۔267🌻) صحرا کا شیر عمر مختار رحمت اللہ علیہ

 

عمر مختار لیبیا پر اطالوی قبضے کے خلاف تحریک مزاحمت کے معروف رہنما تھے۔ وہ 1862ء میں جنزور نامی گاؤں لیبیا میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 1912ء میں لیبیا پر اٹلی کے قبضے کے خلاف اگلے 20 سال تک تحریک مزاحمت کی قیادت کی۔

پیدائش 20 اگست 1858..... وفات 16 ستمبر 1931 لیبیا .....  "کنیت " صحرا کا شیر ...   " پیشہ " مدرس قران

اکتوبر 1911ء میں اٹلی کے بحری جہاز لیبیا کے ساحلوں پر پہنچے۔ اطالوی بیڑے کے سربراہ فارافیلی نے مطالبہ کیا کہ لیبیا ہتھیار ڈال دے بصورت دیگر شہر تباہ کر دیا جائے گا۔ حالانکہ لیبیائی باشندوں نے شہر خالی کر دیا لیکن اٹلی نے ہر صورت حملہ کرنا تھا اور انہوں نے تین دن تک طرابلس پر بمباری کی اور اس پر قبضہ کر لیا۔ یہیں سے اطالوی قابضوں اور عمر مختیار کی زیر قیادت لیبیائی فوجوں کے درمیان میں جنگوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔عمر مختار جو معلم قرآن تھے صحرائی علاقوں سے بخوبی واقف تھے اور وہاں لڑنے کی حکمت عملیوں کو بھی خوب سمجھتے تھے۔ انہوں نے علاقائی جغرافیہ کے بارے میں اپنی معلومات کا اطالوی فوجوں کے خلاف بھرپور استعمال کیا۔ وہ اکثر و بیشتر چھوٹی ٹولیوں میں اطالویوں پر حملے کرتے اور پھر صحرائی علاقے میں غائب ہو جاتے۔ ان کی افواج چوکیوں، فوجی قافلوں کو نشانہ بناتی اور رسد اور مواصلات کی گذرگاہوں کو کاٹتی۔

عمر مختار کی زیر قیادت مزاحمتی تحریک کو کمزور کرنے کے لیے اطالویوں نے نئی چال چلی اور مردوں، عورتوں اور بچوں کو عقوبت گاہوں میں بند کر دیا۔ ان عقوبت گاہوں کا مقصد یہ تھا کہ مزید لیبیائی باشندوں کو عمر مختار کی مزاحمتی تحریک میں شامل ہونے سے روکا جائے۔ ان کیمپوں میں ایک لاکھ 25 ہزار باشندے قید تھے جن میں سے دو تہائی شہید ہو گئے۔اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو قید کرنے کے باوجود عمر مختار کی تحریک نہیں رکی بلکہ انہوں نے اپنے ملک اور عوام کی آزادی کے لیے مسلح جدوجہد جاری رکھی۔عمر مختار کی 20 سالہ جدوجہد اس وقت خاتمے کو پہنچی جب وہ ایک جنگ میں زخمی ہو کر اطالویوں کے ہاتھوں گرفتار ہو گئے۔

اس وقت ان کی عمر 70 سال سے زیادہ تھی اور اس کے باوجود انہیں بھاری زنجیروں سے باندھا گیا اور پیروں میں بیڑیاں ڈال دی گئیں۔ ان پر تشدد کرنے والے فوجیوں نے بعد ازاں بتایا کہ جب انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا یا تفتیش کی جاتی تو وہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر قرآن مجید کی آیتیں تلاوت کرتے۔ان پر اٹلی کی قائم کردہ ایک فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا اور سزائے موت سنا دی گئی۔ان سے جب آخری خواہش پوچھی گئی تو انہوں نے "انا للہ و انا الیہ راجعون" پڑھا۔

