قوم ارم......۔ان لوگوں کا تعلق قومِ عاد سے تھا اور وہ اِرم نام کی بستی کے رہنے والے تھے وہ بستی بڑے بڑے ستونوں والی تھی۔ عماد جمع ہے عمد کی اور عمد کے معنی ستون کے ہیں۔ عاد کے نام سے دو قومیں گزری ہیں۔ ایک کو عادِ قدیمہ یا عادِ اِرم کہتے ہیں۔ یہ عاد بن عوض بن اِرم بن سام بن نوحؑ کی اولاد میں سے تھے۔ ان کے دادا کی طرف منسوب کر کے ان کو عادِ اِرم بھی کہا جاتا ہے۔ اپنے شہر کا نام بھی انھوں نے اپنے دادا کے نام پر رکھا تھا۔ ان کا وطن عدن سے متصل تھا۔
ان کی طرف حضرت ہُودؑ علیہ السلام مبعوث کیے گئے تھے لیکن قومِ عاد کی بد اعمالیوں کے سبب جب انھیں تباہ کر دیا گیا تو حضرت ہُودؑ علیہ السلام حضر موت کی طرف مراجعت کر گئے۔ ان کی رہائش احقاف کے علاقے میں تھے۔ حضرت ہوُدؑ کی وفات یہیں پر ہوئی۔ احقاف میں بسنے والی اس قوم نے بہت ترقی کی۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو غیر معمولی قد و قامت اور قوت عطا فرمائی تھی۔ ان میں ہر شخص کا قد کم از کم بارہ گز کا ہوتا تھا۔ طاقت کا یہ حال تھا کہ بڑے سے بڑا پتھر جس کو کئی آدمی مِل کر بھی نہ اٹھا سکیں، ان کا ایک آدمی ایک ہاتھ سے اٹھا کر پھینک دیتا تھا۔ یہ لوگ طاقت و قوت کے بل بوتے پر پورے یمن پر قابض ہو گئے۔ دو بادشاہ خاص طور پر ان میں بہت جاہ جلال والے ہوئے۔ وہ دونوں بھائی تھے۔ ایک کا نام شدید تھا جو بڑا تھا۔ دوسرے کا نام شدّاد تھا جو اس کے بعد تخت نشین ہوا ۔ یہ دونوں وسیع علاقے پر قابض ہو گئے اور بے شمار لشکر و خزانے اُنھوں نے جمع کر لیے تھے۔
عادِ اِرم کا قصہ .....شدّاد نے اپنے بھائی شدید کے بعد سلطنت کی رونق و کمال کو عروج تک پہنچایا۔ دنیا کے کئی بادشاہ اسکے باج گزار تھے۔ اُس دور میں کسی بادشاہ میں اتنی جرأت و طاقت نہیں تھی کہ اس کا مقابلہ کر سکے۔ اس تسلط اور غلبہ نے اس کو اتنا مغرور و متکبر کر دیا کہ اس نے خدائی کا دعویٰ کر دیا۔ اُس وقت کے علما و مصلحین نے جو سابقہ انبیا کے علوم کے وارث تھے، اسے سمجھایا اور اللہ کے عذاب سے ڈرایا تو وہ کہنے لگا، جو حکومت و دولت اور عزت اس کو اب حاصل ہے، اس سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے سے کیا حاصل ہوگا ؟
جو کوئی کسی کی خدمت و اطاعت کرتا ہے، یا تو عزت و منصب کی ترقی کے لیے کرتا ہے یا دولت کے لیے کرتا ہے، مجھے تو یہ سب کچھ حاصل ہے، مجھے کیا ضرورت کہ میں کسی کی عبادت کروں؟
حضرت ہُودؑ نے بھی اُسے سمجھانے کی کوشش کی لیکن بے سُود۔
سمجھانے والوں نے یہ بھی کہا کہ یہ حکومت و دولت ایک فانی چیز ہے جبکہ اللہ کی اطاعت میں اُخروی نجات اور جنت کا حصول ہے جو دنیا کی ہر دولت سے بہتر اور زیادہ قیمتی ہے۔ اس نے پوچھا، یہ جنت کیسی ہوتی ہے؟
اس کی تعریف اور خوبی بتاؤ۔ نصیحت کرنے والوں نے جنت کی وہ صفات جو انبیائے کرام کی تعلیمات کے ذریعے ان کو معلوم ہوئی تھیں، اس کے سامنے بیان کیں تو اس نے کہا مجھے اس جنت کی ضرورت نہیں ایسی جنت تو میں خود دنیا ہی میں بنا سکتا ہوں
