قربانی کے مسائل کا حل
۔ 🍀 جانور ادھار خرید کر قربانی کرنا
قربانی کا جانور ادھار خرید کر قربانی کرنا جائز ہے، البتہ بعد میں قیمت ادا کرنا ضروری ہے۔
۔🍀 جانور خریدا پھر وہ شخص مر گیا۔
اگر کسی صاحب نصاب شخص نے قربانی کے لئے جانور خرید رکھا اور قربانی کے ایام میں اس شخص کا انتقال ہو گیا تو وہ جانور مرحوم کے ترکہ میں شامل ہو جائے گا، اور تمام ورثاء شریعت کے قانون کے مطابق حقدار ہوں گے۔ اب وارثوں کو اختیار ہے چاہیں تو مرحوم کے ایصال ثواب کے لئے اس جانور کی قربانی کریں یا اس کو وراثت میں تقسیم کریں۔
واضح رہے کہ اس جانور کو مشترکہ طور پر ایصال ثواب کے لئے قربانی کرنے کی صورت میں تمام وارثوں کا بالغ ہونا شرط ہے نابالغ وارثوں کی اجازت معتبر نہیں ہوگی۔
۔🍀 جانور خرید کر قربانی نہ کر سکا ۔
کسی پر قربانی واجب تھی لیکن قربانی کے تینوں دن گذر گئے ، اور اس نے قربانی نہیں کی تو ایک بکری یا بھیڑ کی قیمت خیرات کر دے، اور اگر قربانی کا جانور خرید لیا اور کسی وجہ سے قربانی نہ کر سکا تو زندہ جانور صدقہ کر دیا جائے، اور اگر مسئلہ سے ناواقف ہونے کی وجہ سے بقر عید کے بعد اس جانور کو ذبح کر ڈالا تو غرباء پر اس کا گوشت تقسیم کر دیا جائے ، مالداروں کو نہ دیا جائے۔ اور اگر جانور ضائع ہو گیا اور قربانی نہ کر سکا، تو خریدنے والا اگر امیر ہے تو اس کے ذمہ اس کی قیمت کا صدقہ کر دینا واجب ہے۔
۔🍀 جانورکو تکلیف کم سے کم دینا چاہئیے ۔
ذبح کے وقت اس بات کا پورا اہتمام کیا جائے کہ جانور کو تکلیف کم سے کم ہو اس لئے یہ حکم دیا کہ چھری کو تیز کرے، اور ایک جانور کو دوسرے جانور کے سامنے ذبح نہ کرے، اور حلقوم وغیرہ پورا کاٹے تاکہ جان آسانی سے نکل جائے،اور جانور کے سامنے چھری تیز نہ کرے۔
۔🍀 جانور خریدنے کے وقت قربانی کی نیت نہیں تھی ۔
اگر جانور خریدنے کے وقت قربانی کی نیت نہیں تھی ، بعد میں قربانی کرنے کی نیت کی تو اس جانور کی قربانی لازم نہیں ہو گی یعنی اسکے بجائے کوئی دوسرا بھی لے سکتے ہیں۔
۔🍀 جانور کو کچھ دن پہلے سے پالنا افضل ہے ۔
قربانی کے جانور کو چند روز پہلے سے پالنا افضل ہے، تاکہ اس سے محبت ہو اور محبوب جانور کو قربان کرنے سے ثواب زیادہ ملے گا۔
۔🍀 جانور گم ھو گیا ۔
اگر صاحب نصاب آدمی نے قربانی کے لئے جانور خریدا، اور جانور گم ہو گیا، اور اس نے قربانی کے لئے دوسرا جانور خریدا، قربانی کرنے سے پہلے گم شدہ جانور بھی مل گیا، اب اس کے پاس کل دو جانور ہو گئے، تو اس صورت میں دونوں جانوروں میں سے کسی ایک جانور کی قربانی کرنا واجب ہے، دونوں کی نہیں، البتہ دونوں جانوروں کی قربانی کرنا مستحب یعنی بہتر اور ثواب ہے۔ لیکن اگر کسی فقیر نے ایسا کیا تو اس پر دونوں جانوروں کی قربانی کرنا واجب ہوگا ۔کیونک فقیر پر قربانی پہلے سے واجب نہیں تھی، قربانی کی نیت سے جانور خریدنے کی وجہ سے قربانی واجب ہو گئی، جب دو جانور اس نیت سے خریدے تو دونوں کی قربانی لازم ہو گی۔
۔🍀 جانور میں تبدیلی ۔
