اس قوم پر اللہ نے اپنے نبی حضرت ہود ؑ کو بھیجا جنہوں نے اللہ رب العزت کی تعلیمات اس قوم تک پہنچائیں۔ مفسرین بیان کرتے ہیں کہ یہ لوگ دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ قد آور اور تنومن اور توانا تھے، مال و دولت اور علم و کمال میں بھی دوسروں سے ممتاز تھے، فنکاری اور کاریگری میں بھی کمال رکھتے تھے، اپنی توانائی اور شان و شوکت کی وجہ سے انہیں بلند مقامات پر بسنے اور بلند و بالا عمارتیں بنانے کا بڑا شوق تھا اسی وجہ سےانہیں ذات العماد بھی کہا جاتا تھا۔ حضرت ہود ؑ نے طویل عرصہ ان لوگوں تک اللہ پاک کی تعلیمات پہنچائیں مگر جب قومِ عاد حضرت ہودؑ کی بارہا تبلیغ اور تنبیہ کے باوجود اپنی سرکشی سے باز نہ آئی تو اللہ تعالیٰ نے ان پر سخت ہوا کا عذاب نازل فرمایا، پہلے بادل کی صورت میں عذاب ان کی بستیوں کی طرف بڑھا، تو انہوں نے کہا یہ بادل ہمارے کھیتوں میں برسے گا؛ لیکن اس کے بعد تیز ہوا چلنے لگی اور پھر اس قدر شدید آندھی آئی کہ اس نے ہر چیز کو ریزہ ریزہ کر دیا، یہ آندھی ان پر مسلسل سات دن اور آٹھ راتیں چلتی رہی اور ان کی ہر چیز تباہ و برباد کردی، وہ اس طرح مرے ہوئے پڑے تھے کہ جیسے کھجور کے کھوکھلے تنے ہوں اور یوں اس قوم کو ان کی بے پناہ طاقت اور بلند و بالا مضبوط ترین عمارتوں کے زعم کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے انہیں آنے والے زمانوں کیلئے عبرت کا نشان بنا دیا۔ اللہ تعالی نے اس قوم اور ان کے شہر ’’ارم‘‘ کا ذکر قرآن میں کیا، لیکن اس شہر کے آثار 14 سو سال تک کسی کو نہ ملے لیکن 1978میں نیشنل جیو گرافک نے اپنے دسمبر کے شمارے میں انکشاف کیا کہ ڈاکٹر پٹی ناٹو کو عبلہ (شام) میں آثارِ قدیمہ کی کھدائی کرتے ہوئے سنگی الواح کی صورت میں لائبریری ملی جس میں انہیں بہت سے ایسے شہروں کے نام بھی ملے جن کے متعلق خیال کیا جاتا تھا کہ وہ بعد کے ادوار میں بنے ہیں مثلاً بیروت، بابل، دمشق اور غزہ۔ ان کے علاوہ دو شہروں کے مزید نام ملے جو بائبل میں مذکور ہیں یعنی سدوم اور عمورہ۔ اسی طرح ایک اور شہر ارم کا ذکر بھی ملا جو ڈاکٹر پٹی ناٹو کے مطابق تاریخ دانوں کے لیے تو گمنام ہے، مگر قرآن کی 89 ویں سورہ میں مذکورہ ہے۔ یعنی 1978ء میں عبلہ کی کھدائی سے ثابت ہو گیا کہ ارم نام کا شہر اس دنیا میں کبھی موجود تھا۔ شہر کا ذکر تو مل گیا لیکن مسلسل کوششوں کے باوجود ماہرین آثار قدیمہ کو شہر کے آثار نہ ملے۔ 1992ء میں ٹائم میگزین نے اپنے فروری کے شمارے میں انکشاف کیا کہ ناسا کے مصنوعی سیارے سے لی گئی تصاویر کی مدد سے عمان کے قریب ایک شہر کے آثار دریافت کر لیے گئے ہیں۔ تقریباً 1900 فٹ ریت کے نیچے سے جو پہلی عمارت برآمد ہوئی، اس کی نمایاں چیز اس کے تقریباً نوے فٹ کے سربلند ستون ہیں۔تحقیق سے ثابت ہوا کہ یہی’’ارم‘‘شہر ہے اور اسی قوم کا تذکرہ قرآن حکیم میں 17 سورتوں میں موجود ہے۔ ایک جگہ اللہ پاک ارشاد فرماتے ہیں ۔ترجمہ: ’’دیکھا نہیں، کیا کیا تیرے خداوند نے عاد کے ساتھ، ستونوں والے ارم کے ساتھ۔‘‘)الفجر89:6-..........(منقول)
Comments
Post a Comment