ملحدین اور سورة الکھف کا معجزہ
انجینئر عبد الدائم کحیل ایک عرب محقق ہیں۔ وہ 1966ء میں شام کے تاریخی شہر حمص میں پیدا ہوئے۔ معجزات قرآنی سے متعلق عرب دنیا کے نامور محقق شمار کئے جاتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں یورپ کے دورے پر تھا کہ وہاں کے ملحدین نے مجھے لاجواب کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ تم مسلمان اب بھی غاروں کے دور میں جی رہے ہو۔ تمہارے قرآن میں اصحاف کہف کا قصہ ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ وہ 309 سال تک غار میں سوئے رہے۔ کیا کوئی عقل مند انسان یہ بات تسلیم کر سکتا ہے؟
قصے کہانیوں کی اس کتاب کو پرانے زمانے کے لوگوں نے لکھا ہے اور تم اسے وحی اور الہامی کتاب کہہ کر سینے سے لگائے ہوئے ہو۔ پروفیسر صاحب کہتے ہیں کہ میری کم علمی کہ میرے پاس ان کے اعتراض کا کوئی جواب نہیں تھا۔ لیکن مجھے یقین تھا کہ جب بھی قرآن پر کوئی اعتراض ہوا ہے، خود کلام الٰہی نے اس کا جواب دیا ہے، بلکہ اس وقت قرآن کریم کا ایک نیا معجزہ بھی ظہور پذیر ہوا ہے۔ حق تعالیٰ نے قرآن مجید میں مختلف واقعات ذکر کئے ہیں، جن میں اصحاب کہف کا واقعہ بہت ہی عجیب و غریب ہے۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ چند نوجوانوں نے وقت کے ظالم و کافر بادشاہ کے جبر و استبداد سے راہ فرار اختیار کر کے غار میں پناہ لے لی اور وہاں پر حق تعالیٰ سے رشد و ہدایت کی دعا مانگی، چنانچہ رب العزت کی رحمت ان کی طرف متوجہ ہوئی، ان کی دعائیں بھی قبول ہوئیں اور ان کو ایسے اعزاز و اکرام سے نوازا گیا کہ وہ بعد میں آنے والے تمام انسانوں کے لیے مثال بن گئے۔ ان کی فضیلت و عزت کے لیے یہی کافی ہے کہ رب تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن کریم میں ایک سورت ان ہی کے نام موسوم فرمائی۔ ملحدین کا کہنا تھا کہ کسی بھی انسان کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ 309 سال کے طویل عرصے تک ایک غار میں سوئے اور پھر جاگ جائے۔ یہ ایک افسانہ تو ہو سکتا ہے، مگر حقیقت سے ان کا دور تک کوئی تعلق ممکن نہیں۔ لیکن میں دعویٰ اور یقین سے کہتا ہوں کہ قرآن کریم میں ذکر کردہ جتنے بھی معجزات ہیں، وہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے اور جتنے تعداد (ہندسے) ذکر کئے ہیں، وہ سارے اعجاز بیانی کے تابع ہیں اور یہ دونوں چیزیں (اعجاز عددی، اعجاز بیانی) حروف اور کلمات سے بنتے ہیں۔
قرآنی معجزات و واقعات پر جتنا غور کریں گے اتنی نئی اور حیران کن باتیں سامنے آجاتی ہیں، بسا اوقات تو معجزے پر وارد ہونے والے اشکالات کے جوابات خود ہی اسی معجزے میں موجود ہوتے ہیں۔ متذکرہ بالا (اصحاب کہف) کے واقعے پر غور کرنے سے ہی ہمارے سامنے ایک نئی حقیقت کھل کر آگئی، جس کو ”معجزہ عددیہ“ کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم نے واضح الفاظ میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ اصحاب کہف اپنے غار میں ”309“ سال تک سوئے۔ قرآن کریم نے اس قصے کا بیان بھی ولبثوا… (وہ غار میں ٹھہرے) سے کیا ہے اور اس کا اختتام بھی اسی لفظ پر ہوا ہے۔ یہاں یہ سوال بہت ہی اہمیت کا حامل ہے کہ اصحاب کہف جو اپنے غار میں 309 سال تک سوئے، کیا تین سو نو کے ہندسے کا قصے میں ذکر کرہ الفاظ کی تعداد سے کوئی خاص ربط ہے؟ چنانچہ میں نے اس قصے پر وارد ہونے والے اشکالات کا جائزہ لے کر ان کو ہر زاویے سے حل کرنے کی کوشش کی اور بہت سے محققین کی تحقیقات بھی چھان لیں کہ انہوں نے 309 ہندسے کو حل کرنے میں کافی عرق ریزی سے کام لیا، لیکن میں نے ان تمام تحقیقات سے قطع نظر ایک نئی تحقیق کی ہے، جو امید ہے ان تمام تحقیقات سے زیادہ واضح ہو، جس میں شک و شبہ کی گنجائش نہ ہو۔
