اسلامی واقعات
۔💎 کہتے ہیں محمود غزنوی کا دور تھا ايک شخص کی طبیعت ناساز ہوئی تو طبیب کے پاس گیا اور کہا کہ مجھے دوائی بنا کے دو طبیب نے کہا کہ دوائی کے لیے جو چیزیں درکار ہیں سب ہیں سوائے شہد کے تم اگر شہد کہیں سے لا دو تو میں دوائی تیار کیے دیتا ہوں اتفاق سے موسم شہد کا نہیں تھا ۔۔اس شخص نے حکیم سے ایک ڈبا لیا اور چلا گیا لوگوں کے دروازے کھٹکھٹانے لگا مگر ہر جگہ مایوسی ہوئی جب مسئلہ حل نہ ہوا تو وہ محمود غزنوی کے دربار میں حاضر ہوا وہاں ایاز نے دروازہ کھولا اور دستک دینے والے کی رواداد سنی اس نے وہ چھوٹی سی ڈبیا دی اور کہا کہ مجھے اس میں شہد چاہیئے، ایاز نے کہا آپ تشریف رکھیئے میں بادشاہ سے پوچھ کے بتاتا ہوں ۔۔ایاز وہ ڈبیا لے کر بادشاہ کے سامنے حاضر ہوا اور عرض کی کہ بادشاہ سلامت ایک سائل کو شہد کی ضرورت ہے ۔۔بادشاہ نے وہ ڈبیا لی اور سائیڈ پر رکھ دی ایاز کو کہا کہ تین بڑے ڈبے شہد کے اٹھا کر اس کو دے دیئے جائیں ایاز نے کہا حضور اس کو تو تھوڑی سی چاہیئے آپ تین ڈبے کیوں دے رہے ہیں ۔۔ بادشاہ نے ایاز سے کہا ایاز وہ مزدور آدمی ہے اس نے اپنی حیثیت کے مطابق مانگا ہے ہم بادشاہ ہیں ہم اپنی حیثیت کے مطابق دینگے ۔ مولانا رومی فرماتے ہیں ۔۔آپ اللہ پاک سے اپنی حیثیت کے مطابق مانگیں وہ اپنی شان کے مطابق عطا کریگا کیونکہ اللہ تو بادشاہوں کا بھی بادشاہ
توبہ و استغفار ... بنی اسرائیل کے زمانے میں ایک مرتبہ قحط پڑ گیا مدتوں سے بارش نہیں ہو رہی تھی لوگ حضرتِ موسیٰ علیہ السلام کے پاس گے اور عرض کیا یا کلیم اللہ! رب تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ بارش نازل فرمائے۔چنانچہ حضرتِ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو ہمراہ لیا اور بستی سے باہر دعا کے لیے آ گئے یہ لوگ ستر ہزار یا اس سے کچھ زائد تھے موسیٰ علیہ السلام نے بڑی عاجزی سے دعا کرنا شروع کی"میرے پروردگار! ہمیں بارش سے نواز، ہمارے اوپر رحمتوں کی نوازش کر چھوٹے چھوٹے معصوم بچے، بے زبان جانور اور بیمار سبھی تیری رحمت کے امیدوار ہیں تو ان پر ترس کھاتے ہوئے ہمیں اپنی دامنِ رحمت مین جگہ دے۔"دعائیں ہوتی رہیں مگر بادلوں کا دور دور تک پتا نہ تھا سورج کی تپش اور تیز ہو گئی حضرتِ موسیٰ علیہ السلام کو بڑا تعجب ہوا اللہ تعالیٰ سے دعا کے قبول نہ ہونے کی وجہ پوچھی تو وحی نازل ہوئی"تمہارے درمیان ایک ایسا شخص ہے جو گزشتہ چالیس سالوں سے مسلسل میری نا فرمانی کر رہا ہے اور گناہوں پر مصر ہے اے موسیٰ! آپ لوگوں میں اعلان کر دیں کہ وہ نکل جائے، کیوں کہ اس آدمی کی وجہ سے بارش رُکی ہوئی ہے اور جب تک وہ باہر نہیں نکلتا بارش نہیں ہوگی۔"حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا: باری تعالیٰ! میں کمزور سا بندہ، میری آواز بھی ضعیف ہے، یہ لوگ ستر ہزار یا اس سے بھی زیادہ ہیں میں ان تک اپنی آواز کیسے پہنچاؤں گا؟
جواب ملا: "تیرا کام آواز دینا ہے پہنچانا ہمارا کام ہے۔"حضرتِ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو آواز دی، اور کہا:"اے رب کے گنہگار اور نافرمان بندے! جو گزشتہ چالیس سال سے اپنے رب کو ناراض کر رہا ہے اور اس کو دعوتِ مبارزت دے رہا ہے لوگوں میں سے باہر آجا تیرے ہی کالے کرتوتوں کی پاداش میں ہم بارانِ رحمت سے محروم ہیں۔"اس گنہگار بندے نے اپنے دائیں بائیں دیکھا کوئی بھی اپنی جگہ سے نہ ہلا وہ سمجھ گیا کہ وہی مطلوب ہے سوچا کہ اگر میں تمام لوگوں کے سامنے باہر نکلا تو بے حد شرمندگی ہو گی اور میری جگ ہنسائی ہو گی اور اگر میں باہر نہ نکلا تو محض میری وجہ سے تمام لوگ بارش سے محروم رہیں گے۔