اگر ایک جانور قربانی کی نیت سے خریدا گیا، اور اس کے بدلہ میں دوسرا جانور دینا چاہیں تو دوسرا جانور پہلے جانور سے کم قیمت پر نہ دیں، اور دوسرا جانور پہلے جانور سے کم قیمت پر خریدا تو پہلے اور دوسرے جانور کی قیمت میں جتنا فرق ہے اس کو صدقہ کر دیں۔
۔🍀 جانور نایاب ہو جائیں ۔
اگر کسی ملک یا کسی علاقے میں جنگ ، شورش ، قتل و قتال ، فساد یا طوفان یا سیلاب وغیرہ کی وجہ سے قربانی کے جانور نایاب ہو جائیں ، اور تلاش کے باوجود تین دن میں جانور نہ ملے تو اس صورت میں قربانی کے جانور کی یا بڑے جانور کے ساتویں حصے کی قیمت خیرات کر دے۔
۔🍀 جانوروں کی عمریں۔
بکرا ایک سال کا ہو۔ گائے، بیل، بھینس : دو سال کی۔ اونٹ پانچ سال کا ہونا ضروری ہے اگر مذکورہ جانوروں کی عمریں متعین عمر سے کم ہیں تو ان کی قربانی جائز نہیں ہو گی ۔ اگر بھیڑ اور دنبہ چھ مہینے سے زیادہ اور ایک سال سے کم ہو مگر اتنا موٹا تازہ فربہ ہو کہ سال بھر کا معلوم ہوتا ہو، اور سال بھر کے بھیڑ اور دنبوں میں اگر چھوڑ دیا جائے تو انکے برابر محسوس ہوتا ہو تو اس کی قربانی بھی جائز ہے،اور اگر چھ مہینے سے کم کا ہو تو اس کی قربانی جائز نہیں،خواہ وہ کتنا ہی موٹا تازہ ہو، اور یہ حکم ایک سال سے کم عمر کا صرف بھیڑ اور دنبہ کے بارے میں ہے۔اگر بکرے کی عمر سال پورا ہونے میں ایک آدھ روز کم ہو تو اس کی قربانی درست نہیں ہوگی ۔ جب کسی جانور کی عمر پوری ہونے کا یقین غالب ہو جائے تو اس کی قربانی کرنا درست ہے ورنہ نہیں، اور اگر کوئی جانور دیکھنے میں پوری عمرکا معلوم ہوتا ہے مگر یقین کے ساتھ معلوم ہے کہ اس کی عمر بھی پوری نہیں ہے تو اس کی قربانی درست نہیں ہے( البتہ اس سے دنبہ اور بھیڑ مستثنی ہے)۔ کوئی جانور دیکھنے میں کم عمر کا معلوم ہوتا ہے مگر یقین کے ساتھ معلوم ہو کہ اس کی عمر پوری ہے تو اس کی قربانی درست ہے۔
۔🍀 جائیداد مشترک ہے ۔
مثلا اگر کسی شخص کے چار لڑکے ہیں ، باپ کے ہمراہ کماتے ہیں اور خوب کھاتے ہیں سب مشترک رہتے ہیں، ایک جگہ کھانا پینا اور دیگر اخراجات میں باپ نے بیٹوں کو حسب ضرورت خرچ کرنے کا اختیار دے رکھا ہے تو اس صورت میں اگر سب نصاب کے مالک ہیں تو ہر ایک پر ایک ایک حصہ قربانی کرنا واجب ہے، ایک باپ کی طرف سے اور چار لڑکوں کی طرف سے، اور اگر بیویاں بھی نصاب کے مالک ہیں تو ان پر بھی ایک ایک حصہ قربانی الگ الگ واجب ہو گی۔ مثلاً اگر چار بھائی مشترک ہیں اور سب نصاب کے مالک ہیں، باپ کے مرنے کے بعد ترکے کی تقسیم کر کے الگ نہیں ہوئے مشترک ہی کماتے اور خرچ کرتے ہیں تو ان چاروں بھائیوں پر بھی نصاب کے مالک ہونے کی وجہ سے الگ الگ ایک ایک حصہ قربانی واجب ہوگی سب کی طرف سے ایک حصہ قربانی درست نہیں۔
۔🍀 جلدی بیماری ۔
اگر کسی جانور کو جلدی بیماری ہے ، اور اس کا اثر گوشت تک نہ پہنچا ہو تو اس کی قربانی درست ہے، اور اگر بیماری اور زخم کا اثر گوشت تک پہنچا ہو تو اس کی قربانی صحیح نہیں
۔🍀 جھول ۔
قربانی کے جانور کی جھول صدقہ کر دینا مستحب ہے، اور اگر فروخت کر دی تو اس کی قیمت صدقہ کر دینا واجب و لَازم ہے۔
۔🍀 حاجی ۔