وہ یہ کہ میں نے اس واقعے کے تمام الفاظ کو گننا شروع کیا اور ”واو“ حرف عطف کو بھی مستقل اور علیحدہ کلمے کا درجہ دیا، کیونکہ وہ بھی ایک مستقلاً کلمہ ہے جو دو کلموں کے باہمی رابطے کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ جب میں نے قصے پر طائرانہ نظر ڈالی تو پتہ چلا کہ حق تعالیٰ اس سورت میں اصحاب کہف کے واقعہ کا بیان لفظ ”لبثوا“ سے شروع کیا ہے، جس کا معنی ہے ٹھہرنا۔ پھر غار میں مدت قیام کے بیان میں بھی یہی ”لبثوا“ کا لفظ استعمال کیا ہے اور قصے کا اختتام بھی لفظ ”لبثوا“ سے فرمایا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے جب ہم قصے کے الفاظ گننا شروع کرتے ہیں تو پہلے ”لبثوا“ سے تیسرے ”لبثوا“ تک کلمات کی تعداد بھی 309 بنتی ہے اور 309 سال ہی اصحاب کہف کے غار میں سونے کی مدت ہے اور یہ کوئی اتفاقی بات نہیں ہے، بلکہ یہ اس واقعے کی سچائی کے اہم ترین پہلووٴں میں سے ایک پہلو ہے اور یہ کسی انسان کے بس و قدرت میں نہیں ہے کہ وہ اس طرح کا کوئی واقعہ بیان کرے اور اس کیلئے الفاظ بھی اتنی ہی تعداد بھی ذکر کرے، جو بیان شدہ مدت (309) کے مساوی ہوں۔ اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ”ثلاث ماة“ عربی میں 300 کے لیے استعمال ہوتا ہے، جب کہ لفظ ”ثلاث ماة“ اس واقعہ کے بیان میں بھی 300 ویں نمبر پر ہی ہے۔ پھر 9 کا عدد ”وازدادو تسعاً“ میں بیان ہوا۔ تسع عربی میں 9 کو کہتے ہیں۔ عجیب ترین بات یہ ہے کہ 9 کا یہ عدد اس قصے کے بیان میں بھی 309 ویں نمبر پر ہے۔ کیا کوئی انسان اس طرح کی باریکیوں کا لحاظ کر کے واقعہ بیان کر سکتا ہے؟
پھر اس واقعہ کے بیان میں ایک اور عجیب انداز اپنایا گیا ہے، حق تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ اصحاب کہف غار میں 309 سال گزارے۔ یعنی 309 کے عدد کو ایک ساتھ ذکر نہیں کیا، بلکہ فرمایا کہ ”وہ تین سو سال سوئے اور مزید نو سال تک سوتے رہے۔“ یہ بھی الگ اور مستقل معجزہ ہے۔ اس سے شمسی اور قمری سال کے فرق کی طرف اشارہ ہے کہ قمری سال شمسی سال سے چھوٹا ہوتا ہے۔ ہر سو سال گزرنے کے بعد تین قمری سال شمسی سالوں سے بڑھ جاتے ہیں۔ تین کو تین سے ضرب دینے سے نو سال بن جاتے ہیں۔ یعنی اصحاب کہف نے شمسی حساب سے 300 سال غار میں گزارے اور قمری حساب سے 309 سال۔
اس واقعے کے کلمات اور سالوں کی تعداد کا موافق ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ خدائے بزرگ و برتر کا کلام ہے اور کسی انسان کی قدرت کی بات نہیں ہے کہ وہ اتنے بلیغ و محکم طریقے سے الفاظ کا چناوٴ کر سکے۔ خصوصاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں یہ بات کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتی تھی کہ وہ سادگی کا دور تھا۔ ان دونوں چیزوں کے توافق سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی کہ قرآن کریم میں کوئی تحریف نہیں کی گئی ہے۔ اگر تحریف ہوتی تو کلمات کی تعداد میں فرق آتا اور یہ عظیم عددی معجزہ امت سے مخفی رہتا۔ ہر مسلمان کا اس جیسے معجزے کے دیکھنے سے ایمان میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے اور یہی موٴمن کی شان ہے کہ جب ان کے سامنے کوئی ایسی نئی بات آتی ہے تو ان کے ایمان میں مزید ترقی ہو جاتی ہے۔ (ضیاء چترالی)
Comments
Post a Comment