221) اصحاب کہف

 

اصحاب کہف

اصحاب کہف کے جس غار کو ہم دیکھنے جا رہے تھے، اس کے بارے میں سو فیصد یقین سے کہنا تو مشکل ہے کہ یہی وہ غار ہے جس کا ذکر قرآن مجید کی سورۂ کہف میں آیا ہے، مؤرخین نے مختلف دلائل اور قرائن کی بنیاد پر اصحابِ کہف کے غار کے بارے میں مختلف آراء نقل کی ہے، بعض مؤرخین نے اس کا مقام ترکی میں، بعض نے اندلس میں اور بعض نے اُردن میں بیان کیا ہے۔

تاہم ان تمام روایات کے مجموعہ کو اور اصحان کہف کے غار کے سلسلہ میں جدید تحقیقات کو، اور مقامی علماء اور عوام میں شہرت، اور اس غار کے محل وقوع کو دیکھ کر ناچیز کا غالب گمان بلکہ تقریباً یقین یہی ہوتا ہے کہ وہ غار یہی ہے جس کی زیارت آج ہم کو نصیب ہوئی۔

مختلف تاریخی روایات اور قرائن سے اندازہ ہوتا ہے کہ اصحاب کہف کا یہ واقعہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے تقریباً سو سال بعد 100ء میں پیش آیا۔ اس وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دین رائج تھا اور جو لوگ اس دین پر  قائم تھے، وہی مسلم اور مومن تھے۔ یہ نوجوان بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دین پر قائم تھے، لیکن ان کی بستی کا بادشاہ " دقیانوس" اور اس کی قوم بت پرست تھی، جب کہ یہ نوجوان بت پرستی اور شرک سے بیزار تھے، انہوں نے علی الاعلان اپنی توحید کا اعلان کیا، قرآن مجید میں اس کا تذکرہ اس طرح کیا گیا

" جب وہ کھڑے ہوئے اور بولے کہ ہمارا رب تو وہ ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے،ہم اس کو چھوڑ کر کسی معبود کی عبادت نہ کریں گے۔(سورۃ الکہف۔14)

بادشاہ نے ان کو دھمکیاں دیں اور کہا کہ اگر تم نے اپنا عقیدہ نہ چھوڑا تو ہم تمہیں قتل کر ڈالیں گے۔ انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ بادشاہ ہمارا دشمن ہو چکا ہے، اس لیے یہاں سے نکل کر فلاں غار میں پناہ لینی چاہیے، چنانچہ طے شدہ منصوبے کے تحت انہوں نے اپنے ساتھ کچھ کھانے پینے کا سامان اور نقد رقم لے کر خفیہ طور پر اس غار میں آ کر پناہ لے لی۔ ان کی تعداد کے بارے میں اختلاف ہوا ہے لیکن قرآن کریم نے جس انداز میں ان کا تذکرہ کیا ہے، اس سے گمان ہوتا ہے کہ ان کی تعداد سات تھی، اور آٹھواں ان کا کتا تھا جو ان کے پیچھے پیچھے آ کر غار کے دہانے پر بیٹھ گیا تھا۔

ہماری شریعت میں تو کھیتی باڑی یا مویشیوں کی حفاطت یا شکار کے مقصد کے بغیر کتا پالنا جائز نہیں، ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے"(مذکورہ بالا ضرورتوں کے بغیر) کتا پالنے والے کے ثواب میں روزانہ دو قراط کی کمی ہو جاتی ہے۔(بخاری شریف)

ایک اور حدیث میں ہے: جس گھر میں کتا یا تصویر ہو، اس میں(رحمت کے) فرشتے داخل نہیں ہوتے۔(بخاری و مسلم)

ہو سکتا ہے کہ ان اصحاب کہف کی زمین یا مویشی ہوں اور انہوں نے ان کی حفاظت کے لیے کتا پالا ہو، جب یہ حضرات غار میں آئے تو وہ بھی پیچھے پیچھے چلا آیا، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس زمانہ میں شریعت میں کتا پالنا کی مطلقاً اجازت ہو۔ (تفسیر معارف القران)

