نبی پاک ﷺ کا معجزہ
جنگ بدر میں شکست کھا کر مشرکین غصے سے بے قابو تھے اور پورا مکہ نبی ﷺ کے خلاف ہانڈی کی طرح کھول رہا تھا۔ بالآخر مکے کے دو بہادر نوجوانوں نے طے کیا کہ وہ... اپنی دانست میں... اس اختلاف و شقاق کی بنیاد اور اس ذلت و رسوائی کی جڑ (نعوذ باللہ) یعنی نبیﷺ کا خاتمہ کر دیں گے۔
چنانچہ جنگ بدر کے کچھ ہی دنوں بعد کا واقعہ ہے کہ عُمیر بن وہب جمحی جو قریش کے شیطانوں میں سے تھا اور مکے میں نبی ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اذیتیں پہنچایا کرتا تھا اور اب اس کا بیٹا وہب بن عُمیر جنگ بدر میں گرفتار ہو کر مسلمانوں کی قید میں تھا۔ اس لیے عمیر نے ایک دن صفوان بن امیہ کے ساتھ حطیم میں بیٹھ کر گفتگو کرتے ہوئے بدر کے کنویں میں پھینکے جانے والے مقتولوں کا ذکر کیا۔ اس پر صفوان نے کہا: ''اللہ کی قسم! ان کے بعد جینے میں کوئی لطف نہیں۔'' جواب میں عمیر نے کہا: ''اللہ کی قسم! تم سچ کہتے ہو۔ دیکھو اگر میرے اوپر قرض نہ ہوتا، جس کی ادائیگی کے لیے میرے پاس کچھ نہیں، اور اہل و عیال نہ ہوتے، جن کے بارے میں اندیشہ ہے کہ میرے بعد ضائع ہو جائیں گے، تو میں سوار ہو کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاتا اور اسے قتل کر ڈالتا، کیونکہ میرے لیے وہاں جانے کی ایک وجہ موجود ہے۔ میرا بیٹا ان کے ہاں قید ہے۔صفوان نے اس صورت حال کو غنیمت سمجھتے ہوئے کہا: ''اچھا چلو! تمہارا قرض میرے ذِمے ہے میں اسے تمہاری جانب سے ادا کردوں گا، اور تمہارے اہل و عیال میرے اہل و عیال ہیں۔ جب تک وہ موجود رہیں گے میں ان کی دیکھ بھال کرتا رہوں گا۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ میرے پاس کوئی چیز موجود ہو اور ان کو نہ ملے۔
عمیر نے کہا: اچھا تو اب میرے اور اپنے معاملے کو صیغہ ٔ راز میں رکھنا۔ صفوان نے کہا: ٹھیک ہے میں ایسا ہی کروں گا۔
اس کے بعد عمیر نے اپنی تلوار زہر آلود کرائی، پھر روانہ ہوا اور مدینہ پہنچا، لیکن ابھی وہ مسجد کے دروازے پر اپنی اونٹنی بٹھا ہی رہا تھا کہ حضرت عمر بن خطابؓ کی نگاہ اس پر پڑ گئی... وہ مسلمانوں کی ایک جماعت کے درمیان جنگِ بدر میں اللہ کے عطا کردہ اعزاز و اکرام کے متعلق باتیں کر رہے تھے... انہوں نے دیکھتے ہی کہا: ''یہ کتا، اللہ کا دشمن عمیر، کسی بُرے ہی ارادے سے آیا ہے۔'' پھر انہوں نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: اے اللہ کے نبی! یہ اللہ کا دشمن عمیر اپنی تلوار حمائل کیے آیا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: اسے میرے پاس لے آؤ۔ عمیر آیا تو حضرت عمرؓ نے اس کی تلوار کے پر تلے کو اس کے گلے کے پاس سے پکڑ لیا اور انصار کے چند افراد سے کہا کہ تم لوگ رسول اللہﷺ کے پاس جاؤ اور وہیں بیٹھ جاؤ اور آپﷺ کے خلاف اس خبیث کے خطرے سے چوکنا رہو، کیونکہ یہ قابل اطمینان نہیں ہے۔ اس کے بعد وہ عمیر کو اندر لے گئے۔ رسول اللہﷺ نے جب یہ کیفیت دیکھی کہ حضرت عمرؓ اس کی گردن میں اس کی تلوار کا پر تلا لپیٹ کر پکڑ ے ہوئے ہیں تو فرمایا: ''عمر! اسے چھوڑ دو اور عمیر! تم قریب آجاؤ۔'' اس نے قریب آکر کہا: آپ لوگوں کی صبح بخیر ہو۔ نبیﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک ایسے تحیہ سے مشرف کیا ہے جو تمہارے اس تحیہ سے بہتر ہے، یعنی سلام سے، جو اہلِ جنت کا تحیہ ہے۔
اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا: اے عمیر! تم کیوں آئے ہو؟
اس نے کہا: یہ قیدی جو آپ لوگوں کے قبضے میں ہے اسی کے لیے آیا ہوں۔ آپ لوگ اس کے بارے میں احسان فرما دیجئے۔
آپﷺ نے فرمایا: پھر یہ تمہاری گردن میں تلوار کیوں ہے؟
آپﷺ نے فرمایا: پھر یہ تمہاری گردن میں تلوار کیوں ہے؟
