256) مقبول شہادت

مقبول شہادت

اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمتوں میں سے ’’ شہادت ‘‘ وہ نعمت ہے جو بے شمار نعمتوں کا مجموعہ ہے، اگر کسی مسلمان کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ صرف ایک ’’دعاء‘‘ مانگ لے، ایک سے زیادہ نہیں، اور اس کی وہ ایک دعاء قبول ہوگی تو اس مسلمان کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے ’’مقبول شہادت‘‘  مانگ لے، کیونکہ مقبول شہادت مل گئی تو سب کچھ مل گیا، ایمان بھی، اچھا خاتمہ بھی،  مغفرت بھی، معافی بھی، سکرات الموت سے حفاظت اور عذاب قبر سے نجات بھی،  اور جنت فردوس اعلیٰ بھی، اور بھی بہت سی چیزیں، مثلاً موت کے فوراً بعد ایک لذیذ اور طاقتور زندگی، اللہ تعالیٰ کا رزق، خوشیاں اور راحت ہی راحت، اور سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کا قرب، اسی لئے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار شہید ہونے کی تمنا فرمائی، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام عالی شان، شہداء کے مقام سے بہت اونچا ہے، شہادت کے اسی مقام کی وجہ سے کئی اولیاء کرام کے بارے میں آتا ہے کہ وہ اکٹھے ہو کر اللہ تعالیٰ سے شہادت کی دعاء مانگتے تھے، خاص اسی دعاء کے لئے جمع ہوتے اور صرف یہی ایک دعاء مانگتے، شہید زندہ ہوتا ہے، اسے شہادت کے بعد مردہ کہنا بھی حرام اور مردہ سمجھنا بھی حرام،  شہید کی حیات قرآن مجید کی نص قطعی سے بالکل واضح طور پر ثابت ہے، مگر یہ ’’حیات‘‘ ایسی بلند اور اونچی ہے کہ ہم لوگ اسے اس دنیا میں سمجھ نہیں سکتے، مگر جنت میں جانے کے بعد جب ہمارا شعور طاقتور ہو جائے گا تو وہاں جا کر شہداء کرام کی زندگی اور حیات ہمیں سمجھ میں آجائے گی، ہم سب مسلمانوں کو چاہیے کہ شہادت کے قرآنی فضائل پڑھیں، احادیث مبارکہ میں شہادت کے فضائل کو سمجھیں، بزدلی اور نفاق سے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگیں، اور خاص اوقات، خاص لمحات اور قبولیت کی امید کے ہر موقع پر اللہ تعالیٰ سے مقبول شہادت کی نعمت مانگا کریں اور اس بات سے نہ ڈرا کریں کہ شہید ہو کر ہم مر جائیں گے، نہیں ہرگز نہیں، شہید ہو کر تو مسلمان زندہ ہو جاتا ہے، اس پر موت ضرور آتی ہے مگر وہ موت آکر چلی جاتی ہے، اور فوراً زندگی شروع ہو جاتی ہے، مسلمان اگر شہادت سے محبت کریں گے تو انہیں ’’مسئلہ قتال ‘‘ آسانی سے سمجھ میں آجائے گا، اور قتال کے بارے میں کوئی اشکال ان کے دل میں پیدا نہیں ہوگا، قتال کے خلاف اکثر اعتراضات اور اشکالات کے پیچھے موت کا ڈر چھپا ہوتا ہے، اگر مسلمان قرآن مجید کو مانیں تو جان لیں گے کہ شہادت موت نہیں ہے،  زندگی ہے،  قرآن پاک پکار پکار کر فرما رہا ہے ’’بل احیاء ‘‘ ’’بل احیاء ‘‘ وہ زندہ ہیں، وہ زندہ ہیں،  ان کی زندگی اس دنیا کے جسم اور قبر سے لے کر برزخ تک اور جنت کے دروازے تک پھیلی ہوتی ہے، مسلمان جب قتال پر آجائیں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں عزت، عظمت، رعب، خود داری اور مغفرت بھی عطاء فرمائے گا اور انہیں کفر اور کفار کی غلامی سے بھی نجات ملے گی، شہداء کرام کی زندگی یقینی ہے، مگر یہ بھی ساتھ فرما دیا گیا کہ ’’ولکن لا تشعرون‘‘ کہ تم اس زندگی کو سمجھ نہیں سکتے، محسوس نہیں کر سکتے، وہ بڑی اعلیٰ اور ارفع زندگی ہے، وہ زندہ ہیں مگر اب یہ زندگی ان سے کوئی چھین نہیں سکتا، وہ اب قتل نہیں ہو سکتے، قید نہیں ہو سکتے، بیمار نہیں ہوتے، پریشان اور غمزدہ نہیں ہوتے، پرانی زندگی میں جو کمزوریاں تھیں وہ شہادت کی زندگی میں ختم ہو گئیں، شہید کی اس عجیب اور اعلیٰ یقینی زندگی کو ہم سمجھ نہیں سکتے مگر اللہ تعالیٰ کچھ علامات اور اشارات ایسے عطاء فرماتے رہتے ہیں جو ایمان والوں کے ایمان کو مزید مضبوط کرتے ہیں 

