196🌻) حضرت عمر رضی اللہ کے واقعات

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں ہرمزان ، نہاوند کا ایرانی گورنر تھا اور مسلمانوں کا کٹر دشمن تھا . اسکی وجہ سے مسلمانوں اور ایرانیوں میں کئی لڑائیاں هوئیں۔آخر ایک لڑائی میں ہرمزان گرفتار ہوا . اسے یقین تھا کہ اسے موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا . لیکن امیر المومنین حضرت عمر رضی الله عنہ نے اسے اس شرط پر رہا کر دیا کہ وه آئندہ جزیہ دے گا آزاد ہو کر وه اپنے دارلخلافہ پہنچا ، بہت بڑی فوج اکٹھی کی اور مسلمانوں کے مقابلے میں اتر آیا . لیکن اس بار بهی اسے شکست ہوئی اور ہرمزان دوبارہ سے گرفتار ہو کر خلیفہ کے سامنے پیش کیا گیا . ہرمزان کے چہرے سے صاف ظاہر تھا که وه خود کو صرف کچھ لمحوں کا مہمان سمجھتا ہے 

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم نے ہمارے ساتھ کئی بار عہد شکنی کی ہے . تم جانتے ہو کہ اس جرم کی سزا موت ہے ؟ 
ہرمزان نے کہا ہاں میں جانتا ہوں . اور مرنے کیلئے تیار ہوں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے اسلام قبول کرنے کو کہا لیکن اس نے انکار کر دیا اور کہا کہ میری ایک آخری خواہش ہے آپ نے پوچھا : کیا ؟ 
ہرمزان نے کہا میں شدید پیاسا ہوں اور پانی پینا چاہتا ہوں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم پر اسے پانی کا پیالہ پیش کیا گیا ہرمزان نے پیالہ ہاتھ میں پکڑ کر کہا: مجھے خوف ہے کہ پانی پینے سے پہلے ہی مجھے قتل نہ کر دیا جائے . آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اطمینان رکھو ، جب تک تم پانی نہ پی لو گے کوئی شخص تمہارے سر کو نہ چھوئے گا 

ہرمزان نے کہا: آپ نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ جب تک میں پانی نہ پیوں گا ، مجھے قتل نہ کیا جائے گا . میں یہ پانی کبھی نہیں پیوں گا . یہ کہہ کر اس نے پیاله توڑ دیا اور کہنے لگا اب آپ مجھے کبھی قتل نہیں کر سکتے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مسکرا کر فرمایا
تم نے عجیب چال چلی ہے لیکن عمر کو اپنے لفظوں کا پاس ہے . جاؤ تم آزاد ہو ہرمزان شکر گزاری اور حیرانی کے تاثرات کے ساتھ چلا گیا 

چند دن بعد ہی ہرمزان اپنے کچھ ساتھیوں سمیت خلیفہ کے سامنے حاضر ہوا اور درخواست کی کہ ہمیں اسلام میں داخل کر لیجئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم نے اس وقت اسلام قبول کیوں نہ کیا جب میں نے تمہیں دعوت دی تھی ہرمزان نے کہا کہ صرف اس لیے کہ آپ یہ نہ سمجھیں کہ میں نے موت کے خوف سے کلمہ پڑھ لیا ہے ۔ اب میں اپنی رضا سے اسلام قبول کرتا ہوں ( اسلامی واقعات کی کتاب"بصائر"سے اقتباس )

عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ جب خلیفہ بنے رعایا کی زندگی کو منظم کرنے کے لیے ہر شہری کا ریکارڈ بنانے کا فیصلہ کیا اور آپ ہی کے دور میں انسانی تاریخ میں پہلی بار ریاست نے اپنے ہر شہری کی کفالت کا ذمہ لیا اور ریاست کا ہر شہری خوشحال اور پرامن زندگی گزارنے کے قابل ہوا، اس سے پہلے انسانی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی کہ ریاست نے ہر ایک شہری کا ریکارڈ بنا کر اس کی زندگی کو منظم کیا ہو اور ریاست ہر ایک شہر کی کفالت کی ذمہ داری اٹھائی ہو، عمر نے حکم دیا کہ ہر پیدا ہونے والے بچے کے لیے ایک رجسٹر بنایا جائے جس میں اس کا مکمل ریکارڈ ہو، ابتدائی دنوں میں دودھ چھڑانے کے بعد ریاست کی طرف مالی معاونت دی جاتی تھی، ایک دن تاجروں کا ایک قافلہ مدینہ منورہ آیا اور ایک مسجد میں رک گیا، عمر بن الخطاب نے عبد الرحمن بن عوف سے فرمایا: ہم دونوں اس قافلے کی حفاظت کے لیے ان کی چوکیداری کرتے ہیں، دونوں چوکیداری بھی کرتے رہے اور نماز بھی پڑھتے رہے، اس دوران عمر نے ایک بچے کے رونے کی آواز سنی اور اس کی ماں کے پاس جا کہا: اللہ سے ڈرو بچے کو سنبھالو۔ پھر اپنی جگہ آکر بیٹھ گئے، پھر اس بچے کے رونے کی آواز سنی اور اٹھ کر اس کی ماں کے پاس گئے اور اس سے وہی کہا جو پہلے کہا تھا، پھر رات کے آخری حصے میں پھر اس بچے کے رونے کی آواز آئی تو جا کر اس کی ماں سے کہا: تیرا برا ہو! کیسی بری ماں ہو، یہ بچہ کیوں ساری رات بے چین رہا ؟
 اس عورت نے کہا: اے اللہ کے بندے(وہ عمر کو نہیں پہچانتی تھی) اس نے ساری رات مجھے تھکا دیا، میں اس کا دودھ چھڑانے کی کوشش کرتی ہوں یہ" نہیں مانتا"۔ عمر نے کہا: کیوں؟
اس عورت نے کہا: کیونکہ عمر دودھ چھڑانے کے بعد ہی بچوں کے لیے وظائف مقرر کرتے ہیں۔ عمر نے ان سے کہا:اس کی عمر کتنی ہے؟
 عورت نے کہا: اتنے مہینے ہے۔ عمر نے کہا: تیرا برا ہو!! جلدی مت کرو۔۔
پھر فجر کی نماز پڑھاتے ہوئے رونے کی وجہ سے لوگ عمر رضی اللہ عنہ کی قرات کو نہ سمجھ سکے جب سلام پھیر دیا کہا: عمر تباہ ہو گیا اس نے مسلمانوں کے کتنے بچوں کو قتل کیا۔ پھر ایک منادی کرنے والے کو حکم دیا کہ منادی کرو: اپنے بچوں کا دودھ جلدی مت چھڑاو اب پیدا ہوتے ہی ہر بچے کو ریاست کی طرف سے وظیفہ ملے گا  (منقول)

اونٹنی پر دو تھیلے تھے‘ ایک میں ستُّو تھے‘ دوسرے میں کھجوریں۔ سامنے پانی سے بھرا مشکیزہ تھا اور پیچھے ایک برتن۔ مسلمانوں کی ایک جماعت ساتھ تھی‘ روزانہ صبح آپ برتن بیچ میں رکھ دیتے اور سب آپکے ساتھ کھانا کھاتے۔ پیشانی سے اوپر کا حصہ دھوپ میں چمک رہا تھا‘ سر پر ٹوپی تھی‘ نہ عمامہ‘ اونٹ کی پیٹھ پر اونی کمبل تھا جو قیام کی حالت میں بستر کا کام بھی دیتا تھا۔ خورجین میں کھجور کی چھال بھری تھی‘ اسے ضرورت کے وقت تکیہ بنا لیا جاتا تھا۔ نمدے کا بوسیدہ کُرتا پہنے تھے اس میں چودہ پیوند تھے اور پہلو سے پھٹا ہوا تھا۔ 
یہ تھی وہ حالت جس میں عمر فاروق اعظم بیت المقدس میں داخل ہوئے جہاں مخالفین ہتھیار ڈال چکے تھے اور اب وہ معاہدہ کرنے آئے تھے جس کی رو سے یہ عظیم الشان شہر مسلمانوں کی سلطنت میں شامل ہونا تھا۔ 
آپ نے مفتوح قوم کے سردار کو بلایا‘ اس کا نام جلومس تھا‘ ارشاد فرمایا‘ میرا کرتا دھو کر سی لاﺅ اور مجھے تھوڑی دیر کیلئے کوئی کپڑا یا قمیص دے دو۔
جلومس نے عرض کیا‘ ”آپ عرب کے بادشاہ ہیں‘ اس ملک میں آپ کا اونٹ پر جانا زیب نہیں دیتا‘ اگر آپ دوسرا لباس پہن لیں اور ترکی گھوڑے پر سوار ہو جائیں تو رومیوں کی نگاہمیں عظمت بڑھے گی۔“ جواب دیا۔  ”خدا نے ہمیں جو عزت دی ہے‘ اسلام کی وجہ سے ہے اسکے سوا ہمیں کچھ نہیں چاہیے“۔ ابن کثیر نے طارق بن شہاب کی ایک روایت بھی نقل کی ہے‘ ان کا بیان ہے‘ ”جب حضرت عمر شام پہنچے تو ایک جگہ رستے میں پانی رکاوٹ بن گیا۔ آپ اونٹنی سے اترے‘ موزے اتار کر ہاتھ میں لئے اور اونٹنی کو ساتھ لے کر پانی میں اتر گئے  بحوالہ: تفسیر ابن کثیر البدایہ والنہایہ

حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں مصر کے حاکم تھے.. مصر کا ایک آدمی حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ھوا اور عرض کی.. "اے امیر المومنین ! میں ظلم سے آپ کی پناہ لینے آیا ھوں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا.. "تم نے ایسے آدمی کی پناہ حاصل کی جو تمہیں پناہ دے سکتا ھے
مصری بولا.. "میں نے حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے بیٹے کے ساتھ دوڑ میں مقابلہ کیا.. میں اس سے آگے بڑھ گیا تو وہ مجھے کوڑے مارنے لگا اور کہنے لگا 'میں شریف خاندان کا بیٹا ھوں
یہ شکوہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مصر کے حاکم حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ وہ اپنے بیٹے کے ساتھ تشریف لائيں
حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اپنے بیٹے کے ساتھ امیر المومنین کی خدمت میں حاضر ھوئے تو انھوں نے پوچھا.. "مصری کدھر ھے..؟" وہ سامنے آیا تو فرمایا.. "یہ کوڑا لے اور مار
امیر المومنین کا حکم ملتے ھی مصری حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے بیٹے پر کوڑا برسانے لگا اور امیر المومنین کہتے جا رھے تھے.. "شریف خاندان کے بیٹے کو مارو
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ھیں.. مصری نے حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے بیٹے کو کوڑے لگائے اور اللہ کی قسم ! بہت مارا اور ھم اس کی پٹائی چاھتے بھی تھے لیکن مصری برابر مارے جا رھا تھا حتی کہ ہماری خواھش ھوئی کہ اب اس کی پٹائی بند ھو جائے
پھر حضرت عمر بن حطاب رضی اللہ عنہ نے مصری سے فرمایا.. "کوڑا عمرو بن عاص (رضی اللہ عنہ) کے بھی لگاؤ (کہ ان کے بیٹے نے ان کی حاکمیت کے زعم میں ہی یہ سب کیا تو قصور وار وہ بھی ہیں) مصری نے عرض کی.. "اے امیر المومنین ! ان کے بیٹے نے میری پٹائی کی ھے اور میں نے اس سے قصاص لے لیا پھر امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ھوئے اور اپنا تاریخی جملہ بیان فرمایا
"تم نے لوگوں کو کب سے غلام بنا رکھا ھے جب کہ ان کی ماؤں نے انھیں آزاد جنا تھا..؟"
مولانا محمد یوسف کاندھلوی.. "حیاۃ الصحابہ" سے انتخاب

حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو یہ سعادت کئی مرتبہ حاصل ھوئی کہ وحیِ خداوندی نے ان کی رائے کی تائید کی.. حافظ جلال الدین سیوطی رحمتہ اللہ علیہ نے "تاریخ الخلفاء" میں ایسے بیس اکیس مواقع کی نشاندھی کی ھے اور امام الہند شاہ ولی اللہ محدث دھلوی رحمۃ اللہ علیہ نے "ازالة الخفاء عن خلافة الخلفاء" میں دس گیارہ واقعات کا ذکر کیا ھے.. ان میں سے چند یہ ھیں

۔۔۱:…حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ جنگِ بدر کے قیدیوں کو قتل کیا جائے.. اس کی تائید میں سورة الانفال کی آیت:۶۷ نازل ھوئی

۔۔۲:…منافقوں کا سرغنہ "عبداللہ بن اُبیّ" مرا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے تھی کہ اس منافق کی نماز جنازہ نہ پڑھائی جائے.. اس کی تائید میں سورة التوبہ کی آیت:۸۴ نازل ھوئی

