178) جنت البقیع کا ایک جنتی جوڑا

جنت البقیع کا ایک جنتی جوڑا

 یہ دنیا ایک حیرت کدہ ہے جس کی دید و شنید سے واقفیت کے لئے انسان مسلسل حالت سفر میں ہے۔مدینۃ المنورة میں ہمارے کرم فرما مولانا حافظ محمد مسعود العثمانی عرصہ 43 سال سے مقیم ہیں۔یہ مدینہ طیبہ کیسے پہنچے تھے؟

 اور اس طویل عرصہ میں انہوں نے کیا کچھ دیکھا اور پایا؟ 

اس تعارف پہ ایک مستقل مضمون پیش قارئین ہو گا۔کیونکہ اس وقت جو حیرت ناک واقعہ ہم متبادل کرنا چاہتے ہیں اگر اس میں مولانا حافظ محمد مسعود صاحب کا تذکرہ دہرآیا تو پھر ڈاڑھی سے مونچھیں بڑھ جائیں گی۔آج کی نشست میں سعودی عرب میں قانون کی بالادستی اور حکومتی پالیسیوں پہ بات چیت جاری تھی کہ باتوں باتوں میں *جنت البقیع* میں مدفون تبلیغی جماعت کے ایک معروف بزرگ اور عالم دین مولانا سعید احمد خان رحمۃ اللہ‌ علیہ کا ذکر خیر چلا تو جناب حافظ صاحب نے یہ قصہ سنا کے دم بخود کر دیا۔

مولانا سعید احمد خان انڈیا کی شہریت ترک کر کے مستقل مدینہ طیبہ کی سکونت اختیار کر چکے تھے اور یہیں پہ اپنی دینی خدمات پیہم جاری رکھے ہوئے تھے۔زائرین کے دلوں میں ان کی قدر و منزلت تھی اور جوار رسول ﷺ میں رہنے والے بھی انہیں عقیدت کی نگاہ سے دیکھتے تھے جس کی وجہ سے وہ حاسدین اور مخالفین کی آنکھوں میں برابر کھٹکنے لگ گئے تھے۔ایک وقت ایسا آیا کہ سلف بیزار طبقہ کے کچھ نفاق پیشہ ننگ لوگوں نے جھوٹی افواہوں سے سعودی انتظامیہ کو گھائل کر لیا اور مولانا سعید احمد خان کو سعودیہ سے ڈی پورٹ کرنے کے احکامات جاری ہو گئے۔اب یہاں کے حکام کو یہ مسئلہ درپیش تھا کہ یہاں سے خروج کر کے انہیں کہاں بھیجا جائے؟

کیونکہ انڈین شہریت تو پہلے ہی ختم ہو چکی تھی۔چنانچہ سعودی گورنمنٹ نے بھارت کے حکام سے رابطہ کر کے انہیں کہا کہ آپ ان کا پاسپورٹ جاری کریں تاکہ ہم ان کو واپس انڈیا بھیج سکیں۔انڈین حکومت کا جواب یہ تھا کہ ہمارے ملکی قانون کے مطابق جو ایک بار یہاں کی نیشنیلٹی ختم کر دے دوبارہ اس کو شہریت نہیں دی جا سکتی۔بھارتی گورنمنٹ کا سادہ و کورا مگر وزن دار جواب سن کے اب مولانا سعید خان صاحب کو پاکستان منتقل کرنے کا فیصلہ ہوا جس مقصد کے لئے صدر ضیاءالحق کو پیغام بھیجا گیا کہ وہ حضرت مولانا کو پاکستانی شہریت دینے کا پاسپورٹ جاری کریں۔پاکستان کے علماء و زعماء نے بھی اس سلسلہ میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا جن میں مولانا مفتی زین العابدین مرحوم نے زیادہ دلچسپی لی تھی۔صدر ضیاءالحق شہید نے متعلقہ محکمہ کو حکم دے کر پاسپورٹ جاری کر دیا اور یوں مولانا سعید احمد خان اب سعودیہ سے ڈی پورٹ ہو کر پاکستان منتقل ہو گئے اور یہاں کے شہری ہونے کی حیثیت سے مقیم ہو گئے۔اس ساری تگ و دو میں انہیں کس قدر دلخراش حالات سے گزرنا پڑا؟