ان نوجوانوں نے غار میں پناہ لینے کے بعد یہ دعا کی

"اے ہمارے پرودگار! ہم کو اپنے پاس سے رحمت کا سامان عطا فرما اور ہمارے (اس) کام میں درستی مہیا کر دیجئے۔(سورۃ الکہف:10)

اللہ تعالیٰ نے یہ انتظام کیا کہ ان کانوں پر نیند مسلط کر دی اور یہ سب کے سب غار کے اندر سو گئے، اور یہ نیند ان پر سالہا سال تک طاری رہی، جس کا تذکرہ قرآن مجید میں اس طرح آیا:

" پس ہم نے اس غار میں ان کے کانوں پر سالہا سال تک نیند کا پردہ ڈال دیا۔" (سورۃ الکہف: آیت 11)

کانوں پر نیند مسلط کرنے کا ذکر خاص طور پر اس لیے کیا گیا کہ آدمی کو جب نیند آتی ہے تو اعضاء بتدریج  سوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ جب غنودگی آتی ہے تو آنکھیں اور زبان تو بند ہو جاتی ہیں اور جسم ڈھیلا پڑ جاتا ہے لیکن آوازیں کچھ نہ کچھ کان میں آتی رہتی ہیں، خواہ سمجھ میں نہ آئیں، چنانچہ کان سب سے آخر میں سوتے ہیں، تو کانوں پر نیند مسلط کرنے کا مطلب یہ ہوا کہ ان کو گہری نیند سلا دیا گیا تھا۔

اس غار کا محلِ وقوع ایسا ہے کہ وہاں سے بیت اللہ شریف جنوب میں ہے اور دروازہ بھی جنوب کی طرف ہے، اندر جا کر راستے کی تقریباً سات فٹ چوڑی تین شاخیں ہیں، ایک دائیں طرف، ایک بائیں طرف اور ایک سامنے، بیچ میں نسبتاً کشادہ جگہ ہے۔ اصحابِ کہف اسی  بیچ کی جگہ میں سوئے تھے جس کی قرآن مجید میں اس طرح اشارہ کیا گیا ہے

" اور وہ لوگ اس غار کی ایک کشادہ جگہ میں تھے۔"(سورۃ الکہف:آیت 17)

 اللہ رب العالمین نے ان کی حفاظت کا عجیب و غریب انتظام کس طرح فرمایا ؟ 

اسے قرآن مجید نے اس طرح بیان کیا

۔۔(1)۔" اور (اے مخاطب!) جب دھوپ نکلتی ہے تو، تو اس کو دیکھے گا کہ وہ غار سے داہنی جانب( یعنی مشرق) کو بچھی رہتی ہے۔(یعنی غار کے دروازے سے داہنی طرف الگ ہو کر رہتی ہے) اور جب چھپتی ہے تو غار کے بائیں طرف( یعنی مغرب میں) ہٹتی ہے

(سورۃ الکہف: آیت 17)

۔۔(2)۔"اور( نیند کے زمانۂ دراز میں) ہم ان کو(کبھی) داہنی طرف اور( کبھی) بائیں طرف کروٹ دیتے رہے ۔(سورۃ الکہف: آیت 18)

"اور ان کا کتا غار کے دہانے پر اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے ہوئے( بیٹھا) تھا

(سورۃ الکہف:آیت 18)

یعنی:(1) دھوپ کی حرارت تو ان تک پہنچتی تھی لیکن دھوپ اندر داخل نہیں ہوتی تھی، کیوں کہ سورج مشرق سے طلوع ہونے کے بعد غار کے اوپر سے گزر کر مغرب میں ڈوب جاتا تھا، جبکہ غار کا منہ جنوب کی طرف تھا۔

۔۔(2): دوسرا انتظام یہ کیا گیا کہ وقفے وقفے سے انہیں کروٹ دلوائی جاتی کہ ہوا جسم کے سارے حصوں کو لگتی رہے تا کہ مٹی ان کے جسموں کو نہ کھائے اور حشرات الارض کیڑے مکوڑے، سانپ، بچھو وغیرہ انہیں جاگا ہوا محسوس کر کے گزند نہ پہنچائیں۔