اگر حاجی مسافر ھے(یعنی پندرہ دن سے کم ٹہرنے کی نیّت ھو) تو اس پر بقر عید کی قربانی واجب نہیں اگر مسافر حاجی اپنی خوشی سے قربانی کرے گا تو ثواب ملے گا اگر حاجی مقیم ہے اور اس کے پاس حج کے اخراجات کے علاوہ نصاب کے برابر رقم موجود ہے تو اس پر قربانی کرنا لازم ہو گا
۔🍀 حجامت یعنی بال بنانا۔
قربانی کرنے والے کے لئے مستحب یعنی ثواب کی بات ھے کہ بقر عید کی نماز کے بعد قربانی کر کے بال بنوائے اور زیر ناف بالوں کی صفائی کرے اور ناخن بھی کاٹے ، قربانی نہ کرنے والے کے لئے مستحب نہیں .البتہ قربانی کرنے والوں کی مشابہت اختیار کرنے کے صورت میں ثواب سے محروم نہ ہو گا لیکن یہ بات ذھن نشین رھے کہ یہ فرض یا واجب حکم نہیں البتہ ثواب کا عمل ضرور ھے۔اور حجامت سے مراد داڑھی منڈانا نہیں کیونکہ وہ تو ہر وقت حرام ھے بلکہ مراد بال بنانا ھے۔
۔🍀 حرام چیزیں ۔
حلال جانور جب شرعی طریقے سے ذبح کر لیا جائے تو اس کا سارا گوشت اور تمام اجزا حلال ہو جاتے ہیں، البتہ حلال جانور کے سات اجزا ایسے ہیں کہ ان کو کھانا جائز نہیں
۔۔1 بہنے والا خون، اس سے مراد وہ خون ہے جو ذبح کے وقت جسم سے بہتا ہے۔ جس کو انگريزی میں Flowing Blood کہتے ہیں۔
۔۔2️⃣ نر جانور کی پیشاب گاہ ۔
۔3 نر جانور کی خُصْیَتَین یعنی کپورے۔
۔⭕ *تنبیہ:* آجکل بہت سے لوگ کپورے کھانے کو جائز سمجھتے ہیں، واضح رہے کہ غلطی ہے کیوں کہ کپورے کھانا ناجائز اور گناہ ہے۔
۔4️⃣ مادہ جانور کی پیشاب گاہ یعنی فَرج
۔5️⃣ نر اور مادہ جانور کا مثانہ، یعنی پیشاب کی وہ تھیلی جس میں پیشاب جمع رہتا ہے۔
۔6️⃣ غدود، جسم کے مختلف حصوں پائی جانے والی ایک گلٹی کو کہتے ہیں ۔ یہ درحقیقت گوشت کی سخت گرہ ہوتی ہے جو کہ بیماری کی وجہ سے کھال اور نرم گوشت کے درمیان اُبھر آتی ہے، گویا کہ یہ ہر جانور میں نہیں ہوتی بلکہ جس کو وہ بیماری لاحق ہوتی ہے صرف اسی جانور میں ہوتی ہے۔
۔7️⃣ پِتہ، جگر کے نیچے ایک چھوٹی سی تھیلی جس میں پِت جمع ہوتا رہتا ہے ۔ پشتو میں تریخے کہتے ہیں۔
۔🍀 حاملہ جانور ۔
جس جانور کے پیٹ میں بچہ ہے اس کی قربانی صحیح ہے ، البتہ جان بوجھ کر ولادت کے قریب جانور کو ذبح کرنا مکروہ ہے،ذبح کے بعد جو بچہ پیٹ سے نکلے،اس کو ذبح کر لیا جائے اس کا کھانا حلال ہے ،اور وہ مردہ نکلے تو اس کا کھانا درست نہیں اور اگر ذبح سے پہلے مر گیا تو اس کا گوشت کھانا حرام ہے اور اگر ذبح شدہ ماں کے پیٹ سے نکلے ہوئے بچے کو ذبح نہیں کیا پہاں تک کہ قربانی کے دن گذر گئے تو اس زندہ بچے کو صدقہ کر دیا جائے ، اور اگر قربانی کے دن گذرنے کے بعد ذبح کر کے کھا لیا تو اس کی قیمت صدقہ کرنا لازم ہو گا اور اگر بچہ کو پال لیا اور بڑے ہونے کے بعد قربانی کر دی تو اس کی واجب قربانی ادا نہیں ہو گی ، اور اس کا پورا گوشت صدقہ کرنا واجب ہو گا، اگر اس آدمی پر قربانی واجب ہے تو اس کی جگہ دوسری قربانی کرنی لازم ہو گی
۔🍀 حصے ۔