حضرت مرحوم کی نرینہ اولاد نہیں تھی فقط بچیاں اور ایک فرتوت ضعیفہ ان کی اہلیہ تھیں۔سعودی حکام نے گرفتار کرتے وقت ان دونوں میاں بیوی کو بڑھاپے میں جس قدر آزمائشوں سے گزارا انہیں سن کر جگر پاش ہو جاتا ہے غرضیکہ یہ ایک ہائلہ تھا جو ان پہ قیامت بن کے گزرا۔پاکستان منتقل ہونے کے بعد آپ پاکستانی پاسپورٹ پہ مولانا مرحوم اپنی زوجہ کے ہمراہ عمرہ ادا کرنے سعودیہ تشریف لائے اور جب بھیگی آنکھوں کے ساتھ مدینۃ الرسول ﷺ پہنچے جہاں وہ زندگی کا ایک طویل عرصہ گزار کر گئے تھے تو انہیں دنوں ان کی اہلیہ بیمار پڑ گئیں۔علاج معالجہ جاری تھا کہ وہ اسی بیماری میں ہی اللہ تعالیٰ کے حضور پہنچ کر جنت البقیع میں مدفون ہو گئیں۔

حضرت مولانا سعید احمد خان حسب ضابطہ اپنے قیام کی مدت یہاں پوری کر کے پاکستان واپس چلے گئے اور کچھ عرصہ کے بعد دوسرے سفر عمرہ کا پروگرام بنا کر پھر سعودی عرب کے لئے عازم سفر ہوئے۔اللہ تعالیٰ کی شان دیکھئے کہ اب اس سفر میں جب وہ مکۃ المکرمہ کے بعد مدینہ طیبہ پہنچے تو شدید بیمار ہو گئے۔علاج جاری ہوا۔مگر ایک بڑی پریشانی نے اس وقت رفقاء کو پریشان کر دیا جب واپسی کی تاریخ سر پہ آ گئی اور ویزے کی میعاد بھی ختم تھی۔یعنی حضرت مولانا مرحوم سعودی عرب میں شدید بیمار ہیں۔مدت قیام ختم ہے۔ان ناگفتہ بہ احوال میں ایک  اثر و رسوخ رکھنے والے سعودی معتقد نے کہا میں ان کا پاسپورٹ لے کر ریاض جاتا ہوں اور کوشش کر کے اس کی تمدید یعنی میعاد بڑھا کر یا تجدید کروا لاتا ہوں۔اس کارروائی میں  جتنے دن لگیں گے کم از کم اتنی مدت تک دائرہ قانون میں حضرت مولانا کا علاج ہوتا رہے گا۔اس دوران ان کا بنگلہ دیش میں تبلیغی اجتماع سے خطاب بھی یہاں کی حکومت کے لئے ایک بوجھ بنا ہوا تھا۔عزیمت کے ان پر پیچ حالات میں مدینہ طیبہ سے وہ عقیدتمند پاسپورٹ لے کر ریاض کے لئے روانہ ہوا اور ادھر حضرت مولانا سعید احمد خان کی وفات ہو گئ۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔

اب دبیز اخلاص کا بہار بدوش منظر دیکھئے کہ مولانا سعید خان مرحوم کو جب پہلے سعودیہ سے ڈی پورٹ کیا گیا تو بھارتی حکومت نے انہیں اپنا شہری تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔مجبوراً پاکستانی شہریت دلوائی گئی اور اس کے بعد پہلا سفر عمرہ کیا تو زوجہ انتقال کر کے جنت البقیع کی مہمان بن گئیں۔پھر دوسرے سفر میں خود مدینہ شریف میں آ کے علیل ہوئے تو مدینہ طیبہ میں ہی انتقال کر گئے

اب صورتحال یہ تھی کہ ویزے کی میعاد مدت ختم تھی۔انڈیا نے قبول کرنے سے انکار کر رکھا تھا جبکہ سعودیہ پہلے ہی خروج لگا چکا تھا مگر خالق کائنات واللہ غالب علی امرہ کے تحت فیصلہ فرما چکے تھے کہ علماء دیوبند کا یہ تابندہ تارا اپنی بیوی کے ہمراہ جنت البقیع میں ہی غروب ہو کر ہمیشہ کے لئے طلوع ہو گا۔چانچہ دنیاوی سلطنتوں کے سخت سے سخت قوانین دھرے کے دھرے رہ گئے اور حضرت مولانا سعید احمد خان کی روح جنت البقیع میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جنتی روحوں کے ساتھ شاداں و فرحاں اہل دنیا کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ اللہ ہی کا قانون سب پہ غالب اور سب سے بڑا ہے۔جب اللہ کریم کی جانب سے کوئی قانون جاری ہو جائے تو دنیاوی مملکتوں کے دساتیر اور دستور ساز ہکابکا رہ جاتے ہیں۔واللہ غالب علی امر

بقلم:عبدالجبار

Comments