۔۔(3)۔ مزید حفاظت کے لیے دروازے پر کُتا موجود تھا

ان کی حالت ایسی تھی کہ دیکھنے والا انہیں یہی سمجھتا تھا کہ یہ جاگ رہے ہیں۔ حتیٰ کہ بعض مفسرین نے یہاں تک لکھا ہے کہ ان کی آنکھیں پوری طرح بند نہ تھیں بلکہ کچھ کھلی ہوئی تھیں۔ (یہاں تک کی بیشتر تفصیلات تفسیر معارف القرآن: سورۃ الکہف سے ماخوذ ہیں)

یہ کتنا عرصہ سوئے رہے؟ 

اس بارے میں قرآن مجید نے یہ انداز بیان  اختیار کیا

" اور وہ اپنے غار میں تین سو سال رہے اور نو سال مزید رہے۔" (سورۃ الکہف: آیت 25)

یہاں قرآن مجید کا ایک حسابی اعجوبہ ہے، اور وہ یہ کہ عربی کے عام قاعدے کا تقاضا تو یہ تھا کہ یوں کہہ دیا جاتا:" وہ اپنے غار میں تین سو نو سال رہے۔" مگر قرآن مجید نے اس کے بجائے یوں ارشاد فرمایا: "وہ اپنے غار میں تین سو سال رہے اور نو سال مزید رہے۔"

حساب لگایا گیا تو یہ صورت حال سامنے آئی کہ شمسی کیلنڈر کے تین سو سال قمری کیلنڈر کے تین سو نو سال کے برابر ہوتے ہیں، بظاہر قرآن مجید نے اسی طرف اشارہ کرنے کے لیے عدد کو اس طرح بیان فرمایا تا کہ دونوں تقویموں( کیلنڈروں) کی مدت معلوم ہو جائے۔

ان نوجوانوں پر یہ طویل مدت اس طرح گزری کہ نہ کچھ کھایا، نہ پیا، اس حالت میں ان کا زندہ رہنا اللہ رب العالمین کی قدرت کا عجیب اظہار تھا، اور اس کی ایک حکمت وہ یہ بھی تھی جو بعد میں عرض کروں گا، ان شاء اللہ۔

جب یہ نوجوان بیدار ہوئے تو ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ: ہم کتنی دیر سوئے؟ 

کچھ ساتھیوں نے کہا کہ ایک دن یا اس کا کچھ حصّہ۔ ان کے اس جواب کی وجہ بظاہر یہ تھی کہ یہ نوجوان غار میں صبح کے وقت داخل ہوئے تھے اور جب آنکھ کھلی تو سورج غروب ہونے والا تھا، تو ان کے ذہن میں یہ بات آئی کہ اگر آج صبح داخل ہوئے تھے تو دن کا کچھ حصّہ سوئے رہے تو اگر گزشتہ کل آئے تھے تو ایک دن اور گزر گیا ہوگا۔

لیکن ان میں سے کچھ کو اندازہ ہو گیا کہ معاملہ کچھ اور ہے، انہوں نے معاملے کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتے ہوئے کہا

" تمہارا رب ہی خوب جانتا ہے کہ تم کتنی مدت( سوئے) رہے۔" (سورۃ الکہف: آیت 19)

یعنی اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں کہ کتنی دیر سوئے رہے، وہ اللہ ہی کو معلوم ہے۔ اب کام کی بات کرو، وہ یہ کہ کسی کو پیسے دے کر چپکے سے شہر بھیجو تا کہ وہ کسی دکان سے حلال کھانا خرید کر لائے۔ ان کا یہ قول قرآن کریم میں ان الفاظ میں نقل کیا گیا ہے

" اپنے میں سے کسی کو چاندی کا سکہ دے کر شہر کی طرف بھیجو، وہ(وہاں) تحقیق کرے کہ کون سا کھانا حلال ہے اور اس میں سے تمہارے پاس کھانا لائے اور یہ کام خوش تدبیری سے کرے اور کسی کو تمہاری خبر نہ ہونے دے۔"(سورۃ الکہف ؛ آیت 19)