اس نے کہا: اللہ ان تلواروں کا بُرا کرے کہ یہ ہمارے کچھ کام نہ آسکیں۔
آپﷺ نے فرمایا: سچ سچ بتاؤ کیوں آئے ہو؟
آپﷺ نے فرمایا: سچ سچ بتاؤ کیوں آئے ہو؟
اس نے کہا: بس صرف اسی قیدی کے لیے آیا ہوں۔
آپﷺ نے فرمایا: ''نہیں بلکہ تم اور صفوان بن امیہ حطیم میں بیٹھے، اور قریش کے جو مقتولین کنویں میں پھینکے گئے ہیں ان کا تذکرہ کیا، پھر تم نے کہا: اگر مجھ پر قرض نہ ہوتا اور میرے اہل و عیال نہ ہوتے تو میں یہاں سے جاتا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دیتا۔ اس پر صفوان نے تمہارے قرض اور اہل و عیال کی ذمے داری لی بشرطیکہ تم مجھے قتل کر دو، لیکن یاد رکھو کہ اللہ میرے اور تمہارے درمیان حائل ہے۔
عمیر نے کہا: ''میں گواہی دیتا ہوں کہ آپﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ اے اللہ کے رسولﷺ! آپ ہمارے پاس آسمان کی جو خبریں لاتے تھے، اور آپﷺ پر جو وحی نازل ہوتی تھی، اسے ہم جھٹلا دیا کرتے تھے لیکن یہ تو ایسا معاملہ ہے جس میں میرے اور صفوان کے سوا کوئی موجود ہی نہ تھا۔ اس لیے واللہ مجھے یقین ہے کہ یہ بات اللہ کے سوا اور کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک نہیں پہنچائی۔ پس اللہ کی حمد ہے جس نے مجھے اسلام کی ہدایت دی اور اس مقام تک ہانک کر پہنچایا۔'' پھر عمیر نے کلمۂ حق کی شہادت دی اور رسول اللہﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مخاطب کر کے فرمایا: ''اپنے بھائی کو دین سمجھاؤ، قرآن پڑھاؤ اور اس کے قیدی کو آزاد کر دو
ادھر صفوان لوگوں سے کہتا پھر رہا تھا کہ یہ خوشخبری سن لو کہ چند ہی دنوں میں ایک ایسا واقعہ پیش آئے گا جو بدر کے مصائب بھلوا دے گا۔ ساتھ ہی وہ آنے جانے والوں سے عمیرؓ کی بابت پوچھتا بھی رہتا تھا۔ بالآخر اسے ایک سوار نے بتایا کہ عمیر مسلمان ہو چکا ہے۔ یہ سن کر صفوان نے قسم کھائی کہ اس سے کبھی بات نہ کرے گا اور نہ کبھی اسے نفع پہنچائے گا
آپﷺ نے فرمایا: ''نہیں بلکہ تم اور صفوان بن امیہ حطیم میں بیٹھے، اور قریش کے جو مقتولین کنویں میں پھینکے گئے ہیں ان کا تذکرہ کیا، پھر تم نے کہا: اگر مجھ پر قرض نہ ہوتا اور میرے اہل و عیال نہ ہوتے تو میں یہاں سے جاتا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دیتا۔ اس پر صفوان نے تمہارے قرض اور اہل و عیال کی ذمے داری لی بشرطیکہ تم مجھے قتل کر دو، لیکن یاد رکھو کہ اللہ میرے اور تمہارے درمیان حائل ہے۔
عمیر نے کہا: ''میں گواہی دیتا ہوں کہ آپﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ اے اللہ کے رسولﷺ! آپ ہمارے پاس آسمان کی جو خبریں لاتے تھے، اور آپﷺ پر جو وحی نازل ہوتی تھی، اسے ہم جھٹلا دیا کرتے تھے لیکن یہ تو ایسا معاملہ ہے جس میں میرے اور صفوان کے سوا کوئی موجود ہی نہ تھا۔ اس لیے واللہ مجھے یقین ہے کہ یہ بات اللہ کے سوا اور کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک نہیں پہنچائی۔ پس اللہ کی حمد ہے جس نے مجھے اسلام کی ہدایت دی اور اس مقام تک ہانک کر پہنچایا۔'' پھر عمیر نے کلمۂ حق کی شہادت دی اور رسول اللہﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مخاطب کر کے فرمایا: ''اپنے بھائی کو دین سمجھاؤ، قرآن پڑھاؤ اور اس کے قیدی کو آزاد کر دو
ادھر صفوان لوگوں سے کہتا پھر رہا تھا کہ یہ خوشخبری سن لو کہ چند ہی دنوں میں ایک ایسا واقعہ پیش آئے گا جو بدر کے مصائب بھلوا دے گا۔ ساتھ ہی وہ آنے جانے والوں سے عمیرؓ کی بابت پوچھتا بھی رہتا تھا۔ بالآخر اسے ایک سوار نے بتایا کہ عمیر مسلمان ہو چکا ہے۔ یہ سن کر صفوان نے قسم کھائی کہ اس سے کبھی بات نہ کرے گا اور نہ کبھی اسے نفع پہنچائے گا
۔ 📚 (ابن ہشام ۱/۶۶۱، ۶۶۲ ، ۶۶۳)
Comments
Post a Comment