، ایسے واقعات کو ہم شہداء کرام کی کرامت اور ان کی نئی زندگی کے شواہد کہتے ہیں، ملاحظہ فرمائیے، استاذ محترم محقق العصر حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود صاحب مدظلہ العالی کی کتاب ’’مقام حیات‘‘ سے حضرات شہداء کرام کی حیات مبارکہ کے چند شواہد۔

   ۔۔[۱] حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں اُحد کے دن میرے والد نے مجھے کہا: شاید آج میں سب سے پہلے شہید ہو جاؤں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی مجھے تم سے پیارا نہیں، میرا قرض ادا کر دینا اور اپنی بہنوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں واقعی سب سے پہلے میرے والد مارے گئے، اس دن دو دو شہید ایک قبر میں دفن کئے گئے تھے، میں نے نہ چاہا کہ میرے والد کے ساتھ کوئی اور دفن ہو، میں نے چھ ماہ بعد اپنے والد کی قبر کو کھولا تاکہ آپ کو علیحدہ دفن کروں 

آپ کو وہاں سے نکالا، آپ اسی حال میں تھے جیسا کہ میں نے آپ کو دفن کیا تھا صرف ایک کان میں تھوڑا سا تغیر تھا

۔۔[۲] حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ (852ہجری ) لکھتے ہیں: اس امت کے پہلے دور میں جو شہداء اُحد وغیرہ اسی صورت میں پائے گئے، لمبے زمانے گزرنے کے بعد بھی ان میں کوئی تغیر واقع نہیں ہوا، ان میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بھی ہیں۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے جب اپنے دور  میں ایک نہر کھودی تو حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو اسی طرح پایا گیا، آپ میں کوئی تغیر واقع نہ ہوا تھا، کام کرنے والے کا بیلچہ آپ کی انگلی پر لگ گیا تو اس سے خون جاری ہو گیا۔

۔۔[۳] حضرت عمرو بن الجموح رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن عمرو انصاری رضی اللہ عنہ ایک دفعہ پھر بوجہ سیلاب دوسری جگہ منتقل کئے گئے « وہ دونوں اس طرح پائے گئے گویا کل فوت ہوئے ہیں ان میں سے ایک احد کے دن زخمی ہوا تھا اور اس نے اپنا ہاتھ زخم پر رکھا ہوا تھا اور اسی حالت میں وہ دفن کر دیا گیا میں نے آپ کا ہاتھ زخم سے ہٹایا اور پھر چھوڑ دیا وہ وہیں جا لگا جہاں کہ پہلے تھا۔ 

۔۔[۴] حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں نجران کے ایک آدمی نے ایک جگہ جہاں قبریں تھیں، زمین کھودی تو حضرت عبداللہ بن تامر رضی اللہ عنہ کا جسد ملا، ہاتھ سر پر رکھا ہوا تھا،جب میں آپ کا ہاتھ زخم سے ہٹاتا تو اس زخم سے خون پھوٹ پڑتا اور جب میں آپ کے ہاتھ کو چھوڑ دیتا تو وہ وہیں جالگتا اور اس کے خون کو روک دیتا۔

۔۔[۵] ولید بن عبدالملک کے زمانہ میں اُمّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ کی دیوار گر گئی جب اسے بنانے لگے تو ایک قبر سے قدم ظاہر ہوا، لوگ گھبرا گئے کہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا قدم نہ ہو حضرت عروہ رضی اللہ عنہ نے وہ قدم پہچان لیا اور بتایا کہ یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قدم ہے۔ 