حلال کھانا تلاش کرنے کے لیے اس لیے کہا کہ جب وہ غار میں گئے تھے، اس وقت بتوں کے نام کا ذبیحہ ہوتا تھا اور وہی گوشت بازار میں ملتا تھا، اور چھپ کر جانے کے لیے اس لیے کہا کہ وہ یہی سمجھ رہے تھے کہ ابھی تک دقیانوس ہی کی حکومت ہے لہٰذا انہیں خطرہ تھا کہ اگر ظالم بادشاہ کو پتہ چل گیا تو وہ انہیں سنگسار کر دے گا یا جبراً دین حق سے ہٹانے کی کوشش کرے گا، چنانچہ انہوں نے اپنے اس خطرے کا اظہار ان الفاظ میں کیا

" اگر وہ لوگ کہیں تمہاری خبر پا جائیں گے تو تم کو یا پتھراؤ کر کے مار ڈالیں گے یا( جبراً) تم کو اپنے مذہب میں پھر لوٹالیں گے۔" (سورۃ الکہف: آیت 20)

لیکن جب ان کا ایک ساتھی جس کا نام تملیخا بتایا جاتا ہے، چاندی کا سکہ لے کر شہر پہنچا تو دنیا بدلی ہوئی تھی، اس عرصے میں ایک انقلاب آ گیا تھا،اور وہاں ایک نیک مؤمن بادشاہ "بیدو سیس" برسرِ حکومت تھا جو اصلی دین عیسوی پر مضبوطی سے قائم تھا،البتہ عوام میں سے کچھ لوگ عقیدۂ آخرت کا انکار کرتے تھے، ان کا کہنا تھا کہ یہ بات عقلی طور پر محال ہے کہ انسان کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا جائے۔

بادشاہ ان کے اس غلط عقیدے کی وجہ سے پریشان تھا، ایک روز اس نے اللہ تعالیٰ کے سامنے اس طرح عاجزی سے دعا کی کہ ایک جگہ جا کر نیچے راکھ بچھائی اور خود ٹاٹ کا لباس پہن کر اس پر بیٹھ گیا،اور پھر خوب آہ زاری کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے اللہ! کوئی ایسی صورت پیدا فرما دے کہ یہ قوم موت کے بعد والی زندگی کو ماننے لگ جائے۔

جب ان کا ساتھی کسی دکاندار کے پاس پہنچا اور اسے سکہ دکھایا تو وہ حیران رہ گیا کہ یہ کون سے زمانے کا سکہ ہے؟ 

اس نے پاس والے دکاندار کو دکھایا لیکن کسی کی بھی سمجھ میں نہ آیا رفتہ رفتہ یہ بات بادشاہ تک پہنچی، اس نے تملیخا کو بلا بھیجا۔

 اس وقت لوگوں کے درمیان یہ بات مشہور تھی کہ کافی عرصہ پہلے کچھ لوگ یہاں سے غائب ہو گئے تھے۔ دقیانوس بادشاہ جس کے زمانے میں انہوں نے غار میں پناہ لی تھی، جب ان کی تلاش سے عاجز آگیا تو اس نے ان سات نوجوانوں کے نام اشتہاری مجرم کے طور پر تختی پر لکھوا دیئے، جو شاہی دفتر میں محفوظ رہی۔

 جب تملیخا اس نیک بادشاہ کے دربار میں پہنچا تو بادشاہ کو خیال آیا کہ شاید یہ انہی نوجوانوں میں سے ہو جو غائب ہو گئے تھے اور جن کے نام تختی پر لکھے ہوئے ہیں۔ اس نے تختی منگوائی اور اس نوجوان کا نام پوچھا، اس نے نام بتایا تو وہ تختی پر موجود تھا، پھر جب اس نے اپنے ساتھیوں کے نام بتائے تو وہ بھی تختی پر درج تھے، یہ جان کر بادشاہ کو بہت خوشی ہوئی، اس نے تملیخا کے ساتھ ان کے غار میں جانے کا ارادہ کر لیا۔

جب بادشاہ اور کچھ اہل شہر تملیخا کے ساتھ غار کے دروازے پر پہنچے تو تملیخا نے بادشاہ سے کہا کہ آپ یہاں ٹھہریں، میں ساتھیوں کو آپ کے آنے کی اطلاع دیتا ہوں تاکہ وہ پریشان نہ ہوں۔