انہیں 16 ستمبر 1931ء کو سرعام پھانسی دے دی گئی کیونکہ اطالوی عدالت کا حکم تھا کہ عمر مختار کو پیروکاروں کے سامنے سزائے موت دی جائے۔آج کل ان کی شکل لیبیا کے 10 دینار کے نوٹ پر چھپی ہوئی ہے ایک ایسے لیبیائی مجاہد آزادی کا قصہ جو بیس سال تک اٹلی کی فوجوں کے ساتھ پرسر پیکار رہا جو معلم قرآن بھی تھا جس کو ستر سال کی عمر میں ایک معرکے میں زخمی حالت میں گرفتار کیا گیا

افسر پوچھتا ہے :کیا تم نے اٹلی کے خلاف جنگ میں حصہ لیا .... عمر مختار :ہاں 

کیا تم نے لوگوں کو اس جنگ پر ابھارا ....ہاں

کیا تمہیں احساس ہے کہ تمہیں اپنے کیے کی کیا سزا ملے گی .....ہاں

کیا یہ تمہارا اعتراف ہے جو تم کہ رہے ہو ..... ہاں

تم کتنے سالوں سے اٹلی کی فوجوں سے جنگ کر رہے ہو ..... بیس سالوں سے

کیا تمہیں اپنے کیے پر پچھتاوا ہے ..... نہیں

کیا تمہیں احساس ہے کہ تمہیں پھانسی دی جائے گی ..ہاں

جج اُسے مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے مجھے تمہارے اس طرح کے انجام پر دکھ اور افسوس ہے عمر مختار جواب دیتا ہے نہیں ! بلکہ یہ میرے زندگی کا حسین اختتام ہےجج اُسے لالچ دینے کی کوشش کرتا ہے وہ اُسے مکمل معافی کی پیشکش کرتا ہے اس شرط پر کہ وہ مجاھدین کو لکھ دے کہ وہ اٹلی کے خلاف جہاد روک دیں . عمر مختار اُسے دیکھتا ہے اور اپنا مشہور زمانہ قول کہتا ہے 

جو انگلی ہر نماز میں اللہ کی وحدانیت کی اور محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کی گواہی دیتی ہو اُس انگلی سے باطل کلمہ نہیں لکھا جا سکتا

امریکی ریاست فلوریڈا میں ایک مسجد کا نام "مسجد عمر المختار” رکھا گیا ہے. جبکہ کویت، غزہ، قاہرہ، دوحا، تنزانیہ، ریاض اور اربد میں عمر مختار نامی شاہراہیں موجود ہیں. جبکہ 17 فروری 2011ء میں شروع ہونے والی "لیبیا سول جنگ” کے دوران مختلف، پوسٹروں اور نوجوانوں کی شرٹوں پہ عمر مختار کی تصاویر ہوتی تھی. 2009ء میں لیبیا کے سابق صدر معمر قذافی مرحوم روم کے سرکاری دورے پہ گئے تو انکی قمیض پہ عمر مختار کی تصویر پرنٹ تھی. لیبیا کے دس ریال کے نوٹ پہ بھی عمر مختار کی تصویر ہوتی ہے

  عمر مختار اطالوی فوج کے ہاتھوں 1971 میں گرفتار ہوا اور اُسی سال 16 ستمبر کو پھانسی چڑھ گیا. پھانسی سے ایک روز قبل عمر مختار نے کہا تھا: "میں نے کبھی اٹلی کی حکومت کی اطاعت کی ہے نہ کروں گا. میں نے اطالوی فوجوں کے خلاف تمام جنگوں میں حصہ لیا ہے، جب کسی معرکے میں میری شمولیت نہیں تھی تب بھی وہ معرکہ میری کمان و احکامات کے تحت ہی ہوتا تھا. مجھے فخر ہے. میں ایک شاندار مثال پیش کرنے جا رہا ہوں، فتح یا شہادت اس طرح عمر مختار کی تیس سالہ جنگِ مزاحمت کا خاتمہ ہو گیا

اکتوبر 1911ء میں اٹلی کی رائل میرین نے لیبیا پہ حملہ کر کے تین دن طرابلس اور بن غازی پہ مسلسل بمباری کی اور قبضہ کر لیا. ترکی کی فوجیں مقابلہ کرنے کی بجائے پسپا ہو گئیں. لیبیا کا اکثریتی اور اہم ترین علاقہ اٹلی کے قبضے میں چلا گیا.  لیکن جلد ہی اطالوی فوج کو لیبیا میں شدید گوریلا جنگ کا سامنا کرنا پڑا. لیبیا میں اطالوی فوج کو سب سے زیادہ نقصان اور سب سے زیادہ شدید مزاحمت کا سامنا عمر مختار کے گروہ کی طرف سے کرنا پڑا