بڑے جانور یعنی گائے، بیل، بھینس اور اونٹ ،اور اونٹنی میں سات حصے ہیں لہذا کسی بھی بڑے جانور میں سات افراد شریک ہو کر سات حصے قربانی کر سکتے ہیں البتہ یہ شرط ہے کہ کسی شریک کا حصہ ساتویں حصے سے کم نہ ہو ،اور سب کی نیت قربانی یا عقیقہ کرنے کی ہو،گوشت کھانے یا لوگوں کو دکھانے کی نیت نہ ہو،اگر کسی کا حصہ ساتویں حصے سے کم ہے تو قربانی درست نہیں ہو گی اور ساتویں حصے سے کم ہونے کی صورت یہ ہے کہ ایک جانور میں سات سے زائد افراد شریک ہو جائیں مثلا ایک بڑے جانور میں آٹھ افراد شامل ہو جائیں تو ہر شریک کا حصہ ساتویں حصے سے کم ہو گا اور کسی بھی شریک کی قربانی صحیح نہیں ہو گی یا تو کسی شریک نے ایک حصہ سے کم آدھا یا تہائی وغیرہ لیا ہے تو قربانی درست نہیں ہو گی
۔🍀 چربی ۔
قربانی کے جانور کی چربی بیچنا جائز نہیں، اگر قربانی کرنے والے یا اس کے وکیل نے جانور کی چربی فروخت کی ہے تو حاصل شدہ رقم مستحق زکوٰة لوگوں میں صدقہ کر دینا لازم ہو گا ۔ اجتماعی قربانی میں کافی چربی جمع ہو جاتی ہے تو اس کا مصرف یہ ہے کہ قربانی کرنے والوں کی اجازت سے فروخت کر کے قیمت کی رقم مدرسہ کے غریب طلباء کے فنڈ میں جمع کر دی جائے یا کسی مستحق کو بطور ملکیت دے دی جائے۔
۔🍀 چمڑا یعنی چرم قربانی کا حکم ۔
چرم قربانی فروخت کرنے سے پہلے تو خود بھی استعمال کر سکتا ہے اور مالداروں کو بھی ہدیہ کے طور دے سکتا ہے، اور فقراء و مساکین پر صدقہ بھی کر سکتا ہے لیکن اگر روپے پیسوں کے عوض فروخت کر دیا تو خواہ کسی نیت سے فروخت کیا ہو، اس کا صدقہ کر دینا واجب ہو جاتا ہے، اور اس کا مصرف صرف فقراء و مساکین ہیں۔ مالداروں کو دینا یا ملازمین و مدرسین کی تنخواہوں میں دینا جائز نہیں۔
۔🍀 چوری کے جانور ۔
قربانی کے لئے جو جانور خریدا بعد میں معلوم ہوا کہ وہ چوری کا ہے، اس صورت میں اگر وہ جانور چوری کرنے والے سے خریدا ہے تو قربانی جائز نہیں ہو گی، دوسرا جانور خرید کر قربانی کرنا لازم ہوگا۔ اگر جانور ذبح ہونے کے بعد اصل مالک اجازت دیدے تو گوشت کھانا جائز ہوگا ورنہ نہیں۔
۔🍀 چھری ۔
جانور کو ذبح کرنے کے لئے تیز چھری کا استعمال کرنا چاہیے تاکہ جانور کو کم سے کم تکلیف ہو۔اور جانور کے سامنے چھری تیز نہ کریں ۔
۔🍀 چھری چلانے میں شریک ۔
جو لوگ چھری چلانے والے کے ساتھ چھری چلانے میں شریک ہوں ان سب پر *بسم الله الله أكبر* “ کہنا واجب ہے ورنہ جانور حرام ہو جائے گا، اس کا گوشت کھانا جائز نہیں ہوگا البتہ ہاتھ ، پیر، منہ پکڑنے والا شریک نہیں صرف معاون ہے۔
۔🍀 چھوٹے گاؤں ۔
چھوٹے گاؤں میں جہاں جمعہ اور عیدین کی نمازیں واجب نہیں ہوتیں،وہاں کے لوگ ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کی صبح صادق کے بعد قربانی کر سکتے ہیں کیونکہ حدیث شریف سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جہاں عید کی نماز ہوتی ہے وہاں عید کی نماز سے پہلے قربانی کرنا منع ہے، اور جہاں عید کی نماز نہیں ہوتی جیسے چھوٹا گاؤں وغیرہ تو وہاں فجر کے بعد سے قربانی کرنے میں کوئی ممانعت نہیں۔
(📚مستفاد از قربانی کے مسائل کا انسائیکلو پیڈیا:تالیف:-مفتی انعام الحق صاحب قاسمی)
تقدیم:-✍️ محمد حسن فاضل:-وفاق المدارس العربیہ پاکستان
Comments
Post a Comment