۔۔[۶] حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور حکومت میں جب نہر کظامہ کھودی گئی اور درمیان میں شہداء کی قبریں کھلیں تو دیکھا کہ ان کے جسد ترو تازہ ہیں اور بال بڑھے ہوئے ہیں، اتفاقاً ایک شہید کے پاؤں پر کدال لگی تو خون جاری ہو گیا جب وہ جگہ کھودی گئی تو سب طرف مشک کی خوشبو پھیل گئی۔

۔۔[۷] قصبہ ”سلمان پاک “ جو بغداد سے 40 میل کے فاصلے پر ہے، زمانہ قدیم میں جس کا نام ’’مدائن‘‘ تھا، جہاں اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین گورنری کے عہدے پر فائز رہے، یہاں ایک شاندار مقبرے میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ مشہور صحابی مدفون ہیں اور آپ کے گنبد مزار سے متصل نبی آخر الزمان کے دو صحابہ حضرت حذیفہ الیمانی رضی اللہ عنہ اور حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کے مزارات ہیں، ان دونوں اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مزارات پہلے سلمان پاک سے دو فرلانگ کے فاصلے پر ایک غیر آباد جگہ پر تھے، ہوا یہ کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے خواب میں ملک فیصل اول شاہ عراق سے فرمایا کہ ہم دونوں کو موجودہ مزاروں سے منتقل کر کے دریائے دجلہ سے تھوڑے سے فاصلے پر دفن کر دیا جائے، اس لیے کہ میرے مزار میں پانی اور جابر رضی اللہ عنہ کے مزار میں نمی شروع ہو گئی ہے، شاہ یہ خواب مسلسل دو راتوں میں دیکھتا رہا اور شاید بے پرواہی یا انہماک امور سلطنت کے باعث بھول گیا، تیسری شب حضرت موصوف نے عراق کے مفتی اعظم کو خواب میں یہی ہدایت فرما کر کہا

