اسلام میں ہنسی مذاق اور مقابلے
نبی کریم ایک بار راستے سے جارہے تھے کہ عرب کا ایک مشہور پہلوان رُکانہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چلینج پھینکا کہ آپ مجھ سے کشتی لڑیں دیکھتے ہے کون طاقتور ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکا چلینج قبول کیا اور ان سے کشتی ٹہرائی، تو آپ نے اس کو کشتی میں بچھاڑ دیا۔ (ابوداؤد فی المراسیل)
نبی کریم اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی ایک بار سفر میں تھے آپ نبی رحمت نے سیدہ عائشہ سے فرمایا "حمیرا چلو دوڑ کا مقابلہ کرتے ہیں
جب دوڑ لگائی تو نبی کریم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہما کو خود سے آگے نکلنے دی اور جب وہ مقرر مقام تک پہنچی تو خوشی سے بولی " ہم نے آپکو ہرا دیا " تو نبی کریم مسکرا کر خاموش ہوئے ۔ وقت گزرتا گیا ایک بار پھر سیدہ عائشہ نبی رحمت دو جہاں کے ساتھ سفر میں تھی نبی کریم نے فرمایا حمیرا چلو پچھلی بار کی طرح ایک بار پھر دوڑ کا مقابلہ کرتے ہیں اب کی بار جو دوڑے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ پیچھے اور نبی کریم آگے تھے ۔ نبی کریم اتنی تیزی سے دوڑے کہ مقرر مقام تک ام المومنین سے آگے نکل گئے۔ نبی کریم مسکرائے اور بولے " حمیرا یہ اس دن کے ہار کا بدلہ ہے " (سنن ابی داؤد)
پیدل دوڑ میں مثالی شہرت رکھنے والے صحابی حضرت سلمہ بن الاکوع کہتے ہیں: کہ ہم ایک سفر میں چلے جارہے تھے، ہمارے ساتھ ایک انصاری نوجوان بھی تھا، جو پیدل دوڑ میں کبھی کسی سے مات نہ کھاتا تھا، وہ راستہ میں کہنے لگا، ہے کوئی؟
جو مدینہ تک مجھ سے دوڑ میں مقابلہ کرے، ہے کوئی دوڑ لگانے والا؟
سب نے اس سے کہا: تم نہ کسی شریف کی عزت کرتے ہو اور نہ کسی شریف آدمی سے ڈرتے ہو۔ وہ پلٹ کر کہنے لگا ہاں! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ مجھے کسی کی پرواہ نہیں۔ میں نے یہ معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رکھتے ہوئے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے اجازت دیجیے کہ میں ان سے دوڑ لگاؤں۔ آپ نے فرمایا ٹھیک ہے، اگر تم چاہو؛ چنانچہ میں نے ان سے مدینہ تک دوڑ لگائی اور جیت گیا۔ (صحیح مسلم)
حضرت عبداللہ بن عمر کا بیان ہے کہ حضرت عمر فاروق اور زبیر بن العوام میں دوڑ کا مقابلہ ہوا۔ حضرت زبیر آگے نکل گئے، تو فرمایا: رب کعبہ کی قسم میں جیت گیا۔ پھر کچھ عرصہ بعد دوبارہ دوڑ کا مقابلہ ہوا، تو حضرت فاروق آگے نکل گئے، تو انھوں نے وہی جملہ دہرایا: ربِ کعبہ کی قسم میں جیت گیا۔ (کنزالعمال ۱۵/۲۲۴)
ان میں آپس میں پیدل دوڑ کا مقابلہ بھی ہوا کرتا تھا۔ سابق میں مشکوٰةُ المصابیح کے حوالہ سے شرح السنہ کی یہ روایت آچکی ہے کہ بلال بن سعد کہتے ہیں کہ میں نے صحابہٴ کرام کو دیکھا ہے کہ وہ نشانوں کے درمیان دوڑتے تھے اور بعض بعض سے دل لگی کرتے تھے، ہنستے تھے، ہاں! جب رات آتی، تو عبادت میں مشغول ہو جاتے تھے۔ (مشکوٰة ۴۰۷)
حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ ہم حالتِ احرام میں تھے کہ مجھ سے حضرت عمر کہنے لگے آؤ! میں تمہارے ساتھ غوطہ لگانے کا مقابلہ کروں، دیکھیں ہم میں سے کس کی سانس لمبی ہے (عوارف المعارف للسہروردی)
Comments
Post a Comment