۔۔۳:… حضرت عمر رضی اللہ عنہ مقامِ ابراھیم کو نمازگاہ بنانے کے حق میں تھے.. اس کی تائید میں سورہٴ بقرہ کی آیت :۱۲۵ نازل ھوئی

۔۔۴:۔۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ ازواجِ مطہرات کو پردہ میں رھنے کا مشورہ دیتے تھے.. اس پر سورہٴ احزاب کی آیت:۵۳ نازل ھوئی اور پردہ لازم کر دیا گیا

۔۔۵:… ام الموٴمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر جب بدباطن منافقوں نے نارَوا تہمت لگائی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (دیگر صحابہ کے علاوہ) حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی رائے طلب کی تو آپ رضی اللہ عنہ نے سنتے ھی بے ساختہ کہا.. "توبہ ! توبہ ! یہ تو کھلا بہتان ھے.." بعد میں انہی الفاظ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی برأت نازل ھوئی..

۔۔۶:… ایک موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ازواجِ مطہرات کو فہمائش کرتے ھوئے ان سے کہا کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہیں طلاق دے دیں تو اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تم سے بہتر بیویاں عطا کر دے گا.. اس کی تائید میں سورة التحریم کی آیت نمبر:۵ نازل ھوئی..۔۔..

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسند خلافت ہوئے اور تھوڑے ہی دنوں میں ایک چھوٹی سی اسلامی ریاست کو ملک عظیم بنا دیا.. جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے ہی بذریعہ وحی اطلاع دی گئی تھی..
مزاج میں سختی بہت تھی.. غصہ جلدی آ جاتا تھا.. بالکل حضرت موسی علیہ السلام کی سی کیفیت تھی مگر اس کے ساتھ دو صفتیں عجیب و غریب تھیں
اول یہ کہ اپنی ذات کے لئے کبھی غصہ نہ آتا تھا.. دوم یہ کہ عین اشتعال کے عالم کوئی شخص اللہ تعالی کا نام آپ کے سامنے لیتا یا قرآن پاک کی کوئی آیت پڑھ لیتا تو فورا غصہ رفع ہو جاتا.. گویا تھا ہی نہیں
جب آپ خلیفہ ہوئے تو لوگ آپ کی سخت گیری سے اس قدر خوفزدہ ہوئے کہ گھروں سے باہر نکل کر بیٹھنا چھوڑ دیا.. یہ حالت دیکھ کر آپ نے خطبہ پڑھا اور اس خطبہ میں فرمایا.
"اے لوگو ! میری سختی اس وقت تک تھی جب تک کہ تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اور جناب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی نرمیوں اور مہربانیوں سے فیض یاب تھے.. میری سختی ان کی نرمی کے ساتھ ملکر اعتدال کی کیفیت پیدا کر دیتی تھی.. مگر اب میں تمہارا والی ہوں.. اب میں تم پر سختی نہ کرونگا.. اب میری سختی صرف ظالموں اور بدکاروں پر ہوگی
خلیفہ ہوتے ہی عام اجازت دی کہ میری جو بات قابل اعتراض ہو , سر دربار مجھے ٹوک دیا جائے.. آپ کی طرف سے اعلان عام دیا گیا کہ "احب الناس الی من رفع الی عیوبی" یعنی سب سے زیادہ میں اس شخص کو پسند کرونگا جو میرے عیبوں پر مجھے اطلاع دے
خلیفہ ہونے کے بعد منبر پر جو گئے تو منبر کے اس زینہ پر بیٹھے جس پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاؤں رہتے تھے.. لوگوں نے کہا کہ اوپر بیٹھیئے تو فرمایا
"میرے لئے یہی کافی ہے کہ مجھے اس مقام پر جگہ مل جائے جہاں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پاؤں رہتے تھے.." اللہ اکبر

