206) ہماری روشن تاریخ

ہماری روشن تاریخ

تمام وزیر میدان میں تیر اندازی کی مشق کر رہے تھے۔ سلطان غیاث الدین بھی ان کے ساتھ شریک تھا۔ اچانک سلطان کا نشانہ خطا ہو گیا اور وہ تیر ایک بیوہ عورت کے بچے کو جا لگا۔ اس سے وہ مر گیا۔ سلطان کو پتہ نہ چل سکا۔ وہ عورت قاضی کی عدالت میں پہنچ گئی۔ قاضی سراج الدین نے عورت کی طرف متوجہ ہوئے اور پوچھا: '' کیا بات ہے ؟

 تم کیوں رو رہی ہو؟ 

عورت نے روتے ہوئے سلطان کے خلاف شکایت لکھوائی ''سلطان کے تیر سے میرا بچہ ہلاک ہو گیا ہے قاضی سراج الدین نے عورت کی بات پوری توجہ سے سنی اور پھر اسی وقت سلطان کے نام خط لکھا: آپ کے خلاف شکایت آئی ہے۔ فوراً عدالت میں حاضر ہو جائیں اور اپنے خلاف آنے والی شکایت کا جواب دیں''پھر یہ حکم عدالت کے ایک پیادے کو دے کر ہدایت کی: ''یہ حکم نامہ فوراً سلطان کے پاس لے جاؤ "پیادے کو یہ حکم دے کر قاضی سراج الدین نے ایک کَوڑا نکالا اور اپنی گدی کے نیچے چھپا دیا۔

پیادہ جب سلطان کے محل میں پہنچا تو اس دیکھا کہ سلطان کو درباریوں نے گھیر رکھا ہے اور قاضی کا حکم نامی سلطان تک پہنچانا مشکل ہے۔ یہ دیکھ کر پیادہ نے اونچی آواز میں اذان دینا شروع کر دی ۔ بے وقت اذان سن کر سلطان نے حکم دیا: '' اذان دینے والے کو میرے سامنے پیش کرو '' پیادے کو سلطان کے سامنے پیش کیا گیا ۔ سلطان نے گرج کر پوچھا: '' بے وقت اذان کیوں دے رہے تھے '''' قاضی سراج الدین نے آپ کو عدالت میں طلب کیا ہے آپ فوراً میرے ساتھ عدالت چلیں '' پیادے نے قاضی صاحب کا حکم نامہ سلطان کو دیتے ہوئے کہا۔سلطان فوراً اُٹھا۔ ایک چھوٹی سی تلوار اپنی آستین میں چھپالی ۔ پھر پیادے کے ساتھ عدالت پہنچا۔ قاضی صاحب نے بیٹھے بیٹھے مقتول کی ماں اور سلطان کے بیان باری باری سنے پھر فیصلہ سنایا

 غلطی سے ہو جانے والے قتل کی وجہ سے سلطان پر کفارہ اور اس کی برادری پر خون کی دیت آئے گی۔ ہاں اگر مقتول کی ماں مال کی کچھ مقدار پر راضی ہو جائے تو اس مال کے بدلے سلطان کو چھوڑا جا سکتا ہے۔

سلطان نے لڑکے کی ماں کو بہت سے مال پر راضی کر لیا پھر قاضی سے کہا '' میں نے لڑکے کی ماں کو مال پر راضی کر لیا ہے '' قاضی نے عورت سے پوچھا : '' کیا آپ راضی ہو گئیں جی ہاں میں راضی ہو گئی ہوں '' عورت نے قاضی کو جواب دیا ۔ اب قاضی اپنی جگہ سے سلطان کی تعظیم کے لئے اٹھے اور انھیں اپنی جگہ پر بٹھایا۔ سلطان نے بغل سے تلوار نکال کر قاضی سراج الدین کو دیکھاتے ہوئے کہا

 اگر آپ میری ذرا سی بھی رعایت کرتے تو میں اس تلوار سے آپ کی گردن اڑا دیتا قاضی نے بھی اپنی گدی کے نیچے سے کَوڑا نکال کر سلطان غیاث الدین کو دکھاتے ہوئے کہا اور اگر آپ شریعت کا حکم ماننے سے ذرا بھی ہچکچاتے تو میں اس کَوڑے سے آپ کی خبر لیتا۔ بےشک یہ ہم دونوں کا امتحان تھا

ابو عمرو بن نجید چوتھی صدی ہجری کے مشہور بزرگوں میں سے ہیں ... ایک مرتبہ سرحدات کی حفاظت کے لیے رقم ختم ہو گئی۔ امیر شہر نے اہل خیر حضرات کو ترغیب دی اور سرِ مجلس رو پڑے۔  ابو عمرو بن نجید نے دو لاکھ درہم کی خطیر رقم رات کے وقت آکر انہیں دیدی۔ امیر نے اگلے دن لوگوں کو جمع کیا،تعاون کرنے والے ابو عمرو کی تعریف کی اور کہا کہ انہوں نے مسلمانوں کی بروقت بڑی امداد کی۔ لوگوں کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔ جب ابو عمرو اس مجلس میں کھڑے ہو کر فرمانے لگے" وہ رقم میری والدہ کی تھی، میں نے دیتے وقت ان سے پوچھا نہیں تھا،جب کہ وہ راضی نہیں ہیں۔لہٰذا یہ رقم واپس کر دی جائے" امیر نے واپس کر دی۔ اگلی رات ابو عمرو دوبارہ وہ رقم لے کر حاضر ہوئے اور کہا کہ" یہ رقم لے لیں لیکن اس شرط پر کہ آپ کے علاوہ کسی کو معلوم نہ ہو کہ یہ کس نے دی ہے" امیر کی آنکھیں اشکبار ہوئیں کہا۔"ابو عمرو! تم اخلاص کی کس بلندی پر ہو"۔

طبقات کبری للسبکی، ج:3۔ص 223۔)  تحریر: محمد سرور بٹ۔

Comments