ہم دو راتوں سے بادشاہ کو کہہ رہے ہیں لیکن اس نے اب تک انتظام نہیں کیا، اب یہ تمہارا کام ہے کہ اس کو متوجہ کرکے اس کا فوری بندوبست کراؤ، چنانچہ اگلے روز صبح ہی صبح مفتی اعظم نوری السعید”پاشا وزیر اعظم“  کو ساتھ لے کر بادشاہ سے ملے اور اس سے اپنا خواب بیان کیا، شاہ فیصل نے کہا: میں بھی دو راتوں سے خواب میں یہی دیکھ رہا ہوں، آخر کافی غور و مشورے کے بعد شاہ نے مفتی اعظم سے کہا کہ آپ مزارات کھولنے کا فتویٰ دیدیں تو میں اس کی تعمیل کے لئے تیار ہوں، جب مفتی اعظم نے مزارات کے کھولنے اور لاشوں کو منتقل کرنے کا فتویٰ دیدیا تو یہ فتویٰ اور شاہی فرمان دونوں اس اعلان کے ساتھ اخبارات میں شائع کر دیئے گئے کہ بروز عید قربان بعد نماز ظہر ان دونوں اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مزارات کھولے جائیں گے، اخبارات میں یہ حال شائع ہونا تھا کہ تمام دنیائے اسلام میں یہ خبر بجلی کی طرح پھیل گئی، رائٹر اور دوسری خبر رساں ایجنسیوں نے اس خبر کو تمام دنیا میں پہنچا دیا، حسن اتفاق دیکھئے کہ ان دنوں موسم حج ہونے کے باعث تمام دنیا سے مسلمان حج کے لئے حرمین شریفین (مکے مدینے) میں جمع ہو رہے تھے، جب انہیں یہ حال معلوم ہوا تو انہوں نے شاہ عراق سے یہ خواہش ظاہر کی کہ مزارات حج کے چند روز بعد کھولے جائیں تاکہ وہ بھی شرکت کر سکیں، اسی طرح حجاز، مصر، شام، لبنان، فلسطین، ترکی، ایران، بلغاریہ، افریقہ، روس، ہندوستان وغیرہ وغیرہ ملکوں سے شاہ عراق کے نام بے شمار تار پہنچے کہ ہم بھی جنازوں میں شریک ہونا چاہتے ہیں،  مہربانی فرما کر مقررہ تاریخ چند روز بڑھا دی جائے، چنانچہ دنیا کے مسلمانوں کی خواہش پر یہ دوسرا فرمان جاری کر دیا گیا کہ اب یہ رسم حج کے دس دن بعد ادا کی جائے گی اور اس کے ساتھ ہی خواب میں اہل مزارات کی عجلت کی تاکید کے پیش نظر احتیاطی تدابیر بھی کی گئیں کہ پانی مزارات تک پہنچنے نہ پائے، آخر کار وہ دن بھی آگیا جس کی آرزو میں لوگ جوق در جوق ”سلمان پاک“ میں جمع ہو گئے اور شنبہ کے دن بارہ بجے کے بعد لاکھوں انسانوں کی موجودگی میں مزارات کھولے گئے تو معلوم ہوا کہ حضرت حذیفہ الیمانی رضی اللہ عنہ کے مزار میں کچھ پانی آچکا تھا اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے مزار میں نمی پیدا ہو چکی تھی حالانکہ دریائے دجلہ وہاں سے کم از کم دو فرلانگ دور تھا، تمام ممالک کے سفیر، عراقی حکومت کے تمام ارکان اور شاہ فیصل کی موجودگی میں پہلے حضرت حذیفہ الیمانی رضی اللہ عنہ کی نعش مبارک کو کرین کے ذریعے زمین سے اس طرح اوپر اٹھایا گیا کہ ان کی نعش کرین پر نصب کئے ہوئے سٹریچر پر خود بخود آگئی، اب کرین سے سٹریچر کو علیحدہ کرکے شاہ فیصل ‘مفتی اعظم عراق‘ وزیر مختار جمہوریہ ترکی اور پرنس فاروق ولی عہد مصر نے کندھا دیا اور بڑے احترام سے ایک شیشہ کے تابوت میں رکھ دیا، پھر اسی طرح حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی نعش مبارک کو مزار سے باہر نکالا گیا، نعش ہائے مبارک کا کفن، حتیٰ کہ ریش ہائے مبارک کے بال تک بالکل صحیح حالت میں تھے، نعشوں کو دیکھ کر یہ اندازہ ہرگز نہیں ہوتا تھا کہ یہ تیرہ سو سال قبل کی نعشیں ہیں، بلکہ گمان یہ ہوتا تھا کہ شاید انہیں رحلت فرمائے دو تین گھنٹے سے زائد وقت نہیں گزرا، سب سے عجیب بات یہ تھی کہ ان دونوں کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں اور ان میں اتنی پر اسرار چمک تھی کہ بہتوں نے چاہا کہ ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھیں لیکن ان کی نظریں اس چمک کے سامنے ٹھہرتی ہی نہ تھیں اور ٹھہر بھی کیسے سکتی تھیں؟ بڑے بڑے ڈاکٹر یہ دیکھ کر دنگ رہ گئے، ایک جرمن ”ماہر چشم“ جو بین الاقوامی شہرت کا مالک تھا، اس تمام کاروائی میں بڑی دلچسپی لے رہا تھا، اس نے یہ منظر دیکھا تو بس دیکھتا ہی رہ گیا، وہ اس سے کچھ اتنا بے اختیار ہوا کہ ابھی نعش ہائے مبارک تابوتوں میں ہی رکھی گئیں تھیں کہ آگے بڑھ کر مفتی اعظم عراق کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا: آپ کے مذہب اسلام کی حقانیت اور ان صحابہ رضوان اللہ علیہم کی بزرگی کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے؟ لائیے مفتی اعظم! ہاتھ بڑھائیے! میں مسلمان ہوتا ہوں ” لاالہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ “ اس واقعہ کے فوراً بعد بغداد میں کھلبلی مچ گئی اور بے شمار یہودی اور نصرانی خاندان بلا کسی جبر کے اپنے جہل اور گمراہی پر افسردہ، اپنے گناہوں پر نادم، ترساں و لرزاں جوق در جوق مسجدوں میں قبول اسلام کے لئے آتے تھے اور مطمئن،  شاداں و فرحاں واپس جاتے تھے، اس موقع پر مشرف بہ اسلام ہونے والوں کی تعداد اتنی تھی کہ اس کا اندازہ لگانا آسان نہیں، یہ ’’چشم دید واقعہ‘‘کسی کتاب میں لکھا ہوا اگلے زمانے کا تاریخی واقعہ نہیں ہے، یہ ہمارے ہی زمانے کا آنکھوں دیکھا حال ہے، اس کو زیادہ عرصہ بھی نہیں گزرا ...1991 میں یہ واقعہ پیش ایا ۔۔۔

 مقام حیات اور جہان دیدہ از مفتی تقی عثمانی صاحب

Comments