حضرت حذیفہ بن الیمانؓ کہتے ہیں جناب عمر فاروقؓ کی خلافت کے آخری ایام تھے کچھ دنوں کے بعد وہ شہید ہو گئے۔ فرماتے ہیں آدھی رات کا وقت تھا میں گھر میں بڑا بے فکر سویا ہوا تھا اچانک دروازے پر دستک ہوئی میں گھبرا کے اٹھا کہ اتنی رات کو کون آیا دروازہ پر گیا تو دیکھا امیر المؤمنین فاروق اعظمؓ دروازے پر ہیں۔ میں نے کہا امیرالمومنین کوئی حکم تھا تو مجھے بلا لیتے کہنے لگے میں امیر بن کے نہیں آیا تیرا ویر بن کے آیا ہو کہتے ہیں میں نے عمرؓ کو اندر بلا کر چارپائی پر بیٹھایا میں نے کہا حضور میں غریب آدمی میں آپ کے کیا کام آ سکتا ہوں تو انہوں نے مجھے ساتھ بیٹھا لیا پھر میرا ہاتھ پکڑ لیا کہنے لگے۔

تو عمر کو جانتا ہے عمر جھوٹ نہیں بولتا حضرت حذیفہؓ پریشان ہو گیا کہنے لگے حضور پہیلیاں نہ بجھائیے مہربانی کریں بتائیے کیوں آئے ہیں تو عمرؓ رو پڑے کہنے لگے آج میں عشاہ کے بعد نکلا ہو تو نبی پاکﷺ کے صحابہؓ مجھے نیک کہہ رہے تھے پھر میں نے بچوں کی ماں سے اور بچوں سے بھی پوچھا ہے وہ بھی مجھ سے راضی ہیں پر حذیفہ تیرے ساتھ نبی پاکﷺ راز کی باتیں کرتے تھے سچ بتا کہیں عمر کا نام منافقوں میں شامل تو نہیں سچ بتاؤ کہیں میرا نام منافقین میں تو شامل نہیں۔

کہیں اوپر اوپر سے تو نہیں سارا کچھ ۔ حضرت حذیفہ بن الیمانؓ کہتے ہیں میں باپ کے مرنے پر اتنا نہیں رویا تھا جتنا کہ عمرؓ کے سوال پر رویا میں عمرؓ کے قدموں میں بیٹھ گیا میں نے کہا نہیں عمرؓ یہ تو میں نے نہیں سنا مگر یہ میں نے نبی پاکﷺ سے ضرور سنا ہے کہ میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو عمرؓ ابن خطاب ہوتا۔

یہ واقعہ لکھتے ہوئے میرے آنکھوں میں آنسو آگئے کہ عمرؓ کے دل میں اللہ پاک کا اتنا حوف ہے تو ہم کس خوش فہمی میں ہیں۔ ہر بڑے سے بڑا گناہ یہ سوچ کر کرتے ہیں کہ اللہ پاک بڑا غفور الرحیم ہے۔

