226) عورت برائی کی جڑ ایک مغالطہ

عورت برائی کی جڑ ایک مغالطہ 

یہ تصور ہمارے ہاں بہت عام ہے کہ دنیا میں ہر برائی کی جڑ عورت ہی ہے اور اسی نے آدم علیہ السلام کو اپنے پیچھے لگا کر جنت سے نکلوایا تھا یہ سراسر ایک غلط تصور ہے۔ یہ عیسائیوں کا عقیدہ تو ہو سکتا ہے جو انہوں نے اسرائیلی روایات سے لیا ہو۔ انہوں نے تو اس پر اتنا یقین کر لیا کہ انگریزی زبان میں حوا کو ایو کہا اور اسی سے پھر برائی کے لیے لفظ  ایول( شیطان ) بنا لیکن ہم مسلمانوں کا یہ عقیدہ رکھنا از روئے قرآن درست نہیں ہے۔

اللہ تعالٰی نے جب زمین میں اپنا خلیفہ بنانے کا ارادہ فرمایا تو آدم کی تخلیق فرمائی اور ایک حدیث مبارکہ کے مطابق ان کی پسلی سے اماں حوا کو پیدا کیا پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو۔ ابلیس جو کہ نسلاً جنوں میں سے تھا لیکن اللہ کی عبادت کرتے کرتے اس مقام تک پہنچ گیا تھا کہ اس کو فرشتوں کا بھی سردار بنا دیا گیا تھا، اس نے سجدہ نہیں کیا۔ جس پر اللہ تعالی نے اسے دھتکار کر جنت سے نکال دیا۔ پھر اللہ تعالٰی نے آدم علیہ السلام سے فرمایا کہ تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو اور اس میں جو چاہو کھاؤ لیکن اس ایک درخت کے قریب بھی نہ جانا ورنہ تم ظالموں میں سے ہو جاؤ گے۔

سورہ الاعراف میں قصہ آدم و ابلیس کا مطالعہ کیا جائے تو آیت نمبر 20 تا 25 میں فرمایا گیا:- شیطان نے دونوں کو وسوسے میں ڈالا تاکہ ان کے ستر ظاہر کروا دے جو کہ انہوں نے ایک دوسرے سے چھپائے ہوئے تھے اور کہنے لگا کہ تمہارے رب نے اس درخت سے اس لئے منع کیا ہے کہ کہیں اسے کھا کر تم فرشتے نہ بن جاؤ  اور حیات جاوداں نہ پا لو اور قسم کھا کر کہنے لگا کہ میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں۔ تو اس نے ان دونوں کو دھوکے سے (نافرمانی کی طرف) کھینچ ہی لیا۔ جب ان دونوں نے اس درخت کے پھل کو چکھا تو انکے ستر ایک دوسرے پر ظاہر ہو گئے پھر وہ جنت کے پتوں سے اپنے ستر چھپانے لگے۔ تب انکے پروردگار نے ان دونوں کو پکارا کہ کیا میں نے تم دونوں کو اس درخت سے منع نہیں کیا تھا؟ اور تم دونوں کو بتا نہیں دیا تھا کہ شیطان تمھارا کھلا دشمن ہے؟ 

اسی سورہ کی آیت نمبر 27 میں فرمایا گیا کہ اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکا نہ دے جس طرح تمہارے ماں باپ کو بہکا کر جنت سے نکلوایا تھا ۔۔۔۔  الى أخر الأيه

اس سارے واقعے میں تثنیہ کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے جو کہ عربی زبان میں دو افراد کے لیے بولا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں یہ قصہ سات مختلف مقامات پر بیان ہوا ہے اور کسی بھی مقام سے ایسا کوئی شائبہ تک نہیں ہوتا کہ حضرت حوا نے حضرت آدم علیہ السلام کو اپنے پیچھے لگا کر اس درخت کا پھل کھانے پر مجبور کر دیا تھا۔ جہاں بھی ذکر ہوا ہے یہی فرمایا گیا ہے کہ شیطان نے دونوں کو ورغلا کر اس نافرمانی والے کام کی طرف راغب کیا اور جیسے ہی ان دونوں کے سامنے حقیقت کھل گئی انہیں فوراً اپنی غلطی کا احساس ہوا اور انہوں نے اسی وقت اللہ تعالٰی سے اپنی خطا کی معافی مانگ لی۔

اگر عورت بذات خود برائی کی جڑ ہوتی تو قرآن مجید کی سورتوں کے نام عورتوں کے نام پر نہ ہوتے۔ سورہ النساء، سورہ مریم کے نام عورت سے ہی متعلق ہیں۔ حضرت مریم علیہ السلام کی پاکبازی کی گواہی قرآن مجید میں دی گئی۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بارے سورہ النور میں دو رکوع نازل فرمائے گئے۔ اور محدثین میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا وہ مقام ہے کہ جلیل القدر مرد صحابہ کرام اس کے قریب بھی نہیں پہنچ سکے۔

پھر اللہ تعالٰی نے مرد اور عورت کے ازدواجی رشتے کو اپنی نشانی قرار دیا۔ سورہ الروم کی آیت نمبر 21 میں فرمایا گیا:- اور اسی کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس کی عورتیں پیدا کیں تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت و رحمت پیدا کر دی۔ یقیناً اس میں غور کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔

دنیا میں اگر عورت نہ ہوتی تو نسل انسانی آگے کیسے بڑھتی۔ اللہ تعالٰی نے مرد اور عورت کو ایک حکمت کے تحت پیدا فرمایا اور پھر کیسے کیسے خوبصورت رشتوں میں ایک دوسرے سے منسلک کر دیا۔ کہیں یہ عورت اپنی اولاد سے ٹوٹ کر محبت کرنے والی ماں کے روپ میں ہے کہیں یہ بہن ہے کہیں بیٹی اور کہیں زندگی کے ہمسفر یعنی بیوی کے روپ میں

خطبہ حجتہ الوداع میں حضور اکرم صل اللہ علیہ و سلم نے عورتوں سے حسن سلوک کی نصیحت فرمائی۔ ہمیں اپنے معاشرے میں عورت کو اس کا مقام اور عزت دینے کی ضرورت ہے نہ کہ ہم اس کو جنت سے نکلوانے والی اور ہر برائی کی جڑ سمجھتے ہوئے اس کے ساتھ تحقیر آمیز رویہ اختیار کریں

Comments