اب اس کے بعد دو طرح کی روایات ہیں

بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ تملیخا اور اس کے ساتھی باہر آئے، بادشاہ سے ملاقات ہوئی، پھر جب واپس گئے تو اندر جا کر ان کا انتقال ہو گیا۔ 

 اور بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب ان کو بادشاہ کے آنے کا علم ہوا تو اسی وقت ان سب کی وفات ہو گئی اور بادشاہ سے ملاقات نہ ہو سکی۔

البتہ اہلِ شہر اور وہ لوگ جو آخرت  کا انکار کرتے تھے، انہوں نے جب قدرتِ الہٰیہ کا یہ عجیب منظر دیکھا تو ان کو بھی یقین ہو گیا کہ جس ذات کو یہ قدرت حاصل ہے کہ تین سو برس زندہ انسانوں کو کسی غذا کے بغیر زندہ رکھے اور اس طویل عرصے تک ان کو سُلانے کے بعد پھر صحیح سالم اُٹھائے تو اس کے لیے کیا مشکل ہے کہ مرنے کے بعد بھی اجسام کو دوبارہ زندہ کر دے، چنانچہ یہ ماجرہ دیکھنے کے بعد وہ مرنے کے بعد زندہ ہونے پر ایمان لے آئے۔اصحابِ کہف کو اتنے عرصہ تک سُلانے کی ایک حکمت یہ تھی، چنانچہ قرآن مجید میں اس حکمت کی طرف اس طرح اشارہ کیا گیا

" اور اس طرح ہم نے (اپنی قدرت اور حکمت سے اس زمانے کے) لوگوں کو ان ( کے حال) پر مطلع کر دیا تا کہ (من جملہ اور فوائد کے ایک فائدہ یہ بھی ہو کہ) وہ لوگ اس بات کا یقین کر لیں کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے اور یہ کہ قیامت میں کوئی شک نہیں

(سورۃ الکہف: 21)

ان نوجوانوں کے انتقال کے بعد لوگوں نے کہا کہ ان کی کوئی یادگار قائم کرنی چاہئے، لیکن اس میں اختلاف ہوا کہ یادگار کے طور پر کیا چیز بنائی جائے۔ بالآخر یہ فیصلہ ہوا کہ مسجد بنائی جائے، چنانچہ وہاں ایک چھوٹی سی مسجد بنائی گئی۔ اس مسجد کے کھنڈر آج بھی غار کے اوپر موجود ہیں۔

اس وقت غار کے اندر کی کیفیت یہ ہے کہ اس میں چار قبریں نظر آتی ہیں، دو قبریں ہٹا دی گئیں، البتہ اس کی جگہ بتائی جاتی ہیں کہ اس جگہ وہ قبریں تھیں، یہ قبریں ہمارے طرز کی نہیں بلکہ تابوت نما ہیں۔ مشرقی حصّے کی ایک قبر میں چھوٹا سا سوراخ بھی ہے، اس سوراخ سے جھانک کر دیکھا جائے تو انسانی پنڈلی کی تقریباً پوری ہڈی نظر آتی ہے۔

اصحابِ کہف کا کتا بھی کیسا خوش قسمت ہے کہ قرآن مجید میں کئی جگہ اس کا ذکر آیا ہے۔

"وَكَلْبُـهُـمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَيْهِ بِالْوَصِيْدِ ۚ"

"اور ان کا کتا چوکھٹ کی جگہ اپنے دونوں بازو پھیلائے بیٹھا ہے۔" (سورۃ الکہف:آیت 18)

"سَيَقُوْلُوْنَ ثَلَاثَةٌ رَّابِعُهُـمْ كَلْبُهُمْۚ وَيَقُوْلُوْنَ خَـمْسَةٌ سَادِسُهُـمْ كَلْبُـهُـمْ رَجْـمًا بِالْغَيْبِ ۖ وَيَقُوْلُوْنَ سَبْعَةٌ وَّّثَامِنُـهُـمْ كَلْبُـهُـمْ"

مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب کی کتاب (انبیآءؑ کی سر زمین میں)

Comments