شدّاد کی جنت ...... چناچہ اس نے اپنے افسروں میں سے ایک سو معتبر افراد کو بلایا۔ ہر ایک کو ایک ہزار آدمیوں پر مقرر کیا اور تعمیر کے سلسلے میں ان سب کو اپنا نکتہ نظر اور پسند سمجھا دی۔ اس کے بعد پوری دنیا میں اس کام کے ماہرین کو عدن بھجوانے کا حکم دیا۔ علاوہ ازیں اپنی قلمرو میں سب حکمرانوں کو یہ حکم دیا کہ سونے چاندی کی کانوں سے اینٹیں بنوا کر بھیجیں۔ اور کوہِ عدن کے متصل ایک مربع شہر (جنت) جو دس کوس چوڑا اور دس کوس لمبا ہو، بنانے کا حکم دیا۔ اس کی بنیادیں اتنی گہری کھدوائیں کہ پانی کے قریب پہنچا دیں۔ پھر ان بنیادوں کو سنگِ سلیمانی سے بھروا دیا۔ جب بنیادیں بھر کر زمین کے برابر ہوگئیں تو ان پر سونے چاندی کی اینٹوں کی دیواریں چنی گئیں۔ ان دیواروں کی بلندی اس زمانے کے گز کے حساب سے سو گز مقرر کی گئی۔ جب سورج نکلتا تو اس کی چمک سے دیواروں پر نگاہ نہیں ٹھہرتی تھی۔ یوں شہر کی چار دیواری بنائی گئی۔ اس کے بعد چار دیواری کے اندر ایک ہزار محل تعمیر کیے گئے، ہر محل ایک ہزار ستونوں والا تھا اور ہر ستون جواہرات سے جڑاؤ کیا ہوا تھا۔
پھر شہر کے درمیان میں ایک نہر بنائی گئی اور ہر محل میں اس نہر سے چھوٹی چھوٹی نہریں لے جائی گئیں۔ ہر محل میں حوض اور فوارے بنائے گئے۔ ان نہروں کی دیواریں اور فرش یاقوت، زمرد، مرجان اور نیلم سےسجادی گئیں۔ نہروں کے کناروں پر ایسے مصنوعی درخت بنائے گئے جن کی جڑیں سونے کی، شاخیں اور پتے زمرد کے تھے۔ ان کے پھل موتی و یاقوت اور دوسرے جواہرات کے بنوا کر ان پر ٹانک دیے گئے۔
شہر کی دکانوں اور دیواروں کو مشک و زعفران اور عنبر و گلاب سے صیقل کیا گیا۔ یاقوت و جواہرات کے خوب صورت پرندے چاندی کی اینٹوں پر بنوائے گئے جن پر پہرے دار اپنی اپنی باری پر آ کر پہرے کے لیے بیٹھتے تھے۔ جب تعمیر مکمل ہو گئی تو حکم دیا کہ سارے شہر میں ریشم و زردوزی کے قالین بچھا دیے جائیں۔ پھر نہروں میں سے کسی کے اندر میٹھا پانی، کسی میں شراب، کسی میں دودھ اور کسی میں شہد و شربت جاری کر دیا گیا۔
بازاروں اور دکانوں کو کمخواب و زربفت کے پردوں سے آراستہ کر دیا گیا اور ہر پیشہ و ہنر والے کو حکم ہوا کہ اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہو جائیں اور یہ کہ اس شہر کے تمام باسیوں کے لیے ہر وقت ہر نوع و قسم کے پھل میوے پہنچا کریں۔
بارہ سال کی مدت میں یہ شہر جب اس سجاوٹ کے ساتھ تیار ہوگیا تو تمام امرا و ارکان دولت کو حکم دیا کہ سب اسی میں آباد ہو جائیں۔ پھر شدّاد خود، اپنے لاؤ لشکر کے ہمراہ انتہائی تکبر اور غرور کے ساتھ اس شہر کی طرف روانہ ہوا۔ بعض علما و مصلحین کو بھی ساتھ لیا اور راستے بھر اُن سے تمسخر کرتے ہوئے ان سے کہتا رہا ”ایسی جنت کے لیے تم مجھے کسی اور کے آگے جھکنے اور ذلیل ہونے کا کہہ رہے تھے! میری قدرت و دولت تم نے دیکھ لی؟“
جب قریب پہنچا تو تمام شہر والے اس کے استقبال کے لیے شہر کے دروازے کے باہر آگئے اور اس پر زر و جواہر نچھاور کرنے لگے۔ اسی ناز و ادا سے چلتے ہوئے جب شہر کے دروازے پر پہنچا تو روایت ہے کہ ابھی اس نے گھوڑے کی رکاب سے ایک پاؤں نکال کر دروازے کی چوکھٹ پر رکھا ہی تھا کہ اس نے وہاں پہلے سے ایک اجنبی شخص کو کھڑے ہوئے دیکھا۔ اس نے پوچھا ”تُو کون ہے؟
اس نے کہا ”میں ملک الموت ہوں۔“پوچھا ”کیوں آئے ہو؟“
اس نے کہا”تیری جان لینے۔“ شداد نے کہا مجھ کو اتنی مہلت دے کہ میں اپنی بنائی ہوئی جنت کو دیکھ لوں۔ جواب ملا ”مجھ کو حکم نہیں۔“ کہا، چلو اس قدر ہی فرصت دے دو کہ گھوڑے پر سے اتر آؤں۔ جواب ملا ”اس کی بھی اجازت نہیں۔“ چنانچہ ابھی شداد کا ایک پاؤں رکاب میں اور دوسرا چوکھٹ پر ہی تھا کہ ملک الموت نے اس کی روح قبض کرلی۔