اب اس نے اپنا چہرہ اپنی چادر میں چھپا لیا اپنے گزشتہ افعال و اعمال پر شرمندہ ہوا اور یہ دعا کی"اے میرے رب! تو کتنا کریم ہے اور بردبار ہے کہ میں چالیس سال تک تیری نافرمانی کرتا رہا اور تو مجھے مہلت دیتا رہا اور اب تو میں یہاں تیرا فرمانبردار بن کر آیا ہوں میری توبہ قبول فرما اور مجھے معاف فرما کر آج ذلت و رسوائی سے بچالے۔...ابھی اس کی بات پوری نہیں ہوئی تھی کہ آسمان بادلوں سے بھر گیا اور موسلادھار بارش شروع ہو گئی۔ اب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دوبارہ عرض کیا یا الہٰی! آپ نے بارش کیسے برسانا شروع کر دی وہ نافرمان بندہ تو مجمع سے باہر نہیں آیا؟
اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے موسیٰ! جس کی بدولت میں نے بارش روک رکھی تھی اسی کی بدولت اب بارش برسا رہا ہوں اس لیے کہ اس نے توبہ کر لی ہے۔موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا: یا اللہ ! اس آدمی سے مجھے بھی ملا دے تا کہ میں اس کو دیکھ لوں فرمایا: "اے موسیٰ! میں نے اس کو اس وقت رسوا اور خوار نہیں کیا جب وہ میری نافرمانی کرتا رہا اور اب جب کہ وہ میرا مطیع اور فرمانبردار بن چکا ہے تو اسے کیسے شرمندہ اور رسوا کروں؟"
(کتاب: سنہرے اوراق؛ از عبدالمالک مجاہد)
سات مجاہدوں کی ماں ... حضرت عفراء بنت عبداللہ رضی اللہ عنہا کے سات بیٹے تھے ان کی پہلی شادی حارث بن رفاعہ سے ہوئی ان سے تین بیٹے معاذ، معوذ، اور عوف پیدا ہوئے اور دوسری شادی بکیراللیثی سے ہوئی اور ان سے چار بیٹے ایاس، عاقل، خالد اور عامر رضی اللہ عنہما پیدا ہوئے۔ پہلے تینوں بیٹے بنو عفراء ماں کے نام سے پکارے جاتے تھے، آپ کے سات بیٹے تھے، سبھی نبی کریم ﷺ کے ہمراہ جنگ بدر میں شریک ہوئے۔آپ کے ساتوں بیٹوں نے غزوہ بدر میں بہت عمدہ کردار ادا کیا، معرکے کے آغاز میں عفراء کے بیٹے معوذ اور عوف رضی اللہ عنہم آگے بڑھے اور دعوت دی مگر مشرکین نے انکار کر دیا، عوف بن عفراء رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی: یا رسول اللہﷺ! اللہ رب العزت اپنے بندے کے کس کارنامے سے مسکراتے ہیں؟
آپ ﷺ نے فرمایا بغیر زرہ پہنے دشمن کی صفوں میں گھس جانا۔ حضرت عوف رضی اللہ عنہ نے زرہ اتار کر پھینک دی، پھر تلوار پکڑی اور معرکے میں کود گئے، انہیں کوئی پرواہ نہ تھی کہ وہ موت پر غالب آجائیں گے یا موت ان پر غالب آجائے گی، آپ معرکہ آرائی میں داد شجاعت دیتے ہوئے جام شہادت نوش کر کے اللہ سے جا ملے۔ پھر ان کے دونوں حقیقی بھائی معاذ اور معوذ رضی اللہ عنہما نے مل کر ابوجہل بن ہشام کو قتل کیا، صحیح مسلم میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ہمارے لئے کون دیکھے گا کہ ابوجہل نے کیا کیا؟
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ گئے دیکھا کہ عفراء کے دو بیٹوں نے اسے تلوار سے وار کر کے ٹھنڈا کر دیا، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس کی داڑھی پکڑ کر کہا ارے ابوجہل ہے؟
اس نے کہا کیا تم نے کبھی مجھ سے بڑے آدمی کو قتل کیا ہے؟
کاش مجھے کسان کے علاوہ کسی اور نے قتل کیا ہوتا۔
رسول اللہﷺ عفراء کے دونوں بیٹوں کی لاشوں کے پاس کھڑے ہوئے اور فرمایا اللہ تعالی نے عفراء رضی اللہ عنہ کے دونوں بیٹوں پر اپنی رحمت کی برکھا برسائے، ان دونوں نے مل کر امت کے فرعون کو قتل کیا، یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حضرت عفراء رضی اللہ عنہ کے تین بیٹے عاقل، عوف، اور معوذ رضی اللہ عنہما میدان بدر میں شہید ہوئے یہ اعزاز حضرت عفراء رضی اللہ عنہا کو حاصل ہوا کہ سات بیٹے جنگ بدر میں شریک ہوئے اور تین شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے
[انتخاب: صحابیات'طیبات]
Comments
Post a Comment