ اپنے آپ کو نبی کہتا ہے اور اس نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا ہے تو اس نے 119 ہجری میں اس کی گرفتاری کا حکم دیا۔ مغیرہ اپنے مریدوں کے ساتھ گرفتار کر کے خالد کے سامنے پیش کیا گیا۔ خالد نے اس سے پوچھا تو کس چیز کا دعویدار ہے۔ اس نے کہا میں اللہ کا نبی ہوں۔ خالد نے پھر اس کے مریدوں سے پوچھا تم اس کو اللہ کا نبی مانتے ہو؟
سب نے اثبات میں جواب دیا۔ خالد نے مغیرہ کو سرکنڈے کی گھٹے کے ساتھ باندھا اور تیل چھڑک کر زندہ جلا دیا۔ (خیال رہے کہ خالد نے جوش میں اس کو آگ کی سزا دی ورنہ حدیث شریف میں آگ سے عذاب دینے کی ممانعت کی گئی ہے) ۔
۔۔⏪ 6... بیان بن سمعان
اس کو بنان بھی کہا جاتا ہے لیکن صحیح نام بیان ہی ہے۔یہ شخص اہل ہنود کی طرح تناسخ اور حلول کا قائل تھا اس کا دعویٰ تھا کہ میرے جسم میں خدا کی روح حلول کر گئی ہے۔ یہ بھی کہتا تھا کہ میں اسم اعظم جانتا ہوں اور اس کے پیروکار اس کو اسی طرح خدا کا اوتار مانتے تھے جس طرح رام چندر جی اور کرشن جی کو ۔ یہ قرآن پاک کی ایسی تاویلات کرتا تھا جیسے قادیان کے خود ساختہ نبی نے کی ہیں۔ اس کے ماننے والے کہتے تھے کہ
’’ھٰذا بین للناس وھدی وموعظہ للمتقین‘‘
قرآن کی یہ آیت بیان ہی کی شان میں اتری ہے۔اور خود بیان کا بھی یہی خیال تھا ۔ بیان نے اپنی خانہ ساز نبوت کی دعوت حضرت محمد باقرؓ جیسی جلیل القدر ہستی کو بھی دی تھی اور اپنے ایک خط میں جو اپنے قاصد عمر بن عفیف کے ہاتھ امام موصوف کے پاس بھیجا اس نے لکھا:
’’تم میری نبوت پر ایمان لے آؤ گے تو سلامتی میں رہو گے اور ترقی کرو گے ۔ تم نہیں جانتے کہ اللہ کس کو نبی بناتا ہے‘‘۔
کہتے ہیں کہ حضرت امام محمد باقرؓ یہ خط پڑھ کر بہت غضب ناک ہو گئے اور قاصد سے فرمایا اس خط کو نگل جاؤ قاصد بے تامل نگل گیا اور اس کے فوراً بعد ہی گر کر مر گیا اس کے بعد حضرت امام محمد باقرؓ نے بیان کے حق میں بھی بد دعا فرمائی ۔
خالد بن عبداللہ حاکم کوفہ نے مغیرہ بن سعید کے ساتھ ہی بیان کو بھی گرفتار کر کے دربار میں بلایا تھا۔ جب مغیرہ ہلاک ہو چکا تو خالد نے بیان سے کہا اب تیری باری ہے۔ تیرا دعویٰ ہے کہ تو اسم اعظم جانتا ہے اور اس کے ذریعے فوجوں کو شکست دیتا ہے اب یہ کر کہ مجھے اور میرے عملہ کو جو تیری ہلاکت کے درپے ہیں اسم اعظم کے ذریعے ہلاک کر۔ مگر چونکہ وہ جھوٹا تھا اس لیے کچھ نہ بولا اور خالد نے مغیرہ کی طرح اس کو بھی زندہ جلا دیا۔
Comments
Post a Comment