پھر حضرت جبرائیل ؑنے بڑے زور سے ایک ہولناک چیخ ماری کہ اسی وقت تمام شہر مع اپنی عالی شان سجاوٹوں کے ایسا زمین میں سمایا کہ اس کا نام و نشان تک باقی نہ رہا۔ قرآن پاک میں اس کا ذکر اس طرح ہوا ہے
ترجمہ:”وہ جو اِرم تھے بڑے ستونوں والے اور شہروں سے اس کے مانند کوئی شہر شان دار نہ تھا۔“(پارہ 30۔ سورۃ فجر۔ آیت 7،8)
شداد اور اس کی جنت کا انجام ۔۔۔۔معتبر تفاسیر میں لکھا ہے کہ بادشاہ اور اس کے لشکر کے ہلاک ہو جانے کے بعد وہ شہر بھی لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل کر دیا گیا۔ مگر کبھی کبھی رات کے وقت عدن اور اس کے اِردگرد کے لوگوں کو اس کی کچھ روشنی اور جھلک نظر آجاتی ہے۔یہ روشنی اُس شہر کی دیواروں کی ہوتی تھی ۔ حضرت عبداللہؓ بن قلابہ جو صحابی ہیں، اتفاق سے اُدھر کو چلے گئے۔ اچانک آپ کا ایک اونٹ بھاگ گیا، آپ اس کو تلاش کرتے کرتے اُس شہر کے پاس پہنچ گئے۔ جب اس کے مناروں اور دیواروں پر نظر پڑی تو آپ بے ہوش ہو کر گِر پڑے۔ جب ہوش آیا تو سوچنے لگے کہ اس شہر کی صورتِ حال تو ویسی ہی نظر آتی ہے جیسی نبی کریمؐ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے شداد کی جنت کے بارے میں بیان فرمائی تھی۔ یہ میں خواب دیکھ رہا ہوں یا اس کا کسی حقیقت سے بھی کوئی تعلق ہے؟
اسی کیفیت میں اٹھ کر وہ شہر کے اندر گئے۔ اس کے اندر نہریں اور درخت بھی جنت کی طرح کے تھے۔ لیکن وہاں کوئی انسان نہیں تھا۔ آپؓ نے وہاں پڑے ہوئے کچھ جواہرات اٹھائے اور واپس چل دیے۔ وہاں سے وہ سیدھے اُس وقت کے دارالخلافہ دمشق میں پہنچے۔ حضرت امیر معاویہؓ وہاں موجود تھے۔ وہاں جو کچھ ماجرا ان کے ساتھ پیش آیا تھا، انھوں نے بیان کیا۔ حضرت امیر معاویہؓ نے ان سے پوچھا، وہ شہر آپ نے حالتِ بیداری میں دیکھا تھا کہ خواب میں؟
حضرت عبداللہؓ نے بتایا کہ بالکل بیداری میں دیکھا تھا۔ پھر اس کی ساری نشانیاں بتائیں کہ وہ عدن کے پہاڑ کی فلاں جانب اتنے فاصلے پر ہے۔ ایک طرف فلاں درخت اور دوسری طرف ایسا کنواں ہے اور یہ جواہرات و یاقوت نشانی کے طور پر میں وہاں سے اٹھا لایا ہوں۔
حضرت امیر معاویہؓ یہ ماجرا سننے کے بعد نہایت حیران ہوئے۔ پھر اہلِ علم حضرات سے اس بارے میں معلومات حاصل کی گئیں کہ کیا واقعی دنیا میں ایسا شہر بھی کبھی بسایا گیا تھا جس کی اینٹیں سونے چاندی کی ہوں؟
علما نے بتایا کہ ہاں قرآن میں بھی اس کا ذکر آیا ہے۔ اس آیت میں ”اِرم ذات العماد۔“ یہی شہر ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اس کو لوگوں کی نگاہوں سے چھپا دیا ہے۔ علما نے بتایا کہ آنحضرتؐ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ میری امت میں سے ایک آدمی اس میں جائے گا اور وہ چھوٹے قد، سرخ رنگ کا ہوگا، اس کے ابرو اور گردن پر دو تل ہوں گے، وہ اپنے اونٹ کو ڈھونڈتا ہوا اس شہر میں پہنچے گا اور وہاں کے عجائبات دیکھے گا۔ جب حضرت امیر معاویہؓ نے یہ ساری نشانیاں حضرت عبداللہؓ بن قلابہ میں دیکھیں تو فرمایا، واللہ یہ وہی شخص ہے
(بحوالہ:تذکرۃ الانبیا- تحقیق شاہ عبدالعزیز دہلوی)
Comments
Post a Comment