ــــــــــــــــ
ایک بار صدقہ کیلئے چھوڑے ہوئے اونٹوں کو رنگ سے نشان لگا رہے تھے تو ایک آدمی نے آ کر کہا؛ اے امیر المؤمنین، لائیے مجھے دیجیئے، میں آپ کی جگہ ان اونٹوں پر نشان لگا دیتا ہوں۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: قیامت والے دن میرے گُناہ اُٹھانے بھی آؤ گے کیا؟
ــــــــــــــــ
فارس کا وزیر ھرمزان آپ رضی اللہ عنہ کو تلاش کرتے ہوئے ایک درخت کے پاس پہنچا جس کے نیچے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو پیوند لگی قمیص پہنے اور بغیر کسی پہریدار کے سوتے دیکھ کر کہہ اُٹھا 
تو نے حکومت کی، انصاف کیا، امن دیا اور بے خوف سویا
ــــــــــــــ
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے تھے: اللہ کی قسم، اگر دجلہ کے دور دراز علاقے میں بھی کسی خچر کو  راہ چلتے ٹھوکر لگ گئی تو مجھے ڈر لگتا ہے کہیں اللہ تعالیٰ مُجھ سے یہ سوال نا کر دیں اے عمر، تو نے وہ راستہ ٹھیک کیوں نہیں کرایا تھا؟
ـــــــــــــــــ
مدینے میں رات کو پہریداری کرتے ہوئے ایک گھر کےسامنے سے گزر ہوا، اندر سے ایک دودھ فروش عورت کی  آواز آرہی تھی جو اپنی بیٹی سے کہہ رہی تھی، دودھ میں پانی ڈال کر اسے زیادہ کر لے، عمر رضی اللہ عنہ کونسا دیکھ رہا ہے۔
اُس لڑکی نے اپنی ماں کو جواب دیا؛ مگر اللہ دیکھ رہا ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وہ مکان اپنے ذہن میں رکھا اور اُس لڑکی کا رشتہ اپنے بیٹے عاصم کیلئے مانگ لیا۔
بعد میں اُس لڑکی کی آل سے زاہد اور عادل خلیفہ عمر بن عبدالعزیز نے جنم لیا۔
ــــــــــــــــــ
جب مدینہ شریف میں قحط پڑا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے سر پر کھانے کا ٹوکرا رکھ کر فقراء میں بانٹنے کیلئے نکلتے تھے۔
ــــــــــــ
ایک بار اپنے بچوں کے ہاتھ میں میٹھے کا ٹکڑا دیکھ لیا تو اپنی بیوی سے استفسار کیا: اس میٹھے کے بنانے کیلئے تیرے پاس پیسے کدھر سے آئے؟ اُس نے جواب دیا: بیت المال سے آنے والا آٹا تھوڑا تھوڑا بچتا تھا جسے ملا کر یہ میٹھا بنا لیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تو آٹا بچا پاتی ہے اور مسلمانوں میں ایسے بھی ہیں جن کو آٹا میسر ہی نہیں فوراً ہی اپنے بچوں کے ہاتھوں سے میٹھے ٹکڑے لئیے اور کہا: مسلمانوں کے بیت المال کو جا کر واپس کر دو۔
ــــــــــــــ
ایک بار حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیوی کو میٹھا کھانے کی طلب ہوئی تو آپ نے اُسے کہا: کہاں سے پیسے لاؤں جس سے تجھے میٹھا خرید کر دوں؟
ـــــــــــــــــ
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیوی (عاتکہ) کہتی ہیں کہ: عمر رضی اللہ عنہ بستر پر سونے کیلئے لیٹتے تھے تو نیند ہی اُڑ جاتی تھی، بیٹھ کر رونا شروع کر دیتے تھے۔
میں پوچھتی تھی: اے امیر المؤمنین، کیا ہوا؟
وہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے: مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کی خلافت ملی ہوئی ہے، اور ان میں مسکین بھی ہیں ضعیف بھی ہیں یتیم بھی ہیں اور مظلوم بھی، مجھے ڈر لگتا ہے اللہ تعالیٰ مجھ سے ان سب کے بارے میں سوال کریں گے۔
ـــــــــــــــــ
مدینہ میں آئے قحط کے سال (عام الرمادہ) کے دوران، ایک بار منبر پر کھڑے ہوئے تھے کہ اپنے پیٹ سے گُڑگُڑ کی آواز آئی،  پیٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: چاہے گُڑگُڑ کر یا گُڑگُڑ  نا کر، اللہ کی قسم تجھے اس وقت تک نہیں بھرونگا جب تک مسلمانوں کے بچوں کے پیٹ نہیں بھر جاتے۔
ــــــــــــــــ
ایک بار حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک ایسے خیمے سے گزر ہوا جس میں ایک عورت نے ابھی ابھی بچے کو ولادت دی تھی اور اُسکے اور بھی بچے تھے جبکہ اُسکا خاوند وفات پا چُکا تھا۔ حالات کا علم ہونے پر فوراً بیت المال تشریف لے گئے اور وہاں سے تیل اور آٹا لیکر واپس آئے، آگ جلا کر رات کا کھانا بنا کر  اُن سب کو پیش کیا۔
عورت نے کہا: اللہ کی قسم، تم عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے بہتر ہو۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ قول پڑھتے ہوئے (أَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْأمْرُ)(دیکھو سب مخلوق بھی اسی کی ہے اور حکم بھی اسی کا ہے) رو پڑے اور کہا:میرے پاس تو کُچھ بھی نہیں بچا ہوا، اور اگر کسی کی کوئی چیز میرے پاس رہتی ہو تو مجھ سے آ کر طلب کر لے۔