طبروک کے چھوٹے سے گاؤں میں ایک انتہائی غریب گھرانے میں 1858ء میں پیدا ہونے والا عمر مختار اپنی اوائل عمری میں ہی باپ کے سائے سے محروم ہو گیا. اُس کی تمام تعلیم علاقائی مساجد اور مدرسوں میں مکمل ہوئی. جب اطالوی فوجوں نے لیبیا پہ قبضہ کیا تو 52 سالہ عمر مختار ایک مسجد میں قرآن کا معلم تھا. لیکن اسے افریقی ملک چاڈ میں فرانسیسی فوج کے خلاف گوریلا جنگ کا تجربہ حاصل تھا. وہ صحرائی جنگ کی بہترین حکمت عملیوں کا ماہر تھا. وہ اطالوی فوجوں کے مقابلے میں مقامی جغرافیہ سے بھی واقف تھا لہذا اُس نے استعماریوں کو انتہائی زک پہنچائی. وہ انتہائی مہارت کے ساتھ بار بار اطالوی فوجوں پہ حملہ کرتا، انکو شدید نقصان پہنچاتا اور پھر صحرا میں روپوش ہو جاتا تھا. اُس نے گھات لگا کر دشمن کی سپلائی لائن کو برباد کر دیا، اطالوی بہت حیران و پریشان ہونے کے ساتھ ساتھ بہت خوفزدہ بھی ہوئے

 جبلِ اخدار کے پہاڑی علاقہ 1924 میں اطالوی گورنر ارنسٹو بمبیلیلی نے ایک انسداد گوریلا فورس بنائی جس نے اپریل 1925ء میں مزاحمتی فورسز کو شدید نقصان پہنچایا جس کے بعد عمر مختار اپنی حکمت عملی میں تبدیلی پہ مجبور ہو گیا. اسی اثناء میں وہ مصر سے امداد حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہو گیا. 1925ء سے لیکر 1928ء تک عمر مختار کی جدوجہد کا عروج تھا، لیبیا میں جہاں جہاں بھی اطالوی فوج موجود تھی، وہاں وہاں عمر مختار نے حملے کیے. حتی کہ اطالوی جنرل ٹیروزی یہ کہنے پہ مجبور ہو گیا کہ "مختار غیر معمولی استحکام اور طاقت کا حامل صحرائی شیر ہے”

فروری 1929ء میں اطالوی گورنر اور عمر مختار کے مابین جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا مگر نومبر 1929ء میں وہ معاہدہ ختم کرتے ہوئے دوبارہ جنگ شروع کر دی. پھر اطالوی حکومت نے لیبیا میں اپنی فوج کو بے پناہ جنگی وسائل سے لیس کرتے ہوئے جبل اخدر کا مکمل گھیراؤ کا پلان دیا. پورے علاقے کو گھیرے میں لے لیا گیا، حتی کہ غیر مسلح عام شہریوں میں سے بھی کوئی آجا نہیں سکتا تھا. مزاحمتی مجاہدین ہر قسم مدد اور کمک سے عاری ہو گئے. مقامی غداروں اور مخبروں کی مدد سے گیارہ ستمبر 1939ء میں صحرا کا شیر حالتِ جنگ میں گرفتار ہو گیا. تہتر سالہ عمر مختار کو زنجیروں میں جکڑ دیا گیا اور پھر پورے شہر پہ ہوائی جہازوں سے بمباری کی گئی

اطالوی جنرل روڈالفو گریسیانی نے اٹلی حکومت کو بھیجی گئی رپورٹ میں لکھا کہ درمیانی قد کا سفید باریش بوڑھا عمر مختار انتہائی چست، چالاک اور ذہین ہونے کے ساتھ باکردار اور بہادر بھی ہے

Comments