ــــــــــــ
بیت المقدس کی فتح کے موقع پر پیوند لگی قمیص پہنے ہوئے تشریف لے جانے لگے تو بعض سرداروں نے کہا، اے امیر المؤمنین، اگر خوبصورت لباس زیب تن کر کے تشریف لے جاؤ تو یہ اسلام کیلئے اعزاز کی بات ہوگی۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: ہم وہ قوم ہیں جن کو اللہ نے اسلام سے عزت و اعزاز دیا ہے، اس کے سوا کسی بھی چیز کو عزت اور اعزاز سمجھیں تو وہ  اللہ نے ذلت ہی دینا ہوگی۔
ــــــــــــــ
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ لوگوں کو خطبہ دینے کیلئے کھڑے ہوئے تو فرمایا: اے لوگو سنو اور غور کرو۔سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے جواباً کہا: اللہ کی قسم، نا ہی تیری بات سُنیں گے اور نا ہی اُس پر غور کریں گے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ  نے  پوچھا: ایسا کیوں سلیمان ؟ انہوں نے جواب دیا
خود تو دو قمیصوں کے برابر کا کپڑا پہنتے ہو اور ہمیں ایک ایک قمیص دیتے ہو! سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے عبداللہ سے کہا: اُٹھ عبداللہ اور سلیمان رضی اللہ عنہ کو جواب دو۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میرا والد طویل القامت شخص ہے، اس لئیے میرے حصے کا کپڑا لیکر اور دونوں کو ملا کر  اپنے لیئے قمیص سلوائی ہے۔سیدنا سلیمان رضی اللہ عنہ نے کہا: ٹھیک ہے امیر المؤمنین، اب کہیئے، ہم سُنیں گے، ہمیں حکم دو تو ہم اطاعت کریں گے۔
ـــــــــــــــ
یک بار منبر پر کھڑے ہو کر لوگوں سے فرمایا: تُم لوگ کیا کرو گے اگر راستہ اس طرح ٹیڑھا ہونا شروع ہو گیا تو؟ اور اپنے ہاتھ کو بھی تھوڑا سا ترچھا کر کے دکھایا۔ حاضرین کی آخری صفوں سے ایک شخص نے کھڑے ہو کر اپنی تلوار میان سے نکال کر لہراتے ہوئے کہا: اللہ کی قسم، اگر راستہ اس طرح ٹیڑھا ہوا تو ہم اپنی تلواروں سے ایسا کریں گے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے ایسی رعایا دی جو راستوں کو ٹیڑھا ہوتے دیکھے گی تو مجھے سیدھا کرنے کیلئے طاقت فراہم کرے گی۔
ــــــــــــــــــــ
ایک شخص نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: اے عمر رضی اللہ عنہ، اللہ سے ڈرو۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر آئیں، اور کہا:تم میں خیر و بھلائی نہیں رہے گی اگر مجھے ایسی بات نہیں کرو گے تو، اور مجھ میں خیر و بھلائی نہیں ہوگی اگر میں ایسی بات قبول نہیں کرونگا تو۔
ــــــــــــــــ
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے منبر پر کھڑے ہو کر عورتوں سے مہر کم کرنے کو کہا تو مسجد کے آخر سے ایک عورت نے کھڑے ہو کر کہا؛ اے امیر المؤمنین، اللہ تبارک و تعالیٰ تو فرماتے ہیں  (وَآتَيْتُمْ إِحْدَاھنَّ قِنطَارًا فَلَا تَأْخُذُوا مِنْہ ُ شَيْئًا)(اور پہلی عورت کو بہت سا مال دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ مت لینا)۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اس عورت نے ٹھیک کہا ہے، عمر سے غلطی ہو گئی ہے۔
ـــــــــــــــــ
ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اللہ کی قسم، میں نے عمر رضی اللہ عنہ کو ایسی قمیص پہنے ہوئے دیکھا کہ اُس میں چودہ پیوند لگے ہوئے تھے اور اُس وقت عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ وقت بھی تھے۔
ـــــــــــ
قحط کے سال میں حضرت عمررضی اللہ عنہ نے تمام فقراء اور حاجتمندوں سے کہا کہ مدینہ شریف کے گرد و نواح میں آ کر بس جاؤ، اُن کیلئے خود خیمے نصب کیئے اور کہا: اگر زندہ رہے تو اکھٹے رہیں گے اور مرے بھی تو اکھٹے مریں گے۔
ـــــــــــــــ
ایک آدمی نے آ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو مشورہ دیا کہ اے امیر المؤمنین، اگر آپ اپنے بیٹے عبداللہ کیلئے خلافت کی وصیت کرتے جائیں تو اچھا ہوگا، کیونکہ وہ خلافت کا اہل ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تو نے جھوٹ بولا ہے اللہ تجھے ھلاک کرے، اور میں تیری مکاری کی گواہی دیتا ہوں، میں کس طرح اُس کیلئے خلافت کی وصیت کروں اور مسلمانوں میں اُس سے بہتر لوگ موجود ہیں؟
